اس گروہ کا مختصر تعارف:
بکتاشی درویش اسلامی روحانیت یعنی تصوف کے قابلِ ذکر مظاہر میں سے ہیں۔ ان کی شروعات ترکوں میں ایک اسلامی تحریک کے طور پر ہوئی اور ان کا نام تیرہویں صدی عیسوی کے بزرگ حاجی بکتاش ولی کی نسبت سے ہے جو مشرقی ایران میں پیدا ہوئے تھے اور جنہوں نے علاقائی ترکی زبان میں شاعری کی۔ عربی اور فارسی میں لکھنے والے اکثر مسلمان شاعروں کے مقابلے میں یہ ایک انوکھی بات تھی، اور اسی چیز نے حاجی بکتاش ولی کو ترک اسلام میں خاص مقام عطا کیا ہے۔ وسطی ترکی میں حاجی بکتاش نامی قصبے میں ان کا مقبرہ واقع ہے جہاں کافی سارے سیاح زیارت کے لیے آتے ہیں۔ ان کے روحانی استاد ایک وسطی ایشیائی صوفی خواجہ احمد یسوی تھے جنہوں نے موجودہ قزاقستان کے ترک لوگوں میں اسلام متعارف کرایا تھا۔
بکتاشی سلسلے کو بہت سی چیزیں دلچسپ بناتی ہیں۔ ترک ثقافت میں اس کی اہمیت کے علاوہ یہ سنی اور شیعہ روایات کے فرق سے بالاتر ہونے کی بھی ایک مثال ہے۔ مزید برآں، جوان نومسلم عثمانی فوجی دستے ینی چری (یعنی نئی فوج) کے روحانی پیشوا بھی بکتاشی درویش تھے۔ اس پر زیادہ تعجب نہیں ہونا چاہیے کہ بکتاشییت مسیحی روحانی روایات میں اپنی دلچسپی کے لیے مشہور ہے۔ کچھ ہی عرصے میں بکتاشی سلسلہ عثمانی سلطنت کے اہم ترین اداروں میں سے ایک بن گیا تھا، جس کے روحانی مراکز قاہرہ سے بلقان اور اناطولیہ سے ترکستان تک موجود تھے۔ البتہ ۱۸۲۶ عیسوی میں ینی چری اور بکتاشی عثمانی سلطان کی سرکوبی کا نشانہ بنے، اور وجہ یہ ظاہر کی گئی کہ انہوں نے حد سے زیادہ قوت جمع کر لی تھی اور اس کا غلط استعمال ہو رہا تھا۔ تاہم بکتاشی سلسلہ مخفی طور پر جاری رہا تا آنکہ مصطفیٰ کمال نے تمام درویشی سلسلوں پر پابندی لگا دی۔
(مصطفیٰ کمال کا ایک اور منفی کام۔۔) اس وقت تک بکتاشی البانویوں میں قابلِ توجہ رسوخ حاصل کر چکے تھے، جو کہ اپنی اسلام کی تعبیر میں خاصے آزاد خیال اور تکثیریت پسند رہے ہیں۔ البانوی قومی آزادی کے اس دور میں اچھے خاصے البانوی دانشور بکتاشی تھے، جن میں قومی شاعر نعیم فراشری کا نام بھی شامل ہے۔
۱۹۲۵ میں بکتاشی سلسلے نے اپنا عالمی مرکز البانیہ کے دارالحکومت تیرانا میں منتقل کر دیا۔ آج یہ وسطی اور جنوبی البانیہ، مغربی مقدونیہ اور کوسووو میں پائے جاتے ہیں اور یہ کُل البانوی آبادی کا تقریباً ایک چوتھائی حصہ ہیں۔ یہ ترکی سے باہر یورپ کے واحد مقامی شیعہ مسلمان ہیں۔ اس کے علاوہ، ۱۹۵۳ میں البانوی بکتاشیوں کے ایک گروہ نے، جو کہ اشتراکی آمریت سے بھاگ کر امریکہ چلا آیا تھا، اپنے ایک سرکردہ بزرگ بابا رجب کی قیادت میں پہلا البانوی-امریکی بکتاشی مرکز قائم کیا، جو ابھی تک باقی ہے۔ یہ مسلم درویشوں کا امریکا میں قائم کردہ پہلا بڑا صوفی مرکز تھا۔ یہ مرکز اپنی تعلیمات کی اشاعت عموماً البانوی زبان میں کرتا آیا ہے۔ امریکا میں رہنے والے البانوی تارکینِ وطن میں دیگر بکتاشی گروہ بھی اب دیکھے جا سکتے ہیں۔
بکتاشی بہت سے معاملات میں ترقی پسند ہیں: وہ عورتوں کی مکمل مساوات، سائنسی تعلیم، دیگر مذاہب کے احترام، مکمل شہری شرکت اور جمہوریت کی پُرزور حمایت کرتے ہیں۔ البانیہ میں انور خواجہ کی لادین اشتراکی آمریت میں یہ جبر کا نشانہ بنے تھے، اس کے علاوہ ۱۹۹۹ تک انہیں کوسووو میں بھی سربوں کے سنگین حملوں کا سامنا کرنا پڑا تھا۔
ان کا پرچم سبز رنگ پر مشتمل ہے جس پر بارہ کرنوں والا سورج بنا ہوا ہے۔ سبز پرچم اسلام کی علامت جب کہ بارہ کرنیں شیعہ بارہ اماموں کی علامت ہیں۔
--------------------------------------------
اصل مضمون Stephen Schwartz نامی مصنف کا انگریزی میں لکھا ہوا تھا جس کا میں نے اردو میں ترجمہ کرنے کی کوشش کی ہے۔ انگریزی مضمون یہاں سے پڑھا جا سکتا ہے:
http://www.crwflags.com/fotw/flags/rel-bakt.html
------------------------
بکتاشیوں کے بارے میں تفصیلی علمی معلومات کے متمنی حضرات John Kingsley Birge کی کتاب The Bektashi Order of Dervishes کا یہاں سے مطالعہ کر سکتے ہیں۔ یہ تھوڑی پرانی کتاب ضرور ہے، لیکن معلومات سے معمور ہے۔