محمد علم اللہ
محفلین
الاخوان المسلمون دہشت گرد نہیں ہیں
ڈاکٹر ظفرالاسلام خان
ایڈیٹر ملی گزٹ
الاخوان المسلمون کے مصر میں ڈیڑھ سال قبل عام انتخابات جیتنے سے جہاںاسرائیل اور مغرب کے کان کھڑے ہو گئے، وہیں مصری فوج اور لبرل کلاس بھیتشویش میں مبتلاہوگیا کیونکہ الاخوان المسلمون کی حکومت کے قیام کا مطلبتھا کہ جو لوٹ گھسوٹ فوجی طبقہ مصر میں ۱۹۵۲ سے کر رہا تھا، اس کا خاتمہہوجائے گا اوراسی کے ساتھ اس لبرل طبقے کا بھی جو چند ہڈیوں کے عوض مصر میںفوجی افسروں کی حکومت کو قابل قبول بنانے کے لئے کچھ عہدوں اور معمولیامتیازات کے عوض ملک کی عزت اور قسمت سے فوجی ٹولے کو کھیلنے کی اجازت دئےہوئے تھا۔
جمال عبدالناصر کی حکومت واضح طریقے سے فوجی افسروں پر مشتمل تھی ۔ (کرنل) انور السادات اور (ایر مارشل) حسنی مبارک کے زمانے میں بھی صورت حال وہیرہی ۔ نتیجتاً ملک کی معیشت کے تقریباً ۴۵فیصد پرآج فوج کا براہ راست یابالواسطہ قبضہ ہے۔ بڑے بڑے عہدوں پر سابق فوجی افسر بیٹھے ہوئے ہیں۔
’’بہار عرب‘‘ کے نتیجے میں لگا کہ اب صورت حال بدلے گی۔ ملک میں پہلی بارآزادانہ انتخابات ہوئے اور الاخوان المسلمون کی سیاسی جماعت(فریڈم اینڈجسٹس پارٹی) اکثریت سے کامیاب ہوئی ۔ پارلیمنٹ اور مجلس شوری کے انتخاباتمیں بھی الاخوان المسلمون کو اکثریت ملی۔ اس کے زیر نگرانی بنائے ہوئے آئینکو ملک کی اکثریت نے منظور کیا۔ یہ سب کچھ ہوا لیکن درحقیقت وہ ’’خفیہحکومت ‘‘ ، جسے جدید اصطلاح میں ’’عمیق ریاست‘‘ deep state کہتے ہیں ، پوریطرح انتظامیہ پر قابض رہی۔ عدلیہ میں بھی سب وہی لوگ بیٹھے ہوئے تھے جن کوصدر حسنی مبارک نے متعین کیا تھا۔ اس خفیہ حکومت نے صدر ڈاکٹر محمد مرسیکو حکومت نہیں کرنے دیا۔ ان کے احکامات کو عدلیہ رد کرنے لگی ۔یہاں تک صرفکچھ ٹکنکل بنیادوں پر پارلیمنٹ کو بھی کالعدمقرار دیدیا گیا۔ اس کے بعدعدلیہ کا اگلا نشانہ مجلس شوری تھا جس کی وجہ سے ملک میں مکمل خلا پیداہوجاتا۔ ایسی حالت میں صدر مرسی نے صرف ایک متعینہ مدت کے لئے صدارتی فرمانجاری کیا کہ ان کے احکامات کو عدالت میں چیلنج نہیں کیا جاسکتا۔ اب کیاتھا پوری قیامت آگئی اور اندر وباہر ہر طرف الزامات عائد ہونے لگے کہ صدرمرسی اخوانیوں کی ڈکٹیٹر شپ قائم کرنا چاہتے ہیں حالانکہ ۱۹۵۲ سے لیکر ۲۰۱۲تک مصر میں کسی فرد یا جج کی ہمت نہیں تھی کہ کسی صدارتی فرمان کو چیلنجکرتا۔
