سید اسد محمود
محفلین
اسلامک کوآپریشن تنظیم نے افعانستان کے قدیم شہر غزنی کو اسلامی کلچر کا ایشیائی شہر قرار دیا ہے۔ لیکن طالبان کی وجہ سے باہر سے آنے والوں کو اس شہر کے آٰثارِ قدیمہ دیکھنے میں مشکل ہوگی
اس شہر کے جغرافیائی اہمیت کی وجہ سے طالبان اسے نیٹو پر حملوں کے لیے استعمال کرتے تھے لیکن حالیہ سالوں میں اتحادی افواج نے انہیں پیچھے دھکیل دیا ہے۔افغان سکیورٹی فورسز نے یہاں کئی چیک پوسٹیں قائم کی ہیں لیکن پھر بھی بعض اوقات شدت پسند حملے کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں
- غزنوی خاندان کے بہرام شاہ کا بارہویں صدی میں تعمیر کردہ مینار جیومیٹری نما شکل کی وجہ سے اس شہر کی مشہور عمارت ہے۔ یہ واضح نہیں کہ آیا یہ مینار جیت کے نشان کے طور پر بنایا گیا تھا یا مسجد کے حصے کے طور پر
غزنی کا یہ قلعہ غزنوی دور میں بنایا گیا تھا۔اس شہر کی آبادی تقریباً ایک لاکھ پچاس ہزار ہے
غزنی کے پرانے قلعے کی یہ گرتے ہوئے ٹاؤر یہاں پر دہائیوں تک جاری لڑائی کا ثبوت ہے جس کی وجہ سے تاریخی عمارتوں کو نقصان پہنچا۔ خاص کراسلام سے پہلے کی بنی عمارتوں کو زیادہ نقصان ہوا اور قدیم بدھا کے آثار کو طالبان نے نقصان پہنچایا۔۔
- تاریخی طور پر غزنی میں مشہور دانشور، عالم اور شاعر رہائش پذیر رہے جن میں سے اکثر کے مقبرے بنائے گئے ہیں جیسا کہ صوفی لالہ علی کا یہ مزار
حکام تاریخی مقامات تک رسائی کے لیے راستے تعمیر کر رہے ہیں لیکن فنڈز کی کمی کی وجہ سے کافی تعمیراتی کام نامکمل ہے
غزنی ساتویں صدی عیسوی تک بدھ مت کا بڑا مرکز رہا تھا لیکن 682 عیسوی میں عرب سے یہاں اسلام پہنچا۔ 13ویں صدی عیسوی میں چنگیز خان کی فوج نے اس شہر کو تباہ کر دیا تھا
اس شہر نے بے انتہا تشدد دیکھا ہے۔۔1839 میں پہلی اینگلو افغان جنگ میں اس شہر پر برطانوی فوج نے چڑھائی کی، 1990 کی دہائی میں یہ شہر خانہ جنگی کا مرکز رہا اور 2001 میں افغانستان پر حملے کے بعد یہاں امریکہ کا فوجی اڈہ بنا۔ماہرین اس بات پر حیران ہیں کہ ان تمام تر لڑائیوں کے باوجود غزنی میں اکثر نوادرات کیسے محفوظ رہے