تبصرہ کتب الطاف ؔسلطانپوری کی نعت گوئی اصلاحی اورپیغاماتی ہے(رود بخشش پر میرا تبصرہ)

الطاف ؔسلطانپوری کی نعت گوئی اصلاحی اورپیغاماتی ہے
٭ ڈاکٹر محمد حسین مُشاہدؔ رضوی
مری خاک کے بطن میں سو رہے ہیں
نامعلوم چرخ اور افلاک کتنے
کئی وارثانِ گلیمِ پیمبر
کلہ دار و آئین و فتراک کتنے
(بدرالقادری مصباحی)
سرزمینِ مالیگاوں گہوارۂ علم و ادب ہے۔یہاں علم و فن اور شعر و سخن کی بہت سی نابغۂ روزگار ہستیوں نے جنم لیا ہے اور بعض علاقۂ اودھ و روہیل کھنڈ وغیرہ سے ہجرت کرکے مالیگاوں آئے اور یہیں پر مستقل سکونت اختیار کرکے تاعمر علم و فن اور شعر و ادب کی خدمت کرتے رہے،اور اب اسی سرزمین پر آرام فرما رہے ہیں۔ان حضرات میں شاعرِ اسلام مداحِ رسول مرحوم الطافؔ انصاری سلطان پوری ثم مالیگانوی کا نام نمایاں حیثیت کا حامل ہے۔آپ کی ولادت ۱۹۲۸ء میں ہوئی،اصل نام عبدالرزاق ہے،مگر آپ کا تخلص’’الطاف‘‘ اس قدر مشہور ہوا کہ آپ کے اصل نام سے شاید و باید ہی کوئی واقف ہو۔تعلیم و تربیت کی تکمیل کے بعد فوج میں ملازمت اختیار کی۔ناسازگار حالات کے سبب وطنِ مالوف سے مالیگاوں تشریف لائے اور اب یہیں آپ کا مدفن ہے۔
الطافؔ انصاری سلطان پوری علم و فن اور شعر و ادب کی اک ایسی متحرک اور فعال شخصیت کانام ہے جس نے شاعری کی کئی اصناف؛ غزل، نظم، ہزل، مرثیہ، قصیدہ، رباعی، قطعہ، نعت، منقبت، سلام وغیرہ میں طبع آزمائی فرمائی۔لیکن ان میں نعت گوئی کا وصف سب سے ممتاز و نمایاں حیثیت رکھتا ہے۔آپ نے تادمِ زیست اپنے پیارے نبی رحمۃ للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم کی شانِ اقدس میں نعتیہ نغمات زیبِ قرطاس کیا،ذاتِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی زبان و قلم اور فکر و نظر کا محور و مرکز بناتے ہوئے اپنے جذباتِ عشق و محبت کا اظہار کرتے رہے۔آپ یقینا ایک خوش عقیدہ عاشقِ رسول(ﷺ) تھے۔سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کے عشق و محبت اور تعظیم و توقیر کے جذبات و احساسات میں آپ کی والہانہ وا رفتگی اور فدا کارانہ سرمستی کو دیکھتے ہوئے دنیاے اردو ادب نے آپ کو ’’شاعرِ اسلام‘‘ اور ’’مدّاحِ رسول‘‘ جیسے معتبر القاب و اعزاز سے سرفراز کیا۔آپ نے اپنے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کی مقدس شان میں جو نعتیہ نغمات پیش کیے ہیں اُن کی صحیح تعدادکا تعین ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے۔کیوں کہ آپ نے ایک جگہ بہ طورِ تحدیثِ نعمت یوں اظہارِخیال فرمایا ہے کہ ؎
میں بھر چکا ہوں اے الطافؔ نعتِ سرور سے
بہ فضلِ کبریا اب تک ہزارہا کاغذ
متذکرہ بالا شعر اس بات کی غمازی کررہا ہے کہ آپ نے ہزاروں کاغذ نعتِ پاک سے مزین و آراستہ کیا ہے ؛اب یہ الگ بات ہے کہ وہ تمام کے تمام شہ پارے محفوظ ہیں یانہیں؟
اس وقت میرے پیشِ نظر الطافؔ انصاری سلطان پوری کا اوّلین نعