مہدی نقوی حجاز
محفلین
آسمان پر بےرغبتی سے مفت چاندنی لٹا کر تھکا ہوا چاند اب بجھی بجھی نظروں سے کراچی کی دھندلی سڑکوں کو تک رہا تھا۔ فضا میں گہرا سکوت کچھ گھنٹوں پہلے کی ہیاہو میں دب جانے والی آہ و بکا کی چغلی کھانے میں مصروف، غسل خانے کے دروازے پر دو چپ چاپ ٹہلنے والوں کو چھو چھو کر گزر رہا تھا کہ لکڑی کے دروازے کے وقفے سے کھل بند ہونے کی وجہ سے پیدا ہونے والی چوں چوں نے خلل ڈالنا چاہا۔ لیکن وہ اسی کھا جانے والی خاموشی کا حصہ معلوم ہو رہی تھی۔ نزدیک جانے کی ہمت نہیں پڑ رہی تھی۔ دور ہی بیٹھا کچھ سوچنے کا ڈرامہ کر رہا تھا۔ نہ جانے اس اکیلے پن میں کس کو دکھا رہا تھا یا محض خود کو دھوکا دینے کی کوشش تھی۔ ایسی بہت باتیں تھیں جن کے بارے میں مجھے اس وقت سوچنا تھا لیکن مجال ہے جو کچھ لمحوں سے زیادہ کسی موضوع پر فکر مرکوز ہوئی ہو۔
تفکر کی نسیم کبھی اندھیرے میں میرے سایے کو زیادہ کہرا کرنے والے، سر پر کھڑے درخت کو چھوتی کبھی خیالی پرندوں سے اٹھکھیلیاں کرتی۔ موضوع پر آنا چاہتی تو غسل خانے کے دروازے سے اندر کی جانب تجاوز نہ کرتی، پھر وہاں سے ہو کر کچھ خالی حجروں کی طرف نکل پڑتی۔ در و دیوار کو لمس کرتی اور پھر کالج کے باغ کی طرف نکل جاتی۔ کبھی کنگھن کا خیال آتا تو اس کے موتی بھی بجھی نظروں سے استقبال کرتے۔ ہر فکر ہر خیال کا دھارا ماضی سے مستقبل کی طرف بہتا اور کبھی الٹا۔ حال نہ جانے کہاں کھو گیا تھا۔ شاید میرا حال مجھے ماضی اور مستقبل دونوں سے زیادہ تاریک معلوم ہو رہا تھا۔ عجیب کیفیت تھی کہ روتے روتے مسکرا جاتا اور ہنستا تو کچھ دیر میں آنکھیں بھر آتیں۔ بہت ناآسودہ معلوم ہو رہی تھیں۔ یہ وہی آنکھیں تھیں جن میں کبھی بڑے بڑے سفینے اپنے ساحل سمیت ڈوب جایا کرتے تھے۔ نیم وا تھیں، یہ کہنا ٹھیک نہ ہو گا کہ میں مسلسل کسی تاریک کونے کو گھورنے کی کوشش کر رہا تھا۔ ہونٹ شاید سوکھ چکے تھے اس لیے کہ چاہتے ہوے بھی ان پر زبان نہیں رکھ سکتا تھا۔ اٹھنا چاہتا تھا لیکن یہ سوچ کر بیٹھا رہتا کہ اٹھ کر کیا کرنے کا ارادہ ہے؟ پھر وہیں سے دوبارہ تفکر کا سلسلہ شروع ہوتا اور میں ہر زنجیر کی مختلف کڑیوں کو جوڑنے میں محو ہو جاتا۔
