البانیہ کے بکتاشی شیعہ مسلمان

حسان خان

لائبریرین
آج میں ایک ایسے گروہ کا تعارف کرانا چاہتا ہوں جس کے بارے میں مَیں چند مہینوں قبل تک کچھ بھی نہیں جانتا تھا۔ جب ان کے بارے میں اولاً پتا چلا تو اس بات کی مسرت ہوئی تھی کہ میں جس تہذیبی سلسلے سے قلبی وابستگی محسوس کرتا ہوں اُس کی ایک شاخ اتنی دور بلقان میں بھی موجود ہے۔ ساتھ ہی یہ دیکھ کر حیرت بھی ہوئی تھی کہ اس گروہ کے لوگ دیگر خطوں کے شیعوں سے کتنے مختلف ہیں۔ کم و بیش ایسی ہی حیرت مجھے اس وقت ہوئی تھی جب مجھے جمہوریۂ آذربائجان کے مغربی نما اور سیکولر طبع شیعوں کے بارے میں پتا چلا تھا۔ میں چاہتا ہوں کہ اس گروہ کے بارے میں ہم لوگوں کو تھوڑی بہت معلومات ہونی چاہیے۔ اسی لیے یہ دھاگہ شروع کر رہا ہوں۔
کہتا چلوں کہ نہ تو میں شیعہ ہوں اور نہ ہی یہ کوئی تبلیغی دھاگہ ہے۔ اس لیے دینِ اسلام کے ٹھیکے دار اور فضول مذہبی بحثوں کے خواہش مند حضرات اس دھاگے پر رحم فرماتے ہوئے دیگر دھاگوں اور چوپالوں کی جانب رخ کریں۔ مجھے عالمِ اسلام میں موجود مذہبی اور ثقافتی تنوع بہت عزیز ہے، اور میں اس تنوع کو منظرِ عام پر لانے کی اپنی پوری سی کوشش کرتا ہوں اور کرتا رہوں گا۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
اس گروہ کا مختصر تعارف:

بکتاشی درویش اسلامی روحانیت یعنی تصوف کے قابلِ ذکر مظاہر میں سے ہیں۔ ان کی شروعات ترکوں میں ایک اسلامی تحریک کے طور پر ہوئی اور ان کا نام تیرہویں صدی عیسوی کے بزرگ حاجی بکتاش ولی کی نسبت سے ہے جو مشرقی ایران میں پیدا ہوئے تھے اور جنہوں نے علاقائی ترکی زبان میں شاعری کی۔ عربی اور فارسی میں لکھنے والے اکثر مسلمان شاعروں کے مقابلے میں یہ ایک انوکھی بات تھی، اور اسی چیز نے حاجی بکتاش ولی کو ترک اسلام میں خاص مقام عطا کیا ہے۔ وسطی ترکی میں حاجی بکتاش نامی قصبے میں ان کا مقبرہ واقع ہے جہاں کافی سارے سیاح زیارت کے لیے آتے ہیں۔ ان کے روحانی استاد ایک وسطی ایشیائی صوفی خواجہ احمد یسوی تھے جنہوں نے موجودہ قزاقستان کے ترک لوگوں میں اسلام متعارف کرایا تھا۔

بکتاشی سلسلے کو بہت سی چیزیں دلچسپ بناتی ہیں۔ ترک ثقافت میں اس کی اہمیت کے علاوہ یہ سنی اور شیعہ روایات کے فرق سے بالاتر ہونے کی بھی ایک مثال ہے۔ مزید برآں، جوان نومسلم عثمانی فوجی دستے ینی چری (یعنی نئی فوج) کے روحانی پیشوا بھی بکتاشی درویش تھے۔ اس پر زیادہ تعجب نہیں ہونا چاہیے کہ بکتاشییت مسیحی روحانی روایات میں اپنی دلچسپی کے لیے مشہور ہے۔ کچھ ہی عرصے میں بکتاشی سلسلہ عثمانی سلطنت کے اہم ترین اداروں میں سے ایک بن گیا تھا، جس کے روحانی مراکز قاہرہ سے بلقان اور اناطولیہ سے ترکستان تک موجود تھے۔ البتہ ۱۸۲۶ عیسوی میں ینی چری اور بکتاشی عثمانی سلطان کی سرکوبی کا نشانہ بنے، اور وجہ یہ ظاہر کی گئی کہ انہوں نے حد سے زیادہ قوت جمع کر لی تھی اور اس کا غلط استعمال ہو رہا تھا۔ تاہم بکتاشی سلسلہ مخفی طور پر جاری رہا تا آنکہ مصطفیٰ کمال نے تمام درویشی سلسلوں پر پابندی لگا دی۔ (مصطفیٰ کمال کا ایک اور منفی کام۔۔) اس وقت تک بکتاشی البانویوں میں قابلِ توجہ رسوخ حاصل کر چکے تھے، جو کہ اپنی اسلام کی تعبیر میں خاصے آزاد خیال اور تکثیریت پسند رہے ہیں۔ البانوی قومی آزادی کے اس دور میں اچھے خاصے البانوی دانشور بکتاشی تھے، جن میں قومی شاعر نعیم فراشری کا نام بھی شامل ہے۔

۱۹۲۵ میں بکتاشی سلسلے نے اپنا عالمی مرکز البانیہ کے دارالحکومت تیرانا میں منتقل کر دیا۔ آج یہ وسطی اور جنوبی البانیہ، مغربی مقدونیہ اور کوسووو میں پائے جاتے ہیں اور یہ کُل البانوی آبادی کا تقریباً ایک چوتھائی حصہ ہیں۔ یہ ترکی سے باہر یورپ کے واحد مقامی شیعہ مسلمان ہیں۔ اس کے علاوہ، ۱۹۵۳ میں البانوی بکتاشیوں کے ایک گروہ نے، جو کہ اشتراکی آمریت سے بھاگ کر امریکہ چلا آیا تھا، اپنے ایک سرکردہ بزرگ بابا رجب کی قیادت میں پہلا البانوی-امریکی بکتاشی مرکز قائم کیا، جو ابھی تک باقی ہے۔ یہ مسلم درویشوں کا امریکا میں قائم کردہ پہلا بڑا صوفی مرکز تھا۔ یہ مرکز اپنی تعلیمات کی اشاعت عموماً البانوی زبان میں کرتا آیا ہے۔ امریکا میں رہنے والے البانوی تارکینِ وطن میں دیگر بکتاشی گروہ بھی اب دیکھے جا سکتے ہیں۔

بکتاشی بہت سے معاملات میں ترقی پسند ہیں: وہ عورتوں کی مکمل مساوات، سائنسی تعلیم، دیگر مذاہب کے احترام، مکمل شہری شرکت اور جمہوریت کی پُرزور حمایت کرتے ہیں۔ البانیہ میں انور خواجہ کی لادین اشتراکی آمریت میں یہ جبر کا نشانہ بنے تھے، اس کے علاوہ ۱۹۹۹ تک انہیں کوسووو میں بھی سربوں کے سنگین حملوں کا سامنا کرنا پڑا تھا۔

ان کا پرچم سبز رنگ پر مشتمل ہے جس پر بارہ کرنوں والا سورج بنا ہوا ہے۔ سبز پرچم اسلام کی علامت جب کہ بارہ کرنیں شیعہ بارہ اماموں کی علامت ہیں۔
rel-bekt.jpg

--------------------------------------------

اصل مضمون Stephen Schwartz نامی مصنف کا انگریزی میں لکھا ہوا تھا جس کا میں نے اردو میں ترجمہ کرنے کی کوشش کی ہے۔ انگریزی مضمون یہاں سے پڑھا جا سکتا ہے:
http://www.crwflags.com/fotw/flags/rel-bakt.html

------------------------

بکتاشیوں کے بارے میں تفصیلی علمی معلومات کے متمنی حضرات John Kingsley Birge کی کتاب The Bektashi Order of Dervishes کا یہاں سے مطالعہ کر سکتے ہیں۔ یہ تھوڑی پرانی کتاب ضرور ہے، لیکن معلومات سے معمور ہے۔
 

قیصرانی

لائبریرین
بکتاشی کا لفظ مجھے شک ہے کہ میں نے پاکستانی کے شمالی علاقہ جات سے متعلق مستنصر حسین تارڑ کی کتاب میں کہیں پہلی بار پڑھا تھا
 

حسان خان

لائبریرین
اشتراکی آًمریت کے دور میں تیرانا میں واقع ساری بکتاشی خانقاہیں (جنہیں بلقان میں 'تکیہ' کہا جاتا ہے) ڈھا دی گئیں تھیں۔ اشتراکیت کے سقوط کے بعد ابھی تیرانا میں کچھ خوبصورت بکتاشی خانقاہیں اور مزارات تعمیر کیے گئے ہیں۔ یہ تصاویر اُن میں سے ایک مزار کی ہیں۔

561130_382024611857017_1720783980_n.jpg

181387_382024788523666_709117862_n.jpg

376465_382024821856996_847216479_n.jpg

251805_382024888523656_1000149371_n.jpg

251908_382024965190315_601980715_n.jpg

تین بکتاشی بزرگوں کی قبور
534765_382025055190306_145130962_n.jpg

541435_382025131856965_31983066_n.jpg

555830_382025168523628_1319718083_n.jpg

531618_382025241856954_893507692_n.jpg


تیرانا میں زیرِ تعمیر خانقاہ
179905_382024591857019_595954020_n.jpg

487378_382025318523613_1045464453_n.jpg

532406_382025431856935_364726195_n.jpg

553321_382025448523600_1144262033_n.jpg

532267_382025511856927_1392887247_n.jpg

529421_382025528523592_1356624105_n.jpg

487159_382025585190253_448641702_n.jpg


البانوی بکتاشیوں کے سربراہ اپنے ملاقاتی کمرے میں۔۔۔ پیچھے دیوار پر پنجتن کی شبیہ ہے۔
ترک علویوں کی طرح بکتاشیوں کے ہاں بھی بالعموم شبیہ سازی ہوتی ہے۔ بہت سے بکتاشی اپنے گھر کی دیواروں پر حضرت علی کی شبیہ لگاتے ہیں۔
532186_382024268523718_1132285790_n.jpg
 

حسان خان

لائبریرین
عثمانی دور میں بکتاشی درویش اپنی تعلیمات کی تبلیغ کے سلسلے میں پوری سلطنت میں پھرا کرتے تھے۔ ہنگری کے دارالحکومت بوڈاپسٹ میں بھی ایک بکتاشی بزرگ 'گل بابا' کی قبر واقع ہے جسے تربتِ گل بابا کے نام سے یاد کیا جاتا ہے اور جو کہ ترک علویوں اور البانوی بکتاشیوں کی زیارت گاہ ہے۔
گل بابا کا انتقال ۱۵۴۱ میں ہوا تھا اور ان کا مقبرہ عثمانیوں نے ۱۵۴۸ میں بنوایا تھا۔ فی الحال یہ عمارت ترکی کی عملداری میں ہے۔
ترک علوی اور البانوی بکتاشی دونوں بہت ملتے جلتے ہیں۔ بس لسانی اور ثقافتی فرق کی وجہ سے انہیں دو مختلف گروہ مانا جاتا ہے۔
800px-Budapest_G%C3%BCl_Baba.JPG

640px-G%C3%BCl_Baba_t%C3%BCrb%C3%A9je..JPG

450px-Gulbabatomb.jpg

640px-G%C3%BCl_Baba_-_R%C3%B3zsadomb_%281%29.JPG

640px-G%C3%BCl_Baba_1.JPG

445px-G%C3%BCl_Baba_t%C3%BCrb%C3%A9je_%28290._sz%C3%A1m%C3%BA_m%C5%B1eml%C3%A9k%29.jpg

