محمد بلال اعظم
لائبریرین
اقبالؒ اور عشقِ حقیقی
معبودِ برحق نے روزِ ازل سے ہی انسان کی فطرتِ سلیم میں محبت کا عنصر شامل کر رکھا ہے۔ یہ محبت ہی ہے جو انسان کو ایک دوسرے کے قریب کرتی ہے۔ ماں باپ کی اولاد کے ساتھ، بھائی کے بہن کے ساتھ وغیرہ وغیرہ یہ سب محبت کی مثالیں ہیں۔ یہ محبت جب ایک خاص حد سے بڑھ جائے ، دیوانگی یا جنون کی شکل اختیار کر لےتو عشق کہلاتی ہے۔ عشق کی دو اقسام ہیں:مجازی اور حقیقی۔
کائنات کی فانی چیزوں سے محبت یعنی دنیوی انسانوں سے محبت عشقِ مجازی کے زمرے میں آتی ہے۔ یہ محبت صرف انسان تک ہی محدود ہے۔ انسان کے فنا ہوتے ہی، یہ عشق بھی فنا ہو جاتا ہے۔ مجاز مجاز ہی رہتا ہے، حقیقت نہیں بنتا۔جبکہ دوسرا عشق، عشقِ حقیقی ہے۔ یہ معبودِ برحق سے ہوتا ہے جو رب العٰلمین ہے۔ یہ قُربِ الہٰی کا ذریعہ ہے۔ یہ عشق ایک جستجو ہے، ایک عمل کا نام ہے، اللہ اور اس کے رسولﷺ کے بتائے ہوئے راستے پہ چلنے کا۔جس کام سے انہوں نے روکا، اس سے رکا اور جس کا انہوں نے حکم دیا، وہ کیا۔ یہی عشق اقبالؒ کی سوچ کا مرکز و محور ہے۔
ہم پڑھتے آئے ہیں کہ اللہ جسے چاہتا ہے، نوازتا ہےمگر وہ انسان کو کن کن چیزوں سے کس کس طرح نوازتا ہے؟ اس کا نوازنا ہے کیا؟ کسی کو وہ دولت سے نوازتا ہے، کسی کو حُسن نے، کسی کو حُسنِ اخلاق سے، کسی کو اطاعت سے نوازتا ہے تو کسی کو محبت سے اور کسی کو وہ عشقِ کی حقیقی کی مستی سے نوازتا ہے۔ جس کو وہ عشقِ حقیقی کی مستی اور کیف و جذب کی کیفیت سے نوازتا ہے، اسے سب کچھ مل جاتا ہے۔ اسے پھر کسی اور چیز کی حاجت نہیں رہتی۔ مگر وہ ہر کسی کو اس حد تک عشقِ حقیقی سے نہیں نوازتا۔ کیوں نہیں نوازتا؟رسُولِ کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جس نے میری اطاعت کی اُس نے اللہ کی اطاعت کی اور جس نے مجھ سے محبت کی اُس نے اللہ سے محبّت کی۔ اِس پر آج کل کے گستاخ بددینوں کی طرح اُس زمانہ کے بعض منافقوں نے کہا کہ محمد مصطفٰےصلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم یہ چاہتے ہیں کہ ہم انہیں رب مان لیں جیسا نصارٰی نے عیسٰی بن مریم کو رب مانا اس پر اللہ تعالی نے اِن کے رَدّ میں یہ آیت نازل فرما کر اپنے نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کے کلام کی تصدیق فرمادی کہ کہ بے شک رسُول کی اطاعت اللہ کی اطاعت ہے۔﴿خزائن العرفان﴾
بقولِ اقبالؒ
کی محمد ﷺ سے وفا تُو نے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں
مگر ہم صرف نام کے مسلمان ہیں، علم ہے، عمل نہیں ہے۔ ہم لوگ گفتار کے غازی ہے مگر کردار نام کو نہیں ہے۔ ایک واقعہ جو چند دن پہلے میرے ساتھ پیش آیا، شاید اس عمل کی وضاحت کر دے:
لاہور میں ایک ٹیسٹ دینے کے لئے میں ساہیوال سے لاہور کے لئے صبح 4 بجے اڈے پہ پہنچا۔ رش کچھ زیادہ نہیں تھا، لہٰذا میں آرام سے اِدھر اُدھر ٹہل رہا تھا۔ اسی دوران میں نے ایک بنچ پہ ایک شخص کو لیٹے ہوئے دیکھا جس نے ہاتھ میں موبائل فون پکڑا ہوا تھا اور انڈین گانوں سے لطف اندوز ہو رہا تھا۔ مقامِ افسوس تو یہ ہے کہ اس وقت اکثر لوگ فجر کی تیاری کر رہے ہوتے ہیں۔ مگر وہ شخص اپنی اس فانی ذات کو خدائے ربِ ذوالجلال کی یاد کی بجائے انڈین گانوں سے لطف اندوز ہونے میں مشغول تھا۔ جب انسان اپنی صبح کا آغاز ہی بے برکت چیز سے کرے گا تو پھر بھلا دن کا اختتام اور اآغاز و انجام کا درمیانی حصہ بھلا کیسے با برکت ہو سکتا ہے۔ در حقیقت یہ صرف اس ایک شخص کا نہیں بلکہ ہماری پوری قوم کا المیہ ہے۔
ہماری دعاؤں میں اثر اور دلوں میں سوز کیسے آئے گا کہ جب ہم بے برکت چیزوں کو اپنی زندگی کا لازمی حصہ بنا چکے ہیں۔ اب دیکھیئے اقبالؒ کی عظیم شخصیت۔ اقبالؒ جب یورپ میں مقیم تھے تو لندن کی سخت سردی بھی ان کو یادِ خدا اور یادِ رسولﷺ سے غافل نہ کر سکی۔ وہ خود فرماتے ہیں:
زمستانی ہوا میں گرچہ تھی شمشیر کی تیزی
نہ چُھوٹے مجھ سے لندن میں بھی آدابِ سحر خیزی
بطور ایک قوم ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اب بھی اقبالؒ کو سمجھیں، ہم نے خود کو اس شخص سے دُور کر لیا جس کو قائداعظمؒ بھی اپنا لیڈر مانتے تھے۔ جس کے پیغام کے متعلق کہا جاتا ہے کہ یہ قرآن پاک کی تشریح ہے۔اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ اقبالؒ کی اس آرزو کو بھی بھی پورا فرما دے۔
جوانوں کو مری آہِ سحر دے
پھر ان شاہیں بچوں کو بال و پر دے
خدایا آرزو میری یہی ہے
مرا نورِ بصیرت عام کر دے
اور
جوانوں کو سوزِ جگر بخش دے
مرا عشق، میری نظر بخش دے
(محمد بلال اعظم)