پیاسا صحرا
محفلین
نشہ میں مئے عشق کے چور ہیں وہ
صفِ فوجِ مژگاں میں محصور ہیں وہ
غمِ چشم و ابرو میں رنجور ہیں وہ
بہت ہات سے دل کے مجبور ہیں وہ
کریں کیا کہ ہے عشق طینت میں ان کی
حرارت بھری ہے طبعیت میں ان کی
اگر شش جہت میں کوئی دلربا ہے
تو دل ان کا نادیدہ اس پر فدا ہے
اگر خواب میں کچھ نظر آگیا ہے
تو یاد اس کی دن رات نامِ خدا ہے
بھری سب کی وحشت سے روداد ہے یاں
جسے دیکھئے قیس و فرہاد ہے یاں
اگر ماں ہے دکھیان تو ان کی بلا سے
اپاہج ہے باوا تو ان کی بلا سے
جو ہے گھر میں فاقہ ان کی بلہ سے
جو مرتا ہے کنبا تو ان کی بلا سے
جنہوں نے لگائی ہو لو دلربا سے
غرض پھر انہیں کیا رہی ماسوا سے
نہ گالی سے دشنام سے جی چرائیں
نہ جوتی سے پیزار سے ہچکچائیں
جو میلوں میں جائیں تو لچپن دکھائیں
جو محفل میں بیٹھیں تو فتنے اٹھائیں
لرزتے ہیں اوباش ان کی ہنسی سے
گریزاں ہیں رندان کی ہمسائگی
سپوتوں کو اپنے اگر بیاہ دیجے
تو بہوؤں کا بوجھ اپنی گردن پہ لیجے
جو بیٹی کے پیوند کی فکر کیجئے
تو بد راہ ہیں بھانجے اور بھتیجے
یہی جھینکنا کو بہ کو گھر بہ گھر ہے
بہو کو ٹھکانہ نہ بیٹی کو بر ہے
نہ مطلب نگاری کا ان کو سلیقہ
نہ دربار داری کا ان کو سلیقہ
نہ امید واری کا ان کو سلیقہ
نہ خدمت گزاری کا ان کو سلیقہ
قلی یا نفر ہو تو کچھ کام آئے
مگر ان کو کس مد میں کوئی کھپائے
نہیں ملتی روٹی جنہیں پیٹ بھر کے
وہ گزرا ان کرتے ہیں سو عیب کرکے
جو ہیں ان میں دوچار آسودہ گھر کے
وہ دن رات خواہاں ہین مرگِ پدر کے
نمونے یہ اعیان و اشراف کے ہیں
سلف ان کے وہ تھے خلف ان کے یہ ہیں
وہ اسلام کی پود شاید یہی ہے
کہ جس کی طرف آنکھ سب کی لگی ہے
بہت جس سے آئندہ چشمِ بہی ہے
بقا منحصر جس پہ اسلام کی ہے
یہی جان ڈالے گی باغِ کہن میں؟
اسی سے بہار آئے گی اس چمن میں؟
یہی ہیں وہ نسلیں مبارک ہماری؟
کہ بخشیں گی جو دین کو استواری؟
کریں گی یہی قوم کی غم گساری؟
انہیں پر امیدیں ہیں موقوف ساری؟
یہی شمعِ اسلام روشن کریں گی؟
بڑوں کا یہی نام روشن کریں گی؟
خلف ان کے الحق اگر یاں یہی ہیں
سلف کے اگر فاتحہ خواں یہی ہیں
اگر یاد گارِ عزیزاں یہی ہیں
اگر نسلِ اشراف و اعیاں یہی ہیں
تو یاد اس قدر ان کی رہ جائے گی یاں
کہ اک قوم رہتی تھی اس نام کی یاں
سمجھتے ہیں شائستہ جو آپ کو یاں
ہیں آزادئی رائے پر جو کہ نازاں
چلن پر ہیں جو قوم کے اپنی خنداں
مسلماں ہیں سب جن کے نزدیک ناداں
جو ڈھونڈو گے یاروں کے ہمدرد ان میں
تو نکلیں گے تھوڑے جوانمرد ان میں
نہ رنج ان کے افلاس کا ان کو اصلا
نہ فکر ان کی تعلیم اور تربیت کا
نہ کوشش کہ ہمت نہ دینے کو پیسا
اڑانا مگر مفت ایک اک کا خاکا
کہیں ان کی پوشاک پر طعن کرنا
کہیں ان کی خوراک کو نام دھرنا
عزیزوں کی جس بات میں عیب پانا
نشانہ اسے پھبتیوں کا بنانا
شماتت سے دل بھائیوں کا دکھانا
یگانوں کو بیگانہ بن کر چڑانا
نہ کچھ درد کی چوٹ ان کے جگر میں
نہ قطرہ کوئی خون کا چشمِ تر میں
جہاز ایک گرداب میں پھنس رہا ہے
پڑا جس سے جوکھوں میں چھوٹا بڑا ہے
نکلنے کا رستہ نہ بچنے کی جا ہے
کوئی ان میں سوتا کوئی جاگتا ہے
جو سوتے ہیں وہ مست خواب گراں ہیں
جو بیدار ہیں ان پہ خندہ زناں ہیں
کوئی ان سے پوچھے کہ اے ہوش والو
کس امید پر تم کھڑے ہنس رہے ہو
برا وقت بیڑے پہ آنے کو ہے جو
نہ چھوڑے گا سوتوں کو اور جاگتوں کو
بچو گے نہ تم اور نہ ساتھی تمہارے
اگر ناؤ ڈوبی تو ڈوبیں گے سارے
غرض عیب کیجئے بیاں اپنا کیا کیا
کہ بگڑا ہوا یاں ہے آوے کا آوا
فقیر اور جاہل ضعیف اور توانا
تاسف کے قابل ہے احوال سب کا
مریض ایسے مایوس دنیا میں کم ہیں
بگڑ کر کبھی جو نہ سنبھلیں وہ ہم میں
کسی نے یہ اک مردِ دانا سے پوچھا
کہ " نعمت ہے دنیا میں سب سے بڑی کیا؟"
کہا" عقل جس سے ملے دین و دنیا"
کہا " گر نہ ہو اس سے انساں کو بہرا"
کہا " پھر اہم سب سے علم و ہنر ہے
کہ جو باعثِ افتخارِ بشر ہے"
کہا " گر نہ ہو یہ بھی اس کو میسر"
کہا" مال و دولت ہے، پھر سب سے بڑھ کر"
کہا" در ہو یہ بھی اگر بند اس پر"
کہا" اس پہ بجلی کا گرنا ہے بہتر"
وہ ننگِ بشر تاکہ ذلت سے چھوٹے
خلائق سب اس کی نحوست سے چھوٹے"
مجھے ڈر ہے اے میرے ہم قوم یارو
مبادا کہ وہ ننگِ عالم تمہیں ہو
گر اسلام کی کچھ حمیت ہے تم کو
تو جلدی سے اٹھو اور اپنی خبر لو
وگر نہ یہ قول آئے گا راست تم پر
کہ ہونے سے ان کا نہ ہونا ہے بہتر
رہو گے یو نہیں فارغ البال کب تک
نہ بدلو گے یہ چال اور ڈھال کب تک
رہے گی نئی پود پامال کب تک
نہ چھوڑو گے تم بھیڑیا چال کب تک
بس اگلے فسانے فراموش کر دو
تعصب کے شعلے کو خاموش کر دو
حکومت نے آزادیاں تم کو دی ہیں
ترقی کی راہیں سراسر کھلی ہیں
صدائیں یہ ہر سمت سے آرہی ہیں
کہ راجا سے پرجا تلک سب سکھی ہیں
تسلط ہے ملکوں میں امن و اماں کا
نہیں بند رستہ کسی کارواں کا
نہ بد خواہ ہے دین و ایماں کا کوئی
نہ دشمن حدیث اور قرآں کا کوئی
نہ ناقص ہے ملت کے ارکاں کا کوئی
