حسان خان
لائبریرین
زندگی کے نغمہ گر نے آج چھیڑا ہے رباب
حلقۂ ذوقِ سخن سے اٹھ کے جا سکتا ہے کون؟
حسن نے خود اپنے چہرے سے الٹ دی ہے نقاب
ہم بھی دیکھیں تاب اب محفل میں لا سکتا ہے کون؟
بہہ چلا ہے چشمۂ خورشید سے سیلابِ نور
اس اجالے میں چراغ اپنا جلا سکتا ہے کون؟
چاند کے ماتھے پہ افشاں چننے والا کون ہے؟
صبح کے سورج کو آئینہ دکھا سکتا ہے کون؟
کون دستِ نو عروسِ گل پہ باندھے گا حنا
چشمِ نرگس میں بھلا کاجل لگا سکتا ہے کون؟
کون دے گا آہوئے تاتار کو درسِ خرام
رقص کرنا ماہ و انجم کو سکھا سکتا ہے کون؟
گرچہ خالی گردشِ ساغر سے میخانہ نہیں
چشمِ ساقی کا فسوں محتاجِ پیمانہ نہیں
ناتوانوں کو عطا کی قوتِ ضربِ کلیم
تو نے بخشے ملتِ بے پر کو بالِ جبرئیل
رند کیا ساقی بھی جس محفل میں پیاسا تھا وہاں
بھر کے لایا دل کے پیمانے میں موجِ سلسبیل
کچھ نہیں تھا جس بیاباں میں بجز موجِ سراب
آج وہ ہے رہگزارِ دجلہ و دینوب و نیل
آذرانِ عصرِ حاضر کے صنم خانوں میں آج
گونجتا ہے تیرے دم سے نغمۂ سازِ خلیل
زندگی دشوار تر کر دی غلامی کے لیے
کھینچ دی اس طرح آزادی کی تصویرِ جمیل
خواب کے آغوش سے بیداریاں پیدا ہوئیں
زندگی کی راکھ سے چنگاریاں پیدا ہوئیں
چلمنیں اٹھتی ہیں مشرق کی حریمِ ناز سے
منتظر تھیں جس کی آنکھیں جلوہ گر ہونے کو ہے
خونِ شب سے گل بداماں ہے شفق زارِ وجود
آسماں پر نور سا پھیلا سحر ہونے کو ہے
کتنے آنسو بہہ چکے ہیں زندگی کی آنکھ سے
آج ان اشکوں کا ہر قطرہ گہر ہونے کو ہے
ارتقا ہے اس کا جادہ اس کی منزل انقلاب
کاروانِ شوق سرگرمِ سفر ہونے کو ہے
گلشنِ ہندوستاں میں لوٹ آئی ہے بہار
آرزو کی شاخِ نازک بارور ہونے کو ہے
سبز پرچم کے افق پر مسکراتا ہے ہلال!
باعثِ صد نازشِ شمس و قمر ہونے کو ہے
کھل گیا در، پڑ گیا دیوارِ زنداں میں شگاف
اب قفس میں جنبشِ صد بال و پر ہونے کو ہے
سرخ شعلہ ہو گیا ہے آسمانوں تک بلند
فاش رازِ سرخئ برق و شرر ہونے کو ہے
جس کا چہرہ تھا غریبوں کے لہو سے تابناک
وہ نظامِ کہنہ اب زیر و زبر ہونے کو ہے
'آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے لب پر آ سکتا نہیں
محوِ حیرت ہوں کہ دنیا کیا سے کیا ہو جائے گی'
(علی سردار جعفری)
۱۹۴۴ء