اشرف علی بستوی
محفلین
افضل گرو پھانسی معاملہ : اروندھتی رائے کے یہ سوالات جواب طلب ہی رہ گئے
اکثریت کے جذبات کی تسکین کے پیش نظر یوپی اے سرکارنے این ڈی اے کے موقف کی تائیدمیں آخرکار افضل گروکوتختہ دارپر لٹکاہی دیا۔ اس کے ساتھ ہی وہ اہم سوالات جووقفے وقفے سے قانونی ماہرین ،سماجی کارکنان اورحقوق انسانی کے تحفظ کے لیے سرگرم تنظیموں کی جانب سے اٹھائے جاتے تھے جواب طلب ہی رہ گئے ۔ بعض سیاسی حلقوں نے اسے انصاف کے خلاف تعبیرکرتے ہوئے، انصاف کوپھانسی قراردیاہے، توبعض قانونی ماہرین نے 9؍فروری کو ہندوستانی جمہوریت کا سیاہ ترین دن قراردیاہے، گویافیس بک،ٹوئیٹرسمیت دیگرعوامی فورموں میں بھی بحث ومباحثہ کا سلسلہ جاری ہے۔اس درمیان ایک طبقہ ایسا بھی نمودارہواہے جس نےپھانسی کاخیرمقدم کیاہے ۔مسلمانوں کی ایک معروف دینی درسگاہ کے ترجمان اشرف عثمانی کہتے ہیں کہ ’’ملک میں قانون کی حکومت ہے اوراسی کے مطابق افضل گروکوپھانسی دی گئی ہے۔‘‘ یہ اوراس طرح کے بیانات کا سلسلہ ہنوز جاری ہے اس کے برخلاف بنگلورکے ایک معروف وکیل بی ٹی ویکٹیش جوکہ دہشت گردی کے معاملات کے مقدمات کی پیروی کرتے ہیں نے پھانسی کے کچھ ہی گھنٹے بعد میڈیاسے گفتگوکے دوران کہاکہ ’’افضل گروکو انصاف کے تقاضوں کوبالائے طاق رکھ کرسیاسی وجوہ کی بنیادپر پھانسی دی گئی ہے، لہذاآج کا دن ہندوستانی جمہوریت کے لیے انتہائی افسوس کا دن ہے، افضل گروکے معاملے میں قانونی کارروائی شفاف طریقے سے نہیں انجام دی گئی ‘‘ یہ ایک قانونی ماہرکا بیان ہے جو کہ ا سی طرح کے مقدمات کی پیروی کرتے ہیں۔قانونی داؤپیچ کواچھی طرح سمجھتے ہیں۔ان کا توماننا ہے کہ کارروائی ٹھیک طرح سے نہیں ہوئی ،لیکن سیاسی اورمذہبی قیادت کرنے والوں نے اسے قانونی طورپرکی گئی کارروائی قراردیاہے۔ اس کے علاوہ ملک کے بڑے سماجی کارکنان،قانونی ماہرین کی طویل فہرست ہے ،جو پارلیا منٹ پر حملے کی کارروائی پر سوالات اٹھاتے رہے ہیں اورانہوں نے پولیس کی جارج شیٹ اوربیانات میں تضادکوروزاول سے ہی اجاگرکیاہے۔ ان میں حقوق انسانی کے تحفظ کے لیے کام کرنے والی مصنفہ اروندھتی رائے سر فہرست ہیں ان کے علاوہ سپریم کورٹ کی وکیل نندتا ہسکر،پرفل بدوائی،جاویدنقوی،نرملانشومکھرجی،سیدبسم اللہ گیلانی،اے جی نورانی جیسے دیگرافراد سوالات اٹھااتے رہے ہیں۔ لیکن ان پر کبھی توجہ نہیں دی گئی ۔ اروندھتی رائے نے پارلیمنٹ حملے کے ٹھیک پانچ برس بعد تحریرکردہ ایک مضمون میں تیرہ دسمبر2001کے حوالے سے تیرہ سوالات کیے تھے، جن میں پارلمنٹ پر حملے کے عجیب وغریب معاملے کی آزادانہ اورمنصفانہ تفتیش کا مطالبہ کیاگیاتھا۔ سوالات کا خلاصہ اسطرح ہے ۔پہلا سوال، پارلیمنٹ پر حملے سے کئی ماہ قبل سے ہی سرکاراورپولیس کے افسران یہ اندیشہ ظاہرکررہے تھے کہ پارلمینٹ پر حملہ ہوسکتاہے۔12 دسمبر2001کواس وقت کے وزیراعظم اٹل بہاری واجپئی نے ایک غیررسمی میٹنگ میں خبردارکیا تھا کہ مستقبل قریب میں پارلمنٹ پر حملہ ہوسکتاہے۔ سوال یہ ہے اس کے باوجود اس کے اگلے ہی دن دھماکہ خیزمادے سے بھری کاردہشت گردوں کولے کروہاں تک کیسے پہنچ گئی؟ حفاظتی انتظامات ناکام کیسے ہوگئے ؟ دوسرا سوال ،اس حملے کے کچھ دنوں بعدہی پولیس نے کہا تھا کہ یہ حملہ جیش محمداورلشکرطیبہ کی منصوبہ بندکارروائی تھی اوریہ بھی کہا گیاکہ اس حملے کی قیادت محمدنامی ایک شخص کررہاتھا، جو 1998میں IC- 814طیارہ اغواکرنے میں شامل تھا اس دعوے کو بعدمیں سی بی آئی نے مستردکردیا تھا ۔ سوال یہ ہے کہ اپنے اس دعوے کے حق میں اسپیشل سیل کے پاس کیاثبوت تھے؟ سوا ل نمبر تین ، پورے حملے کوسی سی ٹی وی کیمرے پر ریکارڈ کیاگیاتھا۔کانگریس کے ایم پی کپل سبل نے سرکار سے مانگ کی تھی کہ اس ریکارڈنگ کوپارلمنٹ میں دکھایاجائے ،راجیہ سبھاکی ڈپٹی اسپیکر نجمہ ہپت اللہ نے بھی اس کی حمایت کی تھی اورکہاتھا کہ اس واقعے کولے کرلوگوں میں کنفیوزن ہے، کانگریس کے سنےئر لیڈرپر یہ رنجن داس منشی نے کہاتھا کہ میں نے کارسے نکلتے ہوئے چھ لوگوں کودیکھاتھا ،اگرداس منشی صحیح کہہ رہے تھے توپولیس نے کیوں کہا کہ پانچ لوگ ہی تھے،توپھرسوال یہ ہے کہ چھٹاشخص کون تھااور ریکارڈنگ کوثبوت کے طور پر عدالت میں کیوں نہیں پیش کیاگیا؟چوتھا سوال یہ ہے کہ اس پورے معاملے پرپارلمنٹ میں سوالات اٹھانے پر پالیمنٹ کو کیوں معطل کردیاگیاتھا ؟ پانچواں سوال،حملے کے کچھ ہی دن بعد سرکارنے اعلان کیا تھاکہ حملے میں پاکستان کے ملوث ہونے کے پختہ ثبوت ہیں توسرکارنے اس ثبوت کو ظاہرکیوں نہیں کیا؟چھٹا سوال ،کیایہ صحیح ہے کہ بھارت پاک سرحدپر فوجوں کی تعیناتی حملے سے کافی پہلے ہوگئی تھی؟سوال نمبر سات، فوج کی اس تعیناتی پر جوتقریبا ایک سال تک رہی کیا خرچ کیاگیا، اس میں کتنے فوجی مارے گئے ، غلط طریقے سے بچھائی گئی بارودی سرنگوں کی وجہ سے عام شہریوں کی کتنی ہلاکت ہوئی تھی؟اور آٹھواں سوال ،مجرمانہ معاملوں کی تفتیش میں پولیس کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ یہ دکھائے کہ جائے واردات سے حاصل ثبوتوں نے حملہ آورتک اسے کیسے پہنچایا ،گویاپولیس افضل گرو تک کیسے پہنچی ،اسپیشل سیل نے کہاکہ وہ ایس اے آرگیلانی کے توسط سے افضل گروتک پہنچی لیکن حیرانی کی بات یہ ہے کہ ریکارڈ کے مطابق افضل گروکی تلاش کے لیے جواطلاع شری نگرارسال کی گئی تھی اسے گیلانی کی گرفتاری سے قبل ارسال کیاگیاتھا؟سوال نمبر نو ، جب عدالتیں یہ تسلیم کرچکی ہیں کہ افضل گروہتھیارڈال چکادہشت گردتھا اورجموں کشمیرایس ٹی ایف کے برابررابطے میں تھا، تو سوال یہ ہے کہ جب وہ ان کی نگرانی میں تھا تووہ اتنی بڑی دہشت گردانہ کارروائی انجام دینے کی سازش رچنے میں کیسے کامیاب ہوگیا؟سوال نمبر دس ،کیا یہ قابل یقین ہے کہ لشکرطیبہ اورجیش محمد جیسے بڑے آرگنائزیشن ایک بڑی کاروائی کے اہم کردارکے طورپر ایک ایسے شخص پر اعتمادکریں گے جوایس ٹی ایف سےبرابررابطے میں تھا اورجس پرپولیس کی سخت نظرتھی؟ سوال نمبر گیارہ، کورٹ میں دیے گئے اپنے بیان میں افضل گرونے کہاتھا کہ اس کا تعارف محمد سے کرایاگیااورکہاگیاکہ طارق نامی ایک شخص جوایس ٹی ایف میں کام کرتاتھا اسے دہلی لایاگیا، پولیس کی چارج شیٹ میں طارق کانام آیاتھا یہ طارق نامی شخص کون تھا اس کا پتہ کیوں نہیں چل سکا ؟ بارھواں سوال ،19؍دسمبرکوپارلمنٹ پر حملے کے چھ دن بعد مہاراشٹرکے تھانہ ضلع کے پولیس کمشنرایس ایم سانگری نے ایک حملہ آورکی پہچان محمد یاسین فتح محمدعرف ابوحمزہ کے طور پر کی تھی ، جس کو نومبر2000میں ممبئی میں گرفتارکیاگیاتھا اوراس کوجموں وکشمیرپولیس کے حوالے کردیاگیاتھا۔ اگرکمشنرسانگری کا بیان درست تھا تومذکورہ شخص جوکہ پولیس حراست میں تھا پارلمنٹ حملے میں کیسے ماراگیا اوراگرکمشنرکا بیان غلط تھا تومحمد یاسین کہاں گیا؟تیرھواں سوال ،ایسا کیوں ہے کہ اب تک یہ پتہ نہ چل سکا کہ پارلیمنٹ حملے میں مارے گئے پانچوں دہشت گردکون تھے؟
ان چندسوالات کے تجزیے سے پتہ چلتا ہے کہ جولوگ افضل گروکی پھانسی کی مخالفت کررہے ہیں ان کے پاس مضبوط دلائل ہیں ،حالات کے تجزیے سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ سرکاروں اور انٹلی جنس ایجنسیوں کا یہ بہت مرغوب مشغلہ ہے کہ ملزم کو مجرم کیسے ثابت کیاجائے، اس کام میں بعض اوقات میڈیابھی خطرناک حدتک اپنارول اداکرتاہے۔ سوال یہ ہے کہ متذکرہ بالا سوالات پر سرکارخاموش کیوں ہے ؟ یہ سوالات میڈیامیں آنے والی خبروں کے تجزیوں سے ہی نکلے ہیں ۔سیاسی رہنماؤں کے بیانات ،پولیس کے دعوے اورعدالتی کارروائی کے ذریعے سامنے آنے والے حقائق کی روشنی میں ہی بات کہی گئی ہے اس لیے انہیں بے جا الزام تراشی قرار نہیں دیا جا سکتا ۔ یہ سوالات ان سماجی اور سیاسی حلقوں کے کے لیے بھی ہیں جواس کارروائی کوحق بجانب قراردے رہے ہیں۔