سید شہزاد ناصر
محفلین
٭ ڈاکٹر محبوب راہی: ایک تو عشق باعتبار موضوع بجائے خود اتھاہ سمندروں سی گہرائی ۔گیرائی ،وسعت عمق بیکرانی ،موج در موج طغیانی اور تہہ در تہہ معنویت نیز آسمانوں سی بلندیوں اور پہاڑوں سی ٹھوس حقیقت کا حامل ،اس پر مستزاد اقبال کا فلسفیانہ انداز فکر حکیمانہ زاویہ نظر،خطیبانہ انداز تخاطب ،غنائیت سے بھر پور پر تمکنت لہجہ،منفرد رنگ و آہنگ باوقار طرز تکلم، جدت تخیل ندرت بیان اور فکر و نظر کی آفاقیت اس طرح عشق کے جذبہ لا فانی اور اقبال کی فکر لاثانی دونوں کے خوشگوار امتزاج اور متوازن ومتناسب اشتراک سے جو تخلیق پارے عالم شہود میں آئے اردو کے خزینہ شعر وادب میں بیش بہا اور لازوال اضافوں کا موجب قرار پائے ۔موضوع کی آفاقیت ،ہم گیریت ،وسیع تر معنویت ،وقعت،عظمت اور افادیت اس امر کی متقاضی ہے کہ متعلقہ تمام تر تفصیلات کا اگر اجمالی طور پر دیانت دارانہ محاکمہ کیا جائے تو کئی ضخیم جلدیں در کار ہوں لہذا ایک مختصر سے مقالے میں اس کے حق کی منصفانہ ادائیگی کے دعوے کی حماقت مجھ سے نہیں ہوگی ۔ساتھ ہی اس موضوع پر خامہ فرسائی کی اولیت کا سہرا اپنے سر باندھنے کا بچکانہ دعویٰ بھی نہیں کروں گا کہ جانتا ہوں ۔اقبال کی کثیر الجہات شاعری کی ہر ہر جہت پر اتنے سارے ارباب کمال اصحاب فکر و بصیرت نے ایسے ایسے عالمانہ اور محققانہ انداز میں اتنا بہت کچھ لکھا ہے کہ ان کا سر سری تجزیہ تو درکنار نمبر شماری کی بھی اس مضمون میں گنجائش نہیں ہے ۔اور جب معاملہ اقبال کے تصور عشق کی آفاقیت کا ہو تو صورت حال کی صداقت کے لئے غالب کا مصرعہ،سفینہ چاہئے اس بحر بیکراں کے لئے، عرض کر دینا کافی ہے لہذا بغیر عالمانہ یا محققانہ تکمیلیت کے کسی دعوے کے اپنے ناقص مطالعے کا آموختہ ایک طالب علم کی حیثیت سے پیش کرنے کی جسارت کر رہا ہوں ۔اقبال کا تصور عشق جو ایک آفاقی یا تکوینی جذبے سے وابستہ ہے جس پر اقبال نے اپنے موضوعاتی اشعار کی بنیاد یں استوار کی ہیں وہ عشق ہر گز ہر گز نہیں ہے جس کے وسیلے سے ہماری بیشتر غزلیہ شاعری اور فلمی گیتوں میں بدن کی جمالیات سے متعلق فحاشی اور عریانیت کی تشہیر و تر سیل کرتے ہوئے سفلی جذبات کی ترجمانی اور نفسانی خواہشات یعنی شہوانیت کی تسکین کے اسباب فراہم کئے جاتے ہیں اور جسے ارباب ہوس نے عشق مجازی سے موسوم کرتے ہوئے عشق جیسے آفاقی ،مقدس اور پاکیزہ جذبے کو خواہ مخواہ حقیقی اور مجازی کے خانوں میں تقسیم کر رکھا ہے اور اس طرح اپنی فکر کی عریانی اور تخیل کی بے لباسی کو ایک خوش رنگ طلسمی اور خیالی قبا سے چھپانے کی سعی نا تمام کی ہے ۔عشق مجازی اور بدن کی جمالیات دونوں کی اصل میرے نزدیک ایک لذت انگیزی اور لطف آموزی کے ایک قطعی عارضی وقتی اور ہنگامی خوشگوار جھونکے سے زیادہ کچھ نہیں ہے ۔وہ عشق مجازی جو بدن کی جمالیات بالفاظ دیگر شہوانی خواہشات سے وابستہ ہے لذت انگیزی کی چند ہیجانی ساعتوں یا عمر کی چند برسوں کی ایک متعینہ مدت پر محیط ہوتا ہے جسے ایام شباب یا پھر امنگوں کی راتیں مرادوں کے دن سے تعبیر کیا جاتا ہے ۔اس کے گزرتے ہی عشق کا سارا نشہ ہرن یعنی ٹائیں ٹائیں فش ہو کر رہ جاتا ہے ۔پھر وہ عشق کیونکر ہوا کہ عشق تو حیات و کائنات کی رگ و پے میں روح رواں کی طرح جاری و ساری ایک ابدی اور لازوال جذبہ ہے بقول شاعر
عشق ہی عشق ہے جدھر دیکھو سارے عالم پہ چھا رہا ہے عشق
یہی آفاقی اور لافانی جذبہ عشق جسے موت بھی مار نہیں سکتی اقبال کی شاعری کی رگوں میں گرم لہو کی طرح دوڑ رہا ہے بقول اسلوب احمد انصاری ”لفظ عشق اقبال کے ہاں وسیع معانی کا ھامل ہے ۔یہ حیاتیاتی سے زیادہ روحانی اور آفاقی ،مضمرات کی طرف ذہن کو منتقل کرتا ہے ۔برطانوی شاعر ورڈ زدرتھ ہی کی مثل اقبال ہے ہاں بھی جس کا گزر نہیں یہ انسانی رشتوں اور احساسات قلبی کی شاعری نہیں ۔اس کا رنگ و آہنگ حافظ ،میر،غالب سے مختصر اور متمائز ہے “ (اقبال کی منتخب نظمیں اور غزلیں تنقیدی مطالعہ ۔اسلوب احمد انصاری ۔ص ۲۷)یہ انسانی رشتے اور احساسات وہی ہیں جنہیں خاکسار نے جسمانی رشتوں یا نفسانی خواہشات سے وابستہ احساسات سے تعبیرکیا ہے جنہیں ارباب نظر ہوس کاری سے بھی موسوم کرتے ہیں ۔عشق کوئی رشتہ نہیں یہ تو یک آفاقی جذبہ ہے جس کا تعلق جسمانی تقاضوں سے نہیں راست روح کی پروازوں سے ہوتا ہے ۔جو حسن و جمال سے وابستہ ضرور ہوتا ہے لیکن اس حسن و جمال سے جو ازلی اور ابدی ہے اللہ جمیل یحب الجمال۔اللہ جمیل ہے اور جمال کو پسند فرماتا ہے ۔لہذا اللہ کے جمال سے عشق ہی عشق لازوال ہے ۔اللہ بس باقی ہوس ۔بقول اقبال
عشق طینت میں فرو مایہ نہیں مثل ہوس
پر شہباز سے ممکن نہیں پرواز مگس
اور بقول غالب
ہر بوالہوس نے حسن پرستی شعار کی
اب آبروئے شیوہ¿ اہل نظر گئی
وجودزن کے تصویر کائنات کی رنگینی کا سبب ہونے کے اعتراف کے باوجود اقبال کو اس کا فنکاروں کے اعصاب پر ہمہ وقت سوار رہنا پسند نہیں ۔فرماتے ہیں
ہند کے شاعر و صورت گر و افسانہ نویس
آہ بیچاروں کے اعصاب پہ عورت ہے سوار
عشق تو اقبال کے ہاں کبھی آوارہ و بے خانماں ہے کبھی شہنشاہ نو شیرواں ،کبھی میدان میں زرہ پوش ہے کبھی بے تیغ و سناں عریاں اور نہتا۔کبھی کوہ ودمن میں تنہا ہے کبھی سوز وسرور انجمن بن کر محراب و منبر پر جلوہ آرا اور کبھی شیر خدا حضرت علی کے ساتھ خیبر شکن۔اقبال تو درد عشق کو بھی گہرآبدار سے تعبیر کرتے ہیں اور اسے نا محرموں سے پردہ داری کا مشورہ دیتے ہیں ۔
اے درد عشق ہے گہرا آبدار تو
نا محرموں میں دیکھ نہ ہو آشکار تو
لہذا وہ ظاہر پرستوں کی نگاہوں سے اسے دور رکھنا چاہتے ہیں کہ دونوں میں عشق کا اظہار بے لطفی کا موجب ہے ۔وہ اسے نالہ¿ بلبل ،جام لالہ ،گریہ¿ شبنم ،اشک جگر گداز زبان شاعر یا آواز کا منت پذیر ہونے کے بجائے کسی سر بستہ راز کی طرح سینے میں پوشیدہ رکھنا چاہتے ہیں ۔لہذا فرماتے ہیں
یہ دور نکتہ چیں ہے کہیں چھپ کے بیٹھ رہ
جس دل میں تو مکیں ہے وہیں چھپ کے بیٹھ رہ
اس طرح نظم عشق اور موت کے وسیلے سے وہ موت کو لافانی اور عشق کو لافانی قرار دیتے ہوئے تبسم کی بجلی سے موت کو موت کے گھاٹ اتار دیتے ہیں
بقا کو جودیکھا فنا ہوگئی وہ
قضا تھی شکار قضا ہو گئی وہ
اور نظم دل کے آخری شعر میں دل کی کیفیت بیان کرتے ہوئے مشورہ دیتے ہیں کہ
عشق اب پیروی عقل خدا داد کرے
آبرو کوچہ جاناں میں نہ برباد کرے
کہنہ پیکر میں نئی روح کو آباد کرے
یا کہن روح کو تقلید سے آزاد کرے
دل ہی کے تعلق سے اقبال انکشاف کرتے ہیں کہ
عشق کے دام میں پھنس کر یہ رہا ہوتا ہے
برق گرتی ہے تو نخل ہرا ہوتا ہے
اقبال کا عشق دنیا بھرسے نرالا ہے
رلاتی ہے مجھے راتوں کو خاموشی ستاروں کی
نرالا عشق ہے میرا نرالے میرے نالے ہیں
و ہ شوق دید میںآنکھیں کھلی رکھنے کے بجائے بند رکھنے کو ترجیح دیتے ہیں
ہو دید کا جو شوق تو آنکھوں کو بند کر
ہے دیکھنا یہی کہ نہ دیکھا کرے کوئی
