افغان حکومت اور طالبان کے درمیان مذاکرات

373539-taliban-1436275608-521-640x480.jpg

اسلام آباد: افغان حکومت اور طالبان کے درمیان امن مذاکرات وفاقی دارالحکومت میں ہورہے ہیں جب کہ ان مذاکرات کو پاکستان اوراقوام متحدہ سمیت چین کی حمایت حاصل ہے۔
سرکاری ذرائع کے مطابق مذاکرات میں افغان حکومت اور طالبان کے نامزد نمائندے شریک ہیں جب کہ ان مذاکرات کو پاکستان اور اقوام متحدہ سمیت چین کی بھر پور حمایت بھی حاصل ہے تاکہ افغانستان میں دیر پا امن کے قیام کے لیے حکمت عملی تشکیل دی جاسکے۔ افغان طالبان ذرائع نے مذاکرات کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ ان کی جانب سے حاجی دین محمد، ملا خلیل، فرہاد اللہ اور ملا عباس افغانستان اور قطر سے اسلام آباد آئے ہوئے ہیں جب کہ ان مذاکرات کو چین کے شہر ارومچی میں گذشتہ دنوں منعقد ہونے والے مذاکرات کا تسلسل یا دوسرا دور کہا جا سکتا ہے،ملا جلیل طالبان کے سابق نائب وزیر خارجہ رہ چکے ہیں جب کہ حاجی دین محمد ننگرہارسے تعلق رکھتے ہیں اور وہ ارومچی میں ہونے والے رابطے میں بھی شامل تھے۔افغان صدارتی ترجمان کے مطابق ان کا وفد پاکستان پہنچ چکا ہے جو طالبان کے ساتھ مذاکرات میں حصہ لے گاجب کہ وفد میں صدر اشرف غنی ، چیف ایگزیکٹو عبداللہ عبداللہ اور افغان کونسل کے 6 نمائندے شریک ہیں۔
http://www.express.pk/story/373539/
دکھاتا ہے رنگ اسمان کیسے کیسے
 

bilal260

محفلین
مزاکرات اب ہو رہے ہیں جب سب کچھ تباہ و برباد ہو گیا ۔
اچھا مزاق ہے۔ مستقبل میں اس کے اچھے اور بہترین نتا ئج حاصل ہو گے انشاء اللہ عزوجل۔
 
China Creates New Avenue for Afghan Peace Talks
Afghan Officials Say Beijing Hosted Taliban Delegation, Aims to Support Reconciliation Process in Kabul
China has taken the unusual step of a hosting a delegation of Afghan Taliban officials, creating a potential new avenue for peace negotiations between the insurgents and the government in Kabul.
Current and former Afghan officials said a group of Taliban representatives traveled last month to China to discuss the possibility of opening talks with the Afghan government.
“The Chinese are positioning themselves in how they can support the reconciliation process,” said an Afghan official familiar with the matter. “There is not going to be a [Taliban] office; the Chinese could provide a venue for talks.”
http://www.wsj.com/articles/china-creates-new-avenue-for-afghan-peace-talks-1420564492
 
Afghan leaders, Taliban meet for talks in Norway
The Afghan government condoned the talks, adding they did not represent government policy.
Afghan-leaders-Taliban-meet-for-talks-in-Norway.jpg

Afghan legislator Shukria Barakzai was one of the representatives in attendance in Friday's meeting of informal talks between representatives of Afghanistan and the Afghan Taliban in Norway, a Taliban spokesman confirmed. Photo courtesy of U.S. State Department.
OSLO, Norway, June 5 (UPI) -- Informal talks between representatives of Afghanistan and the Afghan Taliban are underway, a Taliban spokesman confirmed Friday.
Zabihullah Mjuahid, Taliban spokesman, stressed the talks in Norway involving the militant group and members of Afghan politics and civil society are informal and should not be regarded as peace talks. The office of Afghan President Ashraf Ghani acknowledged the negotiations but added "they are not representing the government of Afghanistan."
A Norwegian Foreign Ministry official said an element of Norway's policy is to facilitate talks such as these, whenever possible. As part of NATO's mission, Norway currently has troops in Afghanistan.

http://www.upi.com/Top_News/World-N...liban-meet-for-talks-in-Norway/2391433505736/

18D5E09D-0124-41FF-903C-A9D6E8BEE914_w640_s.jpg

In attendance at the Taliban meeting in Norway were Afghan female parliamentarians and women's rights advocates Fawzia Koofi, left, and Shukria Barakzai, right.
 
