صف بندی سے قبل نماز کے لیے موجود افراد کو بلانے کو اقامت کہتے ہیں۔ اذان و اقامت ہر دو کا اصطلاحی مفہوم بلانے یا پکار کے ہی ہوتے ہیں۔ تاہم ان دونوں میں فرق یہ ہے کہ اذان نماز کے وقت ہونے پر دی جاتی ہے تاکہ مسجد آنے اور نماز کی ادئیگی کے لیے تیاری کر لیں۔ اور اقامت صف بندی سے قبل مسجد میں موجود حاضرین اور نماز کے لیے تیار افراد کو متوجہ کرنے کے لیے دی جاتی ہے۔ (الاختيار 1 / 42، وابن عابدين 1 / 256)۔
مختلف مسالک میں اذان و اقامت کے الفاظ میں فرق بھی پایا جاتا ہے۔
لغوی و اصطلاحی مفہوم
اقامت یا إقامة عربی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی ہے کسی چیز کو کھڑا کرنا، درست کرنا۔ (لسان العرب، المصباح المنیر)
اقامت کا لفظ جب کسی ٹھوس چیز کے لیے استعمال کیا جائے تو سیدھا اور درست کرنے کے معنی مراد ہوتے ہیں۔ اور جب کسی ٹھوس چیز کے بجائے معنوی اشیاء کے لیے استعمال کیا جائے تو اس کے معنی پورا پورا حق ادا کردینے کے ہوتے ہیں۔ یعنی متعلقہ کام پوری توجہ اور کامل اہتمام سے انجام دیا جائے۔ (فریضہ اقامت دین از مولانا صدرالدین اصلاحی صفحہ 15)
شریعت میں اقامت کے لفظ سے دو مفہوم مراد ہوتے ہیں:
* حالت حضر، قیام کرنا۔
* اقامت نماز، نماز کے لیے تیار افراد کو مخصوص الفاظ و انداز میں نماز کی طرف بلانا۔ (كشاف القناع 1 / 209، وفتح القدير 1 / 17
دور جدید میں بعض اسلامی تحریکات نے اقامت دین کی اصطلاح استعمال کی ہے جو فی الواقع قرآن کریم کی آیت اور حدیث شریف سے ہی ماخوذ ہے۔
اقامت کا حکم
حکمِ اقامت کے سلسلے میں علمائے اسلام کی دو رائے ہے۔
۱) اقامت فرض کفایہ ہے۔ یہ رائے حنابلہ، بعض شوافع اور امام عطاء اور امام اوزاعی کی ہے۔ امام مجاہد کے نزدیک سفر میں اقامت کو ترک نہیں کرنا چاہیے، اگر چھوٹ جائے تو اعادہ کرے۔ غالباً اس کی وجہ یہ ہوگی کہ اقامت شعائرِ اسلام میں سے ہے اور سفر میں شعائر کا اظہار مطلوب ہے۔ (كشاف القناع 1 / 210، والمجموع للنووي 3 / 81 ۔ 82)
۲) اقامت سنت مؤکدہ ہے۔ یہ مالکیہ اور احناف کی رائے ہے۔ نیز شوافع کے نزدیک راجح مسلک یہی ہے۔
کلمات اقامت
اہل سنت والجماعت کے تمام مسالک (واضح رہے کہ یہاں صرف احناف، شوافع، مالکیہ اور حنابلہ کے مسالک و اختلافات بیان کیے جائینگے، دیگر مسالک کے لیے کتب فقہ سے مراجعت فرمائیں) میں کلمات اقامت اور انکی ترتیب میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔ کلمات اقامت یہ ہیں:
اللَّهُ أَكْبَرُ اللَّهُ أَكْبَرُ
( اللہ بہت بڑا ہے، اللہ بہت بڑا ہے )
َأشْهَدُ أَنْ لا إِلَهَ إِلا اللَّهُ
( ميں گواہى ديتا ہوں كہ اللہ كے علاوہ كوئى معبود برحق نہيں )
أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ
( ميں گواہى ديتا ہوں كہ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اللہ تعالى كے رسول ہيں )
حَيَّ عَلَى الصَّلاةِ
( نماز كى طرف آؤ )
حَيَّ عَلَى الْفَلاحِ
( فلاح و كاميابى كى طرف آؤ )
قَدْ قَامَتْ الصَّلاةُ
( يقينا نماز كھڑى ہو گئى )
قَدْ قَامَتْ الصَّلاةُ
( يقينا نماز كھڑى ہو گئى )
اللَّهُ أَكْبَرُ اللَّهُ أَكْبَرُ
( اللہ بہت بڑا ہے، اللہ بہت بڑا ہے )
لا إِلَهَ إِلا اللَّهُ
( اللہ تعالى كے علاوہ كوئى معبود نہيں )۔
اختلاف فقہاء
البتہ تکرار کلمات میں اختلاف ہے، جس کی تفصیل یہ ہے:
اللَّهُ أَكْبَرُ
احناف کے نزدیک 4 مرتبہ اور دیگر مسالک میں 3 مرتبہ۔
َأشْهَدُ أَنْ لا إِلَهَ إِلا اللَّهُ أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ
احناف کے نزدیک 2 مرتبہ اور دیگر مسالک میں 1 مرتبہ۔
حَيَّ عَلَى الصَّلاةِ حَيَّ عَلَى الْفَلاحِ
احناف کے نزدیک 2 مرتبہ اور دیگر مسالک میں 1 مرتبہ۔
قَدْ قَامَتْ الصَّلاةُ
مالکیہ کے نزدیک 1 مرتبہ جیسا کہ مشہور ہے اور دیگر مسالک میں 2 مرتبہ۔
اللَّهُ أَكْبَرُ
تمام مسالک میں 2 مرتبہ۔
لا إِلَهَ إِلا اللَّهُ
تمام مسالک میں 1 مرتبہ۔
انداز اقامت
تمام فقہاء کا اتفاق ہے کہ کلمات اقامت اذان کے کلمات کے برعکس جلدی ادا کیے جائینگے۔ جیسا کہ اس حدیث میں وارد ہے:
إذا اذنت فترسل، وإذا اقمت فاحدر
شرائط اقامت
* وقت۔
* نیت اقامت۔
* عربی زبان میں کلمات اقامت کی ادائیگی۔
* درست ادائیگی تاکہ مفہوم کلمات تبدیل نہ ہوں۔
* بلند آواز۔ لیکن اذان کی آواز سے پست۔
شرائط مقیم
اقامت کہنے والے کو مقیم کہتے ہیں۔
* مسلمان
* مرد
* عاقل
* بالغ
* متقی
* پاک
ان شرائط کی تفصیلات کے لیے ملاحظہ فرمائیں '''کتب فقہ'''۔
اقامت سفر میں
اذان و اقامت تنہا اور جماعت، سفر و حضر سب کے لیے مشروع ہیں۔
اجرتِ اقامت
اقامت کہنے کی اجرت کے سلسلے میں تین آراء ہیں:
۱) ممنوع۔ یہ متقدمین احناف، شوافع، مالکیہ اور حنابلہ کی رائے ہے۔
۲) جائز۔ یہ متاخرین احناف کی رائے ہے۔ نیز شوافع، مالکیہ اور حنابلہ کے مسالک میں بھی یہ رائے موجود ہے۔
۳) امام کے لیے جائز۔ یہ شوافع کی رائے ہے۔ تاہم شوافع کے یہاں یہ تصریح بھی موجود ہے کہ بغیر اذان کے صرف اقامت کی اجرت جائز نہیں، اس لیے کہ یہ عمل قلیل ہے۔ (ابن عابدين 1 / 263، وبدائع الصنائع 1 / 415، والمجموع للنووي 2 / 127، والمغني 1 / 415)
نوٹ: اس دھاگہ کی تیاری میں الموسوعۃ الفقہیۃ الکویتیۃ سے بطور خاص استفادہ کیا گیا ہے، اور اکثر حوالہ جات وہیں سے نقل کیے گئے ہیں۔
مختلف مسالک میں اذان و اقامت کے الفاظ میں فرق بھی پایا جاتا ہے۔
لغوی و اصطلاحی مفہوم
اقامت یا إقامة عربی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی ہے کسی چیز کو کھڑا کرنا، درست کرنا۔ (لسان العرب، المصباح المنیر)
اقامت کا لفظ جب کسی ٹھوس چیز کے لیے استعمال کیا جائے تو سیدھا اور درست کرنے کے معنی مراد ہوتے ہیں۔ اور جب کسی ٹھوس چیز کے بجائے معنوی اشیاء کے لیے استعمال کیا جائے تو اس کے معنی پورا پورا حق ادا کردینے کے ہوتے ہیں۔ یعنی متعلقہ کام پوری توجہ اور کامل اہتمام سے انجام دیا جائے۔ (فریضہ اقامت دین از مولانا صدرالدین اصلاحی صفحہ 15)
شریعت میں اقامت کے لفظ سے دو مفہوم مراد ہوتے ہیں:
* حالت حضر، قیام کرنا۔
* اقامت نماز، نماز کے لیے تیار افراد کو مخصوص الفاظ و انداز میں نماز کی طرف بلانا۔ (كشاف القناع 1 / 209، وفتح القدير 1 / 17
دور جدید میں بعض اسلامی تحریکات نے اقامت دین کی اصطلاح استعمال کی ہے جو فی الواقع قرآن کریم کی آیت اور حدیث شریف سے ہی ماخوذ ہے۔
اقامت کا حکم
حکمِ اقامت کے سلسلے میں علمائے اسلام کی دو رائے ہے۔
۱) اقامت فرض کفایہ ہے۔ یہ رائے حنابلہ، بعض شوافع اور امام عطاء اور امام اوزاعی کی ہے۔ امام مجاہد کے نزدیک سفر میں اقامت کو ترک نہیں کرنا چاہیے، اگر چھوٹ جائے تو اعادہ کرے۔ غالباً اس کی وجہ یہ ہوگی کہ اقامت شعائرِ اسلام میں سے ہے اور سفر میں شعائر کا اظہار مطلوب ہے۔ (كشاف القناع 1 / 210، والمجموع للنووي 3 / 81 ۔ 82)
۲) اقامت سنت مؤکدہ ہے۔ یہ مالکیہ اور احناف کی رائے ہے۔ نیز شوافع کے نزدیک راجح مسلک یہی ہے۔
کلمات اقامت
اہل سنت والجماعت کے تمام مسالک (واضح رہے کہ یہاں صرف احناف، شوافع، مالکیہ اور حنابلہ کے مسالک و اختلافات بیان کیے جائینگے، دیگر مسالک کے لیے کتب فقہ سے مراجعت فرمائیں) میں کلمات اقامت اور انکی ترتیب میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔ کلمات اقامت یہ ہیں:
اللَّهُ أَكْبَرُ اللَّهُ أَكْبَرُ
( اللہ بہت بڑا ہے، اللہ بہت بڑا ہے )
َأشْهَدُ أَنْ لا إِلَهَ إِلا اللَّهُ
( ميں گواہى ديتا ہوں كہ اللہ كے علاوہ كوئى معبود برحق نہيں )
أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ
( ميں گواہى ديتا ہوں كہ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اللہ تعالى كے رسول ہيں )
حَيَّ عَلَى الصَّلاةِ
( نماز كى طرف آؤ )
حَيَّ عَلَى الْفَلاحِ
( فلاح و كاميابى كى طرف آؤ )
قَدْ قَامَتْ الصَّلاةُ
( يقينا نماز كھڑى ہو گئى )
قَدْ قَامَتْ الصَّلاةُ
( يقينا نماز كھڑى ہو گئى )
اللَّهُ أَكْبَرُ اللَّهُ أَكْبَرُ
( اللہ بہت بڑا ہے، اللہ بہت بڑا ہے )
لا إِلَهَ إِلا اللَّهُ
( اللہ تعالى كے علاوہ كوئى معبود نہيں )۔
اختلاف فقہاء
البتہ تکرار کلمات میں اختلاف ہے، جس کی تفصیل یہ ہے:
اللَّهُ أَكْبَرُ
احناف کے نزدیک 4 مرتبہ اور دیگر مسالک میں 3 مرتبہ۔
َأشْهَدُ أَنْ لا إِلَهَ إِلا اللَّهُ أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ
احناف کے نزدیک 2 مرتبہ اور دیگر مسالک میں 1 مرتبہ۔
حَيَّ عَلَى الصَّلاةِ حَيَّ عَلَى الْفَلاحِ
احناف کے نزدیک 2 مرتبہ اور دیگر مسالک میں 1 مرتبہ۔
قَدْ قَامَتْ الصَّلاةُ
مالکیہ کے نزدیک 1 مرتبہ جیسا کہ مشہور ہے اور دیگر مسالک میں 2 مرتبہ۔
اللَّهُ أَكْبَرُ
تمام مسالک میں 2 مرتبہ۔
لا إِلَهَ إِلا اللَّهُ
تمام مسالک میں 1 مرتبہ۔
انداز اقامت
تمام فقہاء کا اتفاق ہے کہ کلمات اقامت اذان کے کلمات کے برعکس جلدی ادا کیے جائینگے۔ جیسا کہ اس حدیث میں وارد ہے:
إذا اذنت فترسل، وإذا اقمت فاحدر
شرائط اقامت
* وقت۔
* نیت اقامت۔
* عربی زبان میں کلمات اقامت کی ادائیگی۔
* درست ادائیگی تاکہ مفہوم کلمات تبدیل نہ ہوں۔
* بلند آواز۔ لیکن اذان کی آواز سے پست۔
شرائط مقیم
اقامت کہنے والے کو مقیم کہتے ہیں۔
* مسلمان
* مرد
* عاقل
* بالغ
* متقی
* پاک
ان شرائط کی تفصیلات کے لیے ملاحظہ فرمائیں '''کتب فقہ'''۔
اقامت سفر میں
اذان و اقامت تنہا اور جماعت، سفر و حضر سب کے لیے مشروع ہیں۔
اجرتِ اقامت
اقامت کہنے کی اجرت کے سلسلے میں تین آراء ہیں:
۱) ممنوع۔ یہ متقدمین احناف، شوافع، مالکیہ اور حنابلہ کی رائے ہے۔
۲) جائز۔ یہ متاخرین احناف کی رائے ہے۔ نیز شوافع، مالکیہ اور حنابلہ کے مسالک میں بھی یہ رائے موجود ہے۔
۳) امام کے لیے جائز۔ یہ شوافع کی رائے ہے۔ تاہم شوافع کے یہاں یہ تصریح بھی موجود ہے کہ بغیر اذان کے صرف اقامت کی اجرت جائز نہیں، اس لیے کہ یہ عمل قلیل ہے۔ (ابن عابدين 1 / 263، وبدائع الصنائع 1 / 415، والمجموع للنووي 2 / 127، والمغني 1 / 415)
نوٹ: اس دھاگہ کی تیاری میں الموسوعۃ الفقہیۃ الکویتیۃ سے بطور خاص استفادہ کیا گیا ہے، اور اکثر حوالہ جات وہیں سے نقل کیے گئے ہیں۔