یہ دھرنے تو ہوتے رہیں گے جب تک تحریک انصاف کے آئینی مطالبات تسلیم نہیں کیئے جاتے یعنی صاف اور شفاف الیکشن، جنہوں نے پچھلے الیکشن میں ھاندلی یا بے ضابطگیاں کی انکو سخت سے سخت سزا دی جائے تاکہ آئندہ انتخابات میں کسی کو بھی قومی مینڈیٹ پر ڈاکہ ڈالنے کی جرات نہ ہو۔جو کہ 1970 کے بعد والے الیکشنز سے مسلسل ہو رہا ہے۔ بھٹو صاحب کی 1977 کے الیکشن میں جیتی ہوئی جمہوری حکومت بھی اسی لئے ہاتھ سے گئی تھی کہ حزب اختلاف کی جانب سے اٹھائے گئے الیکشن دھاندلیوں سے متعلق اعتراضات کا انہوں نے اتنے ماہ تک کوئی حل پیش نہ کیا ہے۔ اور جب خبریں موصول ہونے لگیں کہ فوجی قیادت مارشل لاء کا سوچ رہی ہےتو موصوف مجبوراً تمام مطالبات مان کر ملک سے باہر چلے گئے۔ لیکن تب تک بہت دیر ہو چکی تھی:
http://en.wikipedia.org/wiki/Pakistani_general_election,_1977#Popular_unrest
اسبار نواز شریف کی قسمت اچھی ہے جو فوجی قیادت نے اس موقع کا فائدہ نہ اٹھایا اور جمہوری طاقتوں کو الیکشن دھاندلی کیخلاف احتجاج کی کھلی چھٹی دے دی کیونکہ اب وہ بھی جان گئےہیں کہ ضیاء الحق کے مارشل لاء کانقصان ملک کو زیادہ ہوا بنسبت اسکے کے اگر وہ جمہوری عمل کو چلنے دیتے اور حزب اختلاف کے مانے ہوئے مطالبات کے مطابق اگلے الیکشن ہو جاتے۔