سید شہزاد ناصر
محفلین
”شہر زندہ دلاں“ لاہور سے ایک نیا روزنامہ”جہانِ پاکستان“ کے نام سے ایک انتہائی سینئر صحافی ،ادیب،شاعر ،دانشور جناب محمود شام کی سرکردگی میں شائع ہونا شروع ہوا ہے،اِس کی اشاعت جمعہ14دسمبر2012ءمیں جناب محمد نواز میرانی نے اپنے کالم”کلمہ حق“ میں علامہ اقبال ؒ کا ایک مشہور زمانہ شعر اِس طرح تحریر کیا ہے:
وہی جہاں ہے تیرا جس کو تُو پیدا کرے
یہ سنگ وخشت جو تیری نگاہ میں ہے
کالم کے ذیلی عنوان کے تحت بھی مصرع اولیٰ کو اِسی طرح نثر میں لکھا گیا ہے:” وہی جہاں ہے تیرا جس کو تُو پیدا کرے“!
جبکہ مفکرِ پاکستان حضرت علامہ اقبال ؒ نے ہرگز شعر کے دونوں مصرعے متذکرہ بالا شکل میں نہیں کہے۔ بالکل صحیح شعر اِس طرح ہے:
وہی جہاں ہے تِرا جس کو تُو کرے پیدا،
یہ سنگ وخشت نہیں جو تر ی نگاہ میں ہے
اِس شعر والی مکمل غزل کو بالِ جبریل میں دیکھا جاسکتا ہے۔غزل کا مطلع بھی بہت مشہور ہے۔
نہ تخت وتاج میں نَے لشکر وسپاہ میں ہے
جو بات مَردِ قلندر کی بارگاہ میں ہے
معاصرِ عزیز روزنامہ”جرات“ لاہور کی اشاعت جمعہ16نومبر2012ءکے اداریے بعنوان”خدا نے آج تک اُس قوم کی حالت نہیں بدلی“میں اِس مصرعے والے مشہور زمانہ شعر کو یوں تمہید کے ساتھ علامہ اقبالؒ کو بخش دیا گیا ہے کہ ”شاعرِ مشرق علامہ محمد اقبال نے فرمایا تھا کہ:
خدا نے آج تک اُس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا
جبکہ اِسی کالم میں متعدد بار تصحیح کی جاچکی ہے کہ حضرت علامہ اقبالؒ یا مولانا محمد علی جوہر یا مولانا الطاف حسین حالی سے منسوب کیا جانے والا یہ شعر ہرگز ہرگز اور کسی کا نہیں بلکہ مولاناظفر علی خان کا ہے۔
بعض اوقات جب کوئی کند ذہن طالب علم صحیح سبق یاد نہیں کرپاتا تو ٹیچر سبق کا اعادہ کراتا رہتا ہے۔اِس شعر کے سلسلے میں معاملہ یہ ہے کہ ہر بار کوئی نیا طالب علم یہ غلطی کرتا ہے ،اِس لئے مجبوراً مجھ جیسے ایک دوسرے طالب علم کو توجہ دلانی پڑتی ہے کہ بھئی یوں نہیں،یوں ہے.... بار بار اعادہ وتکرار کے لئے پرانے قارئین سے معذرت!!
ہمارے ایک پرانے کرما فرما پروفیسر سید اسرار بخاری اِن دنوں ”سرِ رہگزر“کے عنوان سے اپنا کالم”جنگ“ میں لکھ رہے ہیں۔ اپنے ایک کالم مطبوعہ”جنگ“ اتوار2دسمبر2012ءمیں اُنہوں نے ایک بہت ہی مشہور بلکہ ضرب المثل شعر اِس طرح تحریر فرمایا ہے:
بہت شور سنتے تھے پہلو میں دل کا
جو چیرا تو اِک قطرہ خون نکلا
جبکہ خواجہ آتش لکھنوی کا یہ مشہور شعر”نہ نکلا“ ردیف کے ساتھ درست شکل میں یوں ہے:
بڑا شور سنتے تھے پہلو میں دل کا
جو چیرا تو اِک قطرہءخُوں نہ نکلا
دراصل آتش کے اِس شعر والی غزل کی ردیف نہ نکلا اور قوافی مجنوں، محزوں،خُوں وغیرہ ہیں۔
پروفیسر ڈاکٹر احسن اختر ناز کبھی کبھار ”احساس“ کے عنوان سے روزنامہ”پاکستان“میں لکھتے ہیں۔جمعرات 6دسمبر2012ءکی اشاعت میں اُنہوں نے”شفقت تنویر مرز ا کی یاد میں“کے عنوان سے جو مضمونچہ لکھا اُس کے مندرجات پر تحفظات سے قطعِ نظر ایک دعویٰ اِس وقت محل نظر ہے....مضمونچے کے آخر میں ناز صاحب نے لکھا کہ:
”اُنہوں نے مجھے ظفر اقبال کا یہ شعر سنایا تھا:
کاغذ کے پھول سر پر لے کے چلی حیات
نکلی بیرونِ شہر تو بارش نے آلیا
جبکہ شفقت تنویر مرزا نے اوّل تو اُردو کا شعر ہرگز سنایا نہیں ہوگا اور اگر سنایا ہوگا تو پہلے مصرعے کی بگڑی ہوئی صورت میں اور دوسرے مصرعے میں”بیرون“ کو”برون“کئے بغیر نہیں سنایا ہوگا کہ وہ خود بھی شاعر تھے۔اگرچہ احسن اختر ناز صاحب بھی تخلص”ناز“ کے حوالے سے شاعر ہی لگتے ہیں۔واﷲ علم!اُن کے والدِ گرامی مجذوب چشتی مرحوم البتہ شگفتہ نگار شاعر تھے....آمدم برسرِ مطلب....ظفر اقبال کا صحیح شعر یوں ہے:
کاغذ کے پھول سر پہ سجا کر چلی حیات
نکلی برونِ شہر تو بارش نے آلیا
شعراءکو یہ استثنیٰ بلا مانگے حاصل ہے کہ وہ کسی لفظ میں کمی بیشی ضرورتِ شعری کے تحت کرسکتے ہیں جیسے ابراہیم سے”براہیم“....ابو بکر سے”بُوبکر“ بیرون سے”برون“ وغیرہ وغیرہ....!
روزنامہ ”جرات“لاہور کی اشاعت جمعہ 7دسمبر2012ءمیں ایس انعام الٰہی جمیل نے اپنے کالم” کھری باتیں“ کے ذیلی عنوان”راجا جی کی پھلجڑیاں“ کے تحت ایک بہت مشہور شعر،بغیر شاعر کے نام کے اِس طرح استعمال کیا ہے:
خنجر پہ کوئی چھینٹ نہ دامن پہ کوئی داغ
تم قتل کرو کہ کرامات کرو ہو
جبکہ ڈاکٹر کلیم احمد عاجز(مرحوم) کا یہ بہت ہی مشہور شعر ، پہلے مصرعے میں گڑبڑ کئے جانے کے سبب کلی طور پر درست نہیں، بالکل صحیح یوں ہے:
دامن پہ کوئی چھینٹ نہ خنجرپہ کوئی داغ
تم قتل کرو ہو کہ کرامات کرو ہو
ہمارے ایک دوست ہیں ریحان اظہر ،شاعر،ادیب،براڈ کاسٹر ۔آج کل”دن“میں کالم بھی لکھتے ہیں اور اینکر پرسن بھی اِسی چینل میں ہیں۔اُنہوں نے روزنامہ ”دن “لاہور میں 27فروری2010ءکو اپنے مطبوعہ کالم”عکس برعکس“ میں ایک بہت ہی مشہور شعر بغیر شاعر کے نام کے اِس طرح تحریر کیا:
چار دن کی زندگی لائے تھے مانگ کر
دو آرزو میں کٹ گئے دو انتظا ر میں
پھر اِسی کالم کو ماہانہ جریدے ”ککے زئی“لاہور/کراچی کے شمارہ اکتوبر تا دسمبر 2010ءمیں قندِ مکرر کے طور پر اِس تمہید کے ساتھ چھاپا گیا کہ”ککے زئی قوم کے ممتاز اہل قلم،دانشور اور نامَور شاعر ریحان اظہر کا اظہار خیال“.... گویا ایک کالم میں ایک بار شائع شدہ غلط سلط شعر ہمارے محدود مطالعے کے مطابق دوبارتو ہزاروں قارئین کو گمراہ کرچکا ہے اور اِسی طرح چھپتا رہا اور فاضل کالم نویس کے کالموں کی کتاب میں بھی اِسی طرح شائع ہوا تو پھر:
قیاس کُن زگلستانِ من بہارِ مَرا
اِس خدشے کے پیش نظر اصلاحِ احوال کے لئے پھر لکھنا پڑتا ہے کہ شعر کے پہلے مصرعے میں رِدّوبدل کے ساتھ اصل مصرع ہی ”غتربود“ ہوگیا ہے۔یہ شعر بہادر شاہ ظفر کی غزل میں” الحاقی شعر“ کے طور پر اِس طرح راہ پاچکا ہے:
عمرِ درازِ مانگ کے لائے تھے چار دن
دو آرزو میں کٹ گئے دو انتظار میں
جبکہ دراصل یہ شعر حضرت سیماب اکبر آبادی کا ہے اور صحیح اِس طرح ہے:
عمرِ دراز مانگ کے لائی تھی،چاردن
دو آرزو میں کٹ گئے،دو انتظار میں
کئی بار لکھ چکا ہوں کہ یہ تحقیق شدہ امر ہے کہ متذکرہ شعر بہادر شاہ ظفر کے کلیات میں شامل نہیں تھا۔اِس الحاقی شعر کو1930ءکے بعد کسی نے شامل کردیا اور پھر چل سو چل۔دراصل اِسی زمین میں بہادر شاہ ظفر کی مشہور غزل موجود تھی جس کا مقطع ہے:
کتنا ہے بدنصیب ظفر ،دفن کے لئے
دو گز زمین بھی نہ ملی کوئے یار میں
کس نے اور کیسے سیماب اکبر آبادی کے شعر کو،جو اِسی زمین ہے،بہادر شاہ ظفر کی غزل میں ٹانک دیا؟معلوم نہیں ہوسکا....یہ ایسے ہی ہے جیسے احمد فراز کی مشہور زمانہ غزل ہے:
ربخش ہی سہی دل ہی دُکھانے کے لئے آ
آ پھر سے مجھے چھوڑ کے جانے کے لئے آ
اِس غزل میں مہدی حسن نے اپنی آواز کا جادو جگاتے ہوئے نجانے کس کا اور کہاں سے یہ شعر بھی احمد فراز کی غزل میں ٹھونس دیا کہ:
جیسے تجھے آتے ہیں نہ آنے کے بہانے
ایسے ہی کسی روز نہ جانے کے لئے آ
میں مہدی حسن اور احمد فراز کی زندگی میں بار بار توجہ دلاتا رہا،لکھ کر بھی اور زبانی کلامی بھی کہ یہ شعر احمد فراز کا نہیں ہے،اِسے نکال دیا جائے....مہدی حسن کا”عُذرِ لنگ“تھا کہ کیسٹوں اور سی ڈیز کی صورت میں لاکھوں کروڑوں کی تعداد میں پھیل جانے والی غزل میں سے اب یہ شعر کیسے نکالا جائے۔بہتر ہے چلنے ہی دو....احمد فراز صاحب کو بھی،محترمہ کشور ناہید کی موجودگی میں متوجہ کیا مگر وہ مہدی حسن کی گائیکی کے آگے بے بس نظر آئے۔سو یہ ”الحاقی شعر“ چل رہا ہے۔احمد فراز اور مہدی حسن اب اِس دُنیا میں نہیں رہے،آخری گواہی محترمہ کشور ناہید ہیں اور میں ہوں،کل کو ہم بھی نہ ہوئے تو کون یہ بتانے والا ہوگا کہ یہ شعر احمد فراز کا نہیں ،نجانے کس شاعر کا ہے جو مخمل میں ٹاٹ کے پیوند کی طرح احمد فراز کی غزل میں ساز وآواز کے ساتھ مہدی حسن نے جڑ دیا دراصل الحاقی اشعار کا پھیلاﺅ ایسا ہوتا ہے کہ بعد میں آنے والے محققوں کی تحقیق پر بھی کوئی کان نہیں دھرتا:
کچھ علاج اِس کا بھی اے چارہ گراں ہے کہ نہیں؟
تحریر: ناصر زیدی
بشکریہ روزنامہ پاکستان 23دسمبر 2012
وہی جہاں ہے تیرا جس کو تُو پیدا کرے
یہ سنگ وخشت جو تیری نگاہ میں ہے
کالم کے ذیلی عنوان کے تحت بھی مصرع اولیٰ کو اِسی طرح نثر میں لکھا گیا ہے:” وہی جہاں ہے تیرا جس کو تُو پیدا کرے“!
جبکہ مفکرِ پاکستان حضرت علامہ اقبال ؒ نے ہرگز شعر کے دونوں مصرعے متذکرہ بالا شکل میں نہیں کہے۔ بالکل صحیح شعر اِس طرح ہے:
وہی جہاں ہے تِرا جس کو تُو کرے پیدا،
یہ سنگ وخشت نہیں جو تر ی نگاہ میں ہے
اِس شعر والی مکمل غزل کو بالِ جبریل میں دیکھا جاسکتا ہے۔غزل کا مطلع بھی بہت مشہور ہے۔
نہ تخت وتاج میں نَے لشکر وسپاہ میں ہے
جو بات مَردِ قلندر کی بارگاہ میں ہے
معاصرِ عزیز روزنامہ”جرات“ لاہور کی اشاعت جمعہ16نومبر2012ءکے اداریے بعنوان”خدا نے آج تک اُس قوم کی حالت نہیں بدلی“میں اِس مصرعے والے مشہور زمانہ شعر کو یوں تمہید کے ساتھ علامہ اقبالؒ کو بخش دیا گیا ہے کہ ”شاعرِ مشرق علامہ محمد اقبال نے فرمایا تھا کہ:
خدا نے آج تک اُس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا
جبکہ اِسی کالم میں متعدد بار تصحیح کی جاچکی ہے کہ حضرت علامہ اقبالؒ یا مولانا محمد علی جوہر یا مولانا الطاف حسین حالی سے منسوب کیا جانے والا یہ شعر ہرگز ہرگز اور کسی کا نہیں بلکہ مولاناظفر علی خان کا ہے۔
بعض اوقات جب کوئی کند ذہن طالب علم صحیح سبق یاد نہیں کرپاتا تو ٹیچر سبق کا اعادہ کراتا رہتا ہے۔اِس شعر کے سلسلے میں معاملہ یہ ہے کہ ہر بار کوئی نیا طالب علم یہ غلطی کرتا ہے ،اِس لئے مجبوراً مجھ جیسے ایک دوسرے طالب علم کو توجہ دلانی پڑتی ہے کہ بھئی یوں نہیں،یوں ہے.... بار بار اعادہ وتکرار کے لئے پرانے قارئین سے معذرت!!