آنکھیں بند رکھتے ہوئے دل خونچکاں کو بھی تنبیہ کرتے ہیں
خموش اے دل بھری محفل میں چلانہ نہیں اچھا
ادب پہلا قرینہ ہے محبت کے قرینوں میں
اور اس قرینے کے ساتھ یہ بھی کہ
ہے عاشقی میں رسم الگ سب سے بیٹھنا
بت خانہ بھی،حرم بھی ،کلیسابھی چھوڑدے
جس کا جواز اقبال کے پاس یہ ہے کہ
شان کرم پہ ہے مدار عشق گرہ کشائے کا
دیر و حرم کی قید کیا جس کو وہ بے نیاز دے
اقبال نے اپنے بیشتر اشعار میں عقل پر عشق کو فوقیت اور برتری دی ہے ان کا تجربہ ہے کہ
وہ پرانے چاک جن کو عقل سی سکتی نہیں
عشق سیتا ہے انہیں بے سوزن وتارافو
وہ یہ بھی جانتے ہیں
عقل عیار ہے سو بھیس بنالیتی ہے
عشق بیچارہ نہ ملا ہے، نہ مجاہد، نہ حکیم
لہذا تاریخ عالم میں اس واقع کی دوسری نظیر نہیں ملتی جب چشم فلک نے دیکھا کہ
بے خطر کود پڑا آتش نمرود میں عشق
عقل ہے محو تماشائے لب بام ابھی
اس لئے اقبال پاسبان عقل کو دل کے پاس رکھنا اچھا تو سمجھتے ہیں تاہم اسے کبھی تنہا چھوڑنے کا مشورہ بھی دیتے ہیں تاکہ وہ تقاضائے عشق پر لبیک کہتا ہوا بے خطر آتش نمرود میں کود پڑے اور اپنے آقا کی ایک جنبش ابروپر آمناّ و صدّقنا کہتے ہوئے اپنی تمام تر متاع حیات اس کے قدموں میں نچھاور کر دے یہ کہتا ہوا کہ
پراوانے کو چراغ ہے بلبل کو پھول بس
صدیق ؓکے لئے ہے خدا کا رسولﷺ بس
اور جو کبھی اسماعیل ؑ کی طرح اپنے آپ کو رہ عشق میں قربان کرنے کے لئے پیش کردے اور کبھی حسین ؓ کی طرح اپنے تمامتر افراد خاندان کے لہو سے صحرا ئے کربلا کو لالہ زار کردے ۔
بقول اقبال
غریب و سادہ و رنگین ہے داستان حرم
نہایت اس کی حسینؓ ابتدا ہے اسماعیلؑ
اقبال تاریخ عالم میں اس زندہ و تابندہ اور قربانیوں کے اس تسلسل کی حقیقت ابدی سے بخوبی واقف ہیں کہ ہر دور میں حسینوں کو کبھی صلیب و دار پر اور کبھی صحراﺅں اور بیابانوں میں اپنی جانیں قربان کرنی پڑی ہیں ۔صرف یزیدیوں کے نام اور مقام بدلتے رہے ہیں کبھی کوفہ و شام میں شمر اور ابن زیاد ،کبھی وسط ایشیا ءمیں چنگیز وہلاکو ،کبھی عراق و افغانستان میں بش اور کبھی بھارت میں مودی کی صورت میں
حقیقت ابدی ہے مقام شبیری
بدلتے رہتے ہیں انداز کوفی و شامی
”پر تو خور سے ہے شبنم کو فنا کی تعلیم “ کے مصداق اقبال عشق میں ایک لمحہ¿ زندگی کو حرام سمجھتے ہیں ۔بقول ان کے
عشق ہے مرگ با شرف مرگ حیات بے شرف کھول کے کیا بیاں کروں سر مقام مرگ و عشق
تاہم حد ادراک س پرے عشق و مستی کے اس سر نہں کو وہ اس قدر سمجھ پاتے ہیں کہ
حد ادراک سے باہر ہیں باتیںعشق و مستی کی
سمجھ میں اسقدر آیا کہ دل کی موت ہے دوری
اور جب عشق و مستی کا یہ بھیدا ن پر کھل جاتا ہے تو وہ زماں ومکاں کی حدود سے پرے جاودانی کی حقیقت سے آشنا ہو جاتے ہیں
عشق کی اک جست نے کر دیا قصہ تمام
اس زمین و آسماں کو بیکراں سمجھاتھا میں
اقبال وجود زن کو تصویر کائنات کی رنگینی کا سبب مانتے ہیں۔نسوانی حسن انکی فطرت میں بجلی کی حرارتیں بھر دیتا ہے اس کے باوجود وہ محفل حسن میں وفانا آشنا اور تلون مزاج کے طور پرر سوا ہیں جبکہ وہ عشق میں صحرا نوردی کی بجائے شمع سوزاں کی طرح محفل حسن و عشق کو شریک سوز ودردکرنے کو ترجیح دیتے ہیں کیونکہ وہ اس حقیقت کا کشف رکھتے ہیں کہ
عشق سے پیدا نوائے زندگی میں زیر وبم
عشق سے مٹی کی تصویر وں میں سوزد مبدم
آدمی کے ریشے ریشے میں سما جاتاہے عشق
شاخ گل میں جس طرح باد سحر گاہی کا نم
اور وہ اس حقیقت سے بھی آشنا ہیں کہ
