کسی بھی زبان کے بلند پایہ ادیب اور شاعر زمانے کے نبض شناس ہوتے ہیں۔ وہ ماضی اور حال سے واقف، بہتر مستقبل کے نقیب ہوتے ہیں۔ بدلتے ہوئے تہذیبی، ثقافتی، سیاسی اور سماجی حالات کو تیزی کے ساتھ بھانپ لیتے ہیں۔ ان کی تخلیقات آفاقی، زمان و مکان کی قید سے آزاد ہوتی ہیں۔ جو نہ صرف تخلیق کار کے عہد کی آئینہ دار ہوتی ہیں بلکہ آنے والے عہد پر اثر انداز بھی۔ غالب کی شاعری اپنی مشکل پسندی کے باوصف اس کی ایک بہترین مثال ہے جو اپنی بھرپور معنویت، گہرائی، گیرائی کے لیے شہرت رکھتی ہے۔ شاید اس لیے جس کسی نے بھی ان کے کلام کا مطالعہ کیا اسے اپنی سطحِ ذہنی کے مطابق سمجھا اور لطف اندوز ہوا ہے۔ غالب کے شعور کو سمجھنے اور ان کے ذہن کو پڑھنے کے لیے یہ ضروری ہے کہ اس عہد کی دلی کے ادبی اور علمی ماحول کا جائزہ لیا جائے جس میں ان کی زندگی کا ایک بڑا عرصہ گزرا۔ یہ اور بات ہے کہ اس معاملہ میں ان کی ذہنی نشونما اور تفکر کا بڑا دخل تھا۔ تاریخی شہادتوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ شہرِ دلی اپنے بسائے جانے کے بعد سے غدر تک علمی مزاج کی حامل رہی جو التمش کی علم دوستی اور معارف پروری کا نتیجہ تھی۔ یہاں تک کہ ایشیاء خاص طور پر مغربی ایشیاء کے علماء اور فضلاء نے دلی کو اپنی جائے رہائش بنا لیا تھا۔ ہر عالم کے مکان کو ایک درس گاہ کی حیثیت حاصل تھی۔ مدرسوں کا قیام عمل میں لانا صدقہء جاریہ کا درجہ رکھتا تھا۔ چنانچہ غالب کے عہد تک دلی میں بے شمار مدارس کا قیام عمل میں آ چکا تھا۔ ان مدرسوں کے نصاب میں طبعی سائنس کا غلبہ تھا جو اس دور میں معقولات کے نام سے پڑھائی جاتی تھی۔ اس میں علم طبیعیات، ریاضیات، فلکیات اور عنصریات شامل تھے۔ شہر کے عالم فاضل حضرات کے مابین سائنسی علوم کے کئی ایک مسائل زیربحث رہا کرتے۔ ماہرین علم و دانش کا خیال ہے کہ غالب اور دلی کے علماء کے مابین سائنسی علوم کے مسائل یقیناَ زیرِ گفت گو رہے ہوں گے۔ غالب کے عہد میں ملک کس دور سے گزر رہا تھا اور یورپ کی ترقی کے اس پر کیا اثرات پڑھ رہے تھے، اس کے متعلق ڈاکٹر محمد حسن "غالب اور عہدِ غالب" کے زیرعنوان اپنے ایک مقالے میں اس طرح رقم طراز ہیں: غالب کے دور تک آتے آتے ایک طرف تو یورپ عہدِ ظلمت سے نکل کر روشن خیالی کے دور میں داخل ہو چکا تھا تو دوسری طرف ایشیاء سے اس کے تجارتی تعلق کی اجارہ داری ہندوستان ہی نہیں، ترک ایرانیوں کے ہاتھ سے بھی نکل چکی تھی جو ہند ایرانی تہذیب کی بنیاد تھی۔ اب ان اہلِ حرفہ کی اہمیت نہ تھی جو ڈھاکے کی ململ بنتے اور بیرون ملک برآمد کرتے تھے۔ اب انسان اپنے ہاتھ میں 'عقل اور ارتقاء' کے نئے ہتھیار کے ذریعے لامحدود اختیارات کو ختم کرنے کے خواب دیکھنے لگا تھا۔ غالب ایک حساس دل و دماغ کے مالک تھے۔ انہیں اس دور میں پڑھائے جانے والے تمام روایتی علوم اور ان کے ابتدائی اصولوں سے واقفیت حاصل تھی۔ ان علوم میں علم ہئیت، فلکیات، طب اور مابعدالطبیعیات قابلِ ذکر ہیں۔ اس کے علاوہ ان کے مطالعہ میں حقائق اور معارف کی کتابیں شامل رہتیں اور ان علوم پر انہیں دسترس بھی حاصل تھی۔ یادگارِ غالب میں الطاف حسین حالی لکھتے ہیں: علم تصوف جس کی نسبت کہا گیا ہے کہ 'برائے شعر گفتن خوب است' ان کو خاص مناسبت تھی اور حقائق و معارف کی کتابیں اور رسالے کثرت سے ان کے مطالعہ سے گزرتے تھے اور سچ پوچھیے تو انہی متصوفانہ خیالات نے مرزا کو نہ صرف اپنے ہم عصروں بلکہ بارہویں اور تیرہویں صدی کے تمام شعراء میں ممتاز بنا دیا تھا۔ غالب کے کلام میں ان کی فکری بصیرت کے ساتھ ساتھ منطق، فلسفہ، فلکیات اور جمادات کے اصول صاف طور پر دکھائی دیتے ہیں۔ ملک محمد عنایت اللہ "الہاماتِ غالب" میں ان کی عصری حسیت اور علمی قابلیت کا اعتراف کچھ اس طرح کرتے ہیں: مرزا کی تصنیفات سے معلوم ہوتا ہے کہ انہیں علم مروجہ سے کافی واقفیت تھی۔ منطق، فلسفہ، ہئیت کی علمی مصطلحات ان کے ابتدائی کلام میں پائی جاتی ہیں نیز وہ طب کی مشہور کتب سے بھی بخوبی واقف تھے۔ مرزا غالب جدید علوم کی نہ صرف آگہی رکھتے تھے بلکہ دوسروں کو ان کے حصول کی تاکید بھی کیا کرتے تھے۔ چنانچہ ان کے ایک شاگرد میر مہدی حسین مجروح کے بھائی میر سرفراز حسین کے بارے میں جب انہیں پتہ چلا کہ وہ فقہ کی تعلیم حاصل کرنا چاہتے ہیں تو انہوں نے مجروح کو مئی 1861 میں اپنے ایک خط میں عقلی علوم حاصل کرنے کی ترغیب دی تھی: میاں! کس قصے میں پھنسا ہے؟ فقہ پڑھ کر کیا کرے گا۔ طب و نجوم و منطق و فلسفہ پڑھ جو آدمی بننا چاہے۔
(جاری ہے)
گزشتہ سے پیوستہ مرزا غالب ایک بیدار مغز ، دوربین کی طرح حالات حاضرہ پر نظر رکھتے تھے۔ برصغیر کے علمی و ادبی ماحول سے باخبر رہتے تھے جو ان کا خاص وصف تھا۔ اس بارے میں مالک رام "عیارِ غالب" میں لکھتے ہیں: وہ باقاعدہ ملک بھر کے اخبار پڑھتا ہے اور اپنے گرد و پیش کے حالات اور واقعات سے باخبر رہنا چاہتا ہے۔ لاہور کی انجمن ہو یا حیدر آباد میں شعراء کی قدردانی کا واقعہ یا کلکتہ میں کسی نئے افسر کی آمد ۔۔۔ وہ ان سب سے باخبر رہنا چاہتا ہے۔ غالب تیس سال کی عمر میں دہلی سے کلکتہ جانے کے لیے نکلتے ہیں۔ پہلے لکھنوء اور پھر وہاں سے بنارس میں قیام کے بعد کلکتہ پہنچتے ہیں۔ اس طرح وہ کوئی ڈھائی سال کے عرصے تک دلی سے باہر رہتے ہیں۔ جب وہ لوٹتے ہیں تو اس وقت شہر کی علمی و ادبی فضا کو مختلف پاتے ہیں۔ اس کے بارے میں ظ۔انصاری نے اپنے مقالہ "غالب اور وفا کا تصور" میں لکھا ہے: غالب 1830ء میں بکھرے ہوئے اپنے گھر لوٹتے ہیں۔ یہاں انگریزی تعلیم کی شروعات ہے۔ انگریزی علم و دانش کا چرچا ہے اور اس کے خلاف علومِ قدیمہ سے وفاداری کا محاذ گرم ہے۔ اُدھر زمین گول ہونے اور زمین کے گھومنے کی گھوم رہی ہے، اِدھر مولوی فضل حق خیر آبادی، غالب کے بزرگ دوست 'ابطالہ حرکۃ الارض" تصنیف فرما رہے ہیں۔ شاہ ولی اللہ و مجاہدین کی جماعت میں فدائیوں کی سروسامان کی اور چندے کی رقموں کی ریل پیل ہے۔ وہ تحریک جس کی موجودہ صورت کو فنڈا مینٹل کہا جاتا ہے، غالب کے کئی ہم عصر اور ہم سر اس تحریک کے ہم درد ہیں یا اس تحریک کے ہم نوا ہیں، مگر ذہنی اور نظریاتی پہلو سے شدید اختلاف رکھتے ہیں۔ غالب فکر و نظر کی پختگی اور عمل پیہم کو ذی شعور انسان کا معیار اور اختیار تمیزی مانتے تھے۔ جدید علوم اور حقائق کی جان کاری کے لیے ان میں بلا کا تجسس پایا جاتا تھا۔ یہی تجسس ان کی بصارت اور بصیرت کو پروان چڑھانے میں معاون ثابت ہوا۔ ظ۔انصاری نے غالب کے منشاء کو واضح کرنے کے لیے 'غالب شناسی' میں ان الفاظ کا سہارا لیا ہے: زندگی اور فن کے متعلق غالب تفکر کا قائل ہے۔ علوم میں معقولات (نیچرل سائنس) کی تعلیم پر زور دیتا ہے۔ ہر ایک منظر پر آنکھیں کھلی رکھنے اور اس کی تہہ میں اترنے کو ذہین آدمی کا فریضہ قرار دیتا ہے، تاہم اس کا نقطہء نظر عملی ہے۔ مرزا غالب کا دور انیسویں صدی کا دور ہے جب کہ یورپ سائنس کی ترقی سے ہم کنار ہو رہا تھا۔ جس کے اثرات ہندوستان پر بھی پڑھنے لگے تھے۔ غالب ان اثرات سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے۔ سائنس کی ترقی سے ان کی آگہی اور شعور کی بیداری، ان کے ذہن میں ایک نئے سائنسی دور کا تصور پیش کر رہی تھی۔ حامدی کاشمیری نے "غالب کے تخلیقی سرچشمے" میں اس بات کا اظہار ان الفاظ میں کیا ہے: ۔۔۔ انیسویں صدی کی روح ان کی شخصیت میں رچ بس گئی تھی اور اس صدی کے وسط تک پہنچتے پہنچتے بین الاقوامی سطح پر سائنس اور فکر و فلسفہ کی ہمہ جہت ترقی کے ساتھ ساتھ انسانی شعور، ہمہ گیری اور پھیلاؤ کے جن نئے امکانات سے روشناس ہوا، غالب انگریزی سے ناواقفیت کے باوجود ان کا وجدانی ادراک رکھتے تھے۔ اُن کا خلاق اور متجسس ذہن زندگی کے مستور گوشوں کی نقاب کشائی کے لیے مضطرب رہتا تھا۔ وہ خود میں ڈوب کر سراغ پانا چاہتے تھے۔ اُن کے شعور میں کائناتی پھیلاؤ تھا۔ انہوں نے انفرادی تجربہ، تاثیر اور تجسس کی بدولت مختلف مسائل سے آگہی پائی تھی۔ انہیں اندازہ ہو گیا تھا کہ نئے سائنسی دور میں ایک نئے انسان کی تخلیق ہو رہی ہے۔ ایک اور مقام پر ظ۔انصاری لکھتے ہیں: انگریزی تہذیب و تعلیم کے رواج نے اور ساتھ ہی پریس کی ایجاد نے ملک میں روشن خیالی کی فضا قائم کر رکھی تھی۔ دلی میں خاص طور دلی کالج کا قیام روشن فکری کی ایک زندہ علامت بن گیا تھا اور پھر وہاں سائنس، فلسفہ اور ریاضیات کے جدید علوم کی اشاعت سے روشنی کی لہریں پھیلتی رہیں جو غالب کے دل و دماغ تک بھی پہنچتی رہیں۔ وہ قدیم علوم کی بے بضاعتی اور کم مائیگی کا احساس رکھتے تھے اور نئے دور میں ان کی عملی رفاقت سے مایوس تھے۔ وہ جدید علوم کی افادیت سے باخبر تھے۔ دہلی کالج کے قیام سے شہر کے پڑھے لکھے لوگوں پر کیا اثرات مرتب ہوئے اور وہاں کی علمی و ادبی فضا میں کیا تبدیلی رونما ہوئی، اس بات کا اندازہ یوسف حسین خان کی اس تحریر سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے: دہلی کالج کے قیام سے مغربی سائنس کے علمی اصول کا عام طور پر چرچا ہونے لگا۔ اردو زبان کی نئی نئی صحافت نے بھی اس کام میں ہاتھ بٹایا۔ اس کالج میں چونکہ سائنس اور ریاضی کی تعلیم پر خاص طور سے زور دیا گیا تھا اور ان علوم کے ترجمے اور تالیفات اردو میں شائع کی گئی تھیں، اس لیے مغربی علوم کے تصورات سے پڑھے لکھے لوگ آگاہ ہونے لگے۔ مثلاََ مومن خاں اپنے مذہبی عقائد میں بڑی شدت رکھتے تھے اور اہل حدیث کی تحریک سے، جس کے قائد سید احمد بریلوی تھے، ان کا گہرا تعلق تھا لیکن بایں ہمہ انہوں نے اپنے ایک شعر میں آسمان کی گردش کی بجائے، جسے عام طور پر فارسی اور اردو کے شاعر باندھا کرتے تھے، زمین کی گردش کے تصور کو شاعرانہ آب و رنگ کے ساتھ پیش کیا۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ دہلی کالج کا پڑھے لکھے لوگوں پر کیا اثر ہوا تھا۔
(جاری ہے)
گزشتہ سے پیوستہ سر سید احمد خان ایک ایسی شخصیت کا نام ہے جو ہندوستان کے مسلمانوں کو ایک نئی سمت اور نئی روشنی سے واقف کروانا چاہتی تھی۔ سرسید نے فرسودہ علوم اور اس کی درس و تدریس پر سائنس، علوم جدیدہ اور انگریزی ذریعہ تعلیم کو ترجیح دی تھی۔ انہوں نے اکبر اعظم کے وزیر ابوالفضل کی فارسی میں لکھی ہوئی 'آئین اکبری' کی جلدوں کی تصحیح کی اور ان میں جہاں کہیں بھی خامیاں اور کوتاہیاں رہ گئی تھیں، کافی جانفشانی کے ساتھ تحقیق کر کے انہیں دور کیا اور اس کے نئے ڈھنگ سے ترتیب دیا تھا۔ سر سید نے جب مرزا غالب سے اس پر تقریظ لکھنے کی خواہش کی تو انہوں نے باوجود اس کے، کہ سرسید ان کے اچھے دوست تھے، ان کے اس کام کو قدامت پسندی اور مردہ پرستی سے تعبیر کیا۔ "آئین اکبری" پر غالب نے فارسی مثنوی پر مشتمل تقریظ لکھی جس میں انہوں نے یہ ظاہر کیا کہ ابوالفضل کی کتاب اس قابل نہ تھی کہ اس کی تصحیح میں اس قدر عرق ریزی اور جانفشانی کی ضرورت تھی۔ مزید انہوں نے انگریزوں کو اکبر اور ابوالفضل کے مقابلے میں تعریف کے قابل قرار دیا جو نئے آئین، ایجاد اور اختراع لے کر آئے تھے۔ مضطر مجاز کے کئے گئے تقریظ کے اس حصے کا اردو ترجمہ پیش کیا جاتا ہے جس میں انگریزوں کی ایجادات کی تعریف کی گئی ہے۔
اہل انگلستاں کو تو دیکھیے شیوہ و انداز ان کے بوجھیے کیسے یہ آئین لے کر آئے ہیں جو نہ دیکھا آج تک دکھلائے ہیں ان ہنرمندوں نے چمکایا ہنر اپنے پرکھوں سے آگے ہیں بیش تر داد و دانش کو ملایا، دیکھ تو! نت نئے آئین دیے ہیں ہند کو آگ پیدا ہوتی ہے جو سنگ سے کس طرح وہ خس سے لے کر آ گئے پڑھ کے کیا پھونکا انہوں نے آب پر ہیں دخانی کشتیاں مست سفر بھاپ سے کشتی کو جیحوں میں چلائیں اور کبھی پہیوں کو صحرا میں گھمائیں بھاپ کی قوت سے پہیہ گھوم جائے طاقت اسپ و گاو نر کی مات کھائے بھاپ سے کشتی میں رفتار آ گئی رہ گئے تکتے باد و موج بھی! ساز میں بے زخمہ وہ نغمے جگائیں طائروں کی طرح حرفوں کو اڑائیں ہاں! یہ مردانِ خردمند ایسے ہیں پل دو پل میں حرف میلوں بھیج دیں آگ یوں دکھلاتے ہیں وہ باد کو مثلِ اخگر بس! چمک اٹھتی ہے وہ دیکھ جا کر لندنِ رخشندہ باغ ہے وہ سارا شہر روشن بے چراغ ہوش مندوں کے ہیں ایسے کاروبار ہیں ہر ایک آئین میں آئین ہزار!
