قانون بنانے والے جاہل نہیں ہو سکتے، لیکن سمجھ میں نہیں آتا قوانین میں اکثر مضحکہ خیز خامیاں کیوں رہ جاتی ہیں
--------
ہم انسان کی فطری کمزوریاں دبا سکتے ہیں، ان کو کسی حد تک روک سکتے ہیں، مگر ان کا قطعی انسداد نہیں کر سکتے
--------
گورنمنٹ نام نہاد عصمت فروشی کے انسداد کی تدبیریں سوچتی ہے اندھا دھند وہ اس عمارت کو ڈھانے کیلئے ہتھوڑے چلاتی ہے۔ جس کی بنیادوں کو معاشرے کے بڑے بڑے اونچے ستونوں نے سیسہ پلایا ہے۔ اس عمارت میں، اگر بنظر غور دیکھا جائے تو ہمیں بڑی بڑی تقدس مآب ہستیوں کے ماتھے کی محرابیں مل جائیں گی اور گناہ کی ان بیٹیوں کی شکل و صورت میں کئی جانے پہچانے ناک نقشے ابھر آئیں گے۔
--------
محنت کش مزدوروں کی صحیح نفسیات کچھ ان کا اپنا پسینہ ہی بطریق احسن بیان کر سکتا ہے۔ اس کو دولت کے طور پر استعمال کر کے اس کے پسینے کی روشنائی میں قلم ڈبو ڈبو کر گرانڈیل لفظوں میں منشور لکھنے والے، ہو سکتا ہے بڑے مخلص آدمی ہوں، مگر معاف کیجئے میں اب بھی انہیں بہروپئے سمجھتا ہوں۔
--------
سوال ہے۔ جو چیز جیسی ہے اسے من و عن کیوں نہ پیش کیا جائے۔ ٹاٹ کو اطلس کیوں بنایا جائے۔ غلاظت کے ڈھیر کو عود و عنبر کے ا نبار میں کیوں تبدیل کیا جائے
--------
حقیقت سے انحراف کیا ہمیں بہتر انسان بننے میں مدد و معاون ہو سکتا ہے ۔۔۔۔۔۔ ہرگز نہیں
--------
میرے افسانے تندرست اور صحت مند لوگوں کیلئے ہیں۔ نورمل انسانوں کیلئے جو عورت کے سینے کو عورت کا سینہ ہی سمجھتے ہیں اور اس سے زیادہ آگے نہیں بڑھتے۔ جو عورت اور مرد کے رشتے کو استعجاب کی نظر سے نہیں دیکھتے
--------
سب سے بڑا مسئلہ، یعنی تمام مسئلوں کا باپ، اس وقت پیدا ہوا تھا جب آدم نے بھوک محسوس کی تھی
--------
بھوک کسی قسم کی بھی ہو، بہت خطرناک ہے ۔۔۔ آزادی کے بھوکوں کو اگر غلامی کی زنجیریں ہی پیش کی جاتی رہیں تو انقلاب ضرور برپا ہوگا ۔۔۔ روٹی کے بھوکے اگر فاقے ہی کھینچتے رہے تو وہ تنگ آ کر دوسرے کا نوالہ ضرور چھینیں گے ۔۔۔ مرد کی نظروں کو اگر عورت کے دیدار کا بھوکا رکھا گیا تو شاید وہ اپنے ہم جنسوں اور حیوانوں ہی میں اس کا عکس دیکھنے کی کوشش کریں
--------
دنیا میں جتنی لعنتیں ہیں، بھوک ان کی ماں ہے
--------
روٹی اور پیٹ، عورت اور مرد ۔۔۔۔۔۔ یہ دو بہت پرانے رشتے ہیں۔ ازلی اور ابدی
--------
جو لوگ ہمارے افسانوں میں لذت حاصل کرنے کے طریقے دیکھنا چاہتے ہیں، انہیں یقیناً ناامیدی ہوگی
--------
انسان ایک دوسرے سے کوئی زیادہ مختلف نہیں۔ جو غلطی ایک مرد کرتا ہے، دوسرا بھی کر سکتا ہے۔ جب ایک عورت بازار میں دکان لگا کر اپنا جسم بیچ سکتی ہے تو دنیا کی سب عورتیں کر سکتی ہیں ۔۔۔۔۔۔ لیکن غلط کار انسان نہیں، وہ حالات ہیں جن کی کھیتیوں میں انسان اپنی غلطیاں پیدا کرتا ہے اور ان کی فصلیں کاٹتا ہے۔
--------
ملک، ملک سے سیاسی طور پر جدا کیئے جا سکتے ہیں ۔۔۔۔۔۔ ایک مذہب دوسرے مذہب سے عقیدوں کی بنا پر علیحدہ کیا جا سکتا ہے۔ دو زمینوں کو ایک قانون ایک دوسرے سے بیگانہ کر سکتا ہے۔ لیکن کوئی سیاست، کوئی عقیدہ، کوئی قانون، عورت اور مرد کو ایک دوسرے سے دور نہیں کر سکتا
--------
حقیقت خواہ شکر ہی میں لپیٹ کر پیش کی جائے، اس کی کڑواہٹ دور نہیں ہوگی
--------
ہماری تحریریں آپ کو کڑوی اور کسیلی لگتی ہیں، مگر اب تک مٹھاسیں آپ کو پیش کی جاتی رہی ہیں۔ ان سے انسانیت کو کیا فائدہ ہوا ہے ۔۔۔۔۔۔ نیم کے پتے کڑوے سہی، مگر خون ضرور صاف کرتے ہیں۔
عصمت کی حفاظت ضروری ہے مگر پیٹ کی بھوک مٹانا بھی ضروری ہے
--------
پہلے مذہب سینوں میں ہوتا تھا آج کل ٹوپیوں میں ہوتا ہے
--------
میرے ملک کی وہ آبادی جو پیکارڈوں اور بیوکوں پر سوار ہوتی ہے، میرا ملک نہیں ۔۔۔۔۔۔ میرا ملک وہ ہے جس میں مجھ ایسے اور مجھ سے بدتر مفلس بستے ہیں
--------
دراصل جنسی بُھوک کچھ اس قسم کی بُھوک ہے کہ مٹائے نہیں مٹ سکتی۔
--------
عورت اور مرد کے درمیان اس وقت تک مفاہمت کا کوئی رشتہ پیدا نہیں ہو سکتا جب تک وہ میاں بیوی نہ بن جائیں۔ عورت مرد کی طرف یوں دیکھتی ہے جیسے بکری قصائی
--------
مرد کا تصّور ہمیشہ عورتوں کو عصمت کے تنے ہوئے رسے پر کھڑا کر دیتا ہے
--------
میں تو بعض اوقات ایسا محسوس کرتا ہوں کہ حکومت اور رعایا کا رشتہ روٹھے ہوئے خاوند اور بیوی کا رشتہ ہے۔ بظاہر ہے لیکن درحقیقت کچھ بھی نہیں۔
--------
وہ عورت جو قانون کی اس دنیا میں سر بازار اپنا مال بیچتی ہے اور کوئی دھوکا نہیں دیتی، شریف نہیں ہے؟
--------
میں پوچھتا ہوں اگر عورت کی عصمت ہے تو کیا مرد اس گوہر سے خالی ہے؟ اگر عورت عصمت باختہ ہو سکتی ہے تو کیا مرد نہیں ہوتا؟ اگر ان سوالوں کا جواب اثبات میں ہے تو کیا وجہ ہے کہ ہمارے تیروں کا رخ صرف عورت کی طرف ہوتا ہے
--------
سوسائٹی کے اصولوں کے مطابق مرد مرد رہتا ہے خواہ اس کی کتاب زندگی کے ہر ورق پر گناہوں کی سیاہی لپی ہو، مگر وہ عورت جو صرف ایک مرتبہ جوانی کے بے پناہ جذبے کے زیر اثر کسی اور لالچ میں آ کر یا کسی مرد کی زبردستی کا شکار ہو کر ایک لمحے کیلئے اپنے راستے سے ہٹ جائے، عورت نہیں رہتی۔ اسے حقارت و نفرت کی نگاہوں سے دیکھا جاتا ہے۔ سوسائٹی اس پر وہ تمام دروازے بند کر دیتی ہے جو ایک سیاہ پیشہ مرد کیلئے کھلے رہتے ہیں
--------
ویشیا پیدا نہیں ہوتی، بنائی جاتی ہیں یا خود بنتی ہے۔ جس چیز کی مانگ ہوگی منڈی میں ضرور آئے گی۔
--------
میں تسلیم کرتا ہوں کہ محبت بہت طاقتور ہے۔
--------
سماج کو گالیاں ضرور دی جائیں، اگر ہو سکے تو اس کو پھٹے ہوئے جوتوں کا ہار بھی پہنا دیا جائے۔ مجھے بڑی خوشی ہوگی، مگر سوال یہ ہے کہ سماج ہے کیا؟
--------
مختصر الفاظ میں زندگی کے متعلق صرف یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ ایک آہ ہے جو واہ میں لپیٹ کر پیش کی گئی ہے۔
--------
ویشیا کا مکان خود ایک جنازہ ہے جو سماج اپنے کندھوں پر اٹھائے ہوئے ہے۔ وہ اسے جب تک کہیں دفن نہیں کرے گا، اس کے متعلق باتیں ہوتی ہی رہیں گی۔
