محمد جمیل اختر
محفلین
افسانہ: کس جرم کی پائی ہے سزا
مصنف: جمیل اختر
۔
ہاں تنہائی زہر ہے ایک قاتل ہے وہ قاتل کہ جسے مقتول کی کوئی پرواہ نہیں لیکن لوگ کب سمجھتے ہیں پہلے میں بھی نہیں سمجھتا تھا ۔ کہ پہلے اسکی میری ایسی ملاقات نہیں رہی تھی ، وہ جوانی کہ جسے میں اب ایک خواب سمجھتا ہوں اور وہ دن کہ جو اتنی تیزی سے گزرے کہ میں کچھ یاد بھی کروں تو بھی ذرا بھی حقیقت کا گماں نہیں ہوتا۔ شاید تم بور ہوگئے ہو اتنی لمبی تمہید سن کر لیکن میں مجبور ہوں ۔۔۔۔ تمھیں اب اس بیرک میں میرے ساتھ رہنا ہے تو میرا خیال ہے کہ ہمیں ایک دوسرے کے بارے معلوم ہونا چاہیئے۔۔۔سو پہلے میری کہانی سنیں۔۔۔
اس جیل میں آئے مجھے ساتواں سال ہے سات سال اس کمرے میں رہتے رہتے میں نے ہر بات جو کہ سوچی جا سکتی تھی سوچ ڈالی ہے اور اب تو یوں ہے کہ میرے پاس سوچنے کو بھی کچھ نہیں ہے ایک قیدی آخر کتنا سوچے ، ہاں ہاں آپ ضرور کہیں گے کہ سوچ کی بھلا حد تھوڑی ہے جتنا مرضی سوچو ، جو مرضی سوچو۔۔ لیکن یقین جانیں انسان پر یہ وقت بھی آتا ہے کہ وہ کچھ نہیں سوچ سکتا یا یوں کہیں کہ وہ سوچنا ہی نہیں چاہتا،
اوہ میں شاید پھر کہانی سے ہٹ رہا ہوں۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔
میں مجرم نہیں ہوں۔۔۔
ہاں یقین تو نہیں آئے گا کہ مجرم نہیں ہوں تو یہاں جیل میں کیا کر رہا ہوں۔۔۔۔لیکن میرا یقین کرو میں نے کوئی جرم نہیں کیا،،، میں اپنی صفائی میں اتنا ہی کہہ سکتا ہوں آپ کو یقین ائے سو آئے نہ آئے تو میں کچھ کر نہیں سکتا کہ ضروری نہیں کہ دنیا آپ کی ہر بات سے اتفاق کرے۔۔۔۔اور سچ تو یہ ہے کہ اس دنیا میں کوئی ایک بھی ایسی بات نہیں کہ جس ہر سارے انسان متفق ہوں۔۔۔ قابل افسوس ۔۔۔۔
لیکن یہ سچ ہے۔۔۔
۔
سات سال میں اب یہ حالت ہے کہ میں سوچتا ہوں تو گماں ہوتا ہے کہ میں شاید کبھی بھی آزاد نہیں رہا،،،،،
اگر ان سات سالوں کو بھی میری زندگی کے بقیہ تیس سالوں میں جمع کیا جائے جو کہ میں نہیں کرتا، تو میری عمر اب سینتیس برس ہے جب کہ میں تیس سال میں مر گیا تھا وہ اس لیئے کہ مجھے اب زندگی اس طرح نہیں محسوس ہوتی جو تیس سال میں محسوس کرتا رہا ہوں،
ٓآزادی کے دنوں میں میں آزاد طبع ، آزاد خیال واقع ہوا تھا ادھر یار دوست بیٹھے ہیں تو آدھی رات تک گپیں ہانک رہے ہیں اور پھر یہ ایک تاریک کمرہ کہ جس کے درودیوار اب مجھے زبانی یاد ہو چکے ہیں ایک ایک اینٹ گن چکا ہوں میں ، پہلے پہل ایک مدت تک میں اپنے ماضی کو یاد کر کے آہیں بھرتا رہا پھر آہستہ آہستہ آہیں ختم ہوئیں تو کمرے کے درودیوار پر غور کیا کہ اب یہاں اک عمر گزارنی تھی چھت کی اینٹیں تک گن چکا ہوں۔۔۔۔ ایک عرصے تک میری یہ مصروفیت رہی ہے کہ میں اس کمرے کی اینٹیں گنتا رہا ہوں۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہاں تو میں کہہ یہ رہا تھا کہ میں مجرم نہیں ہوں۔۔۔
میں نے گریجویشن کر رکھا ہے بی اے کرنے کے سال بعد ہی مجھے محکمہ ڈاک میں ملازمت مل گئی۔۔
نوکری ملے دوسرا سال تھا جب میری شادی ہوگئی۔۔۔۔
آپ سوچ رہے ہونگے کہ یہاں تک تو سب ٹھیک ہے تو پھر جیل میں کیونکر آیا ہوں۔۔۔
ہاں سنیے تو۔۔۔۔۔۔
شادی کے دو سال بعد میرے ہاں بیٹا پیدا ہوا گویا کہ رونق ہی ہوگئی ۔۔۔۔۔۔اور پھر جب اس نے چلنا سیکھا
میں کتنا خوش ہوتا تھا اسے چلتا دیکھ کر۔۔۔۔۔میں وہ خوشی شاید لفظوں میں بیاں نہ کرسکوں۔۔کبھی کبھی لفظ ہار جاتے ہیں۔۔اور جذبات کی جیت ہوتی ہے۔۔۔
۔۔۔۔
کہانی اس دن سے شروع ہوتی ہے جب ایک دن میرے بچہ ، میرا پیارا بچہ سیڑھیاں چڑھ رہا تھا اور اسکا پاوں پھسلا اور وہ زمین پر آن گرا۔۔۔۔۔
ہم اسے ہسپتال لے کر گئے۔۔۔ ڈاکٹروں نے بہت سارے ٹیسٹ کیئے اور ٹانگ کا آپریشن کرنے کو کہا۔۔اور جب تک روپے کا انتظام نہیں ہوجاتا ڈاکٹر اپنا فرض ادا کرنے سے قاصر تھے۔۔۔جی آپ کہیں گے کہ ڈاکٹر انسانیت کے خادم ہیں ،،،، جی بہتر لیکن بڑے مجبور خادم ہیں۔۔۔۔
۔
مجھے ایک خطیر رقم درکار تھی۔۔۔۔۔ پہلی بار ہاں پہلی بار مجھے لگا کہ میں ایک غریب آدمی ہوں جسکے پاس کوئی جائیداد نہیں اور جو کرائے کے مکان میں رہتا ہے اس سے پہلے کبھی ایسا خیال نہیں آیا یا شاید میں نے اس طرح غور نہیں کیا یا یوں کہیں کہ کبھی ایسے حالات سر پر نہیں پڑے تھے۔۔۔۔۔
میں بھاگم بھاگ تمام قریبی رشتے داروں اور دوستوں کے پاس گیا تو اس دن مجھے معلوم پڑا کہ یہ ایسے بھی قریبی نہیں ہیں جیسا کہ میں سمجھتا رہا ہوں۔۔۔۔ سارے بہت مجبور لوگ تھے۔۔۔۔۔
بیوی کے زیور بھی اتنے ہی تھے کہ ان سے آدھی رقم کا بندوبست ہوا۔ اپنی سائیکل تک بیچ دی۔۔۔
گھر میں اس سے بڑھ کر کوئی قیمتی سامان نہیں تھا کہ جس سے بقیہ رقم کا انتظام ہو سکے ۔۔۔بنک سے قرضہ لینے کیلئے بھی کسی چیز کو بطور ضمانت رکھوانا پڑرہا تھا اور ادھر تو یہ حال کہ سائیکل تک نہیں کہ جو رکھوئی جاسکے۔۔۔۔۔
۔۔۔