640px-G%C3%BCl_Baba_t%C3%BCrbe%2C_Budapest.jpg

640px-G%C3%BCl_Baba_t%C3%BCrb%C3%A9je_2011-ben.JPG
628px-G%C3%BCl_Baba_t%C3%BCrb%C3%A9je%2C_Budapest.jpg

640px-G%C3%BCl_baba.jpg
 

حسان خان

لائبریرین
بکتاشی سلسلے کی تمام کلاسیکی مذہبی اور ادبی کتب ترکی، فارسی اور عربی میں ہیں جنہیں السنۂ تمدنِ اسلامی مانا جاتا ہے۔ بکتاشیوں کے لیے سب سے اہم ادبی کتاب مشہور آذربائجانی شاعر محمد فضولی کی حدیقۃ السعداء ہے جس میں انتہائی خوبصورت اور فارسی آمیز نثر اور نظم کے توسط سے واقعۂ کربلا بیان کیا گیا ہے۔ محمد فضولی کلاسیکی ترکی ادب کے بہترین شاعر ہیں اور ان کی مذکورہ کتاب بغیر کسے مبالغے کے ترکی رثائی ادب کا بہترین نمونہ مانی جاتی ہے۔ فضولی خود بکتاشی نہیں تھے، لیکن بکتاشی اُنہیں بڑے احترام کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔
آج بھی بکتاشیوں کی ہر عاشورا کی تقریب میں حدیقۃ السعداء کے حصے پڑھے جاتے ہیں۔

جمہوریۂ آذربائجان کے دارالحکومت باکو میں فضولی کا مجسمہ:
fuzuli.jpg



فضولی کے ایک سلام کے دو شعر:
ای فلک، شرم ایت، نه بدعتدر که بنیاد ائیله‌دین
خاندانِ احمدِ مختاره بی‌داد ائیله‌دین
بو نه فکرِ باطل و اندیشهٔ بی‌هوده‌در
کیم، ییخوب بین کعبه بر بتخانه آباد ائیله‌دین

(اے فلک، شرم کر، یہ کیا بدعت ہے جس کی تو نے بنیاد ڈالی ہے؟
کہ تو نے خاندانِ احمدِ مختار کے ساتھ نا انصافی کی ہے۔۔۔۔
یہ کیسی باطل فکر اور بے ہودہ سوچ ہے
کہ ہزاروں کعبہ ڈھا کر تو نے ایک بت خانہ آباد کیا ہے۔)

---------------

آج سے محض سو سال قبل تک سارے البانوی اہلِ علم ترکی اور فارسی زبان سے واقف ہوا کرتے تھے اس لیے بکتاشی متون کو کبھی البانوی زبان میں منتقل کرنے کی ضرورت ہی محسوس نہیں کی۔ لیکن جب البانویوں کا مسلم کلاسیکی زبانوں سے رابطہ ٹوٹا تو اچانک کتب کو البانوی زبان میں ترجمہ کرنے کی ضروت پیش آ گئی۔ امریکہ میں پہلے بکتاشی تکیے کی بنیاد رکھنے والے بزرگ بابا رجب نے پوری حدیقۃ السعداء کا پہلی بار البانوی زبان میں ترجمہ کیا ہے جو لائق صد تحسین ہے۔ یہ دیکھ کر خوشی ہوتی ہے کہ بکتاشی بزرگوں نےترکی اور فارسی زبان و ادب کو ابھی تک زندہ رکھا ہوا ہے۔

مرحوم بابا رجب باقری۔۔۔۔۔۔
یہ ۱۹۹۵ تک امریکی بکتاشیوں کے روحانی پیشوا تھے۔ انہوں نے عثمانی ترکی سے کافی سارے مرثیے بھی البانوی زبان میں منتقل کیے ہیں۔
BabaRexheb_0.jpg
 

