اقبال کے ایک شعر کی شرح

عرفان سعید

محفلین
اقبال کا یہ شعر سینکڑوں بار سن کر بھی کچھ پلے نہیں پڑ رہا۔ احبابِ محفل سے مدد کی درخواست ہے۔
محفل کے شارحِ اعظم جناب محمد وارث سے التفات کی خصوصی استدعا ہے۔

پریشاں ہو کے میری خاک آخر دل نہ بن جائے
جو مشکل اب ہے یا رب پھر وہی مشکل نہ بن جائے
 

سید عاطف علی

لائبریرین
اقبال کا یہ شعر سینکڑوں بار سن کر بھی کچھ پلے نہیں پڑ رہا۔ احبابِ محفل سے مدد کی درخواست ہے۔
محفل کے شارحِ اعظم جناب محمد وارث سے التفات کی خصوصی استدعا ہے۔
پریشاں ہو کے میری خاک آخر دل نہ بن جائے
جو مشکل اب ہے یا رب پھر وہی مشکل نہ بن جائے
اس شعر کی بابت میری رائے یہ ہے کہ اقبال کے جتنے اشعار ہیں وہ سب گویااسی شعر کی تشریح ہیں ۔ اس کا محور کل کائنات کی مخلوقات میں انسان کا مقام ہے۔اس بحث کی کچھ تفصیل ڈاکٹر اقبال کے خطبات مسمی "اسلامی فکر کی تشکیل نو " کے،غالبا ، پہلے خطبے میں کافی سنجیدہ اور فلسفیانہ انداز میں مذکور ہے ۔ یہاں اسی کیفیت کا شاعرانہ اور پر کیف بیان ہے۔
 

محمد وارث

لائبریرین
شارح تو خیر کیا ہونا ہے جناب، بس۔۔۔۔۔۔

جو کچھ مجھے سمجھ آیا ہے کہ انسان کی زندگی میں یہ ساری کشمکش، یہ سارا اضطراب، یہ جذب و کیف، یہ عشق و مستی سب دل کی وجہ سے ہے، اور بظاہر اضطراب و کشمکش سے انسان کو لگتا ہے کہ کوئی مشکل ہے جس میں وہ پھنس گیا ہے اور جب وہ مر جائے گا تو ان مشکلات سے اسے نجات مل جائے گی۔ لیکن اگر مرنے کے بعد جب انسان خاک میں مل کر خاک ہو جائے گا تو وہ خاک بھی تو اڑتی پھرے گی، یعنی اس میں بھی اضطراب ہوگا، وہ بھی پریشان ہوگی یعنی بکھر جائے گی اور یہی نشانیاں دل کی تھیں سو بہت ممکن ہے کہ یہ خاک پھر سے دل بن جائے اور جس مشکل سے سمجھے تھے کہ نجات مل گئی وہی مشکل پھر سے نہ بن جائے۔ بقولِ ذوق

مر کے بھی چین نہ پایا تو کدھر جائیں گے

بادی النظر میں یہ ظاہری سمجھ میں آنے والے معنی ہیں، باقی فلسفیانہ موشگافیاں فلسفیوں اور اقبال کے اسکالروں کا کام ہے۔ :)
 

عرفان سعید

محفلین
جو کچھ مجھے سمجھ آیا ہے کہ انسان کی زندگی میں یہ ساری کشمکش، یہ سارا اضطراب، یہ جذب و کیف، یہ عشق و مستی سب دل کی وجہ سے ہے، اور بظاہر اضطراب و کشمکش سے انسان کو لگتا ہے کہ کوئی مشکل ہے جس میں وہ پھنس گیا ہے اور جب وہ مر جائے گا تو ان مشکلات سے اسے نجات مل جائے گی۔ لیکن اگر مرنے کے بعد جب انسان خاک میں مل کر خاک ہو جائے گا تو وہ خاک بھی تو اڑتی پھرے گی، یعنی اس میں بھی اضطراب ہوگا، وہ بھی پریشان ہوگی یعنی بکھر جائے گی اور یہی نشانیاں دل کی تھیں سو بہت ممکن ہے کہ یہ خاک پھر سے دل بن جائے اور جس مشکل سے سمجھے تھے کہ نجات مل گئی وہی مشکل پھر سے نہ بن جائے۔ بقولِ ذوق

مر کے بھی چین نہ پایا تو کدھر جائیں گے
بہت نوازش وارث بھائی! میری "مشکل" تو آسان ہو گئی۔
 
اس شعر کی بابت میری رائے یہ ہے کہ اقبال کے جتنے اشعار ہیں وہ سب گویااسی شعر کی تشریح ہیں ۔ اس کا محور کل کائنات کی مخلوقات میں انسان کا مقام ہے۔اس بحث کی کچھ تفصیل ڈاکٹر اقبال کے خطبات مسمی "اسلامی فکر کی تشکیل نو " کے،غالبا ، پہلے خطبے میں کافی سنجیدہ اور فلسفیانہ انداز میں مذکور ہے ۔ یہاں اسی کیفیت کا شاعرانہ اور پر کیف بیان ہے۔
عاطف بھائی آپ کے بیان کردہ مفہوم کا تعلق تو برائے نام خطبہ اول کے مباحث سے ہے لیکن میرے خیال میں میں اس مفہوم کا تعلق شعر سے براہ راست نہیں۔ حسن اتفاق دیکھئے میں آج کل خطبات اور ان کی شروح پر تحقیق کر رہا ہوں اور چند ماہ قبل گیریژن یونیورسٹی کے اردو ریسرچ جنرل میں خطبہ اول کی شروح کے حوالے سے میرا 21 صفحاتی آرٹیکل پرنٹ ہوا ہے اس لیے اس حوالے سے تھوڑا بہت جانتا ہوں۔ وارث بھائی نے احسن انداز میں شرح کی کوشش کی ہے اسی حوالے سے محض ایک بات کا اضافہ کرنا چاہتا ہوں کہ چند روز قبل استادم ڈاکٹر محمد آصف اعوان صاحب نے اپنے پی ایچ ڈی کے مقالے کی کاپی عنایت فرمائی جس کا عنوان اقبال کا ذہنی ارتقا ہے۔ ڈاکٹر صاحب فرماتے ہیں کہ مجھے ایک سوال نے کئی سا تنگ کیے رکھا کہ انسان کی خودی بعد از موت کیا فنا ہوجائے گی ؟ کئی سال کی ریاضت کے بعد افکار اقبال کے ہی حوالے سے معلوم پڑا کہ وہاں بھی یہ خودی زندہ رہے گی اور اسے اللہ تعالیٰ سے قربت کا سبب بنے گی (بڑی طویل بحث ہے یقین کیجیے) جب کہ وہاں دنیاوی لذتیں ہوں گی نہ ہی دنیاوی پریشانیاں۔۔۔۔اب اگر ڈاکٹر صاحب کی اس وضاحت کو شعر سے جوڑ دیا جائے تو شاید ہم کسی نتیجے تک پہنچ سکیں۔ ویسے شرح کے حوالے سے کلام اقبال کے بہت سارے آن لائن ایڈیشن موجود ہیں ان سے بھی استفادہ کیا جاسکتا ہے۔
 
آخری تدوین:

عرفان سعید

محفلین
جو کچھ مجھے سمجھ آیا ہے کہ انسان کی زندگی میں یہ ساری کشمکش، یہ سارا اضطراب، یہ جذب و کیف، یہ عشق و مستی سب دل کی وجہ سے ہے، اور بظاہر اضطراب و کشمکش سے انسان کو لگتا ہے کہ کوئی مشکل ہے جس میں وہ پھنس گیا ہے اور جب وہ مر جائے گا تو ان مشکلات سے اسے نجات مل جائے گی۔ لیکن اگر مرنے کے بعد جب انسان خاک میں مل کر خاک ہو جائے گا تو وہ خاک بھی تو اڑتی پھرے گی، یعنی اس میں بھی اضطراب ہوگا، وہ بھی پریشان ہوگی یعنی بکھر جائے گی اور یہی نشانیاں دل کی تھیں سو بہت ممکن ہے کہ یہ خاک پھر سے دل بن جائے اور جس مشکل سے سمجھے تھے کہ نجات مل گئی وہی مشکل پھر سے نہ بن جائے۔ بقولِ ذوق

مر کے بھی چین نہ پایا تو کدھر جائیں گے
پچھلے کئی ماہ سے حیات بعدِ موت پر طویل غور و خوض جاری ہے۔ ایک لامحدود زندگی اور اس کے امکانات، انسان کے عقلی، اخلاقی اور جمالیاتی داعیات اور ان کی تسکین کے لیے سامان۔۔۔۔۔الغرض بے شمار سوالات ذہن میں بسیرا کیے ہوئے ہیں۔ اس پس منظر میں سوچیں بار بار اقبال کے اس شعر کا طواف کرتی رہیں۔ آپ نے جو شرح فرمائی، اس پر غالب کے ایک شعر کو ذاتی تصرف کے ساتھ پیش کرنے کی جسارت کر رہا ہوں (ہے تو یہ گستاخی، مگر تفہیمِ مدعا کے لیے جرات کر رہا ہوں)

"ہے کہاں تمنا کا دوسرا قدم یا رب"
ہم نے باغِ رضواں کو ایک نقش پا پایا
 

سید عاطف علی

لائبریرین
پچھلے کئی ماہ سے حیات بعدِ موت پر طویل غور و خوض جاری ہے۔ ایک لامحدود زندگی اور اس کے امکانات، انسان کے عقلی، اخلاقی اور جمالیاتی داعیات اور ان کی تسکین کے لیے سامان۔۔۔۔۔الغرض بے شمار سوالات ذہن میں بسیرا کیے ہوئے ہیں۔ اس پس منظر میں سوچیں بار بار اقبال کے اس شعر کا طواف کرتی رہیں۔ آپ نے جو شرح فرمائی، اس پر غالب کے ایک شعر کو ذاتی تصرف کے ساتھ پیش کرنے کی جسارت کر رہا ہوں (ہے تو یہ گستاخی، مگر تفہیمِ مدعا کے لیے جرات کر رہا ہوں)

"ہے کہاں تمنا کا دوسرا قدم یا رب"
ہم نے باغِ رضواں کو ایک نقش پا پایا
یہاں آپ نے دشت کو باغ بنا دیا ۔ کہاں دشت کہاں باغ :)
 
یقین کیجئے کہ میں نے آپ کی بات یقین کیا اور اس سے اتفاق بھی کیا ۔ :)
اپنے آرٹیکل عنایت کیجیئے گا۔کوئی پچیس برس کی مدت ہوئی مجھے ان موضوعات کا مطالعہ نہیں رہا۔
نوازش محبت عنایت۔ گیریژن یونی ورسٹی کی ویب سائٹ پر آن لائن موجود ہے۔ (گزشتہ موجود ہیں یقینا یہ بھی آن لائن ہوگیا ہوگا) یہاں تصاویر ارسال کرنا بہت مشکل عمل ہے اس لیے معذرت البتہ آپ الگ سے وٹس ایپ کا نمبر عنایت فرمایجیے تو میں آپ کو تصاویر ارسال کردوں گا۔ ایک بات اور کہ آرٹیکل چوں کہ ایک دوست کی فوری فرمائش پر تحریر کیا گیا تھا اس لیے بعد میں دورانِ تحقیق کچھ تبدیلیاں کر لی تھیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس میں جن شروح کا جائزہ لیا گیا تھا ان میں سید نذیر نیازی اور ڈاکٹر وحید عشرت کے تراجم کے ساتھ ساتھ

ڈاکٹرجاوید اقبال کی ”خطباتِ اقبال تسہیل و تفہیم “
ڈاکٹرمحمد آصف اعوان کی”علم اور مذہبی تجربہ (تحقیقی و توضیحی مطالعہ )“
ڈاکٹرمحمد آصف اعوان کی”معارف خطبات اقبال“
محمد شریف بقاءکی ”خطباتِ اقبال ایک جائزہ “،
الطاف احمد اعظمی کی ” خطباتِ اقبال ایک مطالعہ“
سعید احمد اکبر آبادی کی ”خطباتِ اقبال پر ایک نظر“
محمد شعیب آفریدی کا ”خطباتِ اقبال کی اردو تسہیلی کتب کا تحقیقی و تنقیدی جائزہ“،
ڈاکٹرسید عبداللہ کی مرتبہ متعلقاتِ خطباتِ اقبال، اور اس میں ”اقبال اور دینی تجربہ“ شرح از: عبدالحفیظ کاردار
وحید الدین کی ” فلسفہ اقبال خطبات کی روشنی میں“
خلیفہ عبدالحکیم کی”تلخیص خطباتِ اقبال
سہیل عمر کی "سہیل عمر کی خطبات اقبال نئے تناظر میں"
ودیگر کا جزوی مطالعہ شامل تھا بعد میں ان کا مفصل جائزہ پیش کیا گیا جس کی وجہ سے آرٹیکلز کی تعداد بھی بڑھ گئی اور اب وہ مختلف جامعات کے ریسرچ جنرلز میں طباعت کے لیے گئے ہوئے ہیں جن میں:
محرکات خطبات اقبال
خطبات اقبال اور اقبال کا ذہنی ارتقا
خطبات اقبال تاریخ کے آئینے میں اور موضوعاتِ خطبات اقبال شامل ہیں۔ ان شا اللہ یہ سب جنرلز میں شامل ہوجائیں میں بصد شوق انھیں محفل پر شامل کروں گا۔
 
پچھلے کئی ماہ سے حیات بعدِ موت پر طویل غور و خوض جاری ہے۔ ایک لامحدود زندگی اور اس کے امکانات، انسان کے عقلی، اخلاقی اور جمالیاتی داعیات اور ان کی تسکین کے لیے سامان۔۔۔۔۔الغرض بے شمار سوالات ذہن میں بسیرا کیے ہوئے ہیں۔ اس پس منظر میں سوچیں بار بار اقبال کے اس شعر کا طواف کرتی رہیں۔ آپ نے جو شرح فرمائی، اس پر غالب کے ایک شعر کو ذاتی تصرف کے ساتھ پیش کرنے کی جسارت کر رہا ہوں (ہے تو یہ گستاخی، مگر تفہیمِ مدعا کے لیے جرات کر رہا ہوں)

"ہے کہاں تمنا کا دوسرا قدم یا رب"
ہم نے باغِ رضواں کو ایک نقش پا پایا
ان سوالات پر غور و فکر کئی حوالوں سے احسن عمل ہے ۔ اگر مناسب سمجھیں تو کچھ سوالات کے جوابات کی تلاش میں مجھے بھی شامل کیجیے گا۔ میں زمان و مکاں کے مباحث میں طویل عرصے تک گرفتار رہا ہوں ۔
 
Top