طارق شاہ
محفلین
غزل
اقبال عظیم
یہ نگاہِ شرم جُھکی جُھکی، یہ جبینِ ناز دُھواں دُھواں
مِرے بس کی اب نہیں داستاں، مِرا کانپتا ہے رُواں رُواں
یہ تخیّلات کی زندگی، یہ تصوّرات کی بندگی
فقط اِک فریبِ خیال پر، مِری زندگی ہے رواں دواں
مِرے دل پہ نقش ہیں آج تک، وہ با احتیاط نوازشیں
وہ غرور و ضبط عیاں عیاں، وہ خلوصِ ربط نہاں نہاں
نہ سفر بشرطِ مآل ہے، نہ طلب بقیدِ سوال ہے
فقط ایک سیریِ ذوق کو، میں بھٹک رہا ہوں کہاں کہاں
مِری خلوتوں کی یہ جنّتیں کئی بار سج کے اُجڑ گئیں
مجھے بارہا یہ گمان ہوا، کہ تم آرہے ہو کشاں کشاں
اقبال عظیم