شکریہ عرفان صاحب یاد آوری کے لیے۔
1۔ متکلم شاعر ہی ہے۔
2۔ مخاطب، محبوب یا محبوبِ ازلی ہے۔
3۔ منشا جو شعر سے سمجھ میں آتا ہے یعنی اے محبوب تو اپنے چمک دار بالوں کو اور بھی تاب دار کر تا کہ ہوش و خرد اور قلب و نظر یعنی عقل اور عشق یعنی سب کچھ تیری زلفوں کا شکار ہو جائے اور تیرا عاشق ما سوا سے چاہے وہ عقل ہو چاہے عشق سب سے بے خبر ہو کر فقط تجھ میں محو ہو جائے۔
یہ شعر لگتا ہے علامہ کو بہت پسند تھا، یا تو اس شعر کا فارسی ترجمہ انہوں نے کیا ہے یا یہ اردو شعر ان کے ایک فار سی شعر کا ترجمہ معلوم ہوتا ہے، فارسی شعر درج ذیل ہے۔
فرصتِ کشمکش مده ایں دلِ بے قرار را
یک دو شکن زیاده کن گیسوئے تابدار را
یعنی اے محبوب تُو میرے اس بے قرار دل کو کشمکش، سوچ بچار کی فرصت مت دے بلکہ اپنے تابدار گیسوؤں کو ایک دو شکن اور دے تا کہ میرا دل بالکل ہی تیرا شکار ہو جائے۔
مذکورہ فارسی شعر علامہ کی دو فارسی کتابوں میں ہے، ایک زبورِ عجم میں جہاں وہ ایک غزل کا مطلع ہے اور دوسرا جاوید نامہ میں جہاں وہ ایک "کہانی" کا حصہ ہے۔ جاوید نامہ والا شعر سیاق و سباق کے ساتھ ہے یعنی ایک رقاصہ عورت گوتم بدھ کے سامنے توبہ کرتی ہے اور اس توبہ کے وقت وہ یہ شعر دہراتی ہے۔ ظاہرہےیہ شعر علامہ نے جاوید نامہ کے لیے نہیں کہا تھا لیکن ان کو اتنا پسند تھا کہ اس کو جاوید نامہ میں بھی سیاق و سباق بنا کر لائے۔