"افق کا سفر"

آسمان پر بےرغبتی سے مفت چاندنی لٹا کر تھکا ہوا چاند اب بجھی بجھی نظروں سے کراچی کی دھندلی سڑکوں کو تک رہا تھا۔ فضا میں گہرا سکوت کچھ گھنٹوں پہلے کی ہیاہو میں دب جانے والی آہ و بکا کی چغلی کھانے میں مصروف، غسل خانے کے دروازے پر دو چپ چاپ ٹہلنے والوں کو چھو چھو کر گزر رہا تھا کہ لکڑی کے دروازے کے وقفے سے کھل بند ہونے کی وجہ سے پیدا ہونے والی چوں چوں نے خلل ڈالنا چاہا۔ لیکن وہ اسی کھا جانے والی خاموشی کا حصہ معلوم ہو رہی تھی۔ نزدیک جانے کی ہمت نہیں پڑ رہی تھی۔ دور ہی بیٹھا کچھ سوچنے کا ڈرامہ کر رہا تھا۔ نہ جانے اس اکیلے پن میں کس کو دکھا رہا تھا یا محض خود کو دھوکا دینے کی کوشش تھی۔ ایسی بہت باتیں تھیں جن کے بارے میں مجھے اس وقت سوچنا تھا لیکن مجال ہے جو کچھ لمحوں سے زیادہ کسی موضوع پر فکر مرکوز ہوئی ہو۔
تفکر کی نسیم کبھی اندھیرے میں میرے سایے کو زیادہ کہرا کرنے والے، سر پر کھڑے درخت کو چھوتی کبھی خیالی پرندوں سے اٹھکھیلیاں کرتی۔ موضوع پر آنا چاہتی تو غسل خانے کے دروازے سے اندر کی جانب تجاوز نہ کرتی، پھر وہاں سے ہو کر کچھ خالی حجروں کی طرف نکل پڑتی۔ در و دیوار کو لمس کرتی اور پھر کالج کے باغ کی طرف نکل جاتی۔ کبھی کنگھن کا خیال آتا تو اس کے موتی بھی بجھی نظروں سے استقبال کرتے۔ ہر فکر ہر خیال کا دھارا ماضی سے مستقبل کی طرف بہتا اور کبھی الٹا۔ حال نہ جانے کہاں کھو گیا تھا۔ شاید میرا حال مجھے ماضی اور مستقبل دونوں سے زیادہ تاریک معلوم ہو رہا تھا۔ عجیب کیفیت تھی کہ روتے روتے مسکرا جاتا اور ہنستا تو کچھ دیر میں آنکھیں بھر آتیں۔ بہت ناآسودہ معلوم ہو رہی تھیں۔ یہ وہی آنکھیں تھیں جن میں کبھی بڑے بڑے سفینے اپنے ساحل سمیت ڈوب جایا کرتے تھے۔ نیم وا تھیں، یہ کہنا ٹھیک نہ ہو گا کہ میں مسلسل کسی تاریک کونے کو گھورنے کی کوشش کر رہا تھا۔ ہونٹ شاید سوکھ چکے تھے اس لیے کہ چاہتے ہوے بھی ان پر زبان نہیں رکھ سکتا تھا۔ اٹھنا چاہتا تھا لیکن یہ سوچ کر بیٹھا رہتا کہ اٹھ کر کیا کرنے کا ارادہ ہے؟ پھر وہیں سے دوبارہ تفکر کا سلسلہ شروع ہوتا اور میں ہر زنجیر کی مختلف کڑیوں کو جوڑنے میں محو ہو جاتا۔
ابھی مسجد کے گلدستے سے ازان کی بانگ نہیں گونجی تھی۔ ہوا کے ملایم تھپیڑے چہرے پر گرانی کر رہے تھے۔ نظریں اٹھ کر وہاں رک گئیں تھیں جہاں سے کچھ دیر میں میری خواہشوں کا تابوت اٹھنا تھا۔ غسل خانے کا دروازہ کھل گیا تھا اور دو یا شاید تین عورتیں بال بکھرائے اس سے سر ٹکراتی ہوئی باہر کی جانب نکل رہی تھیں۔ کچھ مرد بدرقہ کرتے ہوئے پیچھے آ رہے تھے اور تسلیت میں تعنوں کا زہر گھول کر انہیں پیش کر رہے تھے۔ کچھ لوگ اندر کی جانب جا رہے تھے اور کچھ ایسے تھے کہ باہر کھڑے ہاتھ ناک پر رکھے اندر سے آنے والی خوشبو سے بیزاری کا اظہار کر رہے تھے۔ ایک خاتون قریب آ کر کھڑی ہو گئی۔ سوال کیا کہ بیٹا کیسے ہو؟ ہم نے جواب میں سر ہلایا اور پھر خاموشی طاری ہو گئی۔ آنکھیں بیش از بہت اشک بہانے کا شکوہ کر رہی تھیں لیکن نیند کے اثار نمودار نہیں تھے۔ چہرہ بھی اندھیرے میں تمتما رہا تھا۔ اچانک قدموں میں جنبش پیدا ہوئی اور روانہ ہونے لگی، دوبارہ غسل خانے کی جانب۔ دو قدم ہی آگے کو گئی ہو گی کہ رک کر مڑے بغیر کہا، تم بھی دیکھ لو آ کر چہرہ، کوئی اعتراض نہیں کرے گا۔ اور پھر تیز قدموں سے غسل خانے کی جانب چلی گئی۔
مجھے اتنا سمجھ آیا کہ مجھ سے اندر جانے کو کہا گیا ہے۔ اٹھ کھڑا ہوا اور اسی خاتون کے پیچھے روانہ ہو گیا۔ معلوم نہیں تھا کیا کرنے جا رہا ہوں، کیوں جا رہا ہوں لیکن میں چلتا رہا۔ دروازے تک پہنچا تو کچھ تیکھی نظروں نے چھیڑا۔ مجھے یہ خیال بہت تکلیف دے رہا تھا کہ اس وقت سب لوگ میرے بارے میں کیا سوچ رہے ہیں۔ لیکن اپنے آپ کو میں اندر جانے سے نہ روک سکا اور غسل خانے کے صحن میں جا کھڑا ہوا۔ مرد بھی موجود تھے لیکن خواتین کی تعداد زیادہ تھی۔ بیری کا درخت بیچوں بیچ لہرا رہا تھا۔ اسی کے نیچے ایک تابوت میں میرا مستقبلِ نا ممکن بے حرکت تھا۔ قریب پہنچا تو مشام میں کافور کی بو نے کہرام مچا دیا۔ چہرہ دیکھتے ہی آنکھوں میں چبھ گیا۔ نقش اتنے مانوس تھے کہ محسوس ہوا آئینہ دیکھ رہا ہوں۔ جھکا تو آنسو امڈ پڑے۔ ٹکٹکی باندھ گئی اور آنسؤں نے پتھر آنکھوں میں سے راہ نکال لی۔ رکوع کی حالت میں ہاتھ تابوت پر رکھ کر رویا تو دو موتی اس کے چہرے پر گر گئے۔ کچھ دیر تو ایسا لگا کہ آنکھیں کھولنے کو ہی ہے۔ تصور دماغ پر قابض ہو گیا اور دیکھتے ہی دیکھتے میں عالم رویا میں نکل گیا۔ ہزار خیال برق کی سرعت کے ساتھ چھو کر گزر گئے۔ اتنا موقع ازان کی آواز نے نہ دیا کہ ہر بات پر ایک اشک ہی بہا لوں۔
پہلے کانوں میں ازان کی آواز گونجی اور پھر کاندھے پر کسی کا ہاتھ محسوس ہوا۔ کھڑا ہوا اور پھر اچانک فرش پر بیٹھ گیا۔ خاموشی ٹوٹ چکی تھی۔ اور لوگ کثیر تعداد میں اندر آ رہے تھے۔ چہرے پر سفید کپڑا ڈال دیا گیا اور جنازہ بات کی بات میں کاندھوں پر نظر آنے لگا۔ شاید مسلمان اس پر نماز پڑھنے کی تیار کر رہے تھے۔ وقت گزرا تو اپنے آپ کو بیری کے نیچے اکیلا پایا۔ اٹھا، اور دروازے کی جانب قدم اٹھائے۔ باہر نکل آیا تو دیکھا کہ جنازہ دور جا رہا ہے، مسجد کی طرف۔ میں مخالف سمت پر چلنے لگا، جہاں سورج افق سے آسمان کی جانب سفر کر رہا تھا۔
 
