اشرف علی بستوی
محفلین
دوستو یہاں 4دسمبر کو دہلی میں اسمبلی انتخابات ہو رہے ہیں،دہلی کی عوام کو اپنی پسند کا وزیر اعلیٰ منتخب کرنے کا موقع ایک بار پھر ہاتھ آیا ہے ہمارے اسمبلی حلقے اوکھلا کا جامعہ نگر علاقہ جو کہ ملک بھر میں اس لیے معروف ہے کہ یہاں تعلیم یافتہ مسلمانوں کی غالب اکثریت آباد ہے ۔ کا ایک جا ئزہ میرے ایک سینئر جرنلسٹ دوست برادر یاور رحمٰن نے اپنی اس فکر انگیزتحریر میں پیش کیا ہے ۔ ملاحظہ ہو
۔۔کالم نگار
تحریر:- یا ور رحمن
میں اک ووٹرہوں اور بڑی الجھنو ں میں ہوں ۔میرا ووٹ ایک ہے اور اس کے طلبگار انیک ہیں یعنی ایک انار سو بیمار ۔ لیکن میرا ووٹ کوئی ہندوستان تو نہیں کہ تھوڑاتھوڑاسب میں تقسیم کردوں ۔لیکن مجبوری یہ ہے کہ مجھے ووٹ دینا ہی پڑے گاکیونکہ اس عظیم جمہوری ہندوستان کو” آرایسستان“ بنانے سے بچانے کے لئے یہی اک راستہ بچا ہے ۔ کیوں کہ یہ ووٹ نہ ہوتا تو ہمارے ملک کے سیاسی و سماجی جانچ مرکز (Political social diagnostic centre) میں ’ڈاکٹر ‘راجندر سچر کے ذریعہ ہماری بیماریوں کی جانچ تک نہیں ہو پاتی ۔ اب ہم غریبانِ وطن کا علاج ہو نہ ہو یہ بھرم تو ختم ہو ہی گیاکہ ہم بڑے صحتمند ہیں ۔
جب سے ہماری ’میڈیکل رپورٹ‘ آئی ہے لگتا ہے جیسے ہم من حیث القوم وینٹی لیٹر پر زندگی گزار رہے ہیں۔ بس ایک یہی ووٹ بچا ہے جس کے دم سے ابھی سانس باقی ہے ۔ یہی ایک ہتھیار بچا ہے جس کی مددسے ہم قصائیو ں کے چھروں کی سمت پھیر کر کسی طرح اپنی شہ رگ بچالیتے ہیں، اسی ووٹ کے زور پر ہم بڑے بڑے شہ زوروں کو اُن کی حیثیت بتادینے میں کامیاب ہو جاتے ہیں ۔ اور پھر یہ کہ ان ہی ووٹوں کی بدولت ملت مسلمان کے اکثر’ ہمدردوں‘ کی دکان چل رہی ہے اور ہمارے گھر میں فاقے ہی فاقے سہی ان کے مکانوں میں خیر و برکت ضرور ہے ۔
مجھے اس بات کا بھی احساس ہے کہ یار لوگ مجھ سے پو چھے بغیر میرے ووٹ کی بولی لگاتے رہتے ہیں حالانکہ میں اپنے ووٹ کو لیکر بہت ہی سنجیدہ ہو ں ۔ آپ ہی بتائیے نا بھلا میں اپنی کار اوروہ کار جس میں میں خودبیٹھا ہوں کسی ایسے شخص کو ڈرائیونگ کے لیئے کیسے دے سکتا ہوں جو سائیکل بھی ٹھیک سے نہیں چلا پاتا ہو ؟ اور اس شخص کو اپنے بچوں کا معلم کیسے بنا سکتا ہوں جس کے پاس جہالت عظمیٰ کی ڈگری کے علاوہ اور کچھ نہیں ؟ اور اس شخص کو اپنے مال و اسباب کا محافظ کیسے سمجھ لوں جو یہ جانتا ہی نہ ہو کہ ایمانداری کس چڑیا کا نام ہے؟ اور اس شخص سے علاج زخم کی کیا امید رکھوں جو بے رحم اور لالچی قصاب کی طرح میری آنتوں کا بھی سودا کرلے؟ تو پھر بھلا میں اپنا ووٹ اس شخص کو کیسے دے سکتا ہوں جو میرے ہی ووٹ سے قانون ساز اسمبلیوں میں جائے اور میرے ہی خلاف قوانین وضع کرے، میرے ہی دشمنوں سے ہاتھ ملائے اور میرے ہی قاتلوں سے رسمِ وفا نبھائے، مجھے ہی مجرم ٹھہرائے اور مجھے ہی دہشت گردی کا الزام دیکر گولی مار دے؟؟؟
بڑی عملی دشواری ہے۔ اس پر طُرح یہ کہ میں جس حلقہ انتخاب کا باشندہ ہوں وہ علاقہ اوکھلا ملک کے بیس کروڑ مسلمانوں کے لئے ایک مرکز ملّت کی حیثیت رکھتا ہے۔ اور مشرق، مغرب، شمال اور جنوب چہار جانب کے مسلمانوں کی اس پر بڑی نظر رہتی ہے۔ گوکہ بہت بدنام ہے مگر مجھے بیحد عزیزہے۔ بھلے دلّی کے قلب میں واقع نہ ہو مگر ہم مسلمانوں کے عین قلب میں بستا ہے۔ بہتر تعلیمی کیرئر کی ابتدا ہو یا معاشی سفر کا آغاز، بیرون ملک سفر درکار ہو یا تسلّی بخش علاج کی ضرورت، ہمارے تمام ترراستے اوکھلا جامعہ نگر کی اسی گنجان آبادی میں آکر ختم ہوتے ہیں۔ اسی لئے جسم سعودی عرب میںہو چاہے امریکہ میں، اور لندن میں ہویا پھر مرّیخ پر، دل و نظر تو بس اسی علاقے پر ٹکے رہتے ہیں۔ سماعتیں یہاں کی خبروں پر جمی رہتی ہیں۔ ہم میں سے اکثر کے لئے تو اس علاقے نے دیس پر دیس کی تفریق ہی مٹادی ہے۔ موسمِ بہار آتا ہے تو فصلوں کی سرسراہٹ یہاں سُنائی دیتی ہے اور کھیت کی مٹی کا سوندھاپن گاوں میں رہکر دلی میں جھانک لیتا ہے، دستک گاوں کی ڈیوڑھی پر ہوتی ہے اور آواز یہاں فلیٹ کے اندر آتی ہے یعنی
یہ رمزِ محبت بھی کیا رمز محبت ہے
دل ان کا وہاں دھڑکا، آواز یہاں آئی
الغرض قصّہ مختصر! اب جو موسم انتخاب آیا ہے تو پھر وہی الجھنیں ساتھ لایا ہے کہ آخرووٹ کس کو دوں؟ ایک سے ایک امیدوارہیں۔ کوئی براہِ راست ثناسا ہے تو کوئی کسی ثناسا کا ثناسا ہے۔ کوئی لجاحت سے ووٹ مانگتا تو کوئی حق جتا کے مانگتا ہے جیسے کہ تعلق داری ٹیکس مانگ رہا ہو۔ کوئی کہتا ہے اپنا ووٹ میرے ہاتھ میں دیدو میں حضرت سلیمانؑ کے جن وزیر ’آصف‘ کی طرح پلک جھپکتے ہی ترقی کے تختِ طاوس پر تمہیں بٹھادوںگا۔ کوئی تیر نشانے پر لئے کھڑا ہے کہ مجھے فتح دلانے میں ہی ’دانش‘ مندی ہے۔ کوئی جھاڑو لئے پکار رہا ہے کہ گندگی صاف کرنے میں میرے ساتھ جُٹ جاو میرا فیض بھی عام ہوگا اور ’عرفان‘ بھی عام ہوگا۔ کوئی کہتا ہے اپنی ’امانت‘ میرے بنگلے میں ڈال دو، میں ہی اس کی حفاظت کر سکتا ہوں۔ کوئی سائیکل پر بٹھانے کو تلا ہے اور کہتا ہے کہ میں تمہارا ’امیر ‘ ہوں سیاسی امارت مجھے سونپ دو۔ کوئی آنکھیں دکھا رہا ہے کہ میری جیت میں ہی تمہاری خوش و’ خرّم‘ زندگی کا راز ہے۔ غرض ایک ہی مطالبہ کی اس گنجلک آواز میں میرا دل، میرا ضمیر، میری عقل اور میری سماعت سب بیکدم کنفیوژ ہوجاتے ہیں۔ خدا کا شکر ہے کہ میں منافق نہیں ہوں کہ ہر ایک سے وعدہ ووٹ کرتا رہوں اور سب کو فریب دیتا رہوں۔ پھر فریبیوں کو فریب دینا بھی تو اچھا نہیں لگتا ۔نہ جانے کتنے آئے اور میرے ووٹ سے جیت کر اپنی بگڑی بنا گئے جبکہ میرے علاقے کے مسائل جیسے کے تیسے ہیں بلکہ اور بھی بدترہو گئے ہیں۔ دل ان کا وہاں دھڑکا، آواز یہاں آئی
دارالحکومت میں ہیں مگر پینے کے لئے آج تک وہ پانی بھی میسّر نہیں جو اس شہر کے دیگر عام شہریوں کو ملتا ہے۔ مرجائیں تو دفن کے لئے دو گز زمین بھی اس ’کوئے شیلا‘ میں بڑی مشکل سے ملتی ہے۔ گندگی کے ڈھیر پر ذلّت کی چادر اوڑھے جی رہے ہیں۔ ہمارے نصیب میں ایک کوڑا گھر تک نہیں۔ بلکہ تمام شہر کا کوڑا یہاں جلا کر ہمیں سلو پوائزن دی جارہی ہے۔
کہنے کو اچھی خاصی کالونیاں ہیں، ذاکر نگر، بٹلہ ہاوس، غفار منزل، نور نگر، حاجی کالونی، اوکھلاوہار، ابوالفضل انکلیو او شاہین باغ۔ یہ تمام کالونیاں تعلیم یافتہ اور امن پسند و ذمہ دار شہریوں سے بھری ہیں مگر آج تک انہیں پرمانینٹ اتھرائزیشن نہیں ملا شاید اس لئے کہ اس ’ٹاپو‘ کے مقدر سے بنیادی سہولتوں کا حق سدا کے لئے چھین لیا گیا ہے۔ شاہین باغ اور ابوالفضل انکلیو کے باشندوں کے سر پر ہائی ٹرانسمیشن لائن تو بس اک قہر بن کر مسلط ہے۔ رات بھر اس ٹرانسمیشن لائن کی خوفناک غرّاہٹ اور آئے دن کا حادثہ یہاں کے باشندوں کے لئے اک مسلسل عذاب ہے۔ غرض انکروچمینٹ اس پورے علاقے کے ماتھے کا ٹیکہ ہے اور دہشت گردی کے نت نئے الزامات اسکے گلے کا ہار۔
یہ وہ مسائل ہیں جن کا حل ووٹ کے ان بے خانماں طلبگاروں کے پاس ہے ہی نہیں۔ اور وہ اہل سیاست کہ جنہوں نے ان امیدواروں کے ہاتھوں میں اپنا اپنا کاسہء ووٹ تھما دیا ہے وہ توعام حالات میں یہاں جھانکتے تک نہیں بلکہ اس کا ذکر سن لیں تو چہرے کا زاویہ ایسا بگڑتا ہے کہ دیکھنے کی طبیعت نہیں کرتی۔
اب آپ ہی بتائیے، میں کس کو ووٹ دوں؟ اس امیدوار کو کہ جس نے میرا جذباتی استحصال کیا، مرے سامنے میرے قاتلوں کو گالیاں دیں اور پھر جیت کر اسی ٹولی سے جاملا؟ یا اس کو دوں جو سیاست کو محض سامانِ شوق سمجھتا ہے؟ یا اسے جو کسی آقا کے پاس میرا سیاسی مقدر پہلے ہی گِروی رکھ آیا ہے؟ یا اسے جو بنا ڈور کہ سیاسی پتنگ اڑانے کی حماقت کر رہا ہے؟ یا پھر اسے کہ جسے میں نے ابھی سیاست کی بساط پر پرکھا ہی نہیں ہے؟؟؟
کبھی کبھی سوچتا ہوں کہ میرے ایک ووٹ سے کیا ہوگا۔ عقل کہتی ہے جمہوریت میں ایک ایک ووٹ سو سو ٹن وزنی ہوتا ہے۔ تبھی تو ایک ہی الیکشن میں ایسے ویسے کیسے کیسے ہوجاتے ہیں اور کیسے کیسے ایسے ویسے ہوجاتے ہیں۔ اسی لئے تو یہ سیاست داں میرے ووٹ کے پیچھے پڑے ہیں۔بظاہر ہاتھ پھیلا ہوا ہے ووٹ کے لئے مگر دماغ میں یہ زعم ہے کہ میری زندگی کی گاڑی اس کے بغیر چلے گی ہی نہیں۔ کسی کو یہ غرور کہ میں اس کے بغیر بالکل ہی غیر محفوظ ہوں۔ کوئی مجھے کسی سے ڈراتا ہے تو کوئی مجھے سرِبازار بیچ جاتا ہے۔ اپنا ہو یا پرایا، ہر الیکشن میں میں بقرعید کے بکرے کی طرح سر جھکائے کھڑا رہتا ہوں اور گراہک میرا سودا کرکے گذر جاتا ہے۔ المیہ یہ ہے کہ میں جان بھی نہیں پاتا کہ مجھے فروخت کس نے کیا اور مجھے خریدا کس نے ہے؟ اور پھر جب الیکشن ختم ہوجاتا ہے، حکومت بن جاتی ہے تو میں اس مذبوح بکرے کی طرح ہوجاتا ہوں جو نہ جانے کتنے معدوں کی غذا بن کر اک قصّہ پارینہ بن جاتا ہے۔ ہاں مگر ایک بات ہے کہ اب ان قصائیوں کو یہ ڈر ستانے لگا ہے کہ اگر بکرے اور بکریوں کے یہ منتشر ریوڑ متحد اور متفق ہوگئے تو ان کے گوشت کی خون آلود دکانیں یکبارگی بند ہوجائیں گی۔ کاش.... اے کاش ایسا ہوتا!!! تو مجھے ہر بار کی اس تنہا الجھن سے نجات مل جاتی کہ آخر میں اپنا ووٹ کسے دوں تاکہ یہ ضائع نہ ہو بلکہ قوم اور ملک و ملت کے کام آئے!!!
آخری تدوین: