حسان خان
لائبریرین
السلام اے ارضِ پاک اے مامنِ پاکانِ قوم
السلام اے مرکزِ ملت، وقارستانِ قوم
السلام اے مرجعِ امید، اے ارمانِ قوم
السلام اے آنِ قوم، اے جان و اے جانانِ قوم
تیرے صحراؤں کو، دریاؤں کو، نہروں کو سلام
تیرے کھیتوں اور باغوں اور شہروں کو سلام
آ گیا ہوں میں بھی ہجرت کر کے ہندوستان سے
تیرے زیرِ سایۂ دامن بڑے ارمان سے
لے کے دستورِ وفا، پیغامبر کی شان سے
ہو کے آسودہ دماغ، ایمان اور ایقان سے
دوش پر علم و ادب کا اک عَلَم لایا ہوں میں
ہاتھ میں جبریل کے پر کا قلم لایا ہوں میں
فخرِ میر و مصحفی ہوں میں، تجھے معلوم ہے
علم و فن کی زندگی ہوں میں، تجھے معلوم ہے
اک گدائے وارثی ہوں میں، تجھے معلوم ہے
اس لیے خوددار بھی ہوں میں، تجھے معلوم ہے
غم نہیں گر دولتِ دنیا سے مجھ کو عار ہے
میری جھولی میں جواہر خانۂ اسرار ہے
اپنے آبائی وطن کی عظمتوں کو چھوڑ کر
تاج اور قلعے کی سنگیں رفعتوں کو چھوڑ کر
اکبر اور شاہجہاں کی تربتوں کو چھوڑ کر
اپنے گھر کی روح پرور راحتوں کو چھوڑ کر
تیری خدمت کے ارادے سے چلا آیا ہوں میں
اتنی عجلت تھی کہ بر دوشِ ہوا آیا ہوں میں
تیری عظمت نے مجھے آواز دی ہے دور سے
جیسے موسیٰ کے لیے آئی تھی دعوت طور سے
ہو کے نور انداز تیرے خطۂ پُرنور سے
آفتابِ نو نکالوں گا شبِ دیجور سے
جب اذانِ صبح میں دوں گا سبق عرفان کا
ذرہ ذرہ منہ سے بول اٹھے گا پاکستان کا
اپنے افکارِ درخشاں سے ضیا دوں گا تجھے
از کراچی تا بہ ڈھاکہ جگمگادوں گا تجھے
رفعتِ تہذیب و رنگِ ارتقا دوں گا تجھے
مرکزِ انسانیت اک دن بنا دوں گا تجھے
پاک نغمے اس طرح چھیڑوں گا اپنے ساز پر
سطوتِ ماضی کھنچ آئے گی مری آواز پر
(سیماب اکبرآبادی)
اگست ۱۹۴۸ء
السلام اے مرکزِ ملت، وقارستانِ قوم
السلام اے مرجعِ امید، اے ارمانِ قوم
السلام اے آنِ قوم، اے جان و اے جانانِ قوم
تیرے صحراؤں کو، دریاؤں کو، نہروں کو سلام
تیرے کھیتوں اور باغوں اور شہروں کو سلام
آ گیا ہوں میں بھی ہجرت کر کے ہندوستان سے
تیرے زیرِ سایۂ دامن بڑے ارمان سے
لے کے دستورِ وفا، پیغامبر کی شان سے
ہو کے آسودہ دماغ، ایمان اور ایقان سے
دوش پر علم و ادب کا اک عَلَم لایا ہوں میں
ہاتھ میں جبریل کے پر کا قلم لایا ہوں میں
فخرِ میر و مصحفی ہوں میں، تجھے معلوم ہے
علم و فن کی زندگی ہوں میں، تجھے معلوم ہے
اک گدائے وارثی ہوں میں، تجھے معلوم ہے
اس لیے خوددار بھی ہوں میں، تجھے معلوم ہے
غم نہیں گر دولتِ دنیا سے مجھ کو عار ہے
میری جھولی میں جواہر خانۂ اسرار ہے
اپنے آبائی وطن کی عظمتوں کو چھوڑ کر
تاج اور قلعے کی سنگیں رفعتوں کو چھوڑ کر
اکبر اور شاہجہاں کی تربتوں کو چھوڑ کر
اپنے گھر کی روح پرور راحتوں کو چھوڑ کر
تیری خدمت کے ارادے سے چلا آیا ہوں میں
اتنی عجلت تھی کہ بر دوشِ ہوا آیا ہوں میں
تیری عظمت نے مجھے آواز دی ہے دور سے
جیسے موسیٰ کے لیے آئی تھی دعوت طور سے
ہو کے نور انداز تیرے خطۂ پُرنور سے
آفتابِ نو نکالوں گا شبِ دیجور سے
جب اذانِ صبح میں دوں گا سبق عرفان کا
ذرہ ذرہ منہ سے بول اٹھے گا پاکستان کا
اپنے افکارِ درخشاں سے ضیا دوں گا تجھے
از کراچی تا بہ ڈھاکہ جگمگادوں گا تجھے
رفعتِ تہذیب و رنگِ ارتقا دوں گا تجھے
مرکزِ انسانیت اک دن بنا دوں گا تجھے
پاک نغمے اس طرح چھیڑوں گا اپنے ساز پر
سطوتِ ماضی کھنچ آئے گی مری آواز پر
(سیماب اکبرآبادی)
اگست ۱۹۴۸ء
آخری تدوین: