اقبال اور احمدیت

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

زیک

مسافر
کچھ دن پہلے ایک دوست نے پاکستانی بلاگ کا ایک مضمون کا لنک دیا جس کا عنوان ہے اگر اقبال احمدی رہتے۔ اس کے مطابق:
Allama Iqbal joined the Ahmadi community at the hands of its founder, Mirza Ghulam Ahmad, in 1897.

He considered the founder of the Ahmadi community as the most prolific theologian in the Muslim world. Sometime after the demise of Mirza Ghulam Ahmad, Allama Iqbal left the Ahmadi community. It is not clear exactly when, but he continued to be in close contact with the Ahmadi leadership till at least 1931, when he vouched for the Ahmadi Khalifa as the most able person to lead as the first president of the newly founded all-India Kashmir Committee. His parents and elder brother remained Ahmadis.

میرے علم میں یہ نہیں تھا کہ اقبال یا ان کی فیملی کا احمدیت سے کوئی تعلق رہا۔

محفل کے دانشوروں سے گزارش ہے کہ رائے دیں۔ اس بارے میں تاریخی حقائق کیا کہتے ہیں؟ ہمارے اور مؤرخین کے علم میں اس موضوع پر کیا ہے؟ کیا یقین سے کہا جا سکتا ہے اور کون سی باتیں مبہم ہیں؟

اگر اقبال اور ان کے والدین اور بھائی کبھی احمدی تھے تو مرزا غلام احمد کے مرنے کے کچھ بعد احمدیوں میں جو دو گروہ بنے ان میں وہ لاہوریوں کے ساتھ تھے یا قادیانیوں کے ساتھ؟

خیال رہے کہ یہاں صرف اقبال اور ان کی فیملی کے تعلق کے حوالے سے بات ہو۔ احمدیت کے خلاف (یا حق میں) لکھنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔

اس معاملے میں میں تذبذب کا اس لئے شکار ہوں کہ بہت لوگوں کو جناح کے بارے میں بھی علم نہیں ہوتا کہ وہ اسماعیلی یا اثنا عشری شیعہ تھے۔
 

عثمان

محفلین
غالبا بیسویں صدی کے پہلے عشرہ میں اقبال اس تحریک سے متاثر تھے۔ تاہم اس تعلق کو تیس کے عشرے تک کھینچ لے جانا مبالغہ آرائی معلوم ہوتی ہے۔
 
آخری تدوین:

محمد وارث

لائبریرین
اقبال کے بڑے بھائی شیخ عطا محمد تو "کنفرم" احمدی تھے اور اس بات کی تصدیق جاوید اقبال نے اپنی خودنوشت "اپنا گریباں چاک" میں بھی کی ہے۔اقبال کے بارے میں مشہور ہے کہ نوجوانی میں اس تحریک سے متاثر تھے، انیسویں صدی کا آخری عشرہ وغیرہ۔ بعد میں لاتعلق ہو گئے تھے بلکہ بعد میں ان کی احمدیت کے خلاف تحاریر بھی موجود ہیں۔
 

عباس اعوان

محفلین
میں اس معاملے میں بالکل لا علم تھا/ ہوں کہ اقبال یا ان کے خاندان کا قادیانیوں سے کوئی تعلق/ رابطہ تھا۔
اقبال کو ہمیشہ ایک عاشقِ رسولؐ دیکھا۔
قوت عشق سے ہر پست کو بالا کر دے
دہر میں اسم ِ محمؐد سے اجالا کر دے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خیرہ نہ کر سکا مجھے جلوۂ دانش فرنگ
سرمہ ہے میری آنکھ کا خاک مدینہ و نجف
---------------------------------
نگاہِ عشق و مستی میں وہی اوّل وہی آخر
وہی قرآں وہی فرقاں وہی یٰسیں وہی طہٰ​
 