نہ مانع شریعت کے فرماں کا کوئی
نمازیں پڑھو بے خطر معبدوں میں
اذانیں دھڑلے سے دو مسجدوں میں
کھلی ہیں سفر اور تجارت کی راہیں
نہیں بند صنعت کی حرفت کی راہیں
جو روشن ہیں تحصیلِ حکمت کی راہیں
تو ہموار ہیں کسبِ دولت کی راہیں
نہ گھر غنیم اور دشمن کا کھٹکا
نہ باہر ہے قزاق و رہزن کا کھٹکا
مہینوں کے کٹتے ہیں رستے پلوں میں
گھروں سے سوا چین ہے منزلوں میں
ہر اک گوشہ گلزار ہے جنگلوں میں
شب و روز ہے ایمنی قافلوں میں
سفر جو کھی تھا نمونہ سقر کا
وسیلہ ہے وہ اب سراسر ظفر کا
پہنچتی ہیں ملکوں میں دم دم کی خبریں
چلی آتی ہیں شادی و غم کی خبریں
عیاں ہیں ہر اک بر اعظم کی خبریں
کھلی ہیں زمانہ پہ عالم کی خبریں
نہیں واقعہ کوئی پنہاں کہیں کا
ہے آئینہ احوالِ روئے زمیں کا
کرو قدر اس امن و آزادگی کی
کہ ہے صاف ہر سمت راہِ ترقی
ہر اک راہ رو کا زمانہ ہے ساتھی
یہ ہر سو سے آوازِ پیہم ہے آتی
کہ دشمن کا کھٹکانہ رہزن کا ڈر سے
نکل جاؤ رستہ ابھی بے خطر ہے
بہت قافلے دیر سے جارہے ہیں
بہت بوجھ بار اپنے لدوا رہے ہیں
بہت چل چلاؤ میں گھبرا رہے ہیں
بہت سے نہ چلنے سے پچتا رہے ہیں
مگر اک تمہیں ہو کہ سوتے ہو غافل
مبادا کہ غفلت میں کھوٹی ہو منزل
نہ بد خواہ سمجھو بس اب یاروں کو
لٹیرے نہ ٹھراؤ تم رہبروں کو
دو الزام پیچھے نصحیت گروں کو
ٹٹولو ذرا پہلے اپنے گھروں کو
کہ خالی ہیں یا پر ذخیرے تمہارے
برے ہیں کہ اچھے و تیر تمارے
امیروں کی تم سن چلے داستاں سب
چلن ہو چکے عالموں کے بیاں سب
شریفوں کی حالت ہے، تم پر عیاں سب
بگڑنے کو تیار بیٹھے ہیں یاں سب
یہ بوسیدہ گھر اب گرا کا گرا ہے
ستوں مرکزِ ثقل سے ہٹ چکا ہے
یہ جو کچھ ہوا ایک شمّہ ہے اس کا
کہ جو وقت یاروں پہ ہے آنے والا
زمانہ نے اونچے سے جس کو گرایا
وہ آخر کو مٹی میں مل کر رہے گا
نہیں گرچہ کچھ قوم میں حال باقی
ابھی اور ہونا ہے پامال باقی
یہاں ہر ترقی کی غایت یہی ہے
سر انجام ہر قوم و ملت یہی ہے
سدا سے زمانہ کی عادت یہی ہے
طلسمِ جہاں کی حقیقت یہی ہے
بہت یاں ہوئے خشک چشمے ابل کر
بہت باغ چھانٹے گئے پھول پھل کر
کہاں ہیں وہ اہرامِ مصری کے بانی
کہاں ہیں وہ گردانِ زابلستانی
گئے پیشدادی کدھر اور کیانی
مٹاکر رہی سب کو دنیائے فانی
لگاؤ کہیں کھوج کلدانیوں کا
بتاؤ نشاں کوئی ساسانیوں کا
وہی ایک ہے جس کو دایم بقا ہے
جہاں کی وراثت اسی کو سزا ہے
سوا اس کے انجام سب کا فنا ہے
نہ کوئی رہے گا نہ کوئی رہا ہے
مسافر یہاں ہیں فقیر اور غنی سب