کیا عشق ایک زندگی مستعار کا
کیا عشق پائیدار سے نا پائیدار کا
وہ عشق جس کی شمع بجھادے اجل کی پھونک
اس میں مزہ نہیں تپش انتظار کا
اقبال یہ بھی جانتے ہیں کہ
بنایا عشق نے دریا ئے ناپیداکراں مجھ کو لہذا انہیں اندیشہ ہے کہ
یہ میری خود نگہداری مراساحل نہ ہو جائے
اقبال لندن میں زیر تعلیم اپنے لخت جگر جاوید کو لکھتے ہیں
دیار عشق میں اپنا مقام پیدا کر
نئے زمانے ن ئے صبح و شام پیدا کر
ساتھ ہی اسے کامیابی اور کامرانی کے نسخہ¿ کیمیا کا پتہ بھی بتاتے ہیں
ہے شباب اپنے لہو کی آگ میں جلنے کا نام
سخت کوشی سے ہے تلخ زندگانی انگبیں
اور کبھی اپنے آپ سے یوں مخاطب ہوتے ہیں
تو بچا بچا کے نہ رکھ اسے ترا آئینہ ہے وہ آئینہ
کہ شکستہ ہو تو عزیز تر ہے نگاہ آئینہ ساز میں
وہ عشق میںدوئی اور ریاکاری کے قائل نہیں
میں جو سر سجدہ کبھی ہوا تو زمیں سے آنے لگی صدا
ترا دل تو ہے صنم آشنا تجھے کیا ملے گا نماز میں
اقبال ایسی بے سرو ر نمازوں اور بے حضور سجدوں کو عشق کی آگ کے بجھ جانے کا سبب قرار دیتے ہیں اور نہایت حسرت و یاس کے ساتھ فرماتے ہیں
بجھی عشق کی آگ اندھیر ہے
مسلماں نہیں راکھ کا ڈھیر ہے
کیونکہ اگرمسلماں کے دل میں عشق کی آگ روشن ہوتی تو
خوار جہاں میں کبھی ہو نہیں سکتی وہ قوم
عشق ہو جس کا جسور فقر ہو جس کا غیور
اور یہ کہ
توڑ دیتا ہے بت ہستی کو ابراہیم ؑعشق
ہوش کا دارو ہے گویا مستی تسنیم عشق
غزلوں اور نظموں کے ان منتخب اشعار کے علاوہ کلیات اقبال میں عشق کے موضوع پر اقبال کی اور بھی کئی طویل و مختصر نظمیں شامل ہیں جنہیں ایثار وقربانی کے اسلامی یا قرآنی فلسفے کے خمیر میں تاریخی،سماجی اور ثقافتی حقائق کے ساتھ گوندھ کر عشق کی لازوال آفاقیت کو اجاگر کرتے ہوئے اسے اسلام کی عین روح قرار دیتے ہیں اور دور حاضر میں جس کے فقدان کو اسلام اور مسلمانوں کی زوال پذیر ی کا بنیادی سبب قرار دیتے ہیں ۔اقبال کی ان نظموں میں درد عشق اور موت،دل حسن و عشق،عاشق ہرجائی ،پیام عشق ،صدیق ،بلال،فرشتوں کاگیت ،ذوق و شوق ۔جنگ یرموک ،ہنروران ہند،علم عشق اور عصر حاضر ،اقبال کے تصور عشق کی ترجمانی کرنے میں بنیادی کردار ادا کرتی ہیں لیکن اس موضوع پر اقبال کی سب سے زیادہ معرکة الآرا نظم مسجد قرطبہ ہے جس کے وسیلے سے اقبال نے عشق ،وقت تاریخ اور انقلاب کے بارے میںاپنی فکری نظام کے نتائج پیش کئے ہیں ۔اس نظم میں جو چیز اقبال کی حس تخلیق کو متحرک ،متموج اور مہمیز کرتی ہے وہ اس عظیم القدر عدیم المثال اور یکتا ئے روز گار عمارت کی فن تعمیر کے دلکش اور جاذب نظر نقوش ہیں۔اقبال امواج تخیل کے زیر وبم کی بنیاد پر مسجد قرطبہ کو موضوع سخن بنا کر زماں و مکاں سے وابستگی ادغام اور تسلسل کو نقش گر حیات اور سلسلہ روز و شب کو اصل حیات وممات قرار دیتے ہیں اور اسی سلسلہ حیات و ممات کے تسلسل کی درمیانی کڑی عشق ہے جسے اقبال نے زندگی کا اضطراب ،کشمکش، تموج نیز اس کا مبداءاور منتہا قرار دیا ہے ساتھ ہی عشق کو ابدیت ،دوامیت اور استحکام سے موسوم کرتے ہوئے اسے اصل حیات اور موت کو اس پر حرام بتایا ہے
مرد خدا کا عمل عشق سے صاحب فروغ
عشق ہے اصل حیات موت ہے اس پر حرام
پھر تسلسل کو برقرار رکھتے ہوئے اقبال عشق کو دم جبریل ،دل مصطفی ،خدا کے رسول ،خداکے کلام صہبائے خام ،کاس الکرام ،فقیہہ حرم ،امیر جنود،ابن السبیل ،نغمہ تارحیات، نورحیات اور نارحیات جیسے عظمت ورفعت کے مقامات اعلیٰ و ارفع پر متمکن کر کے مسجد قرطبہ کے وجود کو عشق کامرہون منت قرار دیتے ہیں