آخری تدوین:

نیرنگ خیال

لائبریرین
میاں بہت ہی خوب لکھا ہے۔۔۔ پر زیادہ تبصرہ نہ کریں گے کہ ہم جانتے ہیں اس کا محرک کیا ہے۔۔۔ اللہ تمہیں شاد رکھے۔
 
میاں بہت ہی خوب لکھا ہے۔۔۔ پر زیادہ تبصرہ نہ کریں گے کہ ہم جانتے ہیں اس کا محرک کیا ہے۔۔۔ اللہ تمہیں شاد رکھے۔
جناب من خدا آپ کو سلامت رکھے۔ لیکن ہر تحریر کا محرک کچھ نہ کچھ ہوتا ہے، ہماری غرض اپنی اصلاح ہے اسے یہاں ارسال کرنے سے۔ آپ ماشاءاللہ خود لکھاری ہیں بہت اچھے تو آپ سے بہتر کون عیوب تحریر سے واقف ہوگا؟ یوں بے سود نہ چھوڑیے۔
 
برادرم نقوی، کیا ہی خوب لکھتے ہیں آپ۔ قلم میں "روشنائی" ڈال کر لکھتے ہیں یا پھر "رو-شنائی"؟ بھئی آپ کی قوت تحریر اور لغات پر گرفت پر کسے کلام ہو سکتا ہے، لہٰذا اصلاح کی اصطلاح ہی بے محل ہے۔ ہاں ذیل میں کچھ پروف ریڈنگ جیسے نوٹ لکھ رہے ہیں جن میں کچھ تو املا کی عمومی اغلاط ہیں اور کچھ سوالات بھی ہیں تا کہ ہم کچھ سیکھ سکیں۔ :) :) :)
  • ہیاہو: یہ شاید دو الفاظ ہیں ہیا اور ہو لہٰذا درمیان میں خلا ہونا چاہیے۔ :) :) :)
  • "سکوت کا کسی فرد کو چھو کر گزرنا" تھوڑا مبہم لگتا ہے۔ آواز بھی فرد کو نہیں بلکہ افراد کی سماعتوں کو چھوتی ہے لہٰذا اسی کے مثل سکوت کا ہدف بھی کچھ زیادہ واضح ہو تو بہتر ہوگا۔ :) :) :)
  • کھل بند ہونے: یہ شاید "کھلنے اور بند ہونے" لکھنے کی کوشش کی ہے آپ نے۔ :) :) :)
  • "خلل ڈالنا چاہا۔" اس کے بعد والا فقرہ دیکھ کر لگتا ہے کہ یہاں فل اسٹاپ کا نہیں بلکہ کاما کا محل تھا۔ رموز اوقاف کے مسائل پوری تحریر میں کئی مقامات پر موجود ہیں ان پر نظر ثانی کر لیں تو بہتر ہو گا۔ :) :) :)
  • تفکر کی نسیم: تفکر کی نسیم کو نسیمِ تفکر کر لیں تو فقرہ زیادہ چست محسوس ہوگا۔ :) :) :)
  • سایے: درست املا "سائے" ہوگا۔ :) :) :)
  • کہرا: یہاں شاید "گہرا" لکھنا چاہا ہے۔ :) :) :)
  • اندھیرے میں سایہ بننے والی تشبیہ بہت ہی مبہم ہے اور منطقی اعتبار سے مشاہدات کی ضد بھی۔ اس پر طرہ یہ کہ آپ نے ایک درخت کی مدد سے اس اندھیرے کو مزید گہرا کیا ہے لیکن کہا یہ ہے کہ سایہ مزید گہرا ہو گیا۔۔۔ سمجھ سکتے ہیں بچو جی کہ کیا انڈیلنے کی کوشش ہو رہی ہے۔ :) :) :)
  • اٹھکھیلیاں: درست املا غالباً "اٹکھیلیاں" ہوتا ہے، ممکن ہے ایسا بھی ہوتا ہو۔ :) :) :)
  • لمس کرتی: لمس پانا پڑھا ہے لیکن لمس کرنا ذرا اجنبی محسوس ہو رہا ہے، لیکن مہدی بھائی نے استعمال کیا ہے تو ممکن ہے درست ہی ہو۔ :) :) :)
  • کنگھن: یہ کون سا لفظ ہے؟ کنگھی یا کنگن تو نہیں؟ لیکن ان الفاظ کا اس فقرے میں محل نہیں لگتا پھر کسی موتی کا بھی ذکر ہے۔ ممکن ہے کہ کچھ اور ہی ہو جو ہمیں معلوم نہیں۔ :) :) :)