طالب سحر

محفلین
زیک، وارث صاحب کا جواب مختصر لیکن جامع ہے- اگر آپ حوالے کے لئے کچھ پڑھنا چاہیں تو جاوید اقبال کی کتاب "زندہ رود" کے صفحات 625 تا 651 (بمطابق دوسرا ایڈیشن، 2008 ) ملاحظہ کیجئے- اس کے برعکس مؤقف کے لئے شیخ عطا محمد کے بیٹے اعجاز احمد کی کتاب "مظلوم اقبال" دیکھیے-
 
اگر نہ ہو تجھے الجھن تو کھول کر کہہ دوں؟​
آج مملکتِ خداداد میں جن لوگوں کو چھپنے کی جگہ نہیں ملتی اور جن کے پیشوا کو دجال تک قرار دیا جاتا ہے، وہ فرقہ اقبال کی زندگی میں پنپتا رہا۔ باقی تفصیلات تو ہمارے محققین سامنے لائیں گے، مجھے صرف ایک نکتے کی جانب توجہ دلانی ہے۔ مبینہ طور پر انگریز سرکار کے کاشتہ اس پودے کے خلاف اقبال جیسے بلند آہنگ مویدِ اسلام کے تمام تر کلام میں ایک بھی شعر واضح نہیں ملتا۔ اس سے انکار نہیں کہ اقبال بعد کو "تائب" بھی ہوئے اور مخالفت بھی کی۔ مگر کیا وجہ کہ ایک شعر بھی پیشوائے موصوف یا فرقے کا نام لے کر نہ کہہ پائے؟ اشارے ملتے ہیں بعض جگہ۔ مگر جتنے بے باک اقبال تھے اور جتنا بڑا خطرہ مبینہ طور پر اسلام کو لاحق ہو گیا تھا، اشاروں پر کفایت کرنا چہ معنی دارد؟ بے ایمانی ہے نا؟ مگر کس کی؟
 

دوست

محفلین
اقبال کا ایمان اپنی جگہ، ان کی شاعری سے کسے انکار ہے؟ غالب شیعہ تھے لیکن ان کے سب سے بڑا شاعر ہونے میں کوئی شبہ نہیں۔ جناح کا اثناء عشری یا اسماعیلی ہونا ان کی سیاست، اصول اور دیانتداری کی شہرت پر کوئی اثر نہیں ڈالتا۔
ایک وقت تھا کہ غلام احمد قادیانی نے اپنے آپ کو "مجتہد" کے طور پر متعارف کروایا۔ لیکن جیسے جیسے موصوف کا "ارتقاء" ہوتا رہا، اور وہ مجتہد سے مہدی، مہدی سے عیسٰی اور عیسیٰ سے ظلی بروزی نبی کے عہدے پر براجمان ہوئے، اُس کے بعد کوئی ذرہ بھر فہم و فراست رکھنے والا مسلمان بھی اس "تحریک" سے تائب ہو جائے گا۔
 
اقبال انگریزوں کی ڈیزائن جھوٹی نبوت اور صیہونی برانڈ جھوٹے نبی مرزا قادیانی کی سازشوں سے بخوبی آشنا تھے۔ انہوں نے مرزائیت اور اس کے دل میں اسلام اور ملت اسلامیہ سے عداوت کو پیشگی بھانپ کر یہ دو تاریخی جملے کہے تھے، قادیانیت یہودیت کا چربہ ہے۔ ، قادیانی اسلام اور ملک دونوں کےغدار ہیں ۔
مرزائی سوال کرتے ہیں کہ اقبال نے 1935ء میں ہی انہیں غیر مسلم کیوں قراردیا جبکہ اس سےپہلے قادیانیت کیلئے نرم سوچ رکھتے تھے اور انہیں مسلمانوں کا ایک فرقہ سمجھتے تھے۔تواس ہ اعتراض کا جواب یہ ہے کہ انسان تحقیق اورمشاہدات سےسیکھ کر ہی حتمی نتائج تک پہنچتا ہے۔ کسی بھی شخص یا گروہ کے مذہبی عقائد، کردار اور حقائق کے بغور جائزے، ان کی تحاریر کے مطالعے اور رویوں کے مشاہدات سے ہی اس کے مثبت یا منفی مقاصد کی حقیقت کھلتی ہے۔ اگرلوگ برسوں اسلام کا مطالعہ کرتےہیں اورآخری عمرمیں مسلمان ہوتے ہیں تو کیا یہ سوال بنتا ہے کہ یہ لوگ پہلےغیرمسلم کیوں تھے۔ اقبال شروعات میں ہندی قومیت کے پرچاری تھے اور اس نظریےکے لیے لکھتے بھی رہے ۔لیکن پھر اسے ترک صرف اسلامی قومیت کے علمبردار بن گئے۔
 

نایاب

لائبریرین
کاش کہ علامہ سر محمد اقبال اپنے یہ تاریخی جملے کشمیر کمیٹی سے مستعفی ہوتے وقت کہہ دیتے ۔
دو سال تک چپ نہ رہتے ۔
جبکہ کشمیر کمیٹی سے اقبال کے استعفی کی وجہ قادیانیوں کے دوسرے خلیفہ مرزا بشیر کا صدر ہونا سامنے آئی تھی ۔
بہت دعائیں
 
برطانوی حکومت کی طرف سے کشمیر کمیٹی 1931ء میں قائم کی گئی ۔ اور توقع کے مطابق اس کا سربراہ انگریز کا کٹھ پتلی مرزائی جماعت کا دوسرا خلیفہ مرزا بشیرالدین محمود بنایا گیا۔علامہ اقبال بھی اس کشمیر کمیٹی کے رکن تھے۔ اس حیثیت سے جب انہیں قادیانیوں کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا تو وہ بھی ان کے مخصوص اسلام دشمن رویے، کافرانہ عقائد اور یہودی عزائم سے واقف ہوئے۔ اسی دوران مجلس احرار اور قادیانیوں کی باہمی آویزش کے باعث قادیانی مسئلہ مذید اہمیت اختیار کر گیا، چنانچہ اس وجہ سے بھی اقبال کو اس طرف توجہ مبذول کرنا پڑی۔ اقبال نے قادیانیت کا بغور جائزہ لیا تو اس نتیجے پر پہنچے کہ قادیانی عقائد اسلام سے شدید متصادم ہیں سو وہ مسلمان ہی نہیں ہیں۔ اور پھر جب گورنر پنجاب نے انجمنِ حمایتِ اسلام کے سالانہ جلسے میں مسلمانوں میں آپسی چپقلش کی وجہ سے قیادت کے فقدان پر افسوس ظاہر کیا اور مسلمانوں کو رواداری کا مشورہ دیا تو 1935ء میں اقبال کا مرزائی گروہ کے خلاف پہلا مضمون شائع ہوا۔ اس مضمون کے بعد مرزائیت کے عزام اور دین دشمنی بے نقاب ہو گئی۔ اور پھراس غیر مسلم گروہ کی طرف سے علامہ اقبال کے خلاف زہر اگلنے کا جو سلسلہ شروع ہوا، وہ ابھی بھی جاری ہے۔
 

نایاب

لائبریرین
اقبال نے قادیانیت کا بغور جائزہ لیا تو اس نتیجے پر پہنچے کہ قادیانی عقائد اسلام سے شدید متصادم ہیں سو وہ مسلمان ہی نہیں ہیں۔ اور پھر جب گورنر پنجاب نے انجمنِ حمایتِ اسلام کے سالانہ جلسے میں مسلمانوں میں آپسی چپقلش کی وجہ سے قیادت کے فقدان پر افسوس ظاہر کیا اور مسلمانوں کو رواداری کا مشورہ دیا تو 1935ء میں اقبال کا مرزائی گروہ کے خلاف پہلا مضمون شائع ہوا۔

مرزا غلام احمد (1835ء تا 1908ء)
ڈاکٹر سر علامہ محمد اقبال (9 نومبر 1877ء تا 21 اپریل 1938ء)
علامہ سر محمد اقبال کو 1933 میں کشمیر کمیٹی کی صدارت کے مسلے پر مستعفی ہونا پڑا
اور 1935 میں قادیانیت سے بیزاری کا اظہار کیا ۔۔۔۔۔
بہت دعائیں
 
زیک بھائی نے جس مضمون اگر اقبال قادیا نی رہتے کا ذکر کیا ہے اس میں جس شخص کا ذکر کیا گیا ہے ۔ وہ کردار حقیقت میں مرزائیوں کا اصلہ چہرہ تھا۔
پاکستان کے اس پہلے مرزائی وزیرخارجہ ظفراللہ نے جناب قائداعظم کا جنازہ پڑھنے سے انکار کر کےعین درست ثابت کر دیا۔ اس مرزائی نے قائد اعظم کا جنازہ یہ کہہ کر پڑھنے سےانکار کردیا تھا کہ کوئی اسے ایک مسلمان کی طرف سے ایک غیر مسلم کا جنازہ پڑھنے سے انکار سمجھے یا ایک غیر مسلم کی طرف سے ایک مسلمان کا جنازہ پڑھنے سے انکار، لیکن میرا مذہب مجھے کسی بھی غیر قادیانی کا جنازہ پڑھنے کی اجازت نہیں دیتا۔ سمجھ داروں کیلیے اس میں بڑا گہرا پیغام ہے۔
 

عبید رضا

محفلین
اقبال اور قادیانیت، کے نام سے دو کتب شائع ہو چکی ہیں، جن میں اقبال کو غیر احمدی ثابت کیا گیا ہے۔ اور جو حوالہ جات اور دلائل احمدی حضرات دیتے ہیں، ان کی وضاحت کی گئی ہے۔ اقبال کے حضورصفحہ 261 (نذیر نیازی) میں اقبال کی طرف منسوب ملفوظ میں اقبال نے قادیانیت اور دیوبند کو ایک جیسا قرار دیا ہے۔ اور ان کا سرچشمہ وہابیت کو قرار دیا ہے۔
 
علامہ صاحب کے یہ اشعار ان کے عقیدہ ختم نبوت کا ناقابل تردید ثبوت ہیں

وہ دانائے سبل ، ختم الرسل ، مولائے کل جس نے
غبار راہ کو بخشا فروغ وادي سينا
نگاہ عشق و مستي ميں وہي اول ، وہي آخر
وہي قرآں ، وہي فرقاں ، وہي يسيں ، وہي طحہ
 

عبید رضا

محفلین
قادیانیت یہودیت کا چربہ ہے۔ ، قادیانی اسلام اور ملک دونوں کےغدار ہیں ۔
اس کا حوالہ مل سکتا ہے؟ کیوں کہ اس میں لفظ ملک آیا ہے۔ جب کہ قادیانی غدار نہيں وفادار تھے، اور اس وقت جو غدار تھے۔ وہ تو اقبال کے نزدیک ٹھیک راستہ پر تھے۔
 

نایاب

لائبریرین
کوئی اسے ایک مسلمان کی طرف سے ایک غیر مسلم کا جنازہ پڑھنے سے انکار سمجھے یا ایک غیر مسلم کی طرف سے ایک مسلمان کا جنازہ پڑھنے سے انکار، لیکن میرا مذہب مجھے کسی بھی غیر قادیانی کا جنازہ پڑھنے کی اجازت نہیں دیتا۔
کیسا کھرا سچ بولا کسی بھی مصلحت سے بے نیاز ۔ اور یہ وزیر خارجہ کی اپنے مسلک و مذہب سے وابستگی کا عکاس ۔
سمجھداروں کے لیئے واقعی بہت گہرا پیغام ہے ۔
بہت دعائیں
 

