سید شہزاد ناصر
محفلین
عبد المجید سالک نے علامہ اقبال ے حالات کے بیان میں ایک دلچسپ واقعہ بیان کیا ہے جس سے تصوف کے بارے میں ان کے مخصوص نقطۂ نظر کی وضاحت ہوتی ہے وہ لکھتے ہیں۔
''میں شام کے وقت حسبِ معمول حاضر خدمت تھا کہ ایک بزرگ فقیر حضرت کے پاس آئے۔ باتیں شروع ہوئیں حضرت نے فرمایا۔ ''سائیں جی میرے لئے دعا کیجیے۔'' وہ کہنے لگے۔ کیا آپ کو دولت مطلوب ہے'' فرمانے لگے نہیں مجھے دولت کی ہوس نہیں۔ درویش آدمی ہوں اللہ مجھے ضرورت کے مطابق عطا کر دیتا ہے۔'' پھر فقیر نے پوچھا۔ کیا دنیا میں عزت و جاہ کے طلبگار ہو؟'' حضرت نے فرمایا۔ نہیں وہ بھی اللہ کے فضل سے حاصل ہے۔ میں کسی اونچے رتبے کا طالب نہیں۔'' سائیں جی نے پوچھا تو پھر کیا خدا سے ملنا چاہتے ہو؟''
اس پر حضرت کی آنکھوں میں خاص چمک پیدا ہوئی۔ فرمانے لگے ''خدا سے ملنا! سائیں جی خدا خدا کرو۔ میں بندہ وہ خدا! میرا اس کا واسطہ صرف بندگی کا ہے۔ ملنا کیا معنی؟ اگر مجھے معلوم ہوجائے کہ خدا مجھے ملنے آرہا ہے تو میں بیس کوس بھاگ جاؤں۔ اس لئے کہ دریا قطرے سے ملے گا تو قطرہ غائب ہو جائے گا۔ میں قطرہ کی حیثیت سے قائم رہنا چاہتا ہوں اور اپنے آپ کو مٹانا نہیں چاہتا بلکہ قطرہ رہ کر اپنے آپ میں دریا کے خواص پیدا کرنا چاہتا ہوں۔
اس پر سائیں بے خود ہو کر جھومنے لگے اور کہنے لگے ''واہ اقبال۔ جیسا سنتے تھے ویسا ہی پایا تو خود آگاہ مشرب ہے تجھے کسی فقیر کی دعا کی کیا ضرورت ہے۔''
''میں شام کے وقت حسبِ معمول حاضر خدمت تھا کہ ایک بزرگ فقیر حضرت کے پاس آئے۔ باتیں شروع ہوئیں حضرت نے فرمایا۔ ''سائیں جی میرے لئے دعا کیجیے۔'' وہ کہنے لگے۔ کیا آپ کو دولت مطلوب ہے'' فرمانے لگے نہیں مجھے دولت کی ہوس نہیں۔ درویش آدمی ہوں اللہ مجھے ضرورت کے مطابق عطا کر دیتا ہے۔'' پھر فقیر نے پوچھا۔ کیا دنیا میں عزت و جاہ کے طلبگار ہو؟'' حضرت نے فرمایا۔ نہیں وہ بھی اللہ کے فضل سے حاصل ہے۔ میں کسی اونچے رتبے کا طالب نہیں۔'' سائیں جی نے پوچھا تو پھر کیا خدا سے ملنا چاہتے ہو؟''
اس پر حضرت کی آنکھوں میں خاص چمک پیدا ہوئی۔ فرمانے لگے ''خدا سے ملنا! سائیں جی خدا خدا کرو۔ میں بندہ وہ خدا! میرا اس کا واسطہ صرف بندگی کا ہے۔ ملنا کیا معنی؟ اگر مجھے معلوم ہوجائے کہ خدا مجھے ملنے آرہا ہے تو میں بیس کوس بھاگ جاؤں۔ اس لئے کہ دریا قطرے سے ملے گا تو قطرہ غائب ہو جائے گا۔ میں قطرہ کی حیثیت سے قائم رہنا چاہتا ہوں اور اپنے آپ کو مٹانا نہیں چاہتا بلکہ قطرہ رہ کر اپنے آپ میں دریا کے خواص پیدا کرنا چاہتا ہوں۔
اس پر سائیں بے خود ہو کر جھومنے لگے اور کہنے لگے ''واہ اقبال۔ جیسا سنتے تھے ویسا ہی پایا تو خود آگاہ مشرب ہے تجھے کسی فقیر کی دعا کی کیا ضرورت ہے۔''