  • دھارا بہتا: شاید دھارا مؤنث ہے۔ :) :) :)
  • مسکرا جاتا: مسکرا اٹھتا، مسکرا پڑتا، یا مسکرا دیتا پڑھا ہے، مسکرا جاتا نہیں۔ (ویسے بھی مسکان پر تو ہماری اتھارٹی ہے!) :) :) :)
  • بہت ناآسودہ معلوم ہو رہی تھیں: اس میں واضح نہیں ہے کہ مخفی ضمیر آنکھوں کی جانب راجع ہے۔ اس فقرے میں وضاحت ہو جائے تو آگے کے فقروں کا ابہام بھی جاتا رہے گا۔ :) :) :)
  • نیم وا تھیں،: یہاں کاما کا محل نہیں تھا بلکہ فل اسٹاپ زیادہ موزوں ہوتا۔ :) :) :)
  • ہوے: درست املا "ہوئے" ہوگا۔ :) :) :)
  • مسجد کے گلدستے سے ازان کی بانگ: مسجد کی شبیہ کی گلدستے سے تشبیہ خوب ہے اور اذان کی بانگ والی ترکیب بھی خوب لیکن کسی گلدستے سے بانگ کا تعلق جوڑنا ذرا اجنبی سا ہے۔ اور اذان کی املا بھی درست کرنے کی ضرورت ہے۔ :) :) :)
  • ملایم: درست املا "ملائم" ہوگا۔ :) :) :)
  • تھپیڑے چہرے پر گرانی کر رہے تھے: گرانی کرنا یہاں کن معنوں میں مستعمل ہے؟ :) :) :)
  • رک گئیں تھیں: "تھیں" کی موجودگی میں "گئی" لکھا جانا چاہیے۔ :) :) :)
  • بدرقہ کرنا: بدرقہ تو سمجھ میں آتا ہے، کیا بدرقہ کیا بھی جاتا ہے؟ اول تو یہ لفظ اردو میں بہت زیادہ مستعمل نہیں لہٰذا یہ سمجھ میں نہیں آرہا کہ اس کو فعل بنانے کے لیے اس کے ساتھ کیا استعمال کیا جانا چاہیے۔ لیکن مہدی بھائی لکھتے ہیں تو ایسے ہی ٹھیک ہوگا۔ :) :) :)
  • تعنوں: تسلیت تو معلوم تھا لیکن تعنوں کیا ہے یہ ہم نہیں جانتے اس لیے اس کا مطلب پوچھنا مقصود ہے۔ :) :) :)
  • آنکھیں بیش از بہت: فارسی ترکیب ہی بنانی ہے ہے تو بیش از بسیار کر لیں۔ :) :) :)
  • اثار نمودار نہیں تھے: "آثار نمودار نہیں ہوئے تھے" کرنے کے بارے میں کیا خیال ہے؟ :) :) :)
  • تیکھی نظروں نے چھیڑا: اس فقرے میں چھیڑنا لفظ کچھ با معنی نہیں لگا۔ شاید تیکھی نظریں چبھیں، یا چھیدا جیسا کچھ زیادہ موزوں ہوتا۔ :) :) :)
  • غسل خانے کے صحن میں: غسل خانے میں بھی صحن؟ :) :) :)
  • مستقبلِ نا ممکن: یہ ترکیب کچھ زیادہ مبہم نہیں لگتی؟ یہاں نا ممکن مستقبل سے کیا مراد ہے؟ :) :) :)
  • ٹکٹکی باندھ گئی: "بندھ" ہونا چاہیے شاید۔ :) :) :)
  • ہزار خیال: ہزار ایک متعین عدد ہے، اس کے بجائے کثرت کے اظہار کے لیے "ہزارہا" یا "صدہا" کا استعمال کیا جا سکتا ہے۔ :) :) :)
  • مخالف سمت پر: جس فقرے میں استعمال ہوا ہے وہاں شاید "پر" کی جگہ "میں" زیادہ موزوں ہو۔ :) :) :)
ویسے یہ تو طے ہے کہ ثقیل گوئی کے باوجود مہدی بھائی کی تحریریں بہت ہی سحر انگیز ہوتی ہیں۔ :) :) :)
 
