اب امریکا کو اس حقیقت کا ادراک ہو چکا ہے کہ وہ بزور قوت طالبان کو ختم نہیں کر سکتا لہٰذا افغانستان میں مستقل قیام امن کے لیے انھیں ایک اہم فریق کی حیثیت دیتے ہوئے مذاکرات کا عمل شروع کرنا پڑے گا۔ طالبان اور امریکا کے درمیان قطر میں بھی مذاکرات کی اطلاعات آتی رہی ہیں مگر وہ نتیجہ خیز ثابت نہیں ہو سکے تھے۔
فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
جو تجزيہ نگار سياسی مفاہمت اور بات چيت کے آپشن کو افغانستان ميں امريکی شکست قرار ديتے ہيں يا مذاکرات کے عمل کو نئ حکمت عملی سمجھتے ہيں، ان کو باور کروانا چاہتا ہوں کہ امريکی حکام کی جانب سے تو اس آپشن کا استعمال افغانستان ميں فوجی کاروائ سے قبل کيا گيا تھا۔
حکومت پاکستان کے ذريعے امريکہ نے 911 کے واقعات کے بعد طالبان کے ساتھ 2 ماہ تک مذاکرات کيے جن کا مقصد اسامہ بن لادن کی گرفتاری اور افغانستان ميں اس تنظيم کو تحفظ فراہم نہ کرانے کی يقين دہانی حاصل کرنا تھا۔ ليکن طالبان نے ان مطالبات کو ماننے سے صاف انکار کر ديا اور دہشت گردوں کو پناہ دينے کی پاليسی کا اعادہ کيا۔
يہاں ميں يہ بھی واضح کر دوں کہ يہ امريکی حکومت کی جانب سے کوئ نئ حکمت عملی نہيں ہے۔ جولائ 2010 ميں بھی 5 طالبان کے نام اقوام متحدہ کی سيکورٹی کونسل کی اس لسٹ سے حذف کيے گئے تھے جن پر پہلے پابندياں عائد کی جا چکی تھيں۔
امریکی حکومت نے ہميشہ يہ موقف اختيار کيا ہے کہ ہم ہر اس عمل اور کوشش کی حمايت کريں گے جو دہشت گردی سے جنم لينے والے تشدد کے خاتمے کی جانب پيش رفت کرنے ميں مدد گار ثابت ہو۔ اگر گفت وشنيد کا مقصد يہ ہو کہ مسلح افراد کو قانونی اور سياسی دائرہ عمل ميں لايا جا سکے اور اس کے نتيجے ميں افغانستان اور اس کے اداروں کی ترقی اور استحکام کے عمل کو آگے بڑھايا جا سکے تو يقينی طور پر اس کا فائدہ تمام فریقين کو ہو گا۔
بنيادی نقطہ يہ ہے کہ کسی بھی طے پانے والے معاہدے کا مقصد دہشت گردی کے حوالے سے موجود تحفظات اور ان کے خاتمے سے متعلق ہونا چاہیے۔
امريکی حکومت کبھی بھی افغانستان پر قبضے کی خواہاں نہيں رہی۔ ساری دنيا جانتی ہے کہ خطے ميں ہماری موجودگی اور فوجی کاروائ ہماری جانب سے کسی ابتدائ حملے کے نتيجے ميں نہيں بلکہ ہماری سرزمين پر براہراست حملے کا شاخسانہ ہے۔ يہ ايک ايسی کاروائ تھی جس کی ہميں خواہش نہيں تھی ليکن حتمی تجزيے ميں دنيا بھر ميں انسانی جانوں کو محفوظ کرنے کے لیے يہ ايک ناگزير ردعمل تھا جس کا مقصد محض امريکی زندگيوں کو ہی تحفظ دينا نہيں تھا بلکہ عمومی طور پر انسانيت کو تحفظ فراہم کرنا تھا۔
ہمارے مقاصد اور خطے ميں اپنے تمام اتحاديوں کے ساتھ ہمارے روابط کا مقصد يہ يقينی بنانا ہے کہ دہشت گردوں کی وہ پناہگاہیں جو پاکستان سميت تمام مہذب دنيا کے لیے مشترکہ خطرہ ہیں، ان کا خاتمہ کيا جائے اور بن لادن کی خونی سوچ کو عملی جامہ پہنانے والے مجرموں کو کيفر کردار تک پہنچايا جائے۔
ہماری ہميشہ سے يہی سوچ رہی ہے کہ علاقائ سيکورٹی اور حکومت سازی سے متعلق ذمہ دارياں افغانستان کے عوام اور ان کی منتخب کردہ سياسی قيادت کے حوالے کی جائيں۔ ہم اب بھی اسی منصوبے پر کاربند ہیں۔ ليکن چند رائے دہندگان اور ميڈيا کے تجزيہ نگاروں کی غلط سوچ کے برخلاف ہم نہ تو خطے سے بھاگ رہے ہيں اور نہ ہی افراتفری کے عالم ميں اپنا ناطہ توڑ رہے ہیں۔ ہم افغانستان کے عوام کے ساتھ طويل المدت بنيادوں پر تعلقات استوار کرنے کے اپنے ارادے اور اپنی حمايت کو برقرار رکھيں گے۔
فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
www.state.gov
https://twitter.com/USDOSDOT_Urdu
http://www.facebook.com/USDOTUrdu