اے حرم قرطبہ عشق سے تیرا وجود
عشق سراپا دوام جس میں نہیں رفت وجود
اور پھر معجزہ¿ فن میں خون جگر کی کرشمہ سازیوں ،شوق کی نغمہ سنجیوں ،مسجد قرطبہ کے جلال و جمال اور حسن ظاہری و باطنی کو بندہ¿ مومن کے راز افشا کرنے کا سبب بتاتے ہیں ۔پھر سلسلہ کلام جاری رکھتے ہوئے مرد مومن کے مقامات بلند کی نشاندہی کرتے ہیں ،اور آخری بند میں قرطبہ سے ملحق دریائےے کبیر کے کنارے امید افزا مستقبل کے خواب میں محو ہو کر ان دو عبرت انگیز حقیقت آمیز اور سبق آموز اشعار پر اس انقلاب آفریں نظم کا اختتام کرتے ہیں
صورت شمشیر ہے دست قضا میں وہ قوم
کرتی ہے جو ہر زماں اپنے عمل کا حساب
نقش ہیں سب نا تمام خون جگر کے بغیر
نغمہ ہے سودائے خام خون جگر کے بغیر
یہی خون جگر جس کے بغیر اس نگاہ خانہ شش جہات اور حسن و جمال و رنگ و نور سے معمور اس کائنات کے نقش و نگار بے رنگ اور نامکمل ہیں ۔یہی خون جگر جو سودائے خام کو شرف نغمگی عطا کر کے اسے مقبول خاص و عام بنا دیتا ہے ۔یہی خون جگر جو سل کو دل بنا دیتا ہے ۔یہی خون جگر جس سے بے کیف صدا سوز و سرور کی تاثیر انگیزی کے ساتھ دلوں کو مسحور کرتی ہے ۔یہی خون جگر تو ہے جس کا تموج اقبال کے افکار و اشعار کی رگوں میں ٹھاٹھیں مار رہا ہے اور جس سے اقبال کا معجزہ فن نمو پا کر ان کے جذبہ¿ شوق اور تصور عشق کی رنگینی و رعنائی کو آفاقیت عطا کرتا ہے ۔
٭٭٭ڈاکٹر محبوب راہی
بارسی ٹاکلی ضلع اکولہ مہاراشٹر
ربط
http://www.urdutimes.in/feature_story.php?catId=5&ID=749
محمد بلال اعظم
عشق ہی عشق ہے جدھر دیکھو سارے عالم پہ چھا رہا ہے عشق
یہی آفاقی اور لافانی جذبہ عشق جسے موت بھی مار نہیں سکتی اقبال کی شاعری کی رگوں میں گرم لہو کی طرح دوڑ رہا ہے بقول اسلوب احمد انصاری ”لفظ عشق اقبال کے ہاں وسیع معانی کا ھامل ہے ۔یہ حیاتیاتی سے زیادہ روحانی اور آفاقی ،مضمرات کی طرف ذہن کو منتقل کرتا ہے ۔برطانوی شاعر ورڈ زدرتھ ہی کی مثل اقبال ہے ہاں بھی جس کا گزر نہیں یہ انسانی رشتوں اور احساسات قلبی کی شاعری نہیں ۔اس کا رنگ و آہنگ حافظ ،میر،غالب سے مختصر اور متمائز ہے “ (اقبال کی منتخب نظمیں اور غزلیں تنقیدی مطالعہ ۔اسلوب احمد انصاری ۔ص ۲۷)یہ انسانی رشتے اور احساسات وہی ہیں جنہیں خاکسار نے جسمانی رشتوں یا نفسانی خواہشات سے وابستہ احساسات سے تعبیرکیا ہے جنہیں ارباب نظر ہوس کاری سے بھی موسوم کرتے ہیں ۔عشق کوئی رشتہ نہیں یہ تو یک آفاقی جذبہ ہے جس کا تعلق جسمانی تقاضوں سے نہیں راست روح کی پروازوں سے ہوتا ہے ۔جو حسن و جمال سے وابستہ ضرور ہوتا ہے لیکن اس حسن و جمال سے جو ازلی اور ابدی ہے اللہ جمیل یحب الجمال۔اللہ جمیل ہے اور جمال کو پسند فرماتا ہے ۔لہذا اللہ کے جمال سے عشق ہی عشق لازوال ہے ۔اللہ بس باقی ہوس ۔بقول اقبال
عشق طینت میں فرو مایہ نہیں مثل ہوس
پر شہباز سے ممکن نہیں پرواز مگس
اور بقول غالب
ہر بوالہوس نے حسن پرستی شعار کی
اب آبروئے شیوہ¿ اہل نظر گئی
وجودزن کے تصویر کائنات کی رنگینی کا سبب ہونے کے اعتراف کے باوجود اقبال کو اس کا فنکاروں کے اعصاب پر ہمہ وقت سوار رہنا پسند نہیں ۔فرماتے ہیں
ہند کے شاعر و صورت گر و افسانہ نویس
آہ بیچاروں کے اعصاب پہ عورت ہے سوار