برادرم نقوی، کیا ہی خوب لکھتے ہیں آپ۔ قلم میں "روشنائی" ڈال کر لکھتے ہیں یا پھر "رو-شنائی"؟ بھئی آپ کی قوت تحریر اور لغات پر گرفت پر کسے کلام ہو سکتا ہے، لہٰذا اصلاح کی اصطلاح ہی بے محل ہے۔ ہاں ذیل میں کچھ پروف ریڈنگ جیسے نوٹ لکھ رہے ہیں جن میں کچھ تو املا کی عمومی اغلاط ہیں اور کچھ سوالات بھی ہیں تا کہ ہم کچھ سیکھ سکیں۔ :) :) :)
  • ہیاہو: یہ شاید دو الفاظ ہیں ہیا اور ہو لہٰذا درمیان میں خلا ہونا چاہیے۔ :) :) :)
  • "سکوت کا کسی فرد کو چھو کر گزرنا" تھوڑا مبہم لگتا ہے۔ آواز بھی فرد کو نہیں بلکہ افراد کی سماعتوں کو چھوتی ہے لہٰذا اسی کے مثل سکوت کا ہدف بھی کچھ زیادہ واضح ہو تو بہتر ہوگا۔ :) :) :)
  • کھل بند ہونے: یہ شاید "کھلنے اور بند ہونے" لکھنے کی کوشش کی ہے آپ نے۔ :) :) :)
  • "خلل ڈالنا چاہا۔" اس کے بعد والا فقرہ دیکھ کر لگتا ہے کہ یہاں فل اسٹاپ کا نہیں بلکہ کاما کا محل تھا۔ رموز اوقاف کے مسائل پوری تحریر میں کئی مقامات پر موجود ہیں ان پر نظر ثانی کر لیں تو بہتر ہو گا۔ :) :) :)
  • تفکر کی نسیم: تفکر کی نسیم کو نسیمِ تفکر کر لیں تو فقرہ زیادہ چست محسوس ہوگا۔ :) :) :)
  • سایے: درست املا "سائے" ہوگا۔ :) :) :)
  • کہرا: یہاں شاید "گہرا" لکھنا چاہا ہے۔ :) :) :)
  • اندھیرے میں سایہ بننے والی تشبیہ بہت ہی مبہم ہے اور منطقی اعتبار سے مشاہدات کی ضد بھی۔ اس پر طرہ یہ کہ آپ نے ایک درخت کی مدد سے اس اندھیرے کو مزید گہرا کیا ہے لیکن کہا یہ ہے کہ سایہ مزید گہرا ہو گیا۔۔۔ سمجھ سکتے ہیں بچو جی کہ کیا انڈیلنے کی کوشش ہو رہی ہے۔ :) :) :)
  • اٹھکھیلیاں: درست املا غالباً "اٹکھیلیاں" ہوتا ہے، ممکن ہے ایسا بھی ہوتا ہو۔ :) :) :)
  • لمس کرتی: لمس پانا پڑھا ہے لیکن لمس کرنا ذرا اجنبی محسوس ہو رہا ہے، لیکن مہدی بھائی نے استعمال کیا ہے تو ممکن ہے درست ہی ہو۔ :) :) :)
  • کنگھن: یہ کون سا لفظ ہے؟ کنگھی یا کنگن تو نہیں؟ لیکن ان الفاظ کا اس فقرے میں محل نہیں لگتا پھر کسی موتی کا بھی ذکر ہے۔ ممکن ہے کہ کچھ اور ہی ہو جو ہمیں معلوم نہیں۔ :) :) :)
  • دھارا بہتا: شاید دھارا مؤنث ہے۔ :) :) :)
  • مسکرا جاتا: مسکرا اٹھتا، مسکرا پڑتا، یا مسکرا دیتا پڑھا ہے، مسکرا جاتا نہیں۔ (ویسے بھی مسکان پر تو ہماری اتھارٹی ہے!) :) :) :)
  • بہت ناآسودہ معلوم ہو رہی تھیں: اس میں واضح نہیں ہے کہ مخفی ضمیر آنکھوں کی جانب راجع ہے۔ اس فقرے میں وضاحت ہو جائے تو آگے کے فقروں کا ابہام بھی جاتا رہے گا۔ :) :) :)
  • نیم وا تھیں،: یہاں کاما کا محل نہیں تھا بلکہ فل اسٹاپ زیادہ موزوں ہوتا۔ :) :) :)
  • ہوے: درست املا "ہوئے" ہوگا۔ :) :) :)
  • مسجد کے گلدستے سے ازان کی بانگ: مسجد کی شبیہ کی گلدستے سے تشبیہ خوب ہے اور اذان کی بانگ والی ترکیب بھی خوب لیکن کسی گلدستے سے بانگ کا تعلق جوڑنا ذرا اجنبی سا ہے۔ اور اذان کی املا بھی درست کرنے کی ضرورت ہے۔ :) :) :)
  • ملایم: درست املا "ملائم" ہوگا۔ :) :) :)
  • تھپیڑے چہرے پر گرانی کر رہے تھے: گرانی کرنا یہاں کن معنوں میں مستعمل ہے؟ :) :) :)
  • رک گئیں تھیں: "تھیں" کی موجودگی میں "گئی" لکھا جانا چاہیے۔ :) :) :)
  • بدرقہ کرنا: بدرقہ تو سمجھ میں آتا ہے، کیا بدرقہ کیا بھی جاتا ہے؟ اول تو یہ لفظ اردو میں بہت زیادہ مستعمل نہیں لہٰذا یہ سمجھ میں نہیں آرہا کہ اس کو فعل بنانے کے لیے اس کے ساتھ کیا استعمال کیا جانا چاہیے۔ لیکن مہدی بھائی لکھتے ہیں تو ایسے ہی ٹھیک ہوگا۔ :) :) :)
  • تعنوں: تسلیت تو معلوم تھا لیکن تعنوں کیا ہے یہ ہم نہیں جانتے اس لیے اس کا مطلب پوچھنا مقصود ہے۔ :) :) :)
  • آنکھیں بیش از بہت: فارسی ترکیب ہی بنانی ہے ہے تو بیش از بسیار کر لیں۔ :) :) :)
  • اثار نمودار نہیں تھے: "آثار نمودار نہیں ہوئے تھے" کرنے کے بارے میں کیا خیال ہے؟ :) :) :)
  • تیکھی نظروں نے چھیڑا: اس فقرے میں چھیڑنا لفظ کچھ با معنی نہیں لگا۔ شاید تیکھی نظریں چبھیں، یا چھیدا جیسا کچھ زیادہ موزوں ہوتا۔ :) :) :)
  • غسل خانے کے صحن میں: غسل خانے میں بھی صحن؟ :) :) :)
  • مستقبلِ نا ممکن: یہ ترکیب کچھ زیادہ مبہم نہیں لگتی؟ یہاں نا ممکن مستقبل سے کیا مراد ہے؟ :) :) :)
  • ٹکٹکی باندھ گئی: "بندھ" ہونا چاہیے شاید۔ :) :) :)
  • ہزار خیال: ہزار ایک متعین عدد ہے، اس کے بجائے کثرت کے اظہار کے لیے "ہزارہا" یا "صدہا" کا استعمال کیا جا سکتا ہے۔ :) :) :)
  • مخالف سمت پر: جس فقرے میں استعمال ہوا ہے وہاں شاید "پر" کی جگہ "میں" زیادہ موزوں ہو۔ :) :) :)
ویسے یہ تو طے ہے کہ ثقیل گوئی کے باوجود مہدی بھائی کی تحریریں بہت ہی سحر انگیز ہوتی ہیں۔ :) :) :)
کاش میری تحریروں کو بھی اتنی باریکی سے دیکھتے ابن سعید بھائی جان -----
 
کاش میری تحریروں کو بھی اتنی باریکی سے دیکھتے ابن سعید بھائی جان -----
پیارے اتنا وقت نہیں ہوتا ہے عموماً۔ وہ تو ابھی گھر پر تھے اور جمعہ کی تیاری میں کچھ وقت تھا تو شغل کر لیا۔ اب آپ کی خوش قسمتی کہ اس کا نشانہ آپ کی کوئی تحریر نہ بنی۔ ویسے بھی سیکھنے کے لیے ضروری تو نہیں کہ اپنی ہی تحریر پر تبصرے سے سیکھا جائے۔ :) :) :)
 
درد میں ڈوبی ایک پر تاثیر تحریر ،جو پڑھنے والے کو اپنی گرفت میں لے لیتی ہے ،اور پڑھنے والا لکھنے والے اور لکھے جانے والے کے بارے میں سوچ کر تھوڑی دیر کو ٹھٹک جاتا ہے ۔
اور پھر خود بھی آنسو بہائے بغیر نہیں رہ سکتا۔
حجاز بھائی!
ہم سارے محفلین آپ کے غم میں برابر کے شریک ہیں ۔
چونکہ اس سے پہلے بھی میں آپ کی نظم پڑھ چکا ہوں اس لئے کچھ کہنے کی پوزیشن میں نہیں ،بس خدا وند سے صبر کے لئے دعاگو ہوں۔
یہ آپ ہی کا جگر ہے کہ ایسے واقعات کو بھی انمول موتی کے نگینوں میں پرو دیتے ہیں ۔
میں تو بس علامہ اقبال کی زبان میں یہی کہہ سکتا ہوں " آسماں تیری (اسکی) لحد پر شبنم افشانی کرے"
اللہ آپ کو ہمت و حوصلہ دے ----
میری جانب سے ڈھیروں دعائیں ------
:sad::sad:
 
آخری تدوین:
پیارے اتنا وقت نہیں ہوتا ہے عموماً۔ وہ تو ابھی گھر پر تھے اور جمعہ کی تیاری میں کچھ وقت تھا تو شغل کر لیا۔ اب آپ کی خوش قسمتی کہ اس کا نشانہ آپ کی کوئی تحریر نہ بنی۔ ویسے بھی سیکھنے کے لیے ضروری تو نہیں کہ اپنی ہی تحریر پر تبصرے سے سیکھا جائے۔ :) :) :)
لیکن آپ نے کبھی میری کسی تحریر پر کوئی تبصرہ نہیں کیا اس لئے مجھے تکلیف تو ہوئی ۔ریٹنگ سے کیا ہوتا ہے ۔غلطیوں کی نشاندہی کریں گے تو سیکھوں گا نا ۔ایسے آپ نے درست کہا سیکھنے کے لئے کسی کی بھی تحریر ہو انسان سیکھ سکتا ہے ۔ہم واقعی بہت خوش قسمت ہیں کہ محفل میں اتنے مشفق اور مہربان لوگ ملے ۔للہ سب کا سایہ تادیر قائم رکھے ۔اور سب کو ہمت ،طاقت اور حوصلہ دے ۔
 
لیکن آپ نے کبھی میری کسی تحریر پر کوئی تبصرہ نہیں کیا اس لئے مجھے تکلیف تو ہوئی ۔ریٹنگ سے کیا ہوتا ہے ۔غلطیوں کی نشاندہی کریں گے تو سیکھوں گا نا ۔ایسے آپ نے درست کہا سیکھنے کے لئے کسی کی بھی تحریر ہو انسان سیکھ سکتا ہے ۔ہم واقعی بہت خوش قسمت ہیں کہ محفل میں اتنے مشفق اور مہربان لوگ ملے ۔للہ سب کا سایہ تادیر قائم رکھے ۔اور سب کو ہمت ،طاقت اور حوصلہ دے ۔
ہا ہا ہا، پیارے، آپ کی شکایت بجا ہے اور اس میں جو محبت چھپی ہے وہ سر آنکھوں پر۔ ویسے یہ شکایت صرف آپ کو ہی نہیں بلکہ بے شمار احباب کو ہے۔ کچھ تو ہمیں مغرور تک سمجھ لیتے ہیں۔ :) :) :)
 
ہا ہا ہا، پیارے، آپ کی شکایت بجا ہے اور اس میں جو محبت چھپی ہے وہ سر آنکھوں پر۔ ویسے یہ شکایت صرف آپ کو ہی نہیں بلکہ بے شمار احباب کو ہے۔ کچھ تو ہمیں مغرور تک سمجھ لیتے ہیں۔ :) :) :)
نعوذ باللہ ہم توایسا نہیں سمجھتے ۔
اپنوں کو بھلا کوئی ایسا نہیں کہہ سکتا ،اور اگر کسی نے سمجھا تو اسے بھی محبت ہی سمجھئے:(
 

زبیر مرزا

محفلین
ہا ہا ہا، پیارے، آپ کی شکایت بجا ہے اور اس میں جو محبت چھپی ہے وہ سر آنکھوں پر۔ ویسے یہ شکایت صرف آپ کو ہی نہیں بلکہ بے شمار احباب کو ہے۔ کچھ تو ہمیں مغرور تک سمجھ لیتے ہیں۔ :) :) :)
اچھا ایسے بھی لوگ ہیں ؎:surprise: چلیں کسی دن آپ کو تنگ کرنا ہوا تو ان کی ہاں میں ہاں ملائیں گے :p
 

نایاب

لائبریرین
بہت کٹھن سفر کی داستان ہے ۔
کئی بار پڑھی ۔ بہت بھاری لگی سوچ و خیال پہ ۔۔۔۔۔
بہت دعائیں مہدی بھائی ۔ اللہ آپ کے لیئے آسانی پیدا فرمائے آمین
 
برادرم نقوی، کیا ہی خوب لکھتے ہیں آپ۔ قلم میں "روشنائی" ڈال کر لکھتے ہیں یا پھر "رو-شنائی"؟ بھئی آپ کی قوت تحریر اور لغات پر گرفت پر کسے کلام ہو سکتا ہے، لہٰذا اصلاح کی اصطلاح ہی بے محل ہے۔ ہاں ذیل میں کچھ پروف ریڈنگ جیسے نوٹ لکھ رہے ہیں جن میں کچھ تو املا کی عمومی اغلاط ہیں اور کچھ سوالات بھی ہیں تا کہ ہم کچھ سیکھ سکیں۔ :) :) :)