ہمارے ایک پرانے کرما فرما پروفیسر سید اسرار بخاری اِن دنوں ”سرِ رہگزر“کے عنوان سے اپنا کالم”جنگ“ میں لکھ رہے ہیں۔ اپنے ایک کالم مطبوعہ”جنگ“ اتوار2دسمبر2012ءمیں اُنہوں نے ایک بہت ہی مشہور بلکہ ضرب المثل شعر اِس طرح تحریر فرمایا ہے:
بہت شور سنتے تھے پہلو میں دل کا
جو چیرا تو اِک قطرہ خون نکلا
جبکہ خواجہ آتش لکھنوی کا یہ مشہور شعر”نہ نکلا“ ردیف کے ساتھ درست شکل میں یوں ہے:
بڑا شور سنتے تھے پہلو میں دل کا
جو چیرا تو اِک قطرہءخُوں نہ نکلا
دراصل آتش کے اِس شعر والی غزل کی ردیف نہ نکلا اور قوافی مجنوں، محزوں،خُوں وغیرہ ہیں۔
پروفیسر ڈاکٹر احسن اختر ناز کبھی کبھار ”احساس“ کے عنوان سے روزنامہ”پاکستان“میں لکھتے ہیں۔جمعرات 6دسمبر2012ءکی اشاعت میں اُنہوں نے”شفقت تنویر مرز ا کی یاد میں“کے عنوان سے جو مضمونچہ لکھا اُس کے مندرجات پر تحفظات سے قطعِ نظر ایک دعویٰ اِس وقت محل نظر ہے....مضمونچے کے آخر میں ناز صاحب نے لکھا کہ:
”اُنہوں نے مجھے ظفر اقبال کا یہ شعر سنایا تھا:
کاغذ کے پھول سر پر لے کے چلی حیات
نکلی بیرونِ شہر تو بارش نے آلیا
جبکہ شفقت تنویر مرزا نے اوّل تو اُردو کا شعر ہرگز سنایا نہیں ہوگا اور اگر سنایا ہوگا تو پہلے مصرعے کی بگڑی ہوئی صورت میں اور دوسرے مصرعے میں”بیرون“ کو”برون“کئے بغیر نہیں سنایا ہوگا کہ وہ خود بھی شاعر تھے۔اگرچہ احسن اختر ناز صاحب بھی تخلص”ناز“ کے حوالے سے شاعر ہی لگتے ہیں۔واﷲ علم!اُن کے والدِ گرامی مجذوب چشتی مرحوم البتہ شگفتہ نگار شاعر تھے....آمدم برسرِ مطلب....ظفر اقبال کا صحیح شعر یوں ہے:
کاغذ کے پھول سر پہ سجا کر چلی حیات
نکلی برونِ شہر تو بارش نے آلیا
شعراءکو یہ استثنیٰ بلا مانگے حاصل ہے کہ وہ کسی لفظ میں کمی بیشی ضرورتِ شعری کے تحت کرسکتے ہیں جیسے ابراہیم سے”براہیم“....ابو بکر سے”بُوبکر“ بیرون سے”برون“ وغیرہ وغیرہ....!
روزنامہ ”جرات“لاہور کی اشاعت جمعہ 7دسمبر2012ءمیں ایس انعام الٰہی جمیل نے اپنے کالم” کھری باتیں“ کے ذیلی عنوان”راجا جی کی پھلجڑیاں“ کے تحت ایک بہت مشہور شعر،بغیر شاعر کے نام کے اِس طرح استعمال کیا ہے:
خنجر پہ کوئی چھینٹ نہ دامن پہ کوئی داغ
تم قتل کرو کہ کرامات کرو ہو
جبکہ ڈاکٹر کلیم احمد عاجز(مرحوم) کا یہ بہت ہی مشہور شعر ، پہلے مصرعے میں گڑبڑ کئے جانے کے سبب کلی طور پر درست نہیں، بالکل صحیح یوں ہے:
دامن پہ کوئی چھینٹ نہ خنجرپہ کوئی داغ
تم قتل کرو ہو کہ کرامات کرو ہو
ہمارے ایک دوست ہیں ریحان اظہر ،شاعر،ادیب،براڈ کاسٹر ۔آج کل”دن“میں کالم بھی لکھتے ہیں اور اینکر پرسن بھی اِسی چینل میں ہیں۔اُنہوں نے روزنامہ ”دن “لاہور میں 27فروری2010ءکو اپنے مطبوعہ کالم”عکس برعکس“ میں ایک بہت ہی مشہور شعر بغیر شاعر کے نام کے اِس طرح تحریر کیا:
چار دن کی زندگی لائے تھے مانگ کر
دو آرزو میں کٹ گئے دو انتظا ر میں
پھر اِسی کالم کو ماہانہ جریدے ”ککے زئی“لاہور/کراچی کے شمارہ اکتوبر تا دسمبر 2010ءمیں قندِ مکرر کے طور پر اِس تمہید کے ساتھ چھاپا گیا کہ”ککے زئی قوم کے ممتاز اہل قلم،دانشور اور نامَور شاعر ریحان اظہر کا اظہار خیال“.... گویا ایک کالم میں ایک بار شائع شدہ غلط سلط شعر ہمارے محدود مطالعے کے مطابق دوبارتو ہزاروں قارئین کو گمراہ کرچکا ہے اور اِسی طرح چھپتا رہا اور فاضل کالم نویس کے کالموں کی کتاب میں بھی اِسی طرح شائع ہوا تو پھر:
قیاس کُن زگلستانِ من بہارِ مَرا
اِس خدشے کے پیش نظر اصلاحِ احوال کے لئے پھر لکھنا پڑتا ہے کہ شعر کے پہلے مصرعے میں رِدّوبدل کے ساتھ اصل مصرع ہی ”غتربود“ ہوگیا ہے۔یہ شعر بہادر شاہ ظفر کی غزل میں” الحاقی شعر“ کے طور پر اِس طرح راہ پاچکا ہے:
عمرِ درازِ مانگ کے لائے تھے چار دن
دو آرزو میں کٹ گئے دو انتظار میں
جبکہ دراصل یہ شعر حضرت سیماب اکبر آبادی کا ہے اور صحیح اِس طرح ہے:
عمرِ دراز مانگ کے لائی تھی،چاردن
دو آرزو میں کٹ گئے،دو انتظار میں
کئی بار لکھ چکا ہوں کہ یہ تحقیق شدہ امر ہے کہ متذکرہ شعر بہادر شاہ ظفر کے کلیات میں شامل نہیں تھا۔اِس الحاقی شعر کو1930ءکے بعد کسی نے شامل کردیا اور پھر چل سو چل۔دراصل اِسی زمین میں بہادر شاہ ظفر کی مشہور غزل موجود تھی جس کا مقطع ہے:
کتنا ہے بدنصیب ظفر ،دفن کے لئے
دو گز زمین بھی نہ ملی کوئے یار میں
کس نے اور کیسے سیماب اکبر آبادی کے شعر کو،جو اِسی زمین ہے،بہادر شاہ ظفر کی غزل میں ٹانک دیا؟معلوم نہیں ہوسکا....یہ ایسے ہی ہے جیسے احمد فراز کی مشہور زمانہ غزل ہے:
ربخش ہی سہی دل ہی دُکھانے کے لئے آ
آ پھر سے مجھے چھوڑ کے جانے کے لئے آ
اِس غزل میں مہدی حسن نے اپنی آواز کا جادو جگاتے ہوئے نجانے کس کا اور کہاں سے یہ شعر بھی احمد فراز کی غزل میں ٹھونس دیا کہ:
جیسے تجھے آتے ہیں نہ آنے کے بہانے
ایسے ہی کسی روز نہ جانے کے لئے آ
میں مہدی حسن اور احمد فراز کی زندگی میں بار بار توجہ دلاتا رہا،لکھ کر بھی اور زبانی کلامی بھی کہ یہ شعر احمد فراز کا نہیں ہے،اِسے نکال دیا جائے....مہدی حسن کا”عُذرِ لنگ“تھا کہ کیسٹوں اور سی ڈیز کی صورت میں لاکھوں کروڑوں کی تعداد میں پھیل جانے والی غزل میں سے اب یہ شعر کیسے نکالا جائے۔بہتر ہے چلنے ہی دو....احمد فراز صاحب کو بھی،محترمہ کشور ناہید کی موجودگی میں متوجہ کیا مگر وہ مہدی حسن کی گائیکی کے آگے بے بس نظر آئے۔سو یہ ”الحاقی شعر“ چل رہا ہے۔احمد فراز اور مہدی حسن اب اِس دُنیا میں نہیں رہے،آخری گواہی محترمہ کشور ناہید ہیں اور میں ہوں،کل کو ہم بھی نہ ہوئے تو کون یہ بتانے والا ہوگا کہ یہ شعر احمد فراز کا نہیں ،نجانے کس شاعر کا ہے جو مخمل میں ٹاٹ کے پیوند کی طرح احمد فراز کی غزل میں ساز وآواز کے ساتھ مہدی حسن نے جڑ دیا دراصل الحاقی اشعار کا پھیلاﺅ ایسا ہوتا ہے کہ بعد میں آنے والے محققوں کی تحقیق پر بھی کوئی کان نہیں دھرتا:
کچھ علاج اِس کا بھی اے چارہ گراں ہے کہ نہیں؟
تحریر: ناصر زیدی
بشکریہ روزنامہ پاکستان 23دسمبر 2012