چونکہ صدر مرسی اور ان کی حکومت کا صحیح معنوں میں فوج، پولیس اور خفیہمحکمہ پر کنٹرول نہیں تھا، اس لئے ایسے حالات دھیرے دھیرے بنادئے گئے جسمیںفوج کیبراہ راست دخل اندازی قابل قبول ہوگئی ۔ اس کام میں جہاں اندرونیفوجی اور لبرل طبقے کی حمایت حاصل تھی، وہیں غیر ملکی طاقتوں خصوصاًاسرائیل، امریکہ اور سعودی عرب سمیت خلیج ممالک کی پوری تاییدشامل تھی۔اسرائیل کو معلوم تھا کہ الاخوان المسلمون ہی وہ واحد طاقت ہیں جو پوری طرحاسرائیل کے خلافہے اوروہ علاقے میں اس کی غنڈہ گردی پر لگام لگائیں گے۔اسرائیل کے قیام کے بعد ۱۹۴۸میں صرف اخوان ہی تھے جنہوں نے ثابت قدمی سےیہودیملیشیات کا جنوبی فلسطین میں مقابلہ کیا تھا جبکہ عرب فوجی یا تواسرائیل کی مدد کر رہے تھے یا کھڑے سب کچھ دیکھ رہے تھے۔
مصر ی فوج کو خلیجی حکام نے پوری مدد کا یقین دلایا تھا ۔دراصل خلیجی حکامکو ڈر تھا کہ اگر الاخوان المسلمون کے پیر مصر میں جم جاتے ہیں تو ان کیخاندانی اور موروثی سلطنتیں بھی خطرےمیں پڑجائیں گی کیونکہ عصور وسطی کےنظام پر چلنے والی یہ خلیجی سلطنتیں آج بھی پوری طرح سے مطلق العنان ہیں ۔اگر چہ عوام کو معاشی سہولتیں اور تجارتی مواقع دیکر خاموش کردیا گیا ہےلیکن سارے سیاسی اور حکومتی اختیارات فردواحد یاایک خاندان کے قبضے میں ہیںجو ملکی دولت کا تصرف ایسے کرتا ہے جیسے وہ اس کی ذاتی یا حاکم خاندان کیملکیت ہو۔ یہ سارے خاندان بیرون ملک کچھ اسلامی اداروں اور افراد کی بھیمدد کرتے ہیں تاکہ کوئی ان پر تنقید کرنے کی نہ سوچے حالانکہ یہ مدد چندسکوں سے زیادہ نہیں ہوتی ہے جبکہ یہی طاقتیں مغربی سیاسی پارٹیوں اوراداروں کو بہت فراخدلی سے مدد کرتی ہیں۔ وہاں بھی مقصد ان کی زبانوں کوبندکر نا ہی ہوتا ہے۔
ان حالات میں مصری فوج نے منتخب صدر کا تختہ پلٹا،ہزاروں کو دن دھاڑےقتل کیااور صدر سمیتہزاروں اخوانی لیڈروں کو نہ صرفجیل بھیج دیا بلکہان پر غداری اور دہشت گردی کے مقدمات بھی ٹھونک دئے۔ پھر پچھلے سال ۲۵دسمبر کو الاخوان کو ’’دہشت گرد‘‘ تنظیم کہہ کرکالعدمبھی کردیا گیا۔ اباخوان کے ممبران کونہ صرف مصر کے اندر بلکہ مصر کے باہر بالخصوص خلیجیممالک میں بھی بغیر کیس جرم کے ’’دہشت گرد‘‘ قرار دے کر گرفتارکیا جا رہاہے۔مصر کی ایک عدالت نے اور بھی آگے بڑھ کر فلسطینی مزاحمتی تحریک اورغزہ پر حاکم حماس تحریک کو بھی ’’دہشت گرد‘‘ قرار دے دیدیاہے۔ اسرائیل کوان تبدیلیوں سے بہت خوشی ہے اور اس کے اعلی لیڈران متعددبیانات دیکرمصراور خطے میں ہونے والی تبدیلیوں پر خوشی کا اظہار کر چکے ہیں اور یہ بھیکہہ چکے ہیں کہ اب اسرائیل خود کو دوبارہ محفوظ سمجھتا ہے۔
اس سب کے بعد حالیہ ۸ مارچکو سعودی عرب پھرفورا متحدہ عرب امارات اورکویت نے الاخوان کو ’’دہشت گرد‘‘ تحریک کہہ کر کالعدم قرار دے دیا حالانکہان خلیجی ممالک میں پہلے ہی سے اخوان کا کوئی قا نونی وجود نہیں ہے۔ زیادہسے زیادہ کچھ مصری ان ملکوں میں ایسے ہیں جو اخوانی فکر رکھتے ہیں یا کچھمقامی لوگ ہیں جو اخوانی فکر سے متاثر ہیں۔ الاخوان مصر کے باہر صرف اردناور سوڈان میں باقاعدہ طور سے بحیثیت تنظیم پائے جاتے ہیں اور ان دونوںملکوں نے الاخوان کے بارے میں اپنے موقف کو نہیں بدلا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ الاخوان نے کبھی سعودی عرب سمیت خلیجی ممالک کے خلاف نہکچھ کہا نہ کیا، بلکہ یہ بھی تاریخی حقیقت ہے کہ ۱۹۶۰ کے دہے میں جب جمالعبدالناصرکی عرب قومیت کے طوفان کے تحت یکے بعد دیگر عرب حکومتیں ٹوٹ رہیتھیں اور عرب قومیت کا انقلاب یمن میں بھی کامیاب ہوچکا تھا اور جنوبی یمن ؍عمان کے ظفار علاقے میں کافی طاقتور جنگ جاری تھی، ایسے وقت میں الاخواننے خلیجی اور بالخصوص سعودی حکمرانوں کا پوری طرح ساتھ دیا۔ ساری دنیا میںان کے سفیر بنے اور زبان وقلم سے ان کی تایید کی۔ ۱۹۶۷ کی شکست کے بعد جمالعبدالناصر کا زور کم ہوا اور الاخوان پر بھی شکنجہ دھیرے دھیرے کمزورہوا۔اب بھاگے ہوئے اخوانی مصر واپس لوٹنے لگے اور چند سال میں انہیں اتنیآزادی مل گئی کہ صدر انور السادات کے زمانے میں اگرچہ باقاعدہ پارٹی بنانےکی اجازت توانہیں نہیں مل سکی لیکن ان کا دفتر قاہرہ میں کھل گیا، ان کاترجمان پرچہ ’’الدعوۃ ‘‘نکلنے لگا اور وہ دوسری پارٹیوں کے ٹکٹ پرپارلیمانی انتخابات میں حصہ بھی لینے لگے۔
اس پورے عرصہ میں سعودی حکومت سے الاخوان کے عمدہ تعلقات رہے اور سعودی مددبھی الاخوان کو ملتی رہی۔ لیکن الاخوان کے سیاسی طور پر جیتنے اور حکومتپر قابض ہونے سے حالات بالکل بدل گئے۔ الاخوان بہر حال ایک جمہوری اور شوریپر قائم عوامی حکومت لانے کے پابند تھے اور یہی ڈر تھا جو خلیجی حکمرانوںکو پہلے ہی دن سے لگ گیاتھا ۔ یہاں تک کہ دبئی پولیس کے چیف ضاحی خلفان نےالاخوان کے جیتتے ہی یہ کھل کر کہا تھاکہ میں اس حکومت کو گراکر دم لوں گا۔اخوان کے مصر میں برسر اقتدار آنے کے بعد ان کے مخالفین اپنی غیر قانونیدولت کے ساتھ بھاگ کر متحدہ عرب امارات میں ہی پناہ لیتے تھے۔
سعودی سمیت خلیجی حکام کے موقف میں یہ تبدیلی نہ صرف واضح طریقے سے اسلامدشمن اور جمہوریت مخالف ہے بلکہ یہ احسان فراموشی کی بھی ایکبد ترین مثالہے۔ جب ان کوشدید ضرورت تھی تو الاخوان نے ان کی پوری دنیا میں تایید کیاور وہ ماحول پیدا کیا جس میں یہ حکومتیں متزلزل نہیں ہوئیں اور جب اخوانخود اقتدار تک پہنچے تویہی لوگ اخوان کے خون کے پیاسے ہوگئے اور ان کےمخالفین کے لئے اپنی دولت کے خزانے کھول دئے۔ آج یقیناً الاخوان مشکلات میں گھرے ہوئے ہیں لیکن یہ سب ایک دن بدلے گا۔کسی عوامی تحریک کو دیر تک کچلا نہیں جاسکتا۔ اپنے اس امتحان وہ اسی طرحثابت قدم اور کھرے اتریں گے جیسے وہ جمال عبدالناصر کے ظلم کے سامنے اترےتھے اور یقیناً جب وہ دوبارہ اقتدار تک پہنچیں گے تو ان کی آنکھوں کے سامنےبہت سے غبار چھٹ چکے ہوں گے۔ خطۂ عرب کے باہر بھی مسلمانوں کو اس ظلم کےخلاف واضح موقف اختیار کرنا چاہئے۔
اگر الاخوان جیسی شریف، معتدل،روشن خیال، انحرافات سے پاک جماعت کو ختمہونے دیا گیا تو خود اسلام اور مسلمانوں کے لئے ایک بہت بڑا مسئلہ اوربحران پیداہوگا۔ ذراسے فائدے کے لئے جو افراد اور جماعتیں آج خلیجی ممالکاور سعودی عرب کا ساتھ دے رہی ہیں یا کم از کم خاموش ہی ہیں، انہیں اپنےموقف پر نظر ثانی کرنی چاہئے اور حق کا ساتھ دینا چاہئے۔میں ذاتی طور سے سعودی کانفرنسوں میں ۱۹۷۸ سے شریک ہوتا رہا ہوں لیکن میں نے سعودی حکومت یا سعودی حکام سے نہ کوئی امدادلی نہ کوئی ذاتی فائدہاٹھایا۔ اب ان حالات کے بعد جب مجھے پچھلی فروری میں حالیہ مارچ کے شروعمیں مکہ مکرمہ کے رابطۂ عالم اسلامی کی طرف سے ایک کانفرنس میں شرکت کے لئےمدعو کیا گیا تو میں نے جانے سے انکار کر دیا۔ پھر جب متعدد سعودی شخصیاتیکے بعد دیگرے ہمارے ملک آئیں تو بھی کئی دعوت نامے ملاقات اور عشائیہوغیرہ کے لئے آئے لیکن میں نے سب میں شرکت سے معذرت کردی۔ اس کی وجہ صرف یہتھی کہ اس وقت جب کہ الاخوان کے خلاف یہ طاقت ظلم عظیم میں ملوث ہے تو اسطرح کی کوئی بھی ملاقات ان کے ان ظالمانہ مواقف کی تایید ہی سمجھی جائے گی۔
ڈاکٹر ظفرالاسلام خان
ایڈیٹر ملی گزٹ
الاخوان المسلمون کے مصر میں ڈیڑھ سال قبل عام انتخابات جیتنے سے جہاںاسرائیل اور مغرب کے کان کھڑے ہو گئے، وہیں مصری فوج اور لبرل کلاس بھیتشویش میں مبتلاہوگیا کیونکہ الاخوان المسلمون کی حکومت کے قیام کا مطلبتھا کہ جو لوٹ گھسوٹ فوجی طبقہ مصر میں ۱۹۵۲ سے کر رہا تھا، اس کا خاتمہہوجائے گا اوراسی کے ساتھ اس لبرل طبقے کا بھی جو چند ہڈیوں کے عوض مصر میںفوجی افسروں کی حکومت کو قابل قبول بنانے کے لئے کچھ عہدوں اور معمولیامتیازات کے عوض ملک کی عزت اور قسمت سے فوجی ٹولے کو کھیلنے کی اجازت دئےہوئے تھا۔
جمال عبدالناصر کی حکومت واضح طریقے سے فوجی افسروں پر مشتمل تھی ۔ (کرنل) انور السادات اور (ایر مارشل) حسنی مبارک کے زمانے میں بھی صورت حال وہیرہی ۔ نتیجتاً ملک کی معیشت کے تقریباً ۴۵فیصد پرآج فوج کا براہ راست یابالواسطہ قبضہ ہے۔ بڑے بڑے عہدوں پر سابق فوجی افسر بیٹھے ہوئے ہیں۔
