تم میں کیا کچھ نہیں؟ احساس ، شرافت ، تہذیب
مجھ میں کیا ہے ؟ نہ بصیرت ، نہ فراست ، نہ شعور
تم جو گزرے بہ صد انداز و ہزاراں خوبی
سب نے سمجھا کہ چلو رات کٹی دن آیا
میں تو انُ تیرہ نصیبوں میں پلا ہوں جن کو
تم سے وہ ربظ تھا جو بھوک کو اخلاق سے ہے
ایسی دُزدیدہ نگاہوں سے ہمیں مت دیکھو
ہم تو پہلے ہی بچھے بیٹھے ہیں اے جان بہار
مور کا پنکھ لگاتے ہی تھرکنے لگے پاؤں
سادہ لوحی پہ کوئی شرط ، کوئی زور نہیں
تم نے کس پیار سے یہ بات ہمیں سمجھائی
کہ یہاں تو کوئی ظآلم ، کوئی کمزور نہیں
مختلف نقطوں سے چلتے تو ہیں دنیا والے
کُرہّ ارض مگر گول ہے چوکور نہیں
مصطفیٰ زیدی
شہر آذر
41
مجھ میں کیا ہے ؟ نہ بصیرت ، نہ فراست ، نہ شعور
تم جو گزرے بہ صد انداز و ہزاراں خوبی
سب نے سمجھا کہ چلو رات کٹی دن آیا
میں تو انُ تیرہ نصیبوں میں پلا ہوں جن کو
تم سے وہ ربظ تھا جو بھوک کو اخلاق سے ہے
ایسی دُزدیدہ نگاہوں سے ہمیں مت دیکھو
ہم تو پہلے ہی بچھے بیٹھے ہیں اے جان بہار
مور کا پنکھ لگاتے ہی تھرکنے لگے پاؤں
سادہ لوحی پہ کوئی شرط ، کوئی زور نہیں
تم نے کس پیار سے یہ بات ہمیں سمجھائی
کہ یہاں تو کوئی ظآلم ، کوئی کمزور نہیں
مختلف نقطوں سے چلتے تو ہیں دنیا والے
کُرہّ ارض مگر گول ہے چوکور نہیں
مصطفیٰ زیدی
شہر آذر
41