پھر میں نے فیصلہ کر لیا اور اس فیصلے پر عمل درامد کیلئے آدھی رات کو چودھریوں کی حویلی کی دیوار پھلانگ کر اندر کود پڑا۔۔۔۔گناہ اور وہ بھی پہلا گناہ۔۔۔۔ اف توبہ دل یوں دھڑک رہا تھا کہ گویا ابھی کے ابھی پسلیاں توڑکر باہر آجائے گا۔۔ٹانگیں کانپ رہی تھیں۔۔۔۔ضمیر الگ جھگڑا کر رہا تھا کہ دیکھ خادم حسین، دیکھ خادم حسین۔۔ تو ایک شریف آدمی ہے اور شریف آدمی یوں آدھی رات کو لوگوں کی دیواریں نہیں پھلانگا کرتے۔۔۔۔۔۔ میں نے سوچا یہیں سے واپس چلا جائون کہ میں ایک شریف آدمی ہوں۔۔۔ دیوار پر واپسی کیلیے ہاتھ بلند کیئے تھے کہ میرا بیٹا میرا ہاتھ تھام کر ابا ابا چلانے لگا ۔۔۔۔میرے بچے نے میرے پاوں پکڑ لیئے ، ہاتھ جہاں تھے وہیں رک گئے۔۔۔۔۔۔
نہیں نہیں میں واپس نہیں جاسکتا تھا مجھے صبح تک ہر حال میں پیسے چاہیے تھے اور اتنے سے پیسوں سے چودھریوں کی دولت میں کونسا کمی آجانی تھی۔۔۔
سارا گائوں کہتا تھا کہ چودھریوں نے بڑا حرام کما رکھا ہے ۔۔سو میں حویلی میں جانے کیلئے مڑا۔۔۔۔
اندھیرا کافی زیادہ تھا میں سرچ لائٹ ساتھ لایا تھا جو اب تک بجھا رکھی تھی۔۔ سوچا اس سے کام لیا جائے ۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں نے ڈرتے ڈرتے سرچ لائٹ جلائی۔۔۔۔
سامنے چودھریوں کاکتا کھڑا تھا۔۔۔ جو لائٹ کے چلتے ہی بھونکنے لگا ۔میں ڈر کے پھر واپسی کیلئے بھاگا کہ کتے نے میری ٹانگ پر اس زور سے کاٹا کہ اتنا عرصہ ہوگیا مجھے ابھی بھی کبھی کبھی اس درد کی کرواہٹ محسوس ہوتی ہے۔۔۔۔ مین گیٹ پر بیٹھا چوکیدار چلایا ۔۔کون ہے۔۔۔۔
اور عین اس لمحے اوپر حویلی کی دوسری منزل سے فائر کی آواز آئی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔میں جو درد کے مارے مرا جارہا تھا ابھی اٹھا ہی تھا کہ چوکیدار نے آن دبوچا۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نہیں کہانی یہاں ختم نہیں ہوتی۔۔۔۔۔
پولیس کو بلوا لیا گیا تھا کہ کسی نے چودھری صاحب کو گولی مار دی تھی اور وہ ملزم واپسی پر بھاگتے ہوئے کتے کے حملے سے زخمی ہوگیا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس بات کے کئی گواہ بھی پیدا ہوگئے تھے جنہوں نے مجھے گولی چلاتے ہوئے خود اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا۔۔۔۔
مجھے اس دن معلوم ہوا کہ قانون کیوں اندھا ہے۔۔۔۔۔
تمام گواہوں کی موجودگی میں عدالت نے مجھے دس سال کی قید بامشقت سنائی۔۔۔۔
ْ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نہیں کہانی یہاں بھی ختم نہیں ہوتی۔۔۔۔۔
چودھری صاحب کو فورا ہسپتال پہنچایا گیا اور ڈاکٹروں کی انتھک محنت رنگ لائی اور ان کی جان بچی۔۔۔۔۔۔۔۔
عین اسی ہسپتال میں جہاں چودھری صاحب کا آپریشن ہوا اسی ہسپتال میں عین اسی دن ایک بچہ ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مر گیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ختم شد