’’بہار عرب‘‘ کے نتیجے میں لگا کہ اب صورت حال بدلے گی۔ ملک میں پہلی بارآزادانہ انتخابات ہوئے اور الاخوان المسلمون کی سیاسی جماعت(فریڈم اینڈجسٹس پارٹی) اکثریت سے کامیاب ہوئی ۔ پارلیمنٹ اور مجلس شوری کے انتخاباتمیں بھی الاخوان المسلمون کو اکثریت ملی۔ اس کے زیر نگرانی بنائے ہوئے آئینکو ملک کی اکثریت نے منظور کیا۔ یہ سب کچھ ہوا لیکن درحقیقت وہ ’’خفیہحکومت ‘‘ ، جسے جدید اصطلاح میں ’’عمیق ریاست‘‘ deep state کہتے ہیں ، پوریطرح انتظامیہ پر قابض رہی۔ عدلیہ میں بھی سب وہی لوگ بیٹھے ہوئے تھے جن کوصدر حسنی مبارک نے متعین کیا تھا۔ اس خفیہ حکومت نے صدر ڈاکٹر محمد مرسیکو حکومت نہیں کرنے دیا۔ ان کے احکامات کو عدلیہ رد کرنے لگی ۔یہاں تک صرفکچھ ٹکنکل بنیادوں پر پارلیمنٹ کو بھی کالعدمقرار دیدیا گیا۔ اس کے بعدعدلیہ کا اگلا نشانہ مجلس شوری تھا جس کی وجہ سے ملک میں مکمل خلا پیداہوجاتا۔ ایسی حالت میں صدر مرسی نے صرف ایک متعینہ مدت کے لئے صدارتی فرمانجاری کیا کہ ان کے احکامات کو عدالت میں چیلنج نہیں کیا جاسکتا۔ اب کیاتھا پوری قیامت آگئی اور اندر وباہر ہر طرف الزامات عائد ہونے لگے کہ صدرمرسی اخوانیوں کی ڈکٹیٹر شپ قائم کرنا چاہتے ہیں حالانکہ ۱۹۵۲ سے لیکر ۲۰۱۲تک مصر میں کسی فرد یا جج کی ہمت نہیں تھی کہ کسی صدارتی فرمان کو چیلنجکرتا۔
چونکہ صدر مرسی اور ان کی حکومت کا صحیح معنوں میں فوج، پولیس اور خفیہمحکمہ پر کنٹرول نہیں تھا، اس لئے ایسے حالات دھیرے دھیرے بنادئے گئے جسمیںفوج کیبراہ راست دخل اندازی قابل قبول ہوگئی ۔ اس کام میں جہاں اندرونیفوجی اور لبرل طبقے کی حمایت حاصل تھی، وہیں غیر ملکی طاقتوں خصوصاًاسرائیل، امریکہ اور سعودی عرب سمیت خلیج ممالک کی پوری تاییدشامل تھی۔اسرائیل کو معلوم تھا کہ الاخوان المسلمون ہی وہ واحد طاقت ہیں جو پوری طرحاسرائیل کے خلافہے اوروہ علاقے میں اس کی غنڈہ گردی پر لگام لگائیں گے۔اسرائیل کے قیام کے بعد ۱۹۴۸میں صرف اخوان ہی تھے جنہوں نے ثابت قدمی سےیہودیملیشیات کا جنوبی فلسطین میں مقابلہ کیا تھا جبکہ عرب فوجی یا تواسرائیل کی مدد کر رہے تھے یا کھڑے سب کچھ دیکھ رہے تھے۔
مصر ی فوج کو خلیجی حکام نے پوری مدد کا یقین دلایا تھا ۔دراصل خلیجی حکامکو ڈر تھا کہ اگر الاخوان المسلمون کے پیر مصر میں جم جاتے ہیں تو ان کیخاندانی اور موروثی سلطنتیں بھی خطرےمیں پڑجائیں گی کیونکہ عصور وسطی کےنظام پر چلنے والی یہ خلیجی سلطنتیں آج بھی پوری طرح سے مطلق العنان ہیں ۔اگر چہ عوام کو معاشی سہولتیں اور تجارتی مواقع دیکر خاموش کردیا گیا ہےلیکن سارے سیاسی اور حکومتی اختیارات فردواحد یاایک خاندان کے قبضے میں ہیںجو ملکی دولت کا تصرف ایسے کرتا ہے جیسے وہ اس کی ذاتی یا حاکم خاندان کیملکیت ہو۔ یہ سارے خاندان بیرون ملک کچھ اسلامی اداروں اور افراد کی بھیمدد کرتے ہیں تاکہ کوئی ان پر تنقید کرنے کی نہ سوچے حالانکہ یہ مدد چندسکوں سے زیادہ نہیں ہوتی ہے جبکہ یہی طاقتیں مغربی سیاسی پارٹیوں اوراداروں کو بہت فراخدلی سے مدد کرتی ہیں۔ وہاں بھی مقصد ان کی زبانوں کوبندکر نا ہی ہوتا ہے۔
ان حالات میں مصری فوج نے منتخب صدر کا تختہ پلٹا،ہزاروں کو دن دھاڑےقتل کیااور صدر سمیتہزاروں اخوانی لیڈروں کو نہ صرفجیل بھیج دیا بلکہان پر غداری اور دہشت گردی کے مقدمات بھی ٹھونک دئے۔ پھر پچھلے سال ۲۵دسمبر کو الاخوان کو ’’دہشت گرد‘‘ تنظیم کہہ کرکالعدمبھی کردیا گیا۔ اباخوان کے ممبران کونہ صرف مصر کے اندر بلکہ مصر کے باہر بالخصوص خلیجیممالک میں بھی بغیر کیس جرم کے ’’دہشت گرد‘‘ قرار دے کر گرفتارکیا جا رہاہے۔مصر کی ایک عدالت نے اور بھی آگے بڑھ کر فلسطینی مزاحمتی تحریک اورغزہ پر حاکم حماس تحریک کو بھی ’’دہشت گرد‘‘ قرار دے دیدیاہے۔ اسرائیل کوان تبدیلیوں سے بہت خوشی ہے اور اس کے اعلی لیڈران متعددبیانات دیکرمصراور خطے میں ہونے والی تبدیلیوں پر خوشی کا اظہار کر چکے ہیں اور یہ بھیکہہ چکے ہیں کہ اب اسرائیل خود کو دوبارہ محفوظ سمجھتا ہے۔
اس سب کے بعد حالیہ ۸ مارچکو سعودی عرب پھرفورا متحدہ عرب امارات اورکویت نے الاخوان کو ’’دہشت گرد‘‘ تحریک کہہ کر کالعدم قرار دے دیا حالانکہان خلیجی ممالک میں پہلے ہی سے اخوان کا کوئی قا نونی وجود نہیں ہے۔ زیادہسے زیادہ کچھ مصری ان ملکوں میں ایسے ہیں جو اخوانی فکر رکھتے ہیں یا کچھمقامی لوگ ہیں جو اخوانی فکر سے متاثر ہیں۔ الاخوان مصر کے باہر صرف اردناور سوڈان میں باقاعدہ طور سے بحیثیت تنظیم پائے جاتے ہیں اور ان دونوںملکوں نے الاخوان کے بارے میں اپنے موقف کو نہیں بدلا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ الاخوان نے کبھی سعودی عرب سمیت خلیجی ممالک کے خلاف نہکچھ کہا نہ کیا، بلکہ یہ بھی تاریخی حقیقت ہے کہ ۱۹۶۰ کے دہے میں جب جمالعبدالناصرکی عرب قومیت کے طوفان کے تحت یکے بعد دیگر عرب حکومتیں ٹوٹ رہیتھیں اور عرب قومیت کا انقلاب یمن میں بھی کامیاب ہوچکا تھا اور جنوبی یمن ؍عمان کے ظفار علاقے میں کافی طاقتور جنگ جاری تھی، ایسے وقت میں الاخواننے خلیجی اور بالخصوص سعودی حکمرانوں کا پوری طرح ساتھ دیا۔ ساری دنیا میںان کے سفیر بنے اور زبان وقلم سے ان کی تایید کی۔ ۱۹۶۷ کی شکست کے بعد جمالعبدالناصر کا زور کم ہوا اور الاخوان پر بھی شکنجہ دھیرے دھیرے کمزورہوا۔اب بھاگے ہوئے اخوانی مصر واپس لوٹنے لگے اور چند سال میں انہیں اتنیآزادی مل گئی کہ صدر انور السادات کے زمانے میں اگرچہ باقاعدہ پارٹی بنانےکی اجازت توانہیں نہیں مل سکی لیکن ان کا دفتر قاہرہ میں کھل گیا، ان کاترجمان پرچہ ’’الدعوۃ ‘‘نکلنے لگا اور وہ دوسری پارٹیوں کے ٹکٹ پرپارلیمانی انتخابات میں حصہ بھی لینے لگے۔