اس طرح یہ کہا جا سکتا ہے کہ غالب جدید رجحانات کو قبول کرنے کے معاملہ میں سر سید سے بھی آگے تھے۔ اسی بات کا اظہار خلیفہ عبدالحکیم نے اپنی کتاب 'افکارِ غالب' میں کچھ اس طرح کیا ہے: لوگ سر سید کو نئے زاویہ نگاہ کا امام سمجھتے ہیں۔ لیکن غالب اس حیثیت میں سر سید سے بھی دو ہاتھ آگے تھے۔ اگرچہ اس نے کوئی عملی اقدام نہیں کیا اور نئے اثرات کے ماتحت اپنی شاعری کا رخ بھی نہیں بدلا لیکن سرسید کی آئین اکبری کی تصحیح پر اس نے تقریظ میں جو اشعار کہے ہیں وہ اس امر کا بین ثبوت ہیں کہ وہ تہذیب و تمدن کے نئے آئینوں کو قابل ترجیح خیال کرتا تھا اور اس بات کی تلقین کرتا تھا کہ اب نئے انداز حیات کا گہرا مطالعہ کیا جائے اور قدامت پرستی کے جذبے کو خیرباد کر کے پوری توجہ نئی زندگی پر مبذول کی جائے۔ لوگوں نے سرسید کی مخالفت زور و شور سے اس لیے کی کہ وہ قوم کو قدیم سے جدید کی طرف لانا چاہتا ہے۔ اور انگریزوں اور انگریزیت سے مغلوب ہو گیا ہے۔ لیکن غالب، سرسید کی مخالفت اس لیے کرتا ہے کہ قدامت پرستی کے خبط میں مردہ پرستی کر رہا ہے۔ اس تقریظ سے غالب کی آزاد خیالی اور ترقی پسندی کا ثبوت ملتا ہے۔ بیسویں صدی میں کئی ایک صاحبانِ دانش و بینش نے اپنے اپنے طور پر کلامِ غالب کی شرح کی اور ایک ہی شعر کے کئی کئی مطالب نکالے جو اس امر کا ثبوت ہے کہ غالب کے کلام کی وسعت میں کس قدر بے کرانی ہے۔ جب ہم غالب کے کلام کو سائنسی نقطہء نظر سے پڑھتے ہیں تو عقل حیران اور ششدر رہ جاتی ہے۔ ان کے کئی ایک اشعار میں ہمیں مختلف سائنسی اصول اور ان کے معنی خیز نتائج و حقائق کی پردہ داری نظر آتی ہے۔ چنانچہ اسلوب احمد انصاری 'نقشِ غالب' میں یوں رقم طراز ہیں: غالب کے لیے کائنات اور اس کے تمام مظاہر توانائی سے چھلک رہے ہیں۔ اشیاء عالم جامد اور ساکن نہیں بلکہ رواں اور مضطرب ہیں۔ غالب کے نزدیک تکوین کائنات کا سلسلہ کہیں ختم نہیں ہوتا، اور چوں کہ نمو اور تبدیلی فطرت کا قانون ہے، اس لیے اولین مادے کی مختلف ہیئتیں اور ترکیبیں ارتقاء کے ہر ہر مرحلے پر ابھرتی ہیں۔ غالب کا خیال تھا کہ اگر ذرے کا دل چیر کر دیکھیں تو وہ حرکت و حیات سے لبریز نظر آئے گا۔ اکیسویں صدی کی شروعات پر، جب کہ انسان چاند اور سیاروں پر کمندیں ڈال چکا ہے، غالب کی آفاقی فکر و نظر پر غور کریں تو اندازہ ہو گا کہ غالب نے اس کائنات کو اور اس کی وسعتوں کو کن کن زاویوں سے دیکھا اور دکھایا ہے۔ 'تفہیمِ غالب' میں شمس الرحمٰن فاروقی لکھتے ہیں: جدید علم الافلاک کی رو سے کائنات لامتناعی ہے یا کم سے کم اتنی وسیع ہے کہ بڑی بڑی کہکشائیں اور عظیم الشان ستاروں کے جھرمٹ اس میں گم ہیں، یعنی وہ ایک دوسرے سے اتنی دور ہیں کہ اکثر کے درمیان کا فاصلہ انسان کے تصور سے بھی ماورا ہے۔ غالب کے زمانے میں یہ دریافتیں ابھی کتم عدم میں تھیں، لیکن ان کے وہبی وجدانی علم نے حسب معمول ان حقائق تک رسائی حاصل کر لی جو ابھی کسی کی دسترس میں نہ تھے۔ شبلی بی کام نے احمد الدین مارہروی کے ایک مضمون پر تبصرہ کرتے ہوئے ہفتہ وار "خیام" لاہور کے ایک شمارے میں "کیا غالب سائنس دان" تھا کے زیر عنوان کچھ اس طرح اظہار خیال کیا ہے: مرزا غالب اپنے زمانے کا فقید المثال شاعر تھا لیکن اب اسے فلسفی اور سائنس دان بھی ثابت کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ پچھلے دنوں ایک صاحب احمد الدین احمد مارہروی کا ایک مضمون نظر سے گزرا جس میں بتایا گیا ہے کہ مرزا غالب کو نہ صرف علم طبیعیات، علم کیمیاء اور علم الافلاک میں دسترس تھی بلکہ وہ اپنے زمانے کے اکتشافات سے بھی آگاہ تھا۔ چنانچہ ذیل کا شعر ملاحظہ فرمائیے۔ لوگوں کو ہے خورشید جہاں تاب کا دھوکا ہر روز دکھاتا ہوں میں ایک داغ نہاں اور اس شعر سے یہ ثابت کیا گیا ہے کہ مرزا غالب کو ذیل کے امور سے آگاہی تھی۔ (1) سورج میں داغ ہوتے ہیں(2) یہ داغ ہمیشہ تبدیل ہوتے رہتے ہیں۔ یعنی کبھی زیادہ ہوتے ہیں کبھی کم۔ (3) داغ نہ صرف گردش کے باعث تبدیل ہوتے ہیں بلکہ اندرونی اسباب سے بھی ان میں تغیر ہوتا رہتا ہے۔ 'داغِ نہاں' کا اشارہ اسی طرف ہے۔
ٹی وی، کمپیوٹر اور انٹرنیٹ کے اس دور میں شعر و ادب کے قاری میں سائنس سے واقفیت اور شعور کی بیداری کچھ زیادہ ہی پائی جاتی ہے۔ حیرت ہوتی ہے کہ ان کی سطحِ ذہنی، غالب کے ذہنی شعور کو چھوتی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔ تب ہی تو دورِ حاضر میں غالب کا کلام جتنا پڑھا، سمجھا اور برتا گیا ہے اور اس کی جتنی پذیرائی ہو پائی ہے، وہ اپنی مثال آپ ہے۔ (اتنی پذیرائی غالب کے دور میں بھی نہ ہو سکی تھی)۔ نورالحسن نقوی نے 'دیوانِ غالب' میں ان کے کلام سے متعلق کچھ اس طرح اظہارِ خیال کیا ہے: غالب کے کلام میں ہر زمانے اور ہر ذوق کی تسکین کا سامان موجود ہے۔ ان کی شاعری طرزاحساس اور پیرایہ اظہار دونوں کے لحاظ سے جدید ذہن کو متاثر کرتی ہے۔ آنے والے زمانے کے لیے ان کا کلام ممکن ہے آج سے بھی زیادہ پرکشش ہو۔ وزیرآغا نے غالب کی شاعری سے جدید ذہن کے متاثر ہونے کے اسباب کو یوں بیان کیا ہے: غالب دراصل بیسویں صدی کا انسان تھا جو غلطی سے انیسویں صدی میں پیدا ہو گیا اور اس بات کی اسے سزا بھی ملی۔ اس کی شاعری مہمل، اس کے اندازِ فکر کو نامانوس اور اس کے اسلوب حیات کو قابل اعتراض قرار دیا گیا۔ مگر جب غالب تقریباََ ایک سو برس کی مسافت طے کرنے کے بعد اپنوں میں پہنچا تو زمانے نے بانہیں کھول کر اس کا استقبال کیا۔ آگے وہ مزید لکھتے ہیں: غالب کی شاعری جدید ذہن کو اس لیے عزیز ہے کہ اُس میں اسے اپنی یافت اور نایافت، انفرادیت اور اجتماعیت، ذہنی فعالیت اور تخلیقی اپچ ایک ایسے احساس بحر آسا پر منتج ہوتی ہوئی محسوس ہوتی ہے جو بعض اوقات تو کائناتی شعور کے مقام تک بھی جا پہنچتی ہے۔ غالب کی شاعری میں عصرِ حاضر کے ذہنوں کو متاثر کرنے کے جو امکانات پائے جاتے ہیں، اس سلسلہ میں آفتاب احمد نے مقتدرہ قومی زبان کے غالبیات پر منعقدہ مذاکرہ میں صدارت کرتے ہوئے کہا تھا: یہ ضروری نہیں کہ بیسویں صدی کے تنقیدی شعور نے ان کو پورے طور پر پہچان لیا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ اکیسویں صدی میں کوئی اور مضمون پیدا ہو، کوئی اور کیفیتیں مزاج کی رونما ہوں تو اس کے بعد غالب کے اسی مختصر سے دیوان میں سے بہت کچھ اور نکلے۔ اس مرحلہ پر اگر یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا کہ غالب کی شاعری صرف بیسویں اور اکیسویں صدی کے لیے نہیں ہے بلکہ آنے والے ہر زمانے کے لیے اتنی ہی اہمیت کی حامل رہے گی۔ ان کے کلام میں اتنی تازگی و تنوع ہے کہ وہ ہر دور کے لیے یکساں طور پر قابل قبول ہو گا۔ اسی بات کا تذکرہ مجنوں گورکھ پوری نے 'غالب، شخص اور شاعر' میں کیا خوب صورت انداز میں کیا ہے: وہ اپنے زمانے کے لیے نیا ذہن تھے۔ آج بھی ہم ان کو ایک نیا ذہن پاتے ہیں اور ہر اس آنے والے دور کے لیے وہ نیا ذہن رہیں گے جس کا تصور کیا جا سکے۔ اسی لیے ہر نئے دور کا جدید سے جدید ذہن اپنے کو غالب سے قریب اور مانوس پاتا رہا ہے اور غالب کا انداز فکر اور شیوہ گفتار اس کی تخلیقی قوت کو متحرک کرتا رہتا ہے۔ غالب ایک ایسا سرچشمہ الہام ہیں جو کبھی ختم ہو سکے گا نہ اپنی طراوت اور تازگی کھو سکتا ہے۔ ان کی نوائے آشفتہ 'نوائے سروش' ہے جو ہر زمانے میں سنی جائے گی اور جو ہر نسل کے توانا اور صالح نوجوانوں کو زندگی اور توانائی کا نیا پیغام دینا سکھائے گی۔ آگے وہ مزید لکھتے ہیں: غالب پر بہت کچھ کہا اور لکھا جا چکا ہے اور ابھی بہت اور کہا اور لکھا جائے گا اس لیے کہ غالب کے اشعار جب ازسرنو پڑھے جائیں گے تو ان کا ہر شعر ایک نئے انکشاف کی مسرت بخشے گا۔ آج کے اس ترقی یافتہ سائنس اور ٹیکنالوجی کے دور میں اردو شعر و ادب کا قاری جہاں غالب کی شاعری اور ان کی فکر و نظر سے متاثر ہوا ہے وہیں دوسری زبانوں کے لوگ بھی غالب کی غزل اور اس کی آفاقیت کے قائل نظر آتے ہیں۔ یہاں تک کہ بیرونی ممالک کا باشعور پڑھا لکھا طبقہ بھی غالب سے بڑی حد تک واقف اور متاثر ہے۔ سائنسی علم کی روشنی میں غالب کی شاعری کا مطالعہ کیا جائے تو پتہ چلے گا کہ ان کے ہاں کئی ایک اشعار ایسے ہیں جن میں علم حیاتیات، طبیعیات، کیمیاء، فلکیات، طب اور ماحولیات کے مختلف جامع اصول صاف طور پر نظر آتے ہیں۔ علم فلکیات پر مشتمل چند اشعار ملاحظہ ہوں جن میں ستاروں اور سیاروں کی حقیقت کو بڑے ہی دل چسپ انداز میں پیش کیا گیا ہے۔
ہیں کواکب کچھ نظر آتے ہیں کچھ دیتے ہیں دھوکا یہ بازی گر کھلا
زمانہ عہد میں اس کے ہے محوِ آرائش بنیں گے اور ستارے اب آسماں کے لیے
ہیں زوال آمادہ اجزائے آفرینش کے تمام مہرِ گردوں ہے چراغِ رہگزارِ باد یاں
عام آدمی کے لیےعلم طبیعیات اور اس کے اصولوں کو سمجھنا ایک دشوار امر ہے۔ غالب نے انہیں اشعار میں اتنی خوب صورتی کے ساتھ پیش کیا ہے کہ ہم اُن سے لطف اندوز ہوئے بغیر نہیں رہ سکتے۔
نہ گل نغمہ ہوں، نہ پردہء ساز میں ہوں اپنی شکست کی آواز
تو آپ سے گر سلب کرے طاقتِ سیلاں تو آگ سے گر دفع کرے تابِ شرارت ڈھونڈے نہ ملے موجہء دریا میں روانی باقی نہ رہے آتشِ سوزاں میں حرارت
یک قلم کاغذِ آتش زدہ صفحہء دشت نقشِ پا میں ہے تپِ گرمیء رفتار ہنوز
لطافت بے کثافت جلوہ پیدا کر نہیں سکتی چمن زنگار ہے آئینہء بادِ بہاری کا
آگ سے پانی میں بجھتے وقت اٹھتی ہے صدا ہر کوئی درماندگی میں نالے سے دوچار ہے
ہو گئے ہیں جمع اجزائے نگاہِ آفتاب ذرے اس کے گھر کی دیواروں میں نہیں
طبعی اور کیمیائی تبدیلی کے رونما ہونے کا تذکرہ کتنے دل کش انداز میں کیا گیا ہے
ضعف سے گریہ مبدل بدمِ سرد ہوا باور آیا ہمیں پانی کا ہوا ہو جانا
سب کہاں کچھ لالہ و گل میں نمایاں ہو گئیں خاک میں کیا صورتیں ہوں گی کہ پنہاں ہو گئیں
مقدور ہو تو خاک سے پوچھوں کہ اے لئیم تو نے وہ گنج ہائے گراں مایہ کیا کیے
غالب کو علم حیاتیات سے آگہی تھی۔ اس بات کی تصدیق ان اشعار سے ہوتی ہے
سبزہ و گل کہاں سے آئے ہیں ابر کیا چیز ہے ہوا کیا ہے
سبزہ کو جب کہیں جگہ نہ ملی بن گیا روئے آب پر کائی
بس کہ زیرخاک، باآب طراوت راہ ہے ریشہ سے ہر تخم کا، دلو اندرون چاہ ہے
کیوں ردِ قدح کرے ہے زاہد! مئے ہے یہ، مگس کی قے نہیں ہے
علم طب سے واقفیت اور اس سے ان کا لگاؤ ان موضوعات کو شعری پیرہن عطا کرنے کا باعث بنا۔
کیا کہوں بیماریء غم کی فراغت کا بیان جو کہ کھایا خونِ دل بے منتِ کیموس تھا
نہ پوچھ سینہء عاشق سے آبِ تیغِ نگاہ کہ زخم روزنِ در سے ہوا نکلتی ہے
اک شرر دل میں ہے اس سے کوئی گھبرائے گا کیا آگ مطلوب ہے ہم کو جو ہوا کہتے ہیں
جی جلے ذوقِ فنا کی ناتمامی پر نہ کیوں ہم نہیں جلتے نفس ہر چند آتش بار ہے
جلتا ہے دل کیوں نہ ہم ایک بار جل گئے اے ناتمامیء نفس شعلہ بار حیف
نہ پوچھ نسخہء مرہم، جراحتِ دل کا کہ اس میں ریزہء الماس جزوِ اعظم ہے
ارضیات اور ماحولیات کے اصول ان اشعار میں صاف طور پر دکھائی دیتے ہیں۔
منظر اک بلندی پر اور ہم بنا سکتے عرش سے ادھر ہوتا کاش کہ مکاں اپنا
گھر ہمارا جو نہ روتے بھی تو ویراں ہوتا بحر اگر بحر نہ ہوتا تو بیاباں ہوتا
فشارِ تنگیء خلوت سے بنتی ہے شبنم صبا جو غنچہ کے پردے میں جا نکلتی ہے
اس طرح اس بات کی تصدیق ہو جاتی ہے کہ غالب حقائق و معارف کے ساتھ ساتھ سائنس کا فہم و ادراک رکھتے تھے۔ ان کے ہاں سائنسی شعور اور سائنس کی آگاہی اس قدر پائی جاتی تھی کہ وہ اپنی شاعری میں اس کے اصولوں سے استفادہ کیے بغیر نہ رہ سکے۔ یہی وجہ ہے کہ موجودہ عہد کا جدید ذہن، دوسرے کلاسیکی شاعروں کی بہ نسبت، غالب کو اپنے ذہن سے بہت قریب پاتا ہے۔ جاری ہے
اکیسویں صدی میں داخل ہونے تک سائنس اور ٹیکنالوجی نے جو ترقی کی ہے، وہ دراصل ان خوابوں کی تعبیر ہے جنہیں انسان برس ہا برس سے دیکھتا آ رہا ہے۔ ہزاروں میل تک آواز اور متحریک تصویروں کی ترسیل نے توانائی کی طرح انسانوں کی جسمانی لحاظ سے ناقابلِ یقین ترسیل کے امکانات پیدا کر دیے ہیں۔ نیز اعضائے جسمانی کے آپریشن اور ان کی کامیاب پیوند کاری نے ان کے نعم البدل ایجاد کرنے کے لیے راہیں ہموار کی ہیں۔ کمپیوٹر، روبوٹ اور انٹرنیٹ کی ایجاد، خلاء اور چاند کی تسخیر کے بعد دوسرے سیاروں کی طرف بڑھتے ہوئے انسانی قدم سال ہا سال کی تمناؤں کے پورا ہونے کا ثبوت ہیں۔ اس منزل پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ سائنسی علوم کو یہ امتیاز حاصل ہے کہ اس کے محققین اکثر ایسی دریافتوں اور ایجادات کے لیے کوشاں رہتے ہیں جو دائرہء امکانات سے باہر سمجھی جاتی رہی ہیں۔ غالب کا یہ شعر اسی بات کی عکاسی کرتا ہے۔ ہے کہاں تمنا کا دوسرا قدم یارب ہم نے دشتِ امکاں کو ایک نقشِ پا پایا
سائنسی تحقیقات دو طرح کے مطالعے سے رو بہ عمل لائی جاتی ہیں جنہیں اجمالی مطالعہ اور خوردبینی مطالعہ سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ اجمالی مطالعہ ہئیت کی تحقیق کا احاطہ کرتا ہے جس میں کسی نظام یا شے کا سرسری جائزہ لیا جاتا ہے۔ خوردبینی مطالعہ میں ماہیت کی تحقیق کی جاتی ہے۔ اس میں کسی نظام یا شے کی سالماتی اساس پر تفصیلی تحقیق کی ضرورت ہوتی ہے۔ سائنس میں اجمالی مطالعہ کو بہ آسانی انجام دیا جا سکتا ہے جب کہ خوردبینی مطالعہ کے لیے عصری آلات پر انحصار کرنا پڑتا ہے۔ عصری سہولتوں کی عدم دستیابی کی صورت میں اجمالی مطالعہ ہی کافی ہوتا ہے۔ غالب نے بھی اسی بات کا مشورہ دیا ہے۔
نہیں گر، سرو برگِ ادراکِ معنی تماشائے نیرنگِ صورت سلامت
قرآن میں جن آسمانوں کا ذکر آیا ہے، وہ کہیں دور واقع ہوں گے۔ اتنی دور کہ ہم ان کی دوری کا اندازہ بھی نہیں لگا سکتے۔ جو آسمان ہمیں دکھائی دیتا ہے، وہ زمین کو گھیرتا ہوا فضائی غلاف ہے۔ اگر ہمیں براہ راست اپنی آنکھوں سے بلند ترین مقام کا نظارہ کرنا ہو تو ہم صرف آسمان ہی کا نظارہ کر سکتے ہیں۔ اس لحاظ سے آسمان ہی ہمارے لیے بلند ترین حدِ نظر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انگریزی میں عظیم ترین بلندی کے لیے sky is the limit کا محاورہ استعمال کیا جاتا ہے۔ دوربین استعمال کیے بغیر آسمان سے بلند کسی مقام کا نظارہ مقصود ہو تو ہمیں فضاء سے اونچا اٹھنا ہو گا۔ اسی بات کا اظہار غالب نے حسرت بھرے انداز میں یوں کیا ہے۔
منظر اک بلندی پر اور ہم بنا سکتے عرش سے ادھر ہوتا کاش کے مکاں اپنا
رات میں آسمان پر جھلملانے والے بے شمار تارے ظاہری جسامت اور روشنی میں اصل سے مختلف نظر آتے ہیں۔ سادہ آنکھ سے دیکھنے پر اس بات کا پتہ لگانا مشکل ہو جاتا ہے کہ ان میں کون سے ستارے ہیں اور کون سے سیارے۔ چند ستارے بہت دھندلے نظر آتے ہیں اور چند سیارے اتنے منور دکھائی دیتے ہیں کہ ہم انہیں ستارے سمجھ بیٹھتے ہیں۔ ڈیلٹا ایک ایسا ستارہ ہے جس کی روشنی مستقل نہیں رہتی اور یہ سیارہ جیسا نظر آتا ہے اسی طرح Cepheids ایسے ستارے ہیں جو جسامت میں پھیلتے اور سکڑتے رہتے ہیں اور دیکھنے میں وہ سیارے جیسے لگتے ہیں۔ سیارہ مشتری اور سیارہ زہرہ اتنے زیادہ منور نظر آتے ہیں کہ ان پر ستاروں کا گمان ہوتا ہے۔ سیارہ مریخ اور سیارہ زحل میں ستاروں جیسی چمک نظر آتی ہے۔ غالب نے ستاروں اور سیاروں کے مختلف نظر آنے کا اظہار کچھ اس انداز میں کیا ہے۔
ہیں کواکب کچھ نظر آتے ہیں کچھ دیتے ہیں دھوکا یہ بازی گر کھلا
کہکشاں میں گیس اور گرد کے بادل پائے جاتے ہیں جو نیبولا کہلاتے ہیں۔ نیبولا میں سب سے زیادہ ہائیڈروجن گیس پائی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ خفیف مقدار میں کاربن اور سیلی کون کے ذرات بھی گرد کی شکل میں موجود رہتے ہیں۔ گیس کے سالمات اور گرد کے ذرات کے درمیان ان کی کمیتوں کی بنا پر تجاذبی کشش پیدا ہوتی ہے۔ یہ کشش انہیں ایک دوسرے سے قریب لانے کا موجب بنتی ہے۔ جوں جوں وہ قریب آتے جاتے ہیں ان کے درمیان عمل کرنے والی قوتِ کشش میں اضافہ ہوتا رہتا ہے۔ جب وہ کافی قریب آ جاتے ہیں تو نیبولا کے مرکزی حصے میں دباؤ بڑھنے لگتا ہے، جو تپش کے اضافے کا سبب بنتا ہے۔ اس طرح سالمات اور ذرات میں پہلے قربت بڑھتی ہے پھر دباؤ میں اضافہ ہوتا ہے اور اس کے بعد تپش بڑھتی ہے۔ نیبولا میں یہ عمل لاکھوں سال تک جاری رہتا ہے۔ نیبولا کے مرکزی حصے میں دباؤ بڑھ کر جب لاکھوں کرہ ہوائی ہو جاتا ہے اور اس کی تپش بھی لاکھوں ڈگری سلسئس تک پہنچ جاتی ہے تو ہائیڈروجن کے مرکزوں میں اتصال یا فیوژن واقع ہونا شروع ہو جاتا ہے جس کے بعد نیبولا ایک ستارہ میں تبدیل ہو جاتا ہے۔ اس طرح کہکشاں میں ایک نئے ستارے کا جنم ہوتا ہے جو جگمگاتے ہوئے آسمان کی رونق بڑھاتا ہے۔ غالب نے ستاروں کے بننے کی نشان دہی کچھ اس طرح کی ہے ۔۔۔۔
زمانہ عہد میں اس کے ہے محوِ آرائش بنیں گے اور ستارے اب آسماں کے لیے
کائنات میں تمام ستارے روشنی اور حرارت خارج کرتے رہتے ہیں۔ ان میں یہ توانائی نیوکلیر اتصال سے پیدا ہوتی ہے جس کے دوران ہائیڈروجن گیس، ہیلیم گیس میں تبدیل ہوتی رہتی ہے۔ ستاروں کی پیدائش کے لاکھوں کروڑوں سال بعد وہ ایک ایسی صورتِ حال سے دوچار ہوتے ہیں، جس میں ان کی تمام ہائیڈروجن گیس ختم ہو جاتی ہے اور نیوکلیر اتصال کا عمل رُک جاتا ہے۔ توانائی کی پیداوار کا ذریعہ نہ ہونے کی وجہ سے ستارے اپنی تباہی کی طرف گامزن ہوتے ہیں اور وہ ایک دھماکے کے ساتھ سپر نووا میں تبدیل ہو جاتے ہیں بعد میں 'سپر نووا' بھی تباہ ہو کر نیوٹران سٹار کی شکل اختیار کر لیتے ہیں یا پھر روزنِ سیاہ یا بلیک ہول بن جاتے ہیں۔ مستقبل میں تمام ستاروں کی طرح سورج بھی ایسی ہی صورتِ حال سے دوچار ہونے والا ہے۔ جب سورج ہی باقی نہیں رہے گا تو زمین سمیت نظامِ شمسی کے تمام سیارے اور چاند ادھر ادھر بکھر جائیں گے اور ایک دوسرے سے ٹکرا کر تباہ ہو جائیں گے۔ غالب نے کائنات کی اس حقیقت کو بڑے ہی دل کش انداز میں شعر کا روپ دیا ہے۔
ہیں زوال آمادہ اجزا آفرینش کے تمام مہرِ گردوں ہے چراغِ رہگزارِ باد یاں
علم فلکیات کے مطالعہ سے ظاہر ہوتا ہے کہ کائنات میں اربوں کہکشائیں ہیں اور "مِلکی وے" وہ کہکشاں ہے جس میں آفتاب کے علاوہ لاکھوں ستارے حرارت اور روشنی بکھیرتے رہتے ہیں۔ نظامِ شمسی میں نو سیارے ہیں اور ہر سیارے کے گرد علیحدہ علیحدہ تعداد میں چاند گردش کرتے رہتے ہیں۔ ان نو سیاروں کے اطراف گھومنے والے چاندوں کی حقیقی تعداد کا تو علم نہیں، البتہ نظام شمسی میں اب تک 63 چاند دریافت ہو چکے ہیں۔ صرف ایک نظام شمسی میں جب 63 چاند ہو سکتے ہیں تو ہماری کہکشاں میں موجود لاکھوں ستاروں کے نظاموں میں کروڑوں چاند پائے جائیں گے۔ اسی مناسبت سے کائنات کی اربوں کہکشاؤں میں تو بے شمار چاند ہوں گے۔ سونا اور چاندی کے چھلوں کا سہارا لیتے ہوئے غالب نے کائنات کی ایک حقیقت کو شعری روپ دیا ہے۔
یوں سمجھیے کہ بیچ سے خالی کیے ہوئے لاکھوں ہی آفتاب ہیں اور بے شمار چاند
روشنی کو گزارنے والے مادے، شفاف واسطے کہلاتے ہیں۔ روشنی کی رفتار کے لحاظ سے شفاف واسطوں کو لطیف اور کثیف واسطوں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ وہ شفاف واسطہ جس میں روشنی کی رفتار زیادہ ہو، لطیف واسطہ کہلاتا ہے اور جس میں روشنی کی رفتار کم ہو، کثیف واسطہ کہلاتا ہے۔ واسطوں کی لطافت اور کثافت، اضافی ہوتی ہے۔ ہوا اور پانی میں ہوا لطیف واسطہ ہے اور پانی کثیف۔ پانی اور شیشہ میں پانی لطیف واسطہ ہے اور شیشہ کثیف۔ ہوا اور خلاء لطیف ترین واسطوں میں شمار ہوتے ہیں، اس لیے ان کے آر پار بہت ہی صاف اور شفاف نظر آئے گا۔ ہوا خود نظر نہیں آتی۔ اس کے برخلاف فضاء میں کہر یا دھند چھا جائے تو ہوا کثیف ہو جاتی ہے، جس پر کہر یا دھند تو نظر آتی ہے لیکن اس کے پیچھے کا منظر دکھائی نہیں دیتا۔ ہوا کی بجائے درمیان میں شیشہ حائل ہو تو شیشے کا نظر آنا اس کی کثافت پر منحصر ہوتا ہے۔ اگر شیشہ کی دوسری جانب پارہ چڑھا دیا جائے تو وہ آئینے میں تبدیل ہو جائے گا۔ اس طرح شیشے کے علاوہ منعکس شدہ سارا منظر صاف طور پر دکھائی دے گا۔ ان تمام باتوں سے یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ لطیف واسطے میں جب تک کثافت نہ ہو تب تک وہ نظر نہیں آئے گا۔ اسی بات کا تذکرہ غالب کے ہاں کچھ اس طرح ملتا ہے۔
لطافت بے کثافت جلوہ پیدا کر نہیں سکتی چمن زنگار ہے آئینہء بادِ بہاری کا
سفر کرنے والی تمام جان دار اور بے جان چیزوں اور توانائی کی تمام قسموں میں روشنی کی رفتار اعظم ترین ہوتی ہے۔ وہ ہوا میں ایک لاکھ چھیاسی ہزار میل فی سیکنڈ کی رفتار سے سفر کرتی ہے۔ بجلی کا کوندنا بھی قریب قریب اتنی ہی رفتار سے واقع ہوتا ہے جو پلک جھپکنے تک غائب ہو جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ تیزی سے گزرنے والے لمحے کو بجلی کی کوند سے تشبیہہ دی جاتی ہے۔ مصیبت میں گزرا ہوا ایک ایک لمحہ بڑا کٹھن ہوتا ہے اور ایک سال کا عرصہ کئی سال کی مدت کا محسوس ہوتا ہے۔ ایسے میں اگر زمین اور سورج کی باہمی اضافی رفتار کے بجائے بجلی کے کوندنے کے عرصے کو سال مان لیا جائے تو ایسا محسوس ہو گا کہ ہم نے مصیبت کے عالم میں کئی سال گزار دیے ہیں۔ غالب نے اس موقع کے لیے اسی بات کا مشورہ دیا ہے۔
رفتارِ عمر قطعِ رہِ اضطراب ہے اس سال کے حساب کو برق آفتاب ہے
نظریہء اضافیت کے لحاظ سے کائنات میں وقت کا تعین کرنا ایک اضافی امر ہے۔ تمام سیارے جب اپنے اپنے محوروں اور مداروں پر اپنی ایک گردش مکمل کر لیتے ہیں تو اس گردش کے لیے زمین کے لحاظ سے درکار وقت، ان سیاروں کے لیے ایک دن اور ایک سال کا عرصہ ہوتا ہے۔ اسی طرح زمین کی گردش اس کے اپنے محور پر اور سورج کے اطراف اس کے ایک مکمل چکر لگانے پر دن اور سال کی پیمائش کی جاتی ہے۔ عام آدمی کے لیے سائنس کی یہ حقیقت کوئی وقعت نہیں رکھتی۔ اس کے لیے تو صرف سورج کا طلوع اور غروب ہونا ہی صبح اور شام کا ہونا ہے اور ایک صبح سے دوسری صبح تک کا وقت ایک دن کے مکمل ہونے کا واقعہ ہے۔ موسموں کا بدلنا اور ان کے اثرات کا رونما ہونا، ماہ و سال کے حساب کا پیمانہ ہے۔ غالب نے وقت کی اضافی پیمائش کو پیش نظر رکھ کر اس شعر کو موزوں کیا ہے۔
عمر میری ہو گئی صرفِ بہارِ حسنِ یار گردشِ رنگِ چمن ہے ماہ و سالِ عندلیب
انیسویں صدی کے تمام ذی شعور اور تعلیم یافتہ افراد عناصر ترتیبی ۔۔۔ ہوا، پانی، مٹی اور آگ ۔۔۔ سے واقف تھے۔ چوں کہ ترتیب عناصر اپنی آزادانہ حیثیت برقرار رکھتے ہیں اور وہ ایک دوسرے میں تبدیل نہیں ہو سکتے، یہی وجہ ہے کہ پانی جب بخارات بن کر ہوا ہو جاتا ہے تو اس پر یقین کرنا دشوار ہوتا ہے۔ غالب نے فطرت کے اس اصول کو 'گریہ' اور 'بہ دمِ سرد' کے استعاروں میں کیا خوب شعری پیراہن عطا کیا ہے۔
ضعف سے گریہ مبدل بہ دمِ سرد ہوا باور آیا ہمیں پانی کا ہوا ہو جانا
سائنس میں بقائے مادہ اور توانائی کے کلیات سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ دونوں ہی نہ پیدا کیے جا سکتے ہیں اور نہ فنا۔ البتہ مادے کی ایک حالت کو دوسری حالت میں اور توانائی کی ایک قسم کو دوسری قسم میں تبدیل کیا جا سکتا ہے۔ آئین سٹائین کی کمیت اور توانائی کے معدل کی مساوات کی رو سے کمیت اور توانائی دونوں کی غیر فنا پذیری اور ان کو ایک دوسرے میں تبدیل کیے جانے کی تصدیق ہوتی ہے۔ یعنی یہ ثابت ہوتا ہے کہ مادہ کو توانائی اور توانائی کو مادہ میں تبدیل کیا جا سکتا ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ غالب کو مادہ اور توانائی کی غیر فنا پذیری کا علم تھا، تب ہی تو انہوں نے یہ اشعار کہے ہیں۔
سب کہاں، کچھ لالہ و گل میں نمایاں ہو گئیں خاک میں کیا صورتیں ہوں گی، کہ پنہاں ہو گئیں
مقدور ہو تو خاک سے پوچھوں کہ اے لئیم تو نے وہ گنج ہائے گراں مایہ کیا کیے
نظریہء اضافیت کی رو سے وقت اور رفتار دونوں ہی مقداریں اضافی ہوتی ہیں۔ جب ہم ان سے متعلق کوئی رائے قائم کرتے ہیں تو ہمیں مخصوص زمان کے مکان کے دائرہ کار میں رہ کر بات کرنا پڑتی ہے۔ سفر میں منزل کا تعین اور سمتِ سفر بڑی اہمیت رکھتے ہیں۔ اگر ہماری منزل حالتِ سکون میں ہو اور ہماری سمتِ سفر ایک ایسے راستے پر متعین ہو کہ وہ راستہ اس تک پہنچ ہی نہیں سکتا، تو صاف ظاہر ہے کہ منزل ہمیشہ ہم سے دور رہے گی۔ اگر منزل خود متحرک ہو اور ہماری سمتِ سفر، منزل کی سمتِ سفر کے مخالف ہو تو تب بھی منزل ہم سے دور ہوتی رہے گی۔ کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ ہم پریشان حال منزل کی تلاش میں بھٹک رہے ہوں تو ایسے عالم میں راستہ سجھائی نہیں دیتا۔ اس کے باوجود ہم چاہتے ہیں کہ جلد سے جلد منزلِ مقصود تک پہنچ جائیں۔ لیکن حیرانی اور پریشان کے عالم میں منزل کی سمت کا تعین نہیں کر سکتے، اس لیے منزل تک پہنچ نہیں پاتے اور ہر قدم پر منزل ہم سے دور ہی رہ جاتی ہے۔ غالب نے اس شعر میں انہی کیفیات کی عکاسی کی ہے۔
ہر قدم دوریِ منزل ہے نمایاں مجھ سے میری رفتار سے بھاگے ہے بیاباں مجھ سے
سمندر کا پانی بخارات بن کر ہوا کی رطوبت میں اضافہ کرتا ہے۔ اگر سمندر نہ ہوں تو ہوا میں آبی بخارات نہ ہوں گے۔ آبی بخارات کے بغیر زمین پر نہ موسم کا تصور کیا جا سکتا ہے اور نہ بادل، بارش اور دریا کا۔ ان کے بغیر نباتات، حیوانات اور بنی نوع انسان تک کا وجود باقی نہیں رہتا۔ غرض سمندر نہ ہوں تو پوری دنیا ایک ویران سیارے میں تبدیل ہو جائے گی۔ غالب نے اسی اندیشہ کا اظہار کچھ اس طرح کیا ہے۔
گھر ہمارا جو نہ روتے بھی تو ویراں ہوتا بحر اگر بحر نہ ہوتا ۔۔ تو بیاباں ہوتا
زمین کی فضاء میں آبی بخارات عمومی تپش اور دباؤ پر گیسی حالت میں برقرار رہتے ہیں۔ کسی بھی مقام پر رات میں فضاء کی تپش میں بڑی حد تک کمی واقع ہوتی ہے۔ جس پر آبی بخارات کے حجم میں کمی واقع ہو کر فضاء کے دباؤ میں اضافہ ہوتا ہے۔ کم تپش اور زائد دباؤ کے اس ماحول میں آبی بخارات، شبنم کی شکل اختیار کر لیتے ہیں۔ فطرت میں وقوع پذیر ہونے والے اس عمل کو غالب نے کتنی نازک خیالی سے نظم کیا ہے۔
فشارِ تنگیِ خلوت سے بنتی ہے شبنم صبا جو غنچے کے پردے میں جا نکلتی ہے
تمام ذرات اور سالمات حالتِ ارتعاش میں رہتے ہیں جس کا انحصار تپش پر ہوتا ہے۔ ان کی تپش جتنی زیادہ ہو گی تعددِ ارتعاش اتنا ہی زیادہ ہو گا۔ جس کے نتیجہ میں ان سے حرارتی شعاعیں نکلتی رہتی ہیں۔ ان کی یہ ارتعاشی کیفیت ایک طرح سے ان کی بے قراری کو ظاہر کرتی ہے۔ جو دراصل ایک دَوری حرکت کہلاتی ہے۔ ہمارا دل جسم میں خون کو پمپ کرتا ہے۔ اس عمل کے دوران وہ پھیلتا اور سکڑتا ہے۔ دل کا پھیلنا اور سکڑنا بھی ایک دوری حرکت پر مشتمل ہوتا ہے جو اس کی بے قراری کو ظاہر کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس سے لہریں آزاد ہوتی رہتی ہیں جن کو ای سی جی کی مدد سے ریکارڈ کیا جاتا ہے۔ دل کی بے قراری اور بے جان ذروں کی ارتعاشی حرکت میں جو مطابقت پائی جاتی ہے اس کو غالب نے شاعرانہ انداز میں یوں ظاہر کیا ہے۔
بے پردہ سوئے وادیِ مجنوں گزر نہ کر ہر ذرے کے کے نقاب میں دلِ بے قرار ہے
فطرت کا مطالعہ اس بات کو واضح کرتا ہے کہ کائنات کے تمام نظام نہ صرف متحرک ہیں بلکہ زمان و مکان کے ساتھ تغیر پذیر بھی۔ کہکشائیں گھومتی رہتی ہیں اور وہ ایک دوسرے سے دور ہوتی جا رہی ہیں۔ نئے نئے ستارے تشکیل پاتے ہیں اور قدیم ستارے اپنی چمک دمک کھو کر دوسری ہی شکل اختیار کر لیتے ہیں۔ سطح زمین پر بھی مقام اور وقت کے ساتھ ساتھ موسم بدلتے ہیں اور صبح اور شام کے ساتھ منظر بدلتے ہیں۔ انسان، حیوانات،نباتات، جمادات کی ہئیت بدلتی ہے۔ فطرت، کائنات کی اس کاریگری میں مسلسل مشغول ہے جو بظاہر ہمیں دکھائی نہیں دیتی۔ اسی بات کا اظہار غالب کے ان اشعار میں ہوتا ہے۔
آرائشِ جمال سے فارغ نہیں ہنوز پیشِ نظر ہے آئینہ دائم نقاب میں
حُسنِ خود آرا کو ہے ربطِ تامل ہنوز غنچے میں دل تنگ ہے حوصلہء گل ہنوز
نظامِ شمسی میں پائے جانے والے تمام اجسام، سورج کی جانب کشش رکھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ سیارے، چاند اور شہابی اجسام راست یا بالواسطہ سورج کے اطراف گردش کرتے رہتے ہیں۔ ان تمام اجرامِ فلکی میں سورج ہی ایک ستارہ ہے جو بذاتِ خود منور ہے۔ باقی تمام سورج کی روشنی حاصل کر کے چمک دار نظر آتے ہیں۔ یہاں تک کہ فضاء میں پائے جانے والے گرد کے ذرات بھی سورج کی شعاعوں سے ہی منور نظر آتے ہیں۔ جس کا مشاہدہ کچے مکانوں کی چھتوں سے چھن کر آنے والی دھوپ سے کیا جا سکتا ہے۔ فطرت کی اس حقیقت کو غالب نے ان اشعار میں ایک انوکھے انداز میں پیش کیا ہے۔
ہر ایک ذرہ عاشق ہے آفتاب پرست گئی نہ خاک ہوئے پر، ہوائے جلوہء ناز
کچھ نہ کی، اپنے جنونِ نارسا نے، ورنہ یاں ذرہ ذرہ، روکشِ خورشیدِ عالم تاب تھا
علم طبیعیات میں نیوٹن کے پہلے کلیہء حرکت کی رو سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ کوئی شے حالتِ سکون میں ہو تو وہ اسی حالت میں جوں کی توں برقرار رہتی ہے تاوقتیکہ کوئی بیرونی قوت اس پر عمل نہ کرے اور اس کی حالتِ سکون کو حالتِ حرکت میں تبدیل نہ کر دے۔ یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ کوئی قوت خود بخود عمل پیرا نہیں ہوتی جب تک کہ اس کے پسِ پردہ کوئی توانائی یا توانائی رکھنے والی کوئی شے نہ ہو۔ کوئی شے سے مراد چھوٹے سے چھوٹا ذرہ یا بڑے سے بڑا کوئی ستارہ ہو سکتا ہے۔ یہاں تک کہ پوری کائنات بھی اسی زمرے میں آتی ہے۔ فضاء میں پائے جانے والے گرد کے ذرات کو حرکت میں لانے کے لیے قوت کی شکل میں سورج سے حاصل کردہ حرارتی توانائی درکار ہوتی ہے جس کا مشاہدہ ہم کچے مکانوں میں چھتوں کے سوراخوں سے چھن کر آنے والی روشنی میں کرتے ہیں۔ غالب شاید طبیعیات کی اس حقیقت سے آگاہ رہے ہوں، تب ہی تو وہ کہتے ہیں۔
ہے کائنات کو حرکت تیرے ذوق سے پرتو سے آفتاب کے ذرے میں جان ہے
سائنس اور ٹیکنالوجی نے جتنی بھی ترقی کی ہے اس کے پیچھے ذہین لوگوں کا دماغ اور ان کا ہاتھ کارفرما رہا ہے، جنہوں نے پہلے پہل ایجاد و اختراع کے بارے میں تصور کیا اور پھر ان کی ہو بہو نقل اتاری۔ بیشتر ایجادات جب تک سائنس دانوں کے تصورات میں تھیں، دنیا نے ان کے عالم وجود میں آنے کو تقریباََ ناممکن ہی قرار دیا تھا۔ جب ان تصورات نے عملی جامہ پہنا اور ان کے پیکر لوگوں کی نظروں کے سامنے نمودار ہوئے تب ہی انہوں نے ان کی حقیقت کو تسلیم کیا۔ غالب نے اسی بات کو ایک منفرد انداز میں یوں بیان کیا ہے۔
فریبِ صنعتِ ایجاد کا تماشا دیکھ نگاہ عکس فروش و خیال آئینہ ساز
کائنات میں چاند، ستارے، سیارے اور کہکشاں اصول و ضوابط کے تحت حرکت پذیر ہیں۔ زمین پر موجود ہر شے بھی اپنے اندر ایک نظام رکھتی ہے۔ پھول، پتے، سبزہ اور پودے سب کے سب مخصوص نظام کے تحت مختلف مدارج طے کرتے ہوئے نشونما پاتے ہیں۔ ہواؤں کے چلنے کا اپنا ایک نظام ہے۔ دریاؤں کے بہنے کی اپنی ایک سمت ہے۔ خود ہمارے جسم میں موجود تمام نظاموں کا مطالعہ یہ واضح کرتا ہے کہ ہر نظام ایک قاعدے کے ساتھ عمل پیرا ہے۔ تنفسی نظام، ہضمی نظام، خون کا دَوری نظام، اعصابی نظام وغیرہ اپنی اپنی ہئیت میں ایک دستورِ حیات رکھتے ہیں۔ ان کے رو بہ عمل رہنے پر ہی ہماری صحت اور بقا کا دارومدار ہے۔ جب تک دنیا قائم رہے گی، یہاں کے سارے نظام اپنی اپنی انفرادیت برقرار رکھیں گے۔ جیسے وہ ختم ہو جائے گی تمام نظام ناکارہ ہو جائیں گے۔ اسی طرح جیسے ہی ہماری روح پرواز کرے گی، جسم کے تمام نظام عملاََ مفقود ہو جائیں گے۔ جب تمام نظام باقی نہیں رہیں گے تو ان میں کوئی فرق بھی نہیں رہے گا۔ سب کے سب ایک جیسے نظر آئیں گے، بے جان، ساکت اور جامد۔ بقا اور فنا کے اس فرق کو غالب نے یوں نظم کیا ہے۔
نظر میں ہے ہماری جادہء راہِ فنا غالب کہ یہ شیرازہ ہے عالم کے اجزائے پریشاں کا
ربط یک شیرازہء وحشت ہیں اجزائے بہار سبزہ بے گانہ، صبا آوارہ، گل نا آشنا
نہیں جناب، ٹائپ کر رہا ہوں ۔۔۔ جو کچھ "پسند" آ رہا ہے ۔۔۔ ای بک کی صورت میں کتاب موجود ہے ۔۔۔ آپ کے پاس تو ہو گی یقیناََ ۔۔۔ ہم نے تو انٹرنیٹ آرکائیو سے "اڑائی" ہے ۔۔۔