نور وجدان

لائبریرین
زیک بھائی نے جس مضمون اگر اقبال قادیا نی رہتے کا ذکر کیا ہے اس میں جس شخص کا ذکر کیا گیا ہے ۔ وہ کردار حقیقت میں مرزائیوں کا اصلہ چہرہ تھا۔
پاکستان کے اس پہلے مرزائی وزیرخارجہ ظفراللہ نے جناب قائداعظم کا جنازہ پڑھنے سے انکار کر کےعین درست ثابت کر دیا۔ اس مرزائی نے قائد اعظم کا جنازہ یہ کہہ کر پڑھنے سےانکار کردیا تھا کہ کوئی اسے ایک مسلمان کی طرف سے ایک غیر مسلم کا جنازہ پڑھنے سے انکار سمجھے یا ایک غیر مسلم کی طرف سے ایک مسلمان کا جنازہ پڑھنے سے انکار، لیکن میرا مذہب مجھے کسی بھی غیر قادیانی کا جنازہ پڑھنے کی اجازت نہیں دیتا۔ سمجھ داروں کیلیے اس میں بڑا گہرا پیغام ہے۔
اگر وہ اتنے متعصب تھے تو objective resolution کیوں پاس کروائی اور اس کے پاس کروانے میں روح رواں رہے اور اس کو پاس کراتے دم یہ کہا

It is a matter of great sorrow that, mainly through mistaken notions of zeal, the Muslims have during the period of decline earned for themselves an unenviable reputation for intolerance. But that is not the fault of Islam. Islam has from the beginning proclaimed and inculcated the widest tolerance. For instance, so far as freedom of conscience is concerned the Quran says "There shall be no compulsion" of faith.
 
گو کہ وحدت الوجود کے انٹی اسلام نظریے کو ترک کرنے کے اقبال نے کچھ زیادہ وقت نہ لیا ۔لیکن یہ تسلیم کرنا ہو گا کہ مرزائیت کا مسئلہ مدتوں تک ان کی خاص توجہ کا مرکز نہ بن سکا اور اس کے بارے تفصیلی مطالعہ اور تحقیق کے بعد ایک صحیح فیصلے تک پہنچنے کے لیے انہوں نے بہت وقت کیا۔ حضرت اقبال ابتدا سےعقیدۂ ختمِ نبوت اور تصور جہاد کے علم بردار تھے اورمسیح موعود بلکہ مجدد کے تصوّر کو بھی نہیں مانتے تھے ، اسی لئے وہ کسی ایسی بیٹھک اور دعوت سے بھی اجتناب برتتے تھے جس میں قادیانی خلیفہ حکیم نور الدین موجود ہوتا تھا۔ کئی دفع ایسا ہوا کہ انہوں نے میزبان سے صرف اس لئے رخصت کی اجازت طلب کی کہ میں نبوت کے جھوٹے دعویدار کے خلیفہ کی موجودگی میں یہاں نہیں بیٹھ سکوں گا ۔یہ بھی تسلیم کرنا ہو گا کہ قبال مرزائیت کا بنظرِ غائر مطالعہ نہ کرنے کے سبب ایک عرصے تک ان کو مسلمانوں کافرقہ سمجھتے رہے۔ لیکن جب اس مسئلے پر غور کرنے کے لیے اسباب جمع ہوئے تو اقبال نے تحقیق کے بعد علی العلانیہ ان کو غیر مسلم قرار دے دیا۔
 

عبید رضا

محفلین
شاعری سے کسی کا عقیدہ بیان نہیں ہو سکتا، آپ کو حیرت ہو گی ،کہ مرزا غلام احمد ایک شاعر بھی تھا، اس کا کلام اردو، عربی اور فارسی (شاعری) میں موجود ہے۔ باقی تو وحی شریف انگریزی میں بھی کبھی کبھی نازل ہوتی ;) ۔ مرزا کی بیٹی اور باقی کئی احمدیوں نے نعتیں کہیں ہیں۔ مرزا کا کلام درثمین کے نام سے الاسلام ویب سائٹ پر تینوں زبانوں میں مل جائے گا۔ جن میں اقبال سے زیادہ صاف الفاظ میں ختم نبوت کا اقرار کیا گیا ہے۔ مگر ظاہر ہے، ایک جگہ ایک بات، دوسری جگہ؛ دوسری بات لکھی جا سکتی ہے۔ اس لیے اقبال کا عقیدہ ان کی شاعری سے بیان کرنا درست نہيں۔
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top