حسان خان

لائبریرین
عاشورا کے روز بکتاشی دیگر اثنا عشریوں کی طرح منظم سینہ کوبی نہیں کرتے، بلکہ ایک سادہ سی تقریب منعقد کرتے ہیں جس میں مرثیے پڑھے جاتے ہیں اور مذہبی پیشوا تقاریر کرتے ہیں۔ اس کے بعد مشترکہ طعام کا انتظام ہوتا ہے۔ آغا خانی شیعہ بھی کچھ اسی طرح روزِ عاشورا مناتے ہیں۔
مندرجہ ذیل تصاویر میں دیکھا جا سکتا ہے کیسے پچھلے سال امریکہ میں مقیم بکتاشیوں نے روزِ عاشورا منایا تھا۔
کہنے کی ضرورت نہیں کہ بکتاشیوں کے نزدیک روزِ عاشورا انتہائی معنوی اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔
263628_516370658381710_1908623440_n.jpg

394974_516370715048371_1289075007_n.jpg

980_516370738381702_1410533485_n.jpg

483447_516370808381695_1678664030_n.jpg

270110_516370848381691_994433700_n.jpg

64628_516370941715015_287206902_n.jpg

67866_516370985048344_703035185_n.jpg

189940_516371028381673_364239813_n.jpg

532221_516371125048330_75511404_n.jpg

556917_516371161714993_1772367317_n.jpg

20422_516371388381637_1539797916_n.jpg

205461_516371711714938_888602861_n.jpg
 

حسان خان

لائبریرین
اس کے علاوہ نوروز کا دن بھی بکتاشیوں کے لیے معنوی اہمیت کا حامل ہے جس میں ان کے عقیدے کے مطابق حضرت علی کی پیدائش ہوئی تھی۔ البانیہ میں نوروز کے دن عام تعطیل ہوتی ہے، اور ایسا کرنے والا یہ واحد یورپی ملک ہے۔

----------------------------------------------------

البانیہ کے موجودہ صدر بویار نشانی اور اُن کے خاندان نے ایک ماہ قبل امریکہ کی پہلی بکتاشی خانقاہ کا دورہ کیا تھا۔ البانوی معاشرے میں بکتاشیوں کو اُن کے قومی تحریک میں کلیدی کردار کی وجہ سے تعظیم سے دیکھا جاتا ہے۔ بویار نشانی خود سنی گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں۔ یہ اسی دورے کی تصاویر ہیں۔
1234954_660323840653057_1657450406_n.jpg
1234954_660323840653057_1657450406_n.jpg

ایک بچہ اپنے قومی لباس میں صدر کے استقبال کا انتظار کر رہا ہے۔
1234551_660324027319705_910658283_n.jpg

صدر کی آمد ہوئی۔۔۔
1234462_660324467319661_856799479_n.jpg

1235947_660324557319652_190037923_n.jpg

1374258_660324703986304_1381449950_n.jpg

1375677_660324770652964_1127655763_n.jpg
1375677_660324770652964_1127655763_n.jpg

1235452_660325010652940_927458035_n.jpg

598582_660325077319600_2092606285_n.jpg

1237099_660325337319574_1188354096_n.jpg

1238805_660325670652874_1932911721_n.jpg

1229860_660325777319530_1996838073_n.jpg

599715_660326087319499_37144003_n.jpg

1234895_660326287319479_1348993063_n.jpg

1375673_660326567319451_405038658_n.jpg

صدر کی رخصت۔۔۔
1239992_660326717319436_2006658530_n.jpg
 

حسان خان

لائبریرین
روان سال فروری میں کوسووو کے قونصل جنرل بَکِم سعیدی نے بھی اس امریکی بکتاشی خانقاہ کو اپنی میزبانی کا شرف بخشا تھا۔
557915_560160514002724_202356155_n.jpg

163350_560160840669358_1375351980_n.jpg

559812_560161394002636_1139725366_n.jpg

599977_560162244002551_1876634333_n.jpg

574618_560162264002549_1235791665_n.jpg
 

حسان خان

لائبریرین
امریکہ میں مقیم بکتاشیوں کے سب سے بڑے روحانی پیشوا حاجی بابا عرشی۔۔۔۔۔
1098265_643341132351328_1211047844_n.jpg

1003052_643341249017983_559008310_n.jpg
۔
971819_643341399017968_1082266682_n.jpg

1175591_643341782351263_433608845_n.jpg

998272_643342012351240_1185293671_n.jpg

526494_643342462351195_1550416761_n.jpg

579643_643342802351161_757703266_n.jpg

1175502_643343329017775_736004779_n.jpg

1185818_643343389017769_279957484_n.jpg

7763_608984072453701_173107590_n.jpg

971256_608984355787006_164813615_n.jpg


ویسے تو عام طور پر بلقان کی سنی خواتین بھی پردہ نہیں کرتیں، لیکن بکتاشی خواتین میں پردے کا کوئی تصور نہیں ہے۔
576661_608980712454037_199975527_n.jpg
 

حسان خان

لائبریرین
البانیہ کے قومی شاعر نعیم فراشری اپنی ایک نظم میں کہتے ہیں:
"ہم کیوں فاطمہ اور بارہ اماموں کو عزیز رکھتے ہیں؟
اور حسن اور حسین سے عشق کرتے ہیں؟
اس لیے چونکہ وہ حق پر ہیں
اور اصحابِ فضل ہیں
اور اُنہوں نے کسی کے ساتھ بدی نہیں کی ہے۔"
u2_naim_frasherii.jpg


----------------

چند بکتاشی خانقاہوں کی تصاویر:
کورچہ، البانیہ کی توران خانقاہ کی بازسازی کے بعد ددہ بابا موندی اور درویش جلالی خطاب کر رہے ہیں۔
542161_10151336538398290_44901385_n.jpg

ملان، البانیہ کا تکیہ
72889_10151336546798290_1343948373_n.jpg

فراشر، البانیہ کا ایک تکیہ
317927_10151336550328290_2102088331_n.jpg

دریزار، البانیہ میں بابا شعبان کا مزار
182162_10151336561713290_1454788729_n.jpg

البانیہ میں نامعلوم مقام پر واقع ایک تکیہ
530693_10151336561848290_904661215_n.jpg

کاناتلار، مقدونیہ کا تکیہ
227753_10151336599548290_1397471386_n.jpg

کاردزالی، بلغاریہ میں المالی بابا تکیہ
545260_10151336602093290_710658626_n.jpg

کرویا، البانیہ میں واقع دولما تکیہ
734791_10151336915028290_1920380728_n.jpg

فراشر، البانیہ کا تاریخی اور اہم تکیہ
73322_10151338194028290_1706121708_n.jpg

گیاکووا، کوسووو کے تکیے کا اندرونی منظر
64920_10151348540688290_1526840890_n.jpg


--------------

یونانی جزیرے کریت میں مقیم البانوی بکتاشی روزِ عاشورا منا رہے ہیں۔ (قدیم تصویر)
316264_10151591306153290_1929705013_n.jpg
 

حسان خان

لائبریرین
مرحوم و مغفور حاجی رشاد باردی ۱۹۹۰ سے ۲۰۱۱ تک بکتاشیوں کے عالمی سربراہ تھے۔
532924_10151536747903290_2029678619_n.jpg

۱۹۷۰ میں البانیہ کی اشتراکی آمریت نے مرحوم بابا رشاد باردی (دائیں طرف) کی زبردستی ریش منڈوا کر اُنہیں عام لباس پہننے پر مجبور کر دیا تھا۔
309976_10151585054888290_1380888863_n.jpg

۱۹۵۱ میں تیرانا کے ددہ بابالیک تکیے میں سنی علماء اور بکتاشی درویش مولودِ نبی (ص) منانے کے لیے جمع ہوئے ہیں۔
401808_10151551456113290_2128722118_n.jpg

۱۹۴۰: تیرانا میں بکتاشی بزرگ صالح نیاز ددہ، سنی مفتیِ اعظم، اور البانوی آرتھوڈکس کلیسا کے سربراہ امام حسین کی یاد میں ایک ساتھ طعام کر رہے ہیں۔
998670_10151662612973290_1801661434_n.jpg


بابا مرتضیٰ اور دیگر درویش سابق البانوی بادشاہ احمد زوگ کے ہمراہ
923359_10151552703928290_1420440595_n.jpg


تیتووا، مقدونیہ کا تکیہ
6140852774_b9acd0e9c7_z.jpg


گیروکاسترا، البانیہ کا بکتاشی تکیہ
5137238941_728cbfc523_z.jpg

169785705_6ce89820cd_z.jpg


تیتووا، مقدونیہ کے خراباتی بابا تکیہ کے پیشوا درویش عبدالمطلب باقری
6147063022_7ca08d5593_z.jpg
 

حسان خان

لائبریرین
البانیہ میں واقع بابا عباس علی توموری کا مقبرہ بکتاشیوں کی ایک اہم زیارت گاہ ہے، جس کے اطراف میں ہر سال بڑے اہتمام سے عرس منایا جاتا ہے۔
یہ پہاڑ ہی 'بابا توموری' کے نام سے موسوم ہے۔
1424515_748852855130291_764179324_n.jpg

1150916_709530765729167_1287319796_n.jpg

188781_577547428927502_531647469_n.jpg

382043_576157172399861_1159947399_n.jpg


اس زیارتگاہ کے اطراف میں ہونے والے عرس کی تصاویر:

ایک بکتاشی زائر خاندان طعام کر رہا ہے۔
6309951094_9e458cd4e8_z.jpg


بکتاشی درویش عرس کے دوران:
6312370179_9f40e43cd6_z.jpg

6312366463_cc96f9ef98_z.jpg

پہاڑ کے نیچے موجود تکیہ
6323975067_80f4d2e63f_z.jpg

6312885784_cd3d3571fd_z.jpg


تکیے کا ایک کمرہ جس میں حضرت علی کی شبیہ ہے۔
6312887584_d48bd79aca_z.jpg


جانور ذبح کیے جا رہے ہیں۔
6323975825_b3cf1b552e_z.jpg

6323973591_f57fb8b44d_z.jpg

6111083571_4269834ea1_z.jpg



6358334517_130ccd9212_z.jpg

1170872_710497138965863_424288024_n.jpg

1150997_709081792440731_941052096_n.jpg

6109599509_679b9d2506_z.jpg

6119854016_35c75d67d4_z.jpg

--------
پریزرن، کوسووو میں ایک بکتاشی قبر
3712842544_4b2a4dd093_z.jpg
 

قیصرانی

لائبریرین
عاشورا کے روز بکتاشی دیگر اثنا عشریوں کی طرح منظم سینہ کوبی نہیں کرتے، بلکہ ایک سادہ سی تقریب منعقد کرتے ہیں جس میں مرثیے پڑھے جاتے ہیں اور مذہبی پیشوا تقاریر کرتے ہیں۔ اس کے بعد مشترکہ طعام کا انتظام ہوتا ہے۔ آغا خانی شیعہ بھی کچھ اسی طرح روزِ عاشورا مناتے ہیں۔
آپ نے ط عام لکھا، لیکن فانٹ کی غلطی سے وہ بعام بن گیا :) لکھ کر دیکھئے طُعام
 

حسان خان

لائبریرین
آپ نے ط عام لکھا، لیکن فانٹ کی غلطی سے وہ بعام بن گیا :) لکھ کر دیکھئے طُعام
میرے پاس تو یہ لفظ ٹھیک لکھا نظر آ رہا ہے۔ میں محفل کے لیے جمیل نستعلیق فونٹ کا استعمال کرتا ہوں۔ :)
یہ ماتھے پر ٹیکہ نما کیا ہے؟
پتا نہیں۔ شاید برکت کے لیے قربانی کے جانور کا پیشانی پر خون لگایا ہو۔ واللہ اعلم۔
 
Top