عشق تو اقبال کے ہاں کبھی آوارہ و بے خانماں ہے کبھی شہنشاہ نو شیرواں ،کبھی میدان میں زرہ پوش ہے کبھی بے تیغ و سناں عریاں اور نہتا۔کبھی کوہ ودمن میں تنہا ہے کبھی سوز وسرور انجمن بن کر محراب و منبر پر جلوہ آرا اور کبھی شیر خدا حضرت علی کے ساتھ خیبر شکن۔اقبال تو درد عشق کو بھی گہرآبدار سے تعبیر کرتے ہیں اور اسے نا محرموں سے پردہ داری کا مشورہ دیتے ہیں ۔
اے درد عشق ہے گہرا آبدار تو
نا محرموں میں دیکھ نہ ہو آشکار تو
لہذا وہ ظاہر پرستوں کی نگاہوں سے اسے دور رکھنا چاہتے ہیں کہ دونوں میں عشق کا اظہار بے لطفی کا موجب ہے ۔وہ اسے نالہ¿ بلبل ،جام لالہ ،گریہ¿ شبنم ،اشک جگر گداز زبان شاعر یا آواز کا منت پذیر ہونے کے بجائے کسی سر بستہ راز کی طرح سینے میں پوشیدہ رکھنا چاہتے ہیں ۔لہذا فرماتے ہیں
یہ دور نکتہ چیں ہے کہیں چھپ کے بیٹھ رہ
جس دل میں تو مکیں ہے وہیں چھپ کے بیٹھ رہ
اس طرح نظم عشق اور موت کے وسیلے سے وہ موت کو لافانی اور عشق کو لافانی قرار دیتے ہوئے تبسم کی بجلی سے موت کو موت کے گھاٹ اتار دیتے ہیں
بقا کو جودیکھا فنا ہوگئی وہ
قضا تھی شکار قضا ہو گئی وہ
اور نظم دل کے آخری شعر میں دل کی کیفیت بیان کرتے ہوئے مشورہ دیتے ہیں کہ
عشق اب پیروی عقل خدا داد کرے
آبرو کوچہ جاناں میں نہ برباد کرے
کہنہ پیکر میں نئی روح کو آباد کرے
یا کہن روح کو تقلید سے آزاد کرے
دل ہی کے تعلق سے اقبال انکشاف کرتے ہیں کہ
عشق کے دام میں پھنس کر یہ رہا ہوتا ہے
برق گرتی ہے تو نخل ہرا ہوتا ہے
اقبال کا عشق دنیا بھرسے نرالا ہے
رلاتی ہے مجھے راتوں کو خاموشی ستاروں کی
نرالا عشق ہے میرا نرالے میرے نالے ہیں
و ہ شوق دید میںآنکھیں کھلی رکھنے کے بجائے بند رکھنے کو ترجیح دیتے ہیں
ہو دید کا جو شوق تو آنکھوں کو بند کر
ہے دیکھنا یہی کہ نہ دیکھا کرے کوئی
آنکھیں بند رکھتے ہوئے دل خونچکاں کو بھی تنبیہ کرتے ہیں
خموش اے دل بھری محفل میں چلانہ نہیں اچھا
ادب پہلا قرینہ ہے محبت کے قرینوں میں
اور اس قرینے کے ساتھ یہ بھی کہ
ہے عاشقی میں رسم الگ سب سے بیٹھنا
بت خانہ بھی،حرم بھی ،کلیسابھی چھوڑدے
جس کا جواز اقبال کے پاس یہ ہے کہ
شان کرم پہ ہے مدار عشق گرہ کشائے کا
دیر و حرم کی قید کیا جس کو وہ بے نیاز دے
اقبال نے اپنے بیشتر اشعار میں عقل پر عشق کو فوقیت اور برتری دی ہے ان کا تجربہ ہے کہ
وہ پرانے چاک جن کو عقل سی سکتی نہیں
عشق سیتا ہے انہیں بے سوزن وتارافو
وہ یہ بھی جانتے ہیں
عقل عیار ہے سو بھیس بنالیتی ہے
عشق بیچارہ نہ ملا ہے، نہ مجاہد، نہ حکیم
لہذا تاریخ عالم میں اس واقع کی دوسری نظیر نہیں ملتی جب چشم فلک نے دیکھا کہ
بے خطر کود پڑا آتش نمرود میں عشق
عقل ہے محو تماشائے لب بام ابھی
اس لئے اقبال پاسبان عقل کو دل کے پاس رکھنا اچھا تو سمجھتے ہیں تاہم اسے کبھی تنہا چھوڑنے کا مشورہ بھی دیتے ہیں تاکہ وہ تقاضائے عشق پر لبیک کہتا ہوا بے خطر آتش نمرود میں کود پڑے اور اپنے آقا کی ایک جنبش ابروپر آمناّ و صدّقنا کہتے ہوئے اپنی تمام تر متاع حیات اس کے قدموں میں نچھاور کر دے یہ کہتا ہوا کہ
پراوانے کو چراغ ہے بلبل کو پھول بس
صدیق ؓکے لئے ہے خدا کا رسولﷺ بس
اور جو کبھی اسماعیل ؑ کی طرح اپنے آپ کو رہ عشق میں قربان کرنے کے لئے پیش کردے اور کبھی حسین ؓ کی طرح اپنے تمامتر افراد خاندان کے لہو سے صحرا ئے کربلا کو لالہ زار کردے ۔
بقول اقبال
غریب و سادہ و رنگین ہے داستان حرم
نہایت اس کی حسینؓ ابتدا ہے اسماعیلؑ
اقبال تاریخ عالم میں اس زندہ و تابندہ اور قربانیوں کے اس تسلسل کی حقیقت ابدی سے بخوبی واقف ہیں کہ ہر دور میں حسینوں کو کبھی صلیب و دار پر اور کبھی صحراﺅں اور بیابانوں میں اپنی جانیں قربان کرنی پڑی ہیں ۔صرف یزیدیوں کے نام اور مقام بدلتے رہے ہیں کبھی کوفہ و شام میں شمر اور ابن زیاد ،کبھی وسط ایشیا ءمیں چنگیز وہلاکو ،کبھی عراق و افغانستان میں بش اور کبھی بھارت میں مودی کی صورت میں
حقیقت ابدی ہے مقام شبیری
بدلتے رہتے ہیں انداز کوفی و شامی
”پر تو خور سے ہے شبنم کو فنا کی تعلیم “ کے مصداق اقبال عشق میں ایک لمحہ¿ زندگی کو حرام سمجھتے ہیں ۔بقول ان کے
عشق ہے مرگ با شرف مرگ حیات بے شرف کھول کے کیا بیاں کروں سر مقام مرگ و عشق
تاہم حد ادراک س پرے عشق و مستی کے اس سر نہں کو وہ اس قدر سمجھ پاتے ہیں کہ
حد ادراک سے باہر ہیں باتیںعشق و مستی کی
سمجھ میں اسقدر آیا کہ دل کی موت ہے دوری
اور جب عشق و مستی کا یہ بھیدا ن پر کھل جاتا ہے تو وہ زماں ومکاں کی حدود سے پرے جاودانی کی حقیقت سے آشنا ہو جاتے ہیں
عشق کی اک جست نے کر دیا قصہ تمام
اس زمین و آسماں کو بیکراں سمجھاتھا میں
اقبال وجود زن کو تصویر کائنات کی رنگینی کا سبب مانتے ہیں۔نسوانی حسن انکی فطرت میں بجلی کی حرارتیں بھر دیتا ہے اس کے باوجود وہ محفل حسن میں وفانا آشنا اور تلون مزاج کے طور پرر سوا ہیں جبکہ وہ عشق میں صحرا نوردی کی بجائے شمع سوزاں کی طرح محفل حسن و عشق کو شریک سوز ودردکرنے کو ترجیح دیتے ہیں کیونکہ وہ اس حقیقت کا کشف رکھتے ہیں کہ
عشق سے پیدا نوائے زندگی میں زیر وبم
عشق سے مٹی کی تصویر وں میں سوزد مبدم
آدمی کے ریشے ریشے میں سما جاتاہے عشق
شاخ گل میں جس طرح باد سحر گاہی کا نم
اور وہ اس حقیقت سے بھی آشنا ہیں کہ
کیا عشق ایک زندگی مستعار کا
کیا عشق پائیدار سے نا پائیدار کا
وہ عشق جس کی شمع بجھادے اجل کی پھونک
اس میں مزہ نہیں تپش انتظار کا
اقبال یہ بھی جانتے ہیں کہ
بنایا عشق نے دریا ئے ناپیداکراں مجھ کو لہذا انہیں اندیشہ ہے کہ
یہ میری خود نگہداری مراساحل نہ ہو جائے
اقبال لندن میں زیر تعلیم اپنے لخت جگر جاوید کو لکھتے ہیں
دیار عشق میں اپنا مقام پیدا کر
نئے زمانے ن ئے صبح و شام پیدا کر
ساتھ ہی اسے کامیابی اور کامرانی کے نسخہ¿ کیمیا کا پتہ بھی بتاتے ہیں
ہے شباب اپنے لہو کی آگ میں جلنے کا نام
سخت کوشی سے ہے تلخ زندگانی انگبیں
اور کبھی اپنے آپ سے یوں مخاطب ہوتے ہیں
تو بچا بچا کے نہ رکھ اسے ترا آئینہ ہے وہ آئینہ
کہ شکستہ ہو تو عزیز تر ہے نگاہ آئینہ ساز میں
وہ عشق میںدوئی اور ریاکاری کے قائل نہیں
میں جو سر سجدہ کبھی ہوا تو زمیں سے آنے لگی صدا
ترا دل تو ہے صنم آشنا تجھے کیا ملے گا نماز میں
اقبال ایسی بے سرو ر نمازوں اور بے حضور سجدوں کو عشق کی آگ کے بجھ جانے کا سبب قرار دیتے ہیں اور نہایت حسرت و یاس کے ساتھ فرماتے ہیں
بجھی عشق کی آگ اندھیر ہے
مسلماں نہیں راکھ کا ڈھیر ہے
کیونکہ اگرمسلماں کے دل میں عشق کی آگ روشن ہوتی تو
خوار جہاں میں کبھی ہو نہیں سکتی وہ قوم
عشق ہو جس کا جسور فقر ہو جس کا غیور
اور یہ کہ
توڑ دیتا ہے بت ہستی کو ابراہیم ؑعشق
ہوش کا دارو ہے گویا مستی تسنیم عشق