  • ہیاہو: یہ شاید دو الفاظ ہیں ہیا اور ہو لہٰذا درمیان میں خلا ہونا چاہیے۔ :) :) :)
  • متفق
  • "سکوت کا کسی فرد کو چھو کر گزرنا" تھوڑا مبہم لگتا ہے۔ آواز بھی فرد کو نہیں بلکہ افراد کی سماعتوں کو چھوتی ہے لہٰذا اسی کے مثل سکوت کا ہدف بھی کچھ زیادہ واضح ہو تو بہتر ہوگا۔ :) :) :)
  • وضاحت کسی مقام پر تحریر کا ضعف بھی بن جاتی ہے۔ میراجی نے "میراجی کی نظمیں" میں لکھا ہے کہ: بہت سے لوگ سمجھتے ہیں کہ میں صرف مگھم بات کہنے کا عادی ہوں لیکن ذرا سا تفکر انہیں سمجھا سکتا ہے کہ اور باتوں کی طرح ابہام بھی ایک اضافی تصور ہے۔ ابہام در اصل ہمارے سمجھنے میں ہوتا ہے، یعنی ہماری ذات میں، لیکن ہم بےخبری میں اسے شاعر (یہاں مصنف) کے سر منڈھ دیتے ہیں۔
  • کھل بند ہونے: یہ شاید "کھلنے اور بند ہونے" لکھنے کی کوشش کی ہے آپ نے۔ :) :) :)
  • جی بالکل درست فرمایا آپ نے جناب۔ اسے کھلنے اور بند ہونے ہی ہونا چاہیے۔ لیکن مضائقہ یہ ہے کہ کھلنا مستقیم فعل ہے اور بند کو فعل بنانے کے لیے ساتھ ہونے کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس لیے میں نے لطافت میں گوارا نہیں کیا کے دو مختلف قبیل کے الفاظ ایک ترکیب میں استعمال کروں۔ اب آپ کہتے ہیں تو بدل لیتا ہوں۔
  • "خلل ڈالنا چاہا۔" اس کے بعد والا فقرہ دیکھ کر لگتا ہے کہ یہاں فل اسٹاپ کا نہیں بلکہ کاما کا محل تھا۔ رموز اوقاف کے مسائل پوری تحریر میں کئی مقامات پر موجود ہیں ان پر نظر ثانی کر لیں تو بہتر ہو گا۔ :) :) :)
  • رموز و اوقاف ہمیشہ سے ہماری کمزوری رہے ہیں۔ ابھی بہت دقت کی ضرورت ہے اس جانب۔
  • تفکر کی نسیم: تفکر کی نسیم کو نسیمِ تفکر کر لیں تو فقرہ زیادہ چست محسوس ہوگا۔ :) :) :)
  • واقعی نسیم تفکر زیادہ خوبصورت ہے۔ لیکن اسے یہاں اس لیے استعمال نہیں کیا کہ ایک تو نسیم کا فکر کے ساتھ یوں کوئی تعلق ہے نہیں، اور قاری کو رشتہ سمجھ آئے گا نہیں پھر ساتھ فارسی اضافت لگا کر اور فارسیت کی طرف لے گیا تو اردو قاری ان دو الفاظ کو پڑھتے ہوئے بالکل نظر انداز کردے گا جس وجہ سے آنے والے چھ سے سات جملے بیکار جائیں گے۔ لیکن جناب کی رائے ہمیشہ ہمارے لیے مقدم ہی رہی ہے۔
  • سایے: درست املا "سائے" ہوگا۔ :) :) :)
  • متفق
  • کہرا: یہاں شاید "گہرا" لکھنا چاہا ہے۔ :) :) :)
  • جی، گہرا
  • اندھیرے میں سایہ بننے والی تشبیہ بہت ہی مبہم ہے اور منطقی اعتبار سے مشاہدات کی ضد بھی۔ اس پر طرہ یہ کہ آپ نے ایک درخت کی مدد سے اس اندھیرے کو مزید گہرا کیا ہے لیکن کہا یہ ہے کہ سایہ مزید گہرا ہو گیا۔۔۔ سمجھ سکتے ہیں بچو جی کہ کیا انڈیلنے کی کوشش ہو رہی ہے۔ :) :) :)
  • آپ کی فراست کے ہم یوں بھی قائل ہیں محترم۔ مبہم ہونے کے بارے میں اوپر وضاحت کر چکا ہوں۔ منطقی تراکیب بنانے بیٹھے تو تقریباً بات پھر محسوسات سے آگے نہیں جا سکے گی۔ اس لیے منطق کو درکنار کر کے ہی ہم لکھنے بیٹھتے ہیں۔
  • اٹھکھیلیاں: درست املا غالباً "اٹکھیلیاں" ہوتا ہے، ممکن ہے ایسا بھی ہوتا ہو۔ :) :) :)
  • نشاندہی کا شکریہ۔ اسکا درست املا واقعی نہیں آتا تھا مجھے۔
  • لمس کرتی: لمس پانا پڑھا ہے لیکن لمس کرنا ذرا اجنبی محسوس ہو رہا ہے، لیکن مہدی بھائی نے استعمال کیا ہے تو ممکن ہے درست ہی ہو۔ :) :) :)
  • فارسی میں محاورہ ہے "لمس کردن" یعنی "چھونا" ۔ صنف ترجمۂ محاورۂ فارسی سے تو آگاہ ہوں گے آپ سخن میں؟!
  • کنگھن: یہ کون سا لفظ ہے؟ کنگھی یا کنگن تو نہیں؟ لیکن ان الفاظ کا اس فقرے میں محل نہیں لگتا پھر کسی موتی کا بھی ذکر ہے۔ ممکن ہے کہ کچھ اور ہی ہو جو ہمیں معلوم نہیں۔ :) :) :)
  • میری مراد کنگن سے ہی تھی۔ کنگن میں موتی بھی تو جڑے ہوتے ہیں ناں!؟
  • دھارا بہتا: شاید دھارا مؤنث ہے۔ :) :) :)
  • شاید؟!!
  • مسکرا جاتا: مسکرا اٹھتا، مسکرا پڑتا، یا مسکرا دیتا پڑھا ہے، مسکرا جاتا نہیں۔ (ویسے بھی مسکان پر تو ہماری اتھارٹی ہے!) :) :) :)
  • یہاں ہم ناچار "آتھارائزڈ" (مختار) کی بات مانیں گے۔
  • بہت ناآسودہ معلوم ہو رہی تھیں: اس میں واضح نہیں ہے کہ مخفی ضمیر آنکھوں کی جانب راجع ہے۔ اس فقرے میں وضاحت ہو جائے تو آگے کے فقروں کا ابہام بھی جاتا رہے گا۔ :) :) :)