مصنف: جمیل اختر
۔
ہاں تنہائی زہر ہے ایک قاتل ہے وہ قاتل کہ جسے مقتول کی کوئی پرواہ نہیں لیکن لوگ کب سمجھتے ہیں پہلے میں بھی نہیں سمجھتا تھا ۔ کہ پہلے اسکی میری ایسی ملاقات نہیں رہی تھی ، وہ جوانی کہ جسے میں اب ایک خواب سمجھتا ہوں اور وہ دن کہ جو اتنی تیزی سے گزرے کہ میں کچھ یاد بھی کروں تو بھی ذرا بھی حقیقت کا گماں نہیں ہوتا۔ شاید تم بور ہوگئے ہو اتنی لمبی تمہید سن کر لیکن میں مجبور ہوں ۔۔۔۔ تمھیں اب اس بیرک میں میرے ساتھ رہنا ہے تو میرا خیال ہے کہ ہمیں ایک دوسرے کے بارے معلوم ہونا چاہیئے۔۔۔سو پہلے میری کہانی سنیں۔۔۔
اس جیل میں آئے مجھے ساتواں سال ہے سات سال اس کمرے میں رہتے رہتے میں نے ہر بات جو کہ سوچی جا سکتی تھی سوچ ڈالی ہے اور اب تو یوں ہے کہ میرے پاس سوچنے کو بھی کچھ نہیں ہے ایک قیدی آخر کتنا سوچے ، ہاں ہاں آپ ضرور کہیں گے کہ سوچ کی بھلا حد تھوڑی ہے جتنا مرضی سوچو ، جو مرضی سوچو۔۔ لیکن یقین جانیں انسان پر یہ وقت بھی آتا ہے کہ وہ کچھ نہیں سوچ سکتا یا یوں کہیں کہ وہ سوچنا ہی نہیں چاہتا،
اوہ میں شاید پھر کہانی سے ہٹ رہا ہوں۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔
میں مجرم نہیں ہوں۔۔۔
ہاں یقین تو نہیں آئے گا کہ مجرم نہیں ہوں تو یہاں جیل میں کیا کر رہا ہوں۔۔۔۔لیکن میرا یقین کرو میں نے کوئی جرم نہیں کیا،،، میں اپنی صفائی میں اتنا ہی کہہ سکتا ہوں آپ کو یقین ائے سو آئے نہ آئے تو میں کچھ کر نہیں سکتا کہ ضروری نہیں کہ دنیا آپ کی ہر بات سے اتفاق کرے۔۔۔۔اور سچ تو یہ ہے کہ اس دنیا میں کوئی ایک بھی ایسی بات نہیں کہ جس ہر سارے انسان متفق ہوں۔۔۔ قابل افسوس ۔۔۔۔
لیکن یہ سچ ہے۔۔۔
۔
سات سال میں اب یہ حالت ہے کہ میں سوچتا ہوں تو گماں ہوتا ہے کہ میں شاید کبھی بھی آزاد نہیں رہا،،،،،
اگر ان سات سالوں کو بھی میری زندگی کے بقیہ تیس سالوں میں جمع کیا جائے جو کہ میں نہیں کرتا، تو میری عمر اب سینتیس برس ہے جب کہ میں تیس سال میں مر گیا تھا وہ اس لیئے کہ مجھے اب زندگی اس طرح نہیں محسوس ہوتی جو تیس سال میں محسوس کرتا رہا ہوں،
ٓآزادی کے دنوں میں میں آزاد طبع ، آزاد خیال واقع ہوا تھا ادھر یار دوست بیٹھے ہیں تو آدھی رات تک گپیں ہانک رہے ہیں اور پھر یہ ایک تاریک کمرہ کہ جس کے درودیوار اب مجھے زبانی یاد ہو چکے ہیں ایک ایک اینٹ گن چکا ہوں میں ، پہلے پہل ایک مدت تک میں اپنے ماضی کو یاد کر کے آہیں بھرتا رہا پھر آہستہ آہستہ آہیں ختم ہوئیں تو کمرے کے درودیوار پر غور کیا کہ اب یہاں اک عمر گزارنی تھی چھت کی اینٹیں تک گن چکا ہوں۔۔۔۔ ایک عرصے تک میری یہ مصروفیت رہی ہے کہ میں اس کمرے کی اینٹیں گنتا رہا ہوں۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہاں تو میں کہہ یہ رہا تھا کہ میں مجرم نہیں ہوں۔۔۔
میں نے گریجویشن کر رکھا ہے بی اے کرنے کے سال بعد ہی مجھے محکمہ ڈاک میں ملازمت مل گئی۔۔
نوکری ملے دوسرا سال تھا جب میری شادی ہوگئی۔۔۔۔
آپ سوچ رہے ہونگے کہ یہاں تک تو سب ٹھیک ہے تو پھر جیل میں کیونکر آیا ہوں۔۔۔
ہاں سنیے تو۔۔۔۔۔۔
شادی کے دو سال بعد میرے ہاں بیٹا پیدا ہوا گویا کہ رونق ہی ہوگئی ۔۔۔۔۔۔اور پھر جب اس نے چلنا سیکھا
میں کتنا خوش ہوتا تھا اسے چلتا دیکھ کر۔۔۔۔۔میں وہ خوشی شاید لفظوں میں بیاں نہ کرسکوں۔۔کبھی کبھی لفظ ہار جاتے ہیں۔۔اور جذبات کی جیت ہوتی ہے۔۔۔
۔۔۔۔
کہانی اس دن سے شروع ہوتی ہے جب ایک دن میرے بچہ ، میرا پیارا بچہ سیڑھیاں چڑھ رہا تھا اور اسکا پاوں پھسلا اور وہ زمین پر آن گرا۔۔۔۔۔
ہم اسے ہسپتال لے کر گئے۔۔۔ ڈاکٹروں نے بہت سارے ٹیسٹ کیئے اور ٹانگ کا آپریشن کرنے کو کہا۔۔اور جب تک روپے کا انتظام نہیں ہوجاتا ڈاکٹر اپنا فرض ادا کرنے سے قاصر تھے۔۔۔جی آپ کہیں گے کہ ڈاکٹر انسانیت کے خادم ہیں ،،،، جی بہتر لیکن بڑے مجبور خادم ہیں۔۔۔۔
۔
مجھے ایک خطیر رقم درکار تھی۔۔۔۔۔ پہلی بار ہاں پہلی بار مجھے لگا کہ میں ایک غریب آدمی ہوں جسکے پاس کوئی جائیداد نہیں اور جو کرائے کے مکان میں رہتا ہے اس سے پہلے کبھی ایسا خیال نہیں آیا یا شاید میں نے اس طرح غور نہیں کیا یا یوں کہیں کہ کبھی ایسے حالات سر پر نہیں پڑے تھے۔۔۔۔۔
میں بھاگم بھاگ تمام قریبی رشتے داروں اور دوستوں کے پاس گیا تو اس دن مجھے معلوم پڑا کہ یہ ایسے بھی قریبی نہیں ہیں جیسا کہ میں سمجھتا رہا ہوں۔۔۔۔ سارے بہت مجبور لوگ تھے۔۔۔۔۔
بیوی کے زیور بھی اتنے ہی تھے کہ ان سے آدھی رقم کا بندوبست ہوا۔ اپنی سائیکل تک بیچ دی۔۔۔
گھر میں اس سے بڑھ کر کوئی قیمتی سامان نہیں تھا کہ جس سے بقیہ رقم کا انتظام ہو سکے ۔۔۔بنک سے قرضہ لینے کیلئے بھی کسی چیز کو بطور ضمانت رکھوانا پڑرہا تھا اور ادھر تو یہ حال کہ سائیکل تک نہیں کہ جو رکھوئی جاسکے۔۔۔۔۔
۔۔۔