اب امریکا کو اس حقیقت کا ادراک ہو چکا ہے کہ وہ بزور قوت طالبان کو ختم نہیں کر سکتا لہٰذا افغانستان میں مستقل قیام امن کے لیے انھیں ایک اہم فریق کی حیثیت دیتے ہوئے مذاکرات کا عمل شروع کرنا پڑے گا۔ طالبان اور امریکا کے درمیان قطر میں بھی مذاکرات کی اطلاعات آتی رہی ہیں مگر وہ نتیجہ خیز ثابت نہیں ہو سکے تھے۔
اب اسلام آباد میں ہونے والے امن مذاکرات میں جو اہم تبدیلی دیکھنے میں آ رہی ہے وہ چین کی شرکت ہے۔ تجزیہ نگاروں کے مطابق چین کے افغانستان میں تجارتی مفادات بڑھتے جا رہے ہیں اور وہ اس خطے میں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کرنے کے لیے آگے بڑھ رہا ہے لہٰذا اس خطے میں قیام امن اس کی ترجیحات میں شامل ہو چکا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ طالبان اور افغان حکومت کے درمیان مذاکرات کے انعقاد اور ان کی کامیابی کے لیے اہم کردار ادا کر رہا ہے۔ اس طرح امریکا کے بعد چین بھی ایک عالمی قوت کی حیثیت سے ان مذاکرات میں شریک ہو چکا ہے۔
http://www.express.pk/story/373924/
 
اسلام آباد: تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے افغان حکومت اورطالبان کے درمیان مذاکرات عمل کے آغازپراپنے ردعمل کااظہارکرتے ہوئے کہاہے کہ انتہائی تعجب کی بات ہے جب انھوں نے امن مذاکرات کی تجویز پیش کی توانھیں سخت تنقیدکانشانہ بنایاگیا۔
سماجی رابطے کی ویب سائٹ پراپنے پیغام میں انھوں نے کہاکہ ان کی جانب سے امن مذاکرات کی تجویزپرتوانھیں تنقیدکانشانہ بنایاگیاتاہم اب امریکا کی منظوری سے پاکستان افغان حکومت اورطالبان کے درمیان بات چیت کے عمل کی میزبانی میں مصروف ہے۔
http://www.express.pk/story/374065/
 

Fawad -

محفلین
اب امریکا کو اس حقیقت کا ادراک ہو چکا ہے کہ وہ بزور قوت طالبان کو ختم نہیں کر سکتا لہٰذا افغانستان میں مستقل قیام امن کے لیے انھیں ایک اہم فریق کی حیثیت دیتے ہوئے مذاکرات کا عمل شروع کرنا پڑے گا۔ طالبان اور امریکا کے درمیان قطر میں بھی مذاکرات کی اطلاعات آتی رہی ہیں مگر وہ نتیجہ خیز ثابت نہیں ہو سکے تھے۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

جو تجزيہ نگار سياسی مفاہمت اور بات چيت کے آپشن کو افغانستان ميں امريکی شکست قرار ديتے ہيں يا مذاکرات کے عمل کو نئ حکمت عملی سمجھتے ہيں، ان کو باور کروانا چاہتا ہوں کہ امريکی حکام کی جانب سے تو اس آپشن کا استعمال افغانستان ميں فوجی کاروائ سے قبل کيا گيا تھا۔

حکومت پاکستان کے ذريعے امريکہ نے 911 کے واقعات کے بعد طالبان کے ساتھ 2 ماہ تک مذاکرات کيے جن کا مقصد اسامہ بن لادن کی گرفتاری اور افغانستان ميں اس تنظيم کو تحفظ فراہم نہ کرانے کی يقين دہانی حاصل کرنا تھا۔ ليکن طالبان نے ان مطالبات کو ماننے سے صاف انکار کر ديا اور دہشت گردوں کو پناہ دينے کی پاليسی کا اعادہ کيا۔

يہاں ميں يہ بھی واضح کر دوں کہ يہ امريکی حکومت کی جانب سے کوئ نئ حکمت عملی نہيں ہے۔ جولائ 2010 ميں بھی 5 طالبان کے نام اقوام متحدہ کی سيکورٹی کونسل کی اس لسٹ سے حذف کيے گئے تھے جن پر پہلے پابندياں عائد کی جا چکی تھيں۔

امریکی حکومت نے ہميشہ يہ موقف اختيار کيا ہے کہ ہم ہر اس عمل اور کوشش کی حمايت کريں گے جو دہشت گردی سے جنم لينے والے تشدد کے خاتمے کی جانب پيش رفت کرنے ميں مدد گار ثابت ہو۔ اگر گفت وشنيد کا مقصد يہ ہو کہ مسلح افراد کو قانونی اور سياسی دائرہ عمل ميں لايا جا سکے اور اس کے نتيجے ميں افغانستان اور اس کے اداروں کی ترقی اور استحکام کے عمل کو آگے بڑھايا جا سکے تو يقينی طور پر اس کا فائدہ تمام فریقين کو ہو گا۔

بنيادی نقطہ يہ ہے کہ کسی بھی طے پانے والے معاہدے کا مقصد دہشت گردی کے حوالے سے موجود تحفظات اور ان کے خاتمے سے متعلق ہونا چاہیے۔

امريکی حکومت کبھی بھی افغانستان پر قبضے کی خواہاں نہيں رہی۔ ساری دنيا جانتی ہے کہ خطے ميں ہماری موجودگی اور فوجی کاروائ ہماری جانب سے کسی ابتدائ حملے کے نتيجے ميں نہيں بلکہ ہماری سرزمين پر براہراست حملے کا شاخسانہ ہے۔ يہ ايک ايسی کاروائ تھی جس کی ہميں خواہش نہيں تھی ليکن حتمی تجزيے ميں دنيا بھر ميں انسانی جانوں کو محفوظ کرنے کے لیے يہ ايک ناگزير ردعمل تھا جس کا مقصد محض امريکی زندگيوں کو ہی تحفظ دينا نہيں تھا بلکہ عمومی طور پر انسانيت کو تحفظ فراہم کرنا تھا۔

ہمارے مقاصد اور خطے ميں اپنے تمام اتحاديوں کے ساتھ ہمارے روابط کا مقصد يہ يقينی بنانا ہے کہ دہشت گردوں کی وہ پناہگاہیں جو پاکستان سميت تمام مہذب دنيا کے لیے مشترکہ خطرہ ہیں، ان کا خاتمہ کيا جائے اور بن لادن کی خونی سوچ کو عملی جامہ پہنانے والے مجرموں کو کيفر کردار تک پہنچايا جائے۔

ہماری ہميشہ سے يہی سوچ رہی ہے کہ علاقائ سيکورٹی اور حکومت سازی سے متعلق ذمہ دارياں افغانستان کے عوام اور ان کی منتخب کردہ سياسی قيادت کے حوالے کی جائيں۔ ہم اب بھی اسی منصوبے پر کاربند ہیں۔ ليکن چند رائے دہندگان اور ميڈيا کے تجزيہ نگاروں کی غلط سوچ کے برخلاف ہم نہ تو خطے سے بھاگ رہے ہيں اور نہ ہی افراتفری کے عالم ميں اپنا ناطہ توڑ رہے ہیں۔ ہم افغانستان کے عوام کے ساتھ طويل المدت بنيادوں پر تعلقات استوار کرنے کے اپنے ارادے اور اپنی حمايت کو برقرار رکھيں گے۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov

https://twitter.com/USDOSDOT_Urdu

http://www.facebook.com/USDOTUrdu

USDOTURDU_banner.jpg
 
Top