ابھی مسجد کے گلدستے سے ازان کی بانگ نہیں گونجی تھی۔ ہوا کے ملایم تھپیڑے چہرے پر گرانی کر رہے تھے۔ نظریں اٹھ کر وہاں رک گئیں تھیں جہاں سے کچھ دیر میں میری خواہشوں کا تابوت اٹھنا تھا۔ غسل خانے کا دروازہ کھل گیا تھا اور دو یا شاید تین عورتیں بال بکھرائے اس سے سر ٹکراتی ہوئی باہر کی جانب نکل رہی تھیں۔ کچھ مرد بدرقہ کرتے ہوئے پیچھے آ رہے تھے اور تسلیت میں تعنوں کا زہر گھول کر انہیں پیش کر رہے تھے۔ کچھ لوگ اندر کی جانب جا رہے تھے اور کچھ ایسے تھے کہ باہر کھڑے ہاتھ ناک پر رکھے اندر سے آنے والی خوشبو سے بیزاری کا اظہار کر رہے تھے۔ ایک خاتون قریب آ کر کھڑی ہو گئی۔ سوال کیا کہ بیٹا کیسے ہو؟ ہم نے جواب میں سر ہلایا اور پھر خاموشی طاری ہو گئی۔ آنکھیں بیش از بہت اشک بہانے کا شکوہ کر رہی تھیں لیکن نیند کے اثار نمودار نہیں تھے۔ چہرہ بھی اندھیرے میں تمتما رہا تھا۔ اچانک قدموں میں جنبش پیدا ہوئی اور روانہ ہونے لگی، دوبارہ غسل خانے کی جانب۔ دو قدم ہی آگے کو گئی ہو گی کہ رک کر مڑے بغیر کہا، تم بھی دیکھ لو آ کر چہرہ، کوئی اعتراض نہیں کرے گا۔ اور پھر تیز قدموں سے غسل خانے کی جانب چلی گئی۔
مجھے اتنا سمجھ آیا کہ مجھ سے اندر جانے کو کہا گیا ہے۔ اٹھ کھڑا ہوا اور اسی خاتون کے پیچھے روانہ ہو گیا۔ معلوم نہیں تھا کیا کرنے جا رہا ہوں، کیوں جا رہا ہوں لیکن میں چلتا رہا۔ دروازے تک پہنچا تو کچھ تیکھی نظروں نے چھیڑا۔ مجھے یہ خیال بہت تکلیف دے رہا تھا کہ اس وقت سب لوگ میرے بارے میں کیا سوچ رہے ہیں۔ لیکن اپنے آپ کو میں اندر جانے سے نہ روک سکا اور غسل خانے کے صحن میں جا کھڑا ہوا۔ مرد بھی موجود تھے لیکن خواتین کی تعداد زیادہ تھی۔ بیری کا درخت بیچوں بیچ لہرا رہا تھا۔ اسی کے نیچے ایک تابوت میں میرا مستقبلِ نا ممکن بے حرکت تھا۔ قریب پہنچا تو مشام میں کافور کی بو نے کہرام مچا دیا۔ چہرہ دیکھتے ہی آنکھوں میں چبھ گیا۔ نقش اتنے مانوس تھے کہ محسوس ہوا آئینہ دیکھ رہا ہوں۔ جھکا تو آنسو امڈ پڑے۔ ٹکٹکی باندھ گئی اور آنسؤں نے پتھر آنکھوں میں سے راہ نکال لی۔ رکوع کی حالت میں ہاتھ تابوت پر رکھ کر رویا تو دو موتی اس کے چہرے پر گر گئے۔ کچھ دیر تو ایسا لگا کہ آنکھیں کھولنے کو ہی ہے۔ تصور دماغ پر قابض ہو گیا اور دیکھتے ہی دیکھتے میں عالم رویا میں نکل گیا۔ ہزار خیال برق کی سرعت کے ساتھ چھو کر گزر گئے۔ اتنا موقع ازان کی آواز نے نہ دیا کہ ہر بات پر ایک اشک ہی بہا لوں۔
