شفیق الرحمان اقتباس : مدوجزر

غزل قاضی

محفلین
" امید ترک کر دینا گناہ ہے ، کیونکہ امید بذات خود ایک بہت بڑی خوشی ہے ۔ بہت بڑا تحفہ ہے ۔ امید سورج کی طرح جس کی طرف چلنے لگیں تو ہمارے رنج و غم سائے کی طرح پیچھے رہ جاتے ہیں ۔ اس سے ہماری خوشیاں دگنی اور غم آدھے رہ جاتے ہیں ۔ اور مایوسی تو گناہ ہے ، کیونکہ مایوس رہ کر تم دوسروں کو بھی مایوس کر دیتے ہو ۔
اس کے جراثیم بڑے مہلک ہوتے ہیں ، محزون چہرہ دیکھ کر دوسرے کے دل میں افسردگی پیدا ہو جاتی ہے ۔ اسی طرح مسکراتا ہوا چہرہ دیکھ کر آس پاس بیٹھے ہوئے لوگ خواہ مخواہ مسکرانے لگتے ہیں ۔ سورج کو دیکھو ، جب طلوع ہوتا ہے تو کیسی کیسی مسرتیں تقسیم کرتا ہے ۔ اگر کسی طرح مسرور نہیں رہ سکتے تو خوش رہنے کو اپنی ڈیوٹی ہی سمجھ لو کہ جی چاہے یا نہ چاہے بس مسرور رہنا ہے ۔ اور امید کو کبھی نہ چھوڑو ۔ اگر تمھیں خدا پر بھروسہ ہے تو امید پر بھی ہونا چاہیے کیونکہ امید خدا کا عطیہ ہے اور ہم فانی انسانوں کے پاس سب سے بڑا سرمایہ امید ہی ہے ۔ "۔
ہم دیر تک باتیں کرتے رہے ۔ یہ اور ایسے اور سبق آج تک کسی نے نہیں دیے تھے ۔ ان کی چھوٹی چھوٹی باتیں جیسے روح میں سما جاتی تھیں ۔ ہر صبح وہ میرے لئے ایک چھوٹا سا تحفہ لاتے تھے جس سے اتنی خوشی ہوتی کہ دن بھر مسرور رہتا ۔ ،۔


تحریر : شفیق الرحمٰن

( از : مسافر / مدوجزر )
 
Top