غزلوں اور نظموں کے ان منتخب اشعار کے علاوہ کلیات اقبال میں عشق کے موضوع پر اقبال کی اور بھی کئی طویل و مختصر نظمیں شامل ہیں جنہیں ایثار وقربانی کے اسلامی یا قرآنی فلسفے کے خمیر میں تاریخی،سماجی اور ثقافتی حقائق کے ساتھ گوندھ کر عشق کی لازوال آفاقیت کو اجاگر کرتے ہوئے اسے اسلام کی عین روح قرار دیتے ہیں اور دور حاضر میں جس کے فقدان کو اسلام اور مسلمانوں کی زوال پذیر ی کا بنیادی سبب قرار دیتے ہیں ۔اقبال کی ان نظموں میں درد عشق اور موت،دل حسن و عشق،عاشق ہرجائی ،پیام عشق ،صدیق ،بلال،فرشتوں کاگیت ،ذوق و شوق ۔جنگ یرموک ،ہنروران ہند،علم عشق اور عصر حاضر ،اقبال کے تصور عشق کی ترجمانی کرنے میں بنیادی کردار ادا کرتی ہیں لیکن اس موضوع پر اقبال کی سب سے زیادہ معرکة الآرا نظم مسجد قرطبہ ہے جس کے وسیلے سے اقبال نے عشق ،وقت تاریخ اور انقلاب کے بارے میںاپنی فکری نظام کے نتائج پیش کئے ہیں ۔اس نظم میں جو چیز اقبال کی حس تخلیق کو متحرک ،متموج اور مہمیز کرتی ہے وہ اس عظیم القدر عدیم المثال اور یکتا ئے روز گار عمارت کی فن تعمیر کے دلکش اور جاذب نظر نقوش ہیں۔اقبال امواج تخیل کے زیر وبم کی بنیاد پر مسجد قرطبہ کو موضوع سخن بنا کر زماں و مکاں سے وابستگی ادغام اور تسلسل کو نقش گر حیات اور سلسلہ روز و شب کو اصل حیات وممات قرار دیتے ہیں اور اسی سلسلہ حیات و ممات کے تسلسل کی درمیانی کڑی عشق ہے جسے اقبال نے زندگی کا اضطراب ،کشمکش، تموج نیز اس کا مبداءاور منتہا قرار دیا ہے ساتھ ہی عشق کو ابدیت ،دوامیت اور استحکام سے موسوم کرتے ہوئے اسے اصل حیات اور موت کو اس پر حرام بتایا ہے
مرد خدا کا عمل عشق سے صاحب فروغ
عشق ہے اصل حیات موت ہے اس پر حرام
پھر تسلسل کو برقرار رکھتے ہوئے اقبال عشق کو دم جبریل ،دل مصطفی ،خدا کے رسول ،خداکے کلام صہبائے خام ،کاس الکرام ،فقیہہ حرم ،امیر جنود،ابن السبیل ،نغمہ تارحیات، نورحیات اور نارحیات جیسے عظمت ورفعت کے مقامات اعلیٰ و ارفع پر متمکن کر کے مسجد قرطبہ کے وجود کو عشق کامرہون منت قرار دیتے ہیں
اے حرم قرطبہ عشق سے تیرا وجود
عشق سراپا دوام جس میں نہیں رفت وجود
اور پھر معجزہ¿ فن میں خون جگر کی کرشمہ سازیوں ،شوق کی نغمہ سنجیوں ،مسجد قرطبہ کے جلال و جمال اور حسن ظاہری و باطنی کو بندہ¿ مومن کے راز افشا کرنے کا سبب بتاتے ہیں ۔پھر سلسلہ کلام جاری رکھتے ہوئے مرد مومن کے مقامات بلند کی نشاندہی کرتے ہیں ،اور آخری بند میں قرطبہ سے ملحق دریائےے کبیر کے کنارے امید افزا مستقبل کے خواب میں محو ہو کر ان دو عبرت انگیز حقیقت آمیز اور سبق آموز اشعار پر اس انقلاب آفریں نظم کا اختتام کرتے ہیں
صورت شمشیر ہے دست قضا میں وہ قوم
کرتی ہے جو ہر زماں اپنے عمل کا حساب
نقش ہیں سب نا تمام خون جگر کے بغیر
نغمہ ہے سودائے خام خون جگر کے بغیر
یہی خون جگر جس کے بغیر اس نگاہ خانہ شش جہات اور حسن و جمال و رنگ و نور سے معمور اس کائنات کے نقش و نگار بے رنگ اور نامکمل ہیں ۔یہی خون جگر جو سودائے خام کو شرف نغمگی عطا کر کے اسے مقبول خاص و عام بنا دیتا ہے ۔یہی خون جگر جو سل کو دل بنا دیتا ہے ۔یہی خون جگر جس سے بے کیف صدا سوز و سرور کی تاثیر انگیزی کے ساتھ دلوں کو مسحور کرتی ہے ۔یہی خون جگر تو ہے جس کا تموج اقبال کے افکار و اشعار کی رگوں میں ٹھاٹھیں مار رہا ہے اور جس سے اقبال کا معجزہ فن نمو پا کر ان کے جذبہ¿ شوق اور تصور عشق کی رنگینی و رعنائی کو آفاقیت عطا کرتا ہے ۔
٭٭٭ڈاکٹر محبوب راہی
بارسی ٹاکلی ضلع اکولہ مہاراشٹر
ربط
http://www.urdutimes.in/feature_story.php?catId=5&ID=749
محمد بلال اعظم