بجا فرمایا، اور یقینا یہ فرق ملحوظ رکھنا ناگزیر بھی ہے ورنہ دونوں چیزیں ایک ہی نہ ہوجائیں، لیکن چونکہ آنجناب نے تبصرہ کی فرمائش کی تھی اس لئے بندہ نے دونوں خطوں کا بغور جائزہ لینے کے بعد ایک آزاد تبصرہ عرض کیا، جس میں مقصد مذکورہ خط کی تنقیص نہیں بلکہ وجوہ مماثلت میں جو کمی محسوس ہورہی تھی اس کا ایک رائے کے درجہ میں اظہار تھا۔
------------------------
قط کی کثافت سے میری مراد الفاظ کےصعود سے انحناء کی طرف اور انحناء سے نزول کی طرف قلم کی جو موٹائی ہوتی ہے (جوکہ ہر رسم الخط میں مختلف ہوسکتی ہے، کسی میں کم کسی میں زیادہ) اس کا نمایاں ہونا، احقر کے خیال میں خورشید صاحب قبلہ کے اس شہ پارہ میں وہ کثافت اس رسم الخط کے مزاج کے لحاظ سے بہت ہی مناسب (ذرا موٹی) ہے۔ اور تاج نستعلیق میں معمولی سی کم محسوس ہورہی ہے۔
اللہم الا ان یقال: خط کو فونٹ کا قالب مل جانے کے بعد اس میں جو پابندیاں آجاتی ہیں جن کا آپ نے فنی امور کے حوالے سے ذکر بھی فرمایا ہے، اگر ان سب کو ملحوظ رکھا جائے تو یقینا کہا جاسکتا ہے کہ القلم کے عزت مآب احباب کی یہ کوشش 100 فیصد کامیاب ہے۔ والسلام
مجھے آپ کا تبصرہ پسند آیا اور اس بات کی خوشی ہو رہی ہے کہ احباب نہ صرف اس کام کو نظر استحسان سے دیکھ رہے ہیں اور میری حوصلہ افزائی فرما رہے بلکہ وہ فونٹ سازی سے متعلق تیکنیکی امور کو مد نظر رکھتے ہوئے مجھے درپیش مسائل سے بھی آگاہ ہیں
ایک بات کی وضاحت کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ ہم نے اس فانٹ کی بنیاد استوار کرنے کے لیے خورشید عالم گوہر قلم کی خطاطیوں سے استفادہ نہیں کیا بلکہ ستاد تاج الدیں زریں رقم کے مرقع زریں سے استفادہ کیا ہے ۔ کو گہ خورشید عالم گوہر قلم صاحب استاد تاج الدیں زریں رقم کے تلامیذ میں سے ہیں تاہم میرے خیال میں وہ اپنے استاد محترم کی پیروی کرتے ہوئے بھی اپنے جداگانہ اسلوب نگارش سے پہچانے جاتے ہیں ۔۔۔۔۔ اس وجہ سے بھی گوہر قلم کی خطاطی اور تاج نستعلیق میں کم کم فرق ظاہر ہے
ایک اور بات یہ کہ:
ہمارے پاس تاج نستعلیق کی بنیاد استوار کرنے کے لیے استاد تاج الدین زریں رقم کی خاطر خواہ خطاطیاں موجود نہ تھیں ۔۔۔ مرقع زریں کی مدد سے ہم نے حروف کی ابتدائی اور آخری اشکال تو باآسانی وضع کر لی تھیں لیکن درمیانی اشکال نے معاملہ خاصا پیچیدہ کر دیا تھا ۔۔۔ کیونکہ مرقع زریں میں ایسی تختیاں موجود نہ تھیں جن سے تمام کی تمام درمیانی اشکال کو وضع کر لیا جاتا ۔۔ اس مسئلہ کو حل کرنے کے لیے ہم نے کچھ تو اپنے ذوق اور وجدان سے رہنمائی حاصل کی اور کہیں کہیں ہم نے خورشید عالم گوہر قلم کی بعض تختیوں سے بھی استفادہ کیا اس کے ساتھ ساتھ کچھ تیکنیکی مجبوریوں کی وجہ سے کہیں کہیں ہمیں اپنے اصل ہدف سے تھوڑا بہت آگے پیچے بھی کھسکنا پڑا۔
بہرحال ہم یہ دعوای تو نہیں کر سکتے کہ ہم نے استاد تاج الدین زریں رقم کے خط کو ہو بہو(صد فی صد) کمپیوٹر میں منتقل کر دیا ہے لیکن ہم یہ دعوای ضرور کر سکتے ہیں کہ تاج نستعلیق نامی یہ بچہ واضح طور پر اپنے باپ کے خدوخال کی شباہت لیے ہوئے ہے ۔
ہمارا ہدف یہ ہے کہ ابتدائی طور پر تمام ترسیمے مکمل ہو جائیں تو پھر ہم اگلے مرحلہ میں ان ترسیموں کی مزید بہتری پر کام کر یں گے
آپ سب سے دعاؤں کی درخواست ہے