غلام اور آزاد ہیں رفتنی سب
صفِ فوجِ مژگاں میں محصور ہیں وہ
غمِ چشم و ابرو میں رنجور ہیں وہ
بہت ہات سے دل کے مجبور ہیں وہ
کریں کیا کہ ہے عشق طینت میں ان کی
حرارت بھری ہے طبعیت میں ان کی
اگر شش جہت میں کوئی دلربا ہے
تو دل ان کا نادیدہ اس پر فدا ہے
اگر خواب میں کچھ نظر آگیا ہے
تو یاد اس کی دن رات نامِ خدا ہے
بھری سب کی وحشت سے روداد ہے یاں
جسے دیکھئے قیس و فرہاد ہے یاں
اگر ماں ہے دکھیان تو ان کی بلا سے
اپاہج ہے باوا تو ان کی بلا سے
جو ہے گھر میں فاقہ ان کی بلہ سے
جو مرتا ہے کنبا تو ان کی بلا سے
جنہوں نے لگائی ہو لو دلربا سے
غرض پھر انہیں کیا رہی ماسوا سے
نہ گالی سے دشنام سے جی چرائیں
نہ جوتی سے پیزار سے ہچکچائیں
جو میلوں میں جائیں تو لچپن دکھائیں
جو محفل میں بیٹھیں تو فتنے اٹھائیں
لرزتے ہیں اوباش ان کی ہنسی سے
گریزاں ہیں رندان کی ہمسائگی
سپوتوں کو اپنے اگر بیاہ دیجے
تو بہوؤں کا بوجھ اپنی گردن پہ لیجے
جو بیٹی کے پیوند کی فکر کیجئے
تو بد راہ ہیں بھانجے اور بھتیجے
یہی جھینکنا کو بہ کو گھر بہ گھر ہے
بہو کو ٹھکانہ نہ بیٹی کو بر ہے
نہ مطلب نگاری کا ان کو سلیقہ
نہ دربار داری کا ان کو سلیقہ
نہ امید واری کا ان کو سلیقہ
نہ خدمت گزاری کا ان کو سلیقہ
قلی یا نفر ہو تو کچھ کام آئے
مگر ان کو کس مد میں کوئی کھپائے
نہیں ملتی روٹی جنہیں پیٹ بھر کے
وہ گزرا ان کرتے ہیں سو عیب کرکے
جو ہیں ان میں دوچار آسودہ گھر کے
وہ دن رات خواہاں ہین مرگِ پدر کے
نمونے یہ اعیان و اشراف کے ہیں
سلف ان کے وہ تھے خلف ان کے یہ ہیں
وہ اسلام کی پود شاید یہی ہے
کہ جس کی طرف آنکھ سب کی لگی ہے
بہت جس سے آئندہ چشمِ بہی ہے
بقا منحصر جس پہ اسلام کی ہے
یہی جان ڈالے گی باغِ کہن میں؟
اسی سے بہار آئے گی اس چمن میں؟
یہی ہیں وہ نسلیں مبارک ہماری؟
کہ بخشیں گی جو دین کو استواری؟
کریں گی یہی قوم کی غم گساری؟
انہیں پر امیدیں ہیں موقوف ساری؟
یہی شمعِ اسلام روشن کریں گی؟
بڑوں کا یہی نام روشن کریں گی؟
خلف ان کے الحق اگر یاں یہی ہیں
سلف کے اگر فاتحہ خواں یہی ہیں
اگر یاد گارِ عزیزاں یہی ہیں
اگر نسلِ اشراف و اعیاں یہی ہیں
تو یاد اس قدر ان کی رہ جائے گی یاں
کہ اک قوم رہتی تھی اس نام کی یاں
سمجھتے ہیں شائستہ جو آپ کو یاں
ہیں آزادئی رائے پر جو کہ نازاں
چلن پر ہیں جو قوم کے اپنی خنداں
مسلماں ہیں سب جن کے نزدیک ناداں
جو ڈھونڈو گے یاروں کے ہمدرد ان میں
تو نکلیں گے تھوڑے جوانمرد ان میں
نہ رنج ان کے افلاس کا ان کو اصلا
نہ فکر ان کی تعلیم اور تربیت کا
نہ کوشش کہ ہمت نہ دینے کو پیسا
اڑانا مگر مفت ایک اک کا خاکا
کہیں ان کی پوشاک پر طعن کرنا
کہیں ان کی خوراک کو نام دھرنا
عزیزوں کی جس بات میں عیب پانا
نشانہ اسے پھبتیوں کا بنانا
شماتت سے دل بھائیوں کا دکھانا
یگانوں کو بیگانہ بن کر چڑانا
نہ کچھ درد کی چوٹ ان کے جگر میں
نہ قطرہ کوئی خون کا چشمِ تر میں
جہاز ایک گرداب میں پھنس رہا ہے
پڑا جس سے جوکھوں میں چھوٹا بڑا ہے
نکلنے کا رستہ نہ بچنے کی جا ہے
کوئی ان میں سوتا کوئی جاگتا ہے
جو سوتے ہیں وہ مست خواب گراں ہیں
جو بیدار ہیں ان پہ خندہ زناں ہیں
کوئی ان سے پوچھے کہ اے ہوش والو
کس امید پر تم کھڑے ہنس رہے ہو
برا وقت بیڑے پہ آنے کو ہے جو
نہ چھوڑے گا سوتوں کو اور جاگتوں کو
بچو گے نہ تم اور نہ ساتھی تمہارے
اگر ناؤ ڈوبی تو ڈوبیں گے سارے
غرض عیب کیجئے بیاں اپنا کیا کیا
کہ بگڑا ہوا یاں ہے آوے کا آوا
فقیر اور جاہل ضعیف اور توانا
تاسف کے قابل ہے احوال سب کا
مریض ایسے مایوس دنیا میں کم ہیں
بگڑ کر کبھی جو نہ سنبھلیں وہ ہم میں
کسی نے یہ اک مردِ دانا سے پوچھا
کہ " نعمت ہے دنیا میں سب سے بڑی کیا؟"
کہا" عقل جس سے ملے دین و دنیا"
کہا " گر نہ ہو اس سے انساں کو بہرا"
کہا " پھر اہم سب سے علم و ہنر ہے
کہ جو باعثِ افتخارِ بشر ہے"
کہا " گر نہ ہو یہ بھی اس کو میسر"
کہا" مال و دولت ہے، پھر سب سے بڑھ کر"
کہا" در ہو یہ بھی اگر بند اس پر"
کہا" اس پہ بجلی کا گرنا ہے بہتر"
وہ ننگِ بشر تاکہ ذلت سے چھوٹے
خلائق سب اس کی نحوست سے چھوٹے"
مجھے ڈر ہے اے میرے ہم قوم یارو
مبادا کہ وہ ننگِ عالم تمہیں ہو
گر اسلام کی کچھ حمیت ہے تم کو
تو جلدی سے اٹھو اور اپنی خبر لو
وگر نہ یہ قول آئے گا راست تم پر
کہ ہونے سے ان کا نہ ہونا ہے بہتر
رہو گے یو نہیں فارغ البال کب تک
نہ بدلو گے یہ چال اور ڈھال کب تک
رہے گی نئی پود پامال کب تک
نہ چھوڑو گے تم بھیڑیا چال کب تک
بس اگلے فسانے فراموش کر دو
تعصب کے شعلے کو خاموش کر دو
حکومت نے آزادیاں تم کو دی ہیں
ترقی کی راہیں سراسر کھلی ہیں
صدائیں یہ ہر سمت سے آرہی ہیں
کہ راجا سے پرجا تلک سب سکھی ہیں
تسلط ہے ملکوں میں امن و اماں کا
نہیں بند رستہ کسی کارواں کا
نہ بد خواہ ہے دین و ایماں کا کوئی
نہ دشمن حدیث اور قرآں کا کوئی
نہ ناقص ہے ملت کے ارکاں کا کوئی
نہ مانع شریعت کے فرماں کا کوئی
نمازیں پڑھو بے خطر معبدوں میں
اذانیں دھڑلے سے دو مسجدوں میں
کھلی ہیں سفر اور تجارت کی راہیں
نہیں بند صنعت کی حرفت کی راہیں
جو روشن ہیں تحصیلِ حکمت کی راہیں
تو ہموار ہیں کسبِ دولت کی راہیں
نہ گھر غنیم اور دشمن کا کھٹکا
نہ باہر ہے قزاق و رہزن کا کھٹکا
مہینوں کے کٹتے ہیں رستے پلوں میں
گھروں سے سوا چین ہے منزلوں میں
ہر اک گوشہ گلزار ہے جنگلوں میں
شب و روز ہے ایمنی قافلوں میں
سفر جو کھی تھا نمونہ سقر کا
وسیلہ ہے وہ اب سراسر ظفر کا
پہنچتی ہیں ملکوں میں دم دم کی خبریں
چلی آتی ہیں شادی و غم کی خبریں
عیاں ہیں ہر اک بر اعظم کی خبریں
کھلی ہیں زمانہ پہ عالم کی خبریں
نہیں واقعہ کوئی پنہاں کہیں کا
ہے آئینہ احوالِ روئے زمیں کا
کرو قدر اس امن و آزادگی کی
کہ ہے صاف ہر سمت راہِ ترقی
ہر اک راہ رو کا زمانہ ہے ساتھی
یہ ہر سو سے آوازِ پیہم ہے آتی
کہ دشمن کا کھٹکانہ رہزن کا ڈر سے
نکل جاؤ رستہ ابھی بے خطر ہے
بہت قافلے دیر سے جارہے ہیں
بہت بوجھ بار اپنے لدوا رہے ہیں
بہت چل چلاؤ میں گھبرا رہے ہیں
بہت سے نہ چلنے سے پچتا رہے ہیں
مگر اک تمہیں ہو کہ سوتے ہو غافل
مبادا کہ غفلت میں کھوٹی ہو منزل
نہ بد خواہ سمجھو بس اب یاروں کو
لٹیرے نہ ٹھراؤ تم رہبروں کو
دو الزام پیچھے نصحیت گروں کو
ٹٹولو ذرا پہلے اپنے گھروں کو
کہ خالی ہیں یا پر ذخیرے تمہارے
برے ہیں کہ اچھے و تیر تمارے
امیروں کی تم سن چلے داستاں سب
چلن ہو چکے عالموں کے بیاں سب
شریفوں کی حالت ہے، تم پر عیاں سب
بگڑنے کو تیار بیٹھے ہیں یاں سب
یہ بوسیدہ گھر اب گرا کا گرا ہے
ستوں مرکزِ ثقل سے ہٹ چکا ہے
یہ جو کچھ ہوا ایک شمّہ ہے اس کا
کہ جو وقت یاروں پہ ہے آنے والا
زمانہ نے اونچے سے جس کو گرایا
وہ آخر کو مٹی میں مل کر رہے گا
نہیں گرچہ کچھ قوم میں حال باقی
ابھی اور ہونا ہے پامال باقی
یہاں ہر ترقی کی غایت یہی ہے
سر انجام ہر قوم و ملت یہی ہے
سدا سے زمانہ کی عادت یہی ہے
طلسمِ جہاں کی حقیقت یہی ہے
بہت یاں ہوئے خشک چشمے ابل کر
بہت باغ چھانٹے گئے پھول پھل کر
کہاں ہیں وہ اہرامِ مصری کے بانی
کہاں ہیں وہ گردانِ زابلستانی
گئے پیشدادی کدھر اور کیانی
مٹاکر رہی سب کو دنیائے فانی
لگاؤ کہیں کھوج کلدانیوں کا
بتاؤ نشاں کوئی ساسانیوں کا
وہی ایک ہے جس کو دایم بقا ہے
جہاں کی وراثت اسی کو سزا ہے
سوا اس کے انجام سب کا فنا ہے
نہ کوئی رہے گا نہ کوئی رہا ہے
مسافر یہاں ہیں فقیر اور غنی سب
غلام اور آزاد ہیں رفتنی سب