پھر میں نے فیصلہ کر لیا اور اس فیصلے پر عمل درامد کیلئے آدھی رات کو چودھریوں کی حویلی کی دیوار پھلانگ کر اندر کود پڑا۔۔۔۔گناہ اور وہ بھی پہلا گناہ۔۔۔۔ اف توبہ دل یوں دھڑک رہا تھا کہ گویا ابھی کے ابھی پسلیاں توڑکر باہر آجائے گا۔۔ٹانگیں کانپ رہی تھیں۔۔۔۔ضمیر الگ جھگڑا کر رہا تھا کہ دیکھ خادم حسین، دیکھ خادم حسین۔۔ تو ایک شریف آدمی ہے اور شریف آدمی یوں آدھی رات کو لوگوں کی دیواریں نہیں پھلانگا کرتے۔۔۔۔۔۔ میں نے سوچا یہیں سے واپس چلا جائون کہ میں ایک شریف آدمی ہوں۔۔۔ دیوار پر واپسی کیلیے ہاتھ بلند کیئے تھے کہ میرا بیٹا میرا ہاتھ تھام کر ابا ابا چلانے لگا ۔۔۔۔میرے بچے نے میرے پاوں پکڑ لیئے ، ہاتھ جہاں تھے وہیں رک گئے۔۔۔۔۔۔
نہیں نہیں میں واپس نہیں جاسکتا تھا مجھے صبح تک ہر حال میں پیسے چاہیے تھے اور اتنے سے پیسوں سے چودھریوں کی دولت میں کونسا کمی آجانی تھی۔۔۔
سارا گائوں کہتا تھا کہ چودھریوں نے بڑا حرام کما رکھا ہے ۔۔سو میں حویلی میں جانے کیلئے مڑا۔۔۔۔
اندھیرا کافی زیادہ تھا میں سرچ لائٹ ساتھ لایا تھا جو اب تک بجھا رکھی تھی۔۔ سوچا اس سے کام لیا جائے ۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں نے ڈرتے ڈرتے سرچ لائٹ جلائی۔۔۔۔
سامنے چودھریوں کاکتا کھڑا تھا۔۔۔ جو لائٹ کے چلتے ہی بھونکنے لگا ۔میں ڈر کے پھر واپسی کیلئے بھاگا کہ کتے نے میری ٹانگ پر اس زور سے کاٹا کہ اتنا عرصہ ہوگیا مجھے ابھی بھی کبھی کبھی اس درد کی کرواہٹ محسوس ہوتی ہے۔۔۔۔ مین گیٹ پر بیٹھا چوکیدار چلایا ۔۔کون ہے۔۔۔۔
اور عین اس لمحے اوپر حویلی کی دوسری منزل سے فائر کی آواز آئی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔میں جو درد کے مارے مرا جارہا تھا ابھی اٹھا ہی تھا کہ چوکیدار نے آن دبوچا۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نہیں کہانی یہاں ختم نہیں ہوتی۔۔۔۔۔
پولیس کو بلوا لیا گیا تھا کہ کسی نے چودھری صاحب کو گولی مار دی تھی اور وہ ملزم واپسی پر بھاگتے ہوئے کتے کے حملے سے زخمی ہوگیا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس بات کے کئی گواہ بھی پیدا ہوگئے تھے جنہوں نے مجھے گولی چلاتے ہوئے خود اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا۔۔۔۔
مجھے اس دن معلوم ہوا کہ قانون کیوں اندھا ہے۔۔۔۔۔
تمام گواہوں کی موجودگی میں عدالت نے مجھے دس سال کی قید بامشقت سنائی۔۔۔۔
ْ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نہیں کہانی یہاں بھی ختم نہیں ہوتی۔۔۔۔۔
چودھری صاحب کو فورا ہسپتال پہنچایا گیا اور ڈاکٹروں کی انتھک محنت رنگ لائی اور ان کی جان بچی۔۔۔۔۔۔۔۔
عین اسی ہسپتال میں جہاں چودھری صاحب کا آپریشن ہوا اسی ہسپتال میں عین اسی دن ایک بچہ ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مر گیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ختم شد