  • ابہام کی ایک ہی رہی۔
  • نیم وا تھیں،: یہاں کاما کا محل نہیں تھا بلکہ فل اسٹاپ زیادہ موزوں ہوتا۔ :) :) :)
  • جی عالی جناب۔
  • ہوے: درست املا "ہوئے" ہوگا۔ :) :) :)
  • بالکل۔
  • مسجد کے گلدستے سے ازان کی بانگ: مسجد کی شبیہ کی گلدستے سے تشبیہ خوب ہے اور اذان کی بانگ والی ترکیب بھی خوب لیکن کسی گلدستے سے بانگ کا تعلق جوڑنا ذرا اجنبی سا ہے۔ اور اذان کی املا بھی درست کرنے کی ضرورت ہے۔ :) :) :)
  • گلدستہ مینار کو بھی کہا جاتا ہے۔ جہاں سے مؤذن کی ازان سے قبل اگلے وقتوں میں ڈھول پیٹا جاتا تھا۔
  • ملایم: درست املا "ملائم" ہوگا۔ :) :) :)
  • یقیناً
  • تھپیڑے چہرے پر گرانی کر رہے تھے: گرانی کرنا یہاں کن معنوں میں مستعمل ہے؟ :) :) :)
  • ارزانی کرنے کے متضاد معنوں میں نہیں ہے۔
  • رک گئیں تھیں: "تھیں" کی موجودگی میں "گئی" لکھا جانا چاہیے۔ :) :) :)
  • یہ چوک بھی ہو کر ہی رہی۔
  • بدرقہ کرنا: بدرقہ تو سمجھ میں آتا ہے، کیا بدرقہ کیا بھی جاتا ہے؟ اول تو یہ لفظ اردو میں بہت زیادہ مستعمل نہیں لہٰذا یہ سمجھ میں نہیں آرہا کہ اس کو فعل بنانے کے لیے اس کے ساتھ کیا استعمال کیا جانا چاہیے۔ لیکن مہدی بھائی لکھتے ہیں تو ایسے ہی ٹھیک ہوگا۔ :) :) :)
  • فارسی: بدرقہ کردن۔
  • تعنوں: تسلیت تو معلوم تھا لیکن تعنوں کیا ہے یہ ہم نہیں جانتے اس لیے اس کا مطلب پوچھنا مقصود ہے۔ :) :) :)
  • تعن و تشنیع کا جو تعن ہے اس کی جمع۔
  • آنکھیں بیش از بہت: فارسی ترکیب ہی بنانی ہے ہے تو بیش از بسیار کر لیں۔ :) :) :)
  • جو حکم جناب من۔
  • اثار نمودار نہیں تھے: "آثار نمودار نہیں ہوئے تھے" کرنے کے بارے میں کیا خیال ہے؟ :) :) :)
  • اچھا ہے خیال۔
  • تیکھی نظروں نے چھیڑا: اس فقرے میں چھیڑنا لفظ کچھ با معنی نہیں لگا۔ شاید تیکھی نظریں چبھیں، یا چھیدا جیسا کچھ زیادہ موزوں ہوتا۔ :) :) :)
  • چلیں پھر یوں کر لیں کہ : تیکھی نظروں نے خبر لی۔
  • غسل خانے کے صحن میں: غسل خانے میں بھی صحن؟ :) :) :)
  • ہوتا ہے میاں۔ ہمارے یہاں تو ہوتا ہے، چھوٹا ہی سہی۔
  • مستقبلِ نا ممکن: یہ ترکیب کچھ زیادہ مبہم نہیں لگتی؟ یہاں نا ممکن مستقبل سے کیا مراد ہے؟ :) :) :)
  • وہ مستقبل جو اب مستقبل نہیں بن سکتا۔ یعنی حال ہی میں فنا ہو گیا ہو۔
  • ٹکٹکی باندھ گئی: "بندھ" ہونا چاہیے شاید۔ :) :) :)
  • متفق!
  • ہزار خیال: ہزار ایک متعین عدد ہے، اس کے بجائے کثرت کے اظہار کے لیے "ہزارہا" یا "صدہا" کا استعمال کیا جا سکتا ہے۔ :) :) :)
  • درست نشاندہ فرمائی
  • مخالف سمت پر: جس فقرے میں استعمال ہوا ہے وہاں شاید "پر" کی جگہ "میں" زیادہ موزوں ہو۔ :) :) :)
  • جی، میں لکھا تھا میں نے، پھر قلم زد کر کے پر کر دیا۔ وجہ اب ذہن سے محو ہے لیکن آپ کی رائے بہ ہر کیف مقدم ہے۔
ویسے یہ تو طے ہے کہ ثقیل گوئی کے باوجود مہدی بھائی کی تحریریں بہت ہی سحر انگیز ہوتی ہیں۔ :) :) :)
جناب اتنا وقت آپ کا زائع ہونے سے ہم نے بچا لیا اس پر بےحد مسرت ہے۔ دبے لفظوں میں جناب نے ہم پر ثقیل گوئی کی بہتان بھی باندھ دی اور جادوگری کی بھی۔ ماشاءاللہ۔ تفنن برطرف بہت شکریہ جناب آپ نے اس قابل سمجھا۔ ہمارے بارے میں آپ اگرچہ غلط بیانی کو چھوتے ہوئے مبالغے سے کام لیتے ہیں پھر بھی ہم کچھ نہیں کہہ سکتے۔ :):):):):):):)
 
درد میں ڈوبی ایک پر تاثیر تحریر ،جو پڑھنے والے کو اپنی گرفت میں لے لیتی ہے ،اور پڑھنے والا لکھنے والے اور لکھے جانے والے کے بارے میں سوچ کر تھوڑی دیر کو ٹھٹک جاتا ہے ۔
اور پھر خود بھی آنسو بہائے بغیر نہیں رہ سکتا۔
حجاز بھائی!
ہم سارے محفلین آپ کے غم میں برابر کے شریک ہیں ۔
چونکہ اس سے پہلے بھی میں آپ کی نظم پڑھ چکا ہوں اس لئے کچھ کہنے کی پوزیشن میں نہیں ،بس خدا وند سے صبر کے لئے دعاگو ہوں۔
یہ آپ ہی کا جگر ہے کہ ایسے واقعات کو بھی انمول موتی کے نگینوں میں پرو دیتے ہیں ۔
میں تو بس علامہ اقبال کی زبان میں یہی کہہ سکتا ہوں " آسماں تیری (اسکی) لحد پر شبنم افشانی کرے"
اللہ آپ کو ہمت و حوصلہ دے ----
میری جانب سے ڈھیروں دعائیں ------
:sad::sad:
محبت ہے آپ کی جناب
 
Top