اس پورے عرصہ میں سعودی حکومت سے الاخوان کے عمدہ تعلقات رہے اور سعودی مددبھی الاخوان کو ملتی رہی۔ لیکن الاخوان کے سیاسی طور پر جیتنے اور حکومتپر قابض ہونے سے حالات بالکل بدل گئے۔ الاخوان بہر حال ایک جمہوری اور شوریپر قائم عوامی حکومت لانے کے پابند تھے اور یہی ڈر تھا جو خلیجی حکمرانوںکو پہلے ہی دن سے لگ گیاتھا ۔ یہاں تک کہ دبئی پولیس کے چیف ضاحی خلفان نےالاخوان کے جیتتے ہی یہ کھل کر کہا تھاکہ میں اس حکومت کو گراکر دم لوں گا۔اخوان کے مصر میں برسر اقتدار آنے کے بعد ان کے مخالفین اپنی غیر قانونیدولت کے ساتھ بھاگ کر متحدہ عرب امارات میں ہی پناہ لیتے تھے۔
سعودی سمیت خلیجی حکام کے موقف میں یہ تبدیلی نہ صرف واضح طریقے سے اسلامدشمن اور جمہوریت مخالف ہے بلکہ یہ احسان فراموشی کی بھی ایکبد ترین مثالہے۔ جب ان کوشدید ضرورت تھی تو الاخوان نے ان کی پوری دنیا میں تایید کیاور وہ ماحول پیدا کیا جس میں یہ حکومتیں متزلزل نہیں ہوئیں اور جب اخوانخود اقتدار تک پہنچے تویہی لوگ اخوان کے خون کے پیاسے ہوگئے اور ان کےمخالفین کے لئے اپنی دولت کے خزانے کھول دئے۔ آج یقیناً الاخوان مشکلات میں گھرے ہوئے ہیں لیکن یہ سب ایک دن بدلے گا۔کسی عوامی تحریک کو دیر تک کچلا نہیں جاسکتا۔ اپنے اس امتحان وہ اسی طرحثابت قدم اور کھرے اتریں گے جیسے وہ جمال عبدالناصر کے ظلم کے سامنے اترےتھے اور یقیناً جب وہ دوبارہ اقتدار تک پہنچیں گے تو ان کی آنکھوں کے سامنےبہت سے غبار چھٹ چکے ہوں گے۔ خطۂ عرب کے باہر بھی مسلمانوں کو اس ظلم کےخلاف واضح موقف اختیار کرنا چاہئے۔
اگر الاخوان جیسی شریف، معتدل،روشن خیال، انحرافات سے پاک جماعت کو ختمہونے دیا گیا تو خود اسلام اور مسلمانوں کے لئے ایک بہت بڑا مسئلہ اوربحران پیداہوگا۔ ذراسے فائدے کے لئے جو افراد اور جماعتیں آج خلیجی ممالکاور سعودی عرب کا ساتھ دے رہی ہیں یا کم از کم خاموش ہی ہیں، انہیں اپنےموقف پر نظر ثانی کرنی چاہئے اور حق کا ساتھ دینا چاہئے۔میں ذاتی طور سے سعودی کانفرنسوں میں ۱۹۷۸ سے شریک ہوتا رہا ہوں لیکن میں نے سعودی حکومت یا سعودی حکام سے نہ کوئی امدادلی نہ کوئی ذاتی فائدہاٹھایا۔ اب ان حالات کے بعد جب مجھے پچھلی فروری میں حالیہ مارچ کے شروعمیں مکہ مکرمہ کے رابطۂ عالم اسلامی کی طرف سے ایک کانفرنس میں شرکت کے لئےمدعو کیا گیا تو میں نے جانے سے انکار کر دیا۔ پھر جب متعدد سعودی شخصیاتیکے بعد دیگرے ہمارے ملک آئیں تو بھی کئی دعوت نامے ملاقات اور عشائیہوغیرہ کے لئے آئے لیکن میں نے سب میں شرکت سے معذرت کردی۔ اس کی وجہ صرف یہتھی کہ اس وقت جب کہ الاخوان کے خلاف یہ طاقت ظلم عظیم میں ملوث ہے تو اسطرح کی کوئی بھی ملاقات ان کے ان ظالمانہ مواقف کی تایید ہی سمجھی جائے گی۔