پہلے کانوں میں ازان کی آواز گونجی اور پھر کاندھے پر کسی کا ہاتھ محسوس ہوا۔ کھڑا ہوا اور پھر اچانک فرش پر بیٹھ گیا۔ خاموشی ٹوٹ چکی تھی۔ اور لوگ کثیر تعداد میں اندر آ رہے تھے۔ چہرے پر سفید کپڑا ڈال دیا گیا اور جنازہ بات کی بات میں کاندھوں پر نظر آنے لگا۔ شاید مسلمان اس پر نماز پڑھنے کی تیار کر رہے تھے۔ وقت گزرا تو اپنے آپ کو بیری کے نیچے اکیلا پایا۔ اٹھا، اور دروازے کی جانب قدم اٹھائے۔ باہر نکل آیا تو دیکھا کہ جنازہ دور جا رہا ہے، مسجد کی طرف۔ میں مخالف سمت پر چلنے لگا، جہاں سورج افق سے آسمان کی جانب سفر کر رہا تھا۔
تفکر کی نسیم کبھی اندھیرے میں میرے سایے کو زیادہ کہرا کرنے والے، سر پر کھڑے درخت کو چھوتی کبھی خیالی پرندوں سے اٹھکھیلیاں کرتی۔ موضوع پر آنا چاہتی تو غسل خانے کے دروازے سے اندر کی جانب تجاوز نہ کرتی، پھر وہاں سے ہو کر کچھ خالی حجروں کی طرف نکل پڑتی۔ در و دیوار کو لمس کرتی اور پھر کالج کے باغ کی طرف نکل جاتی۔ کبھی کنگھن کا خیال آتا تو اس کے موتی بھی بجھی نظروں سے استقبال کرتے۔ ہر فکر ہر خیال کا دھارا ماضی سے مستقبل کی طرف بہتا اور کبھی الٹا۔ حال نہ جانے کہاں کھو گیا تھا۔ شاید میرا حال مجھے ماضی اور مستقبل دونوں سے زیادہ تاریک معلوم ہو رہا تھا۔ عجیب کیفیت تھی کہ روتے روتے مسکرا جاتا اور ہنستا تو کچھ دیر میں آنکھیں بھر آتیں۔ بہت ناآسودہ معلوم ہو رہی تھیں۔ یہ وہی آنکھیں تھیں جن میں کبھی بڑے بڑے سفینے اپنے ساحل سمیت ڈوب جایا کرتے تھے۔ نیم وا تھیں، یہ کہنا ٹھیک نہ ہو گا کہ میں مسلسل کسی تاریک کونے کو گھورنے کی کوشش کر رہا تھا۔ ہونٹ شاید سوکھ چکے تھے اس لیے کہ چاہتے ہوے بھی ان پر زبان نہیں رکھ سکتا تھا۔ اٹھنا چاہتا تھا لیکن یہ سوچ کر بیٹھا رہتا کہ اٹھ کر کیا کرنے کا ارادہ ہے؟ پھر وہیں سے دوبارہ تفکر کا سلسلہ شروع ہوتا اور میں ہر زنجیر کی مختلف کڑیوں کو جوڑنے میں محو ہو جاتا۔
ابھی مسجد کے گلدستے سے ازان کی بانگ نہیں گونجی تھی۔ ہوا کے ملایم تھپیڑے چہرے پر گرانی کر رہے تھے۔ نظریں اٹھ کر وہاں رک گئیں تھیں جہاں سے کچھ دیر میں میری خواہشوں کا تابوت اٹھنا تھا۔ غسل خانے کا دروازہ کھل گیا تھا اور دو یا شاید تین عورتیں بال بکھرائے اس سے سر ٹکراتی ہوئی باہر کی جانب نکل رہی تھیں۔ کچھ مرد بدرقہ کرتے ہوئے پیچھے آ رہے تھے اور تسلیت میں تعنوں کا زہر گھول کر انہیں پیش کر رہے تھے۔ کچھ لوگ اندر کی جانب جا رہے تھے اور کچھ ایسے تھے کہ باہر کھڑے ہاتھ ناک پر رکھے اندر سے آنے والی خوشبو سے بیزاری کا اظہار کر رہے تھے۔ ایک خاتون قریب آ کر کھڑی ہو گئی۔ سوال کیا کہ بیٹا کیسے ہو؟ ہم نے جواب میں سر ہلایا اور پھر خاموشی طاری ہو گئی۔ آنکھیں بیش از بہت اشک بہانے کا شکوہ کر رہی تھیں لیکن نیند کے اثار نمودار نہیں تھے۔ چہرہ بھی اندھیرے میں تمتما رہا تھا۔ اچانک قدموں میں جنبش پیدا ہوئی اور روانہ ہونے لگی، دوبارہ غسل خانے کی جانب۔ دو قدم ہی آگے کو گئی ہو گی کہ رک کر مڑے بغیر کہا، تم بھی دیکھ لو آ کر چہرہ، کوئی اعتراض نہیں کرے گا۔ اور پھر تیز قدموں سے غسل خانے کی جانب چلی گئی۔
مجھے اتنا سمجھ آیا کہ مجھ سے اندر جانے کو کہا گیا ہے۔ اٹھ کھڑا ہوا اور اسی خاتون کے پیچھے روانہ ہو گیا۔ معلوم نہیں تھا کیا کرنے جا رہا ہوں، کیوں جا رہا ہوں لیکن میں چلتا رہا۔ دروازے تک پہنچا تو کچھ تیکھی نظروں نے چھیڑا۔ مجھے یہ خیال بہت تکلیف دے رہا تھا کہ اس وقت سب لوگ میرے بارے میں کیا سوچ رہے ہیں۔ لیکن اپنے آپ کو میں اندر جانے سے نہ روک سکا اور غسل خانے کے صحن میں جا کھڑا ہوا۔ مرد بھی موجود تھے لیکن خواتین کی تعداد زیادہ تھی۔ بیری کا درخت بیچوں بیچ لہرا رہا تھا۔ اسی کے نیچے ایک تابوت میں میرا مستقبلِ نا ممکن بے حرکت تھا۔ قریب پہنچا تو مشام میں کافور کی بو نے کہرام مچا دیا۔ چہرہ دیکھتے ہی آنکھوں میں چبھ گیا۔ نقش اتنے مانوس تھے کہ محسوس ہوا آئینہ دیکھ رہا ہوں۔ جھکا تو آنسو امڈ پڑے۔ ٹکٹکی باندھ گئی اور آنسؤں نے پتھر آنکھوں میں سے راہ نکال لی۔ رکوع کی حالت میں ہاتھ تابوت پر رکھ کر رویا تو دو موتی اس کے چہرے پر گر گئے۔ کچھ دیر تو ایسا لگا کہ آنکھیں کھولنے کو ہی ہے۔ تصور دماغ پر قابض ہو گیا اور دیکھتے ہی دیکھتے میں عالم رویا میں نکل گیا۔ ہزار خیال برق کی سرعت کے ساتھ چھو کر گزر گئے۔ اتنا موقع ازان کی آواز نے نہ دیا کہ ہر بات پر ایک اشک ہی بہا لوں۔
پہلے کانوں میں ازان کی آواز گونجی اور پھر کاندھے پر کسی کا ہاتھ محسوس ہوا۔ کھڑا ہوا اور پھر اچانک فرش پر بیٹھ گیا۔ خاموشی ٹوٹ چکی تھی۔ اور لوگ کثیر تعداد میں اندر آ رہے تھے۔ چہرے پر سفید کپڑا ڈال دیا گیا اور جنازہ بات کی بات میں کاندھوں پر نظر آنے لگا۔ شاید مسلمان اس پر نماز پڑھنے کی تیار کر رہے تھے۔ وقت گزرا تو اپنے آپ کو بیری کے نیچے اکیلا پایا۔ اٹھا، اور دروازے کی جانب قدم اٹھائے۔ باہر نکل آیا تو دیکھا کہ جنازہ دور جا رہا ہے، مسجد کی طرف۔ میں مخالف سمت پر چلنے لگا، جہاں سورج افق سے آسمان کی جانب سفر کر رہا تھا۔
آخری تدوین: