البم سے کئی عکس پرانے نکل آئے

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
البم سے کئی عکس پرانے نکل آئے
لمحات کے پیکر میں زمانے نکل آئے

بھولے ہوئے کچھ نامے ، بھلائے ہوئے کچھ نام
کاغذ کے پلندوں سے خزانے نکل آئے

تھے گوشہ نشیں آنکھ میں آنسو مرے کب سے
عید آئی تو تہوار منانے نکل آئے

حیرت سے سنا کرتے تھے غیروں کے سمجھ کر
خود اپنے ہی لوگوں کے فسانے نکل آئے

پتھریلی زمینیں تھیں ، مگر حوصلہ سچا
ہم تیشہ لئے پیاس بجھانے نکل آئے

اک ناوکِ بے نام تھا ہر روز عقب سے
ہم باندھ کے سینوں پہ نشانے نکل آئے

گھر سے نہ نکلنا بھی روایت تھی ہماری
بس اپنی روایات بچانے نکل آئے

ظہیر احمد ظہیر ۔۔۔۔۔۔۔ ۲۰۱۳​
 
ظہیر بھائی شکریہ اس سوغات کا.
کیا ہی عمدہ غزل کہی ہے.

البم سے کئی عکس پرانے نکل آئے
لمحات کے پیکر میں زمانے نکل آئے

بھولے ہوئے کچھ نامے ، بھلائے ہوئے کچھ نام
کاغذ کے پلندوں سے خزانے نکل آئے

تھے گوشہ نشیں آنکھ میں آنسو مرے کب سے
عید آئی تو تہوار منانے نکل آئے

حیرت سے سنا کرتے تھے غیروں کے سمجھ کر
خود اپنے ہی لوگوں کے فسانے نکل آئے

پتھریلی زمینیں تھیں ، مگر حوصلہ سچا
ہم تیشہ لئے پیاس بجھانے نکل آئے

اک ناوکِ بے نام تھا ہر روز عقب سے
ہم باندھ کے سینوں پہ نشانے نکل آئے

گھر سے نہ نکلنا بھی روایت تھی ہماری
بس اپنی روایات بچانے نکل آئے

ظہیر احمد ظہیر ۔۔۔۔۔۔۔ ۲۰۱۳​
آپ کے کاغذ کے پلندوں سے کچھ خزانے ہمارے لیے بھی نکل آئے ہیں، جس کے لیے ہم ممنون ہیں. :)
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
سلامت رہیے ظہیر بھائی۔ اتنی خوبصورت غزلیں لکھنے پر مبارک باد

فاتح بھائی شکریہ تو آپ دوستوں کا واجب ہے جو کمالِ مہربانی سے اتنی ساری غزلیں ایک ساتھ پڑھ لیتے ہیں ۔ میں نے تو تھوڑا تھوڑا کر کے کئی سالوں میں لکھا لیکن آپ کی محبت ہے جو اس چوں چوں کے مربے کو برداشت کرلیتے ہیں ۔ یہ قرض ہمیشہ مجھ پر رہے گا آپ دوستوں کا ۔ اللہ تعالیٰ آپ کو سلامت رکھے۔ شاد آباد رکھے۔ اپنی نعمتیں بے زوال رکھے۔
 
بھولے ہوئے کچھ نامے ، بھلائے ہوئے کچھ نام
کاغذ کے پلندوں سے خزانے نکل آئے
آج میں اپنے چاچو ( فیصل غزنوی کے کچھ خطوط دیکھ رہا تھا ) آپ کی غزل عین عکاس ہے میری آج کی کیفیت کی خاص کر یہ شعر تو کمال ہے ( فیصل غزنوی عید کے دن صبح 9:45 پر میری باہوں میں اللہ کو پیارے ہو گے تھے آج میں انہیں ہی یاد کر رہا تھا سب احباب سے دعا کی درخواست ہے۔)
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
البم سے کئی عکس پرانے نکل آئے
لمحات کے پیکر میں زمانے نکل آئے
واہ۔۔۔۔ کیا کہنے۔۔۔

بھولے ہوئے کچھ نامے ، بھلائے ہوئے کچھ نام
کاغذ کے پلندوں سے خزانے نکل آئے
بہت خوب۔۔۔۔ عمدہ۔۔۔

تھے گوشہ نشیں آنکھ میں آنسو مرے کب سے
عید آئی تو تہوار منانے نکل آئے
بے شک۔۔۔ یاد ایسی ہی چیز ہے۔۔۔ اعلیٰ۔۔۔۔

حیرت سے سنا کرتے تھے غیروں کے سمجھ کر
خود اپنے ہی لوگوں کے فسانے نکل آئے
کیا کہنے۔۔۔

پتھریلی زمینیں تھیں ، مگر حوصلہ سچا
ہم تیشہ لئے پیاس بجھانے نکل آئے
بہت عمدہ۔۔۔

اک ناوکِ بے نام تھا ہر روز عقب سے
ہم باندھ کے سینوں پہ نشانے نکل آئے
لاجواب۔۔۔

گھر سے نہ نکلنا بھی روایت تھی ہماری
بس اپنی روایات بچانے نکل آئے
واہ واہ۔۔۔ کیا کہنے۔۔۔

سر بہت سی داد قبول فرمائیں۔۔۔ اعلیٰ
 

سید عاطف علی

لائبریرین
واہ کیا رچی بسی روایتوں کا امین لہجہ ہے ۔بہت خوب ظہیر بھائی ۔
پلندے کا لفظ اس ماحول میں عجیب لگا ۔
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
آج میں اپنے چاچو ( فیصل غزنوی کے کچھ خطوط دیکھ رہا تھا ) آپ کی غزل عین عکاس ہے میری آج کی کیفیت کی خاص کر یہ شعر تو کمال ہے ( فیصل غزنوی عید کے دن صبح 9:45 پر میری باہوں میں اللہ کو پیارے ہو گے تھے آج میں انہیں ہی یاد کر رہا تھا سب احباب سے دعا کی درخواست ہے۔)
اللہ رحیم آپ کے چچا کے ساتھ رحم و کرم کا معاملہ فرمائے اور آپ کو صبر و ہمت عطا فرمائے ۔ آپکی توجہ کے لئے ممنون ہوں۔
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
واہ۔۔۔۔ کیا کہنے۔۔۔


بہت خوب۔۔۔۔ عمدہ۔۔۔


بے شک۔۔۔ یاد ایسی ہی چیز ہے۔۔۔ اعلیٰ۔۔۔۔


کیا کہنے۔۔۔


بہت عمدہ۔۔۔


لاجواب۔۔۔


واہ واہ۔۔۔ کیا کہنے۔۔۔

سر بہت سی داد قبول فرمائیں۔۔۔ اعلیٰ

بھائی آپکی توجہ اور پذیرائی کے لئے بہت ممنون ہوں ۔ بس آپ کی محبتیں چاہئیں !! اللہ تعالیٰ آپ کو شادآباد رکھے ۔
حضور کسی لڑی میں ابھی تک آپ کااسمِ گرامی نظر سے نہیں گزرا ۔ اگر آپ مناسب سمجھیں تو چپکے سے مجھے بتادیں ۔ دوستوں کے نام تو جاننا ہی چاہئیں نا!:)
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
واہ کیا رچی بسی روایتوں کا امین لہجہ ہے ۔بہت خوب ظہیر بھائی ۔
پلندے کا لفظ اس ماحول میں عجیب لگا ۔

عاطف بھائی ، سراسر آپ کی محبت ہے !!آپ کی طرف سے ستائش میرے لئے باعثِ اعزاز ہے !! اللہ آپ کو سلامت رکھے ۔ بہت شکریہ!!
بخدا اگر آپ اسے کچھ اور نہ سمجھیں تو عرض کروں کہ مجھے خود ’’پلندوں‘‘ کا صوتی تاثر اس شعر میں بہت کھٹکتا رہا ہے ۔ کئی دفعہ بدلنے کی کوشش بھی کی لیکن کوئی ایسا متبادل نہیں ملا جو منظر کشی کا حق بھی ادا کرسکے اور گراں بھی نہ ہو ۔ لیکن ناکامی رہی ۔ بوسیدہ کتابوں سے خزانے نکل آئے وغیرہ کہنے سے محاکات کا حق ادا نہیں ہوتا ۔ کاغذ کے ذخیروں سے ۔۔۔کاغذ کے دفاتر سے ۔۔۔۔۔ الخ وغیرہ بالکل ہی غیرمناسب ہیں ۔ ’’انباروں سے کاغذ کے خزانے نکل آئے‘‘ میں عجیب تعقید پیدا ہورہی ہے ۔ چنانچہ شعر توڑ کر نئے سرے سے کہنے کے علاوہ اور کوئی چارہ نہیں ہے ۔ شعری خیال چونکہ مناسب ہے اس لئےاس شعر کو غزل سے حذف کرنا بھی مشکل لگا۔ چنانچہ اسے یونہی چھوڑدیا ۔ اب یہ عیب تو اس میں ہے لیکن کیا کیا جائے۔ اگر کوئی تجویز ذہن میں آئے تو براہِ کرم شریک کیجیے گا ۔ اسقدر توجہ اور محبت کے لئے بہت ممنون ہوں ادا سائیں ! :)
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
بھائی آپکی توجہ اور پذیرائی کے لئے بہت ممنون ہوں ۔ بس آپ کی محبتیں چاہئیں !! اللہ تعالیٰ آپ کو شادآباد رکھے ۔
حضور کسی لڑی میں ابھی تک آپ کااسمِ گرامی نظر سے نہیں گزرا ۔ اگر آپ مناسب سمجھیں تو چپکے سے مجھے بتادیں ۔ دوستوں کے نام تو جاننا ہی چاہئیں نا!:)
اللہ آپ کو سلامت رکھے سر۔۔۔۔ :)

ذوالقرنین ۔ ضرور سر۔۔۔ :)
 
Top