--------
یہ لاش گلی سڑی، بدبو دار سہی، متعفن سہی، بھیانک سہی، گھناؤنی سہی، لیکن اس کا منہ دیکھنے میں کیا حرج ہے ۔۔۔ کیا یہ ہماری کچھ نہیں لگتی۔ کیا ہم اس کے عزیزواقارب نہیں۔ ہم کبھی کفن اٹھا کر اس کا منہ دیکھتے رہیں گے اور دوسروں کو دکھاتے رہیں گے
--------
انسان کی زندگی میں اس کا پیٹ سب سے زیادہ اہم ہے۔
--------
مشاہد بتاتا ہے کہ ویشیا ئیں عام طور پر خدا ترس ہوتی ہیں
--------
جسم داغا جاسکتا ہے مگر روح نہیں داغی جاسکتی۔
--------
ویشیا دولت کی بھوکی ہوتی ہے ، لیکن کیا دولت کی بھوکی محبت کی بھوک نہیں ہوسکتی؟
--------
عام طور پر عورت سے عشق و محبت کرنے کا واحد مقصد جسمانی لذت ہوتا ہے
--------
ہر عورت ویشیا نہیں ہوتی لیکن ہر ویشیا عورت ہوتی ہے۔ اس بات کو ہمیشہ یاد رکھنا چاہیئے۔
--------
ویشیا اور باعصمت عورت کا مقابلہ ہر گز ہر گز نہیں کرنا چاہیئے۔ ان دونوں کا مقابلہ ہو ہی نہیں سکتا۔ ویشیا خود کماتی ہے اور باعصمت عورت کے پاس کما کر لانے والے کئی موجود ہوتے ہیں۔
--------
یہ نئی چیزوں کا زمانہ ہے۔ نئے جوتے، نئی ٹھوکریں، نئے قانون، نئے جرائم، نئی گھڑیاں، نئی بے وقتیاں، نئے آقا، نئے غلام اور لطف یہ ہے کہ نئے غلاموں کی کھال بھی نئی ہے جو ادھڑ ادھڑ کر جدت پسند ہو گئی ہے۔ اب ان کیلئے نئے کوڑے اور نئے چابک تیار ہو رہے ہیں۔
--------
ادب یا تو ادب ہے ورنہ ایک بہت بڑی بے ادبی۔
--------
انسان، عورت سے محبت کرتا ہے تو ہیر رانجھا کی داستان بن جاتی ہے۔ روٹی سے محبت کرتا ہے تو ا یپی کیوریس کا فلسفہ پیدا ہو جاتا ہے۔ تخت سے پیار کرتا ہے تو سکندر، چنگیز، تیمور یا ہٹلر بن جاتا ہے اور جب خدا سے لو لگاتا ہے تو مہاتما بدھ کا روپ اختیار کر لیتا ہے۔
--------
میں کہتا ہوں کہ اگر آپ میرے پتھر مارنا ہی چاہتے ہیں تو خدارا ذرا سلیقے سے ماریئے۔
--------
میں اس آدمی سے ہر گز ہر گز اپنا سر پھڑوانے کیلئے تیار نہیں جسے سر پھوڑنے کا سلیقہ ہی نہ آتا ہو، اگر آپ کو یہ سلیقہ نہیں آتا تو سیکھئے! دنیا میں رہ کر جہاں آپ نمازیں پڑھنا، روزے رکھنا اور محفلوں میں جانا سیکھتے ہیں، وہاں پتھر مارنے کا ڈھنگ بھی آپ کو سیکھنا چاہیئے۔
--------
ہر انسان دوسرے انسان کے پتھر مارنا چاہتا ہے۔ ہر انسان دوسرے انسان کے افعال پرکھنے کی کوشش کرتا ہے۔ یہ اس کی فطرت ہے جسے کوئی بھی حادثہ تبدیل نہیں کر سکتا۔
--------
میں بغاوت چاہتا ہوں۔ ہر اس فرد کے خلاف بغاوت چاہتا ہوں جو ہم سے محنت کراتا ہے مگر اس کے دام ادا نہیں کرتے
--------
میں افسانہ نہیں لکھتا۔ حقیقت یہ ہے کہ افسانہ مجھے لکھتا ہے
--------
یہ لوگ جو اپنے گھروں کا نظام درست نہیں کر سکتے، یہ لوگ جن کا کیریکٹر بے حد پست ہوتا ہے، سیاست کے میدان میں اپنے وطن کا نظام ٹھیک کرنے اور لوگوں کو اخلاقیات کا سبق دینے کیلئے نکلتے ہیں ۔۔۔ کس قدر مضحکہ خیز چیز ہے!
--------
یہ لوگ جنہیں عرف عام میں لیڈر کہا جاتا ہے، سیاست اور مذہب کو لنگڑا، لولا اور زخمی آدمی تصور کرتے ہیں۔
--------
مذہب جیسا تھا ویسا ہی ہے اور ہمیشہ ایک جیسا رہے گا۔ مذہب کی روح ایک ٹھوس حقیقت ہے جو کبھی تبدیل نہیں ہو سکتی۔ مذہب ایک ایسی چٹان ہے جس پر سمندر کی خشمناک لہریں بھی اثر نہیں کر سکتیں۔
--------
مذہب ایسی چیز ہی نہیں کہ خطرے میں پڑ سکے، اگر کسی بات کا خطرہ ہے تو وہ لیڈروں کا ہے جو اپنا اُ لّو سیدھا کرنے کیلئے مذہب کو خطرے میں ڈالتے ہیں۔
--------
لمبے لمبے جلوس نکال کر، منوں بھاری ہاروں کے نیچے دب کر، چوراہوں پر طویل طویل تقریروں کے کھوکھلے الفاظ بکھیر کر، ہماری قوم کے یہ نام نہاد رہنما صرف اپنے لئے ایسا راستہ بناتے ہیں جو عیش و عشرت کی طرف جاتا ہے۔
--------
ہمارے ملک کو صرف ایک لیڈر کی ضرورت ہے جو حضرت عمرؓ کا سا اخلاص رکھتا ہو، جس کے سینے میں اتاترک کا سپاہیانہ جذبہ ہو۔ جو برہنہ پا اور گرسنہ شکم آگے بڑھے اور وطن کے بے لگام گھوڑے کے منہ میں باگیں ڈال کر اسے آزادی کے میدان کی طرف مردانہ وار لیئے جائے۔
--------
یاد ر کھیئے وطن کی خدمت شکم سیر لوگ کبھی نہیں کر سکیں گے۔ وزنی معدے کے ساتھ جو شخص وطن کی خدمت کیلئے آگے بڑھے، اسے لات مار کر باہر نکال دیجئے۔
--------
حریروپرنیاں میں لپٹے ہوئے آدمی ان کی قیادت نہیں کر سکتے، جو سخت زمین پر سونے کے عادی ہیں اور جن کے بدن نرم و نازک پوشاک سے ہمیشہ ناآشنا رہے ہیں، اگر کوئی شخص ریشمی کپڑے پہن کر آپ کو غربت کا سدّباب بتانے کی جرأت کرے تو اس کو اٹھا کر وہیں پھینک د یجیئے جہاں سے نکل کر وہ آپ لوگوں میں آیا تھا۔
--------
یہ لیڈر کھٹمل ہیں جو وطن کی کھاٹ میں چولوں کے اندر گھسے ہوئے ہیں۔
--------
یہ لیڈر جلسوں میں سرمائے اور سرمایہ داروں کے خلاف زہر اگلتے ہیں صرف ا سلیئے کہ وہ خود سرمایہ اکٹھا کر سکیں۔ کیا یہ سرمایہ داروں سے بدترین نہیں؟ یہ چوروں کے چور ہیں، رہزنوں کے رہزن۔ اب وقت آ گیا ہے کہ عوام ان پر اپنی بے اعتمادی ظاہر کر دیں۔
--------
ضرورت ہے کہ پھٹی ہوئی قمیصوں والے نوجوان اٹھیں اور عزم کو خشم کو اپنی چوڑی چھاتیوں میں لیئے ان نام نہاد لیڈروں کو اس بلند مقام پر سے اٹھا کر نیچے پھینک دیں۔
--------
یاد ر کھیئے غربت لعنت نہیں ہے جو اسے لعنت ظاہر کرتے ہیں وہ خود ملعون ہیں۔
--------
وہ غریب اس امیر سے لاکھ درجے بہتر ہے جو اپنی کشتی خود اپنے ہاتھوں سے کھیتا ہے ۔۔۔ اپنی کشتی کے کھویا خود آپ بنئے ۔
--------
زبان بنائی نہیں جاتی، خود بنتی ہے
--------
آج کا ادیب ایک غیر مطمئن انسان ہے۔ اپنے ماحول، اپنے نظام، اپنی معاشرت، اپنے ادب، حتیٰ کہ اپنے آپ سے بھی
--------
یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ان ادیبوں کے اعصاب پر عورت سوار ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ ہبوط آدم سے لے کر اب تک ہر مرد کے اعصاب پر عورت سوار رہی ہے اور کیوں نہ رہے، مرد کے اعصاب پر کیا ہاتھی گھوڑوں کو سوار ہونا چاہیئے،
--------
جب تک انسانوں میں اور خاص طور پر سعادت حسن منٹو میں کمزوریاں موجود ہیں، وہ خوردبین سے دیکھ دیکھ کر باہر نکلتا اور دوسروں کو دکھاتا رہے گا
--------
میرے پڑوس میں اگر کوئی عورت ہر روز خاوند سے مار کھاتی ہے اور پھر اس کے جوتے صاف کرتی ہے تو میرے دل میں اس کیلئے ذرا برابر ہمدردی پیدا نہیں ہوتی، لیکن جب میرے پڑوس میں کوئی عورت اپنے خاوند سے لڑ کر اور خودکشی کی دھمکی دے کر سینما دیکھنے چلی جاتی ہے اور میں خاوند کو دو گھنٹے سخت پریشانی کی حالت میں دیکھتا ہوں تو مجھے دونوں سے ایک عجیب و غریب قسم کی ہمدردی پیدا ہو جاتی ہے۔
--------
کسی لڑکے کو لڑکی سے عشق ہو جائے تو میں اسے زکام کے برابر اہمیت نہیں دیتا، مگر وہ لڑکا میری توجہ کو اپنی طر ف ضرور کھینچے گا جو ظاہر کرے کہ اس پر سینکڑوں لڑکیاں جان دیتی ہیں، لیکن درحقیقت وہ محبت کا اتنا ہی بھوکا ہے جتنا بنگال کا فاقہ زدہ باشندہ
--------
چکی پیسنے والی عورت جو دن بھر کام کرتی ہے اور رات کو اطمینان سے سو جاتی ہے، میرے افسانوں کی ہیروئن نہیں ہو سکتی۔ میری ہیروئن چکلے کی ایک ٹکھیائی رنڈی ہو سکتی ہے جو رات کو جاگتی ہے اور دن کو سوتے میں کبھی کبھی ڈراؤنا خواب دیکھ کر اٹھ بیٹھتی ہے کہ بڑھاپا اس کے دروازے پر دستک دینے آ رہا ہے ۔۔۔۔۔۔ اس کے بھار بھاری پپوٹے جن پر برسوں کی اُچٹی ہوئی نیندیں منجمد ہو گئی ہیں، میرے افسانوں کا موضوع بن سکتے ہیں
--------
زمانے کے جس دور سے ہم اس وقت گزر رہے ہیں، اگر آپ اس سے ناواقف ہیں تو میرے افسانے پڑھیئے، اگر آپ ان افسانوں کو برداشت نہیں کر سکتے تو اس کا مطلب ہے کہ یہ زمانہ ناقابل برداشت ہے
--------
میں تہذیب و تمدن اور سوسائٹی کی چولی کیا اتاروں گا جو ہے ہی ننگی ۔۔۔۔۔۔ میں اسے کپڑے پہنانے کی کوشش بھی نہیں کرتا، اس لیئے کہ یہ میرا کام نہیں درزیوں کا ہے
--------
لوگ مجھے سیاہ قلم کہتے ہیں، میں تختہ سیاہ پر کالی چاک سے نہیں لکھتا، سفید چاک استعمال کرتا ہوں کہ تختہ سیاہ کی سیاہی اور بھی زیادہ نمایاں ہو جائے۔
--------
لعنت ہو سعادت حسن منٹو پر، کم بخت کو گالی بھی سلیقے سے نہیں دی جاتی۔
--------
میں آرٹسٹ ہوں اور اوچھے زخم اور بھدے گھاؤ مجھے پسند نہیں
--------
انسان اپنے اندر کوئی برائی لے کر پیدا نہیں ہوتا۔ خوبیاں اور برائیاں اس کے دل و دماغ میں باہر سے داخل ہوتی ہیں۔ بعض ان کی پرورش کرتے ہیں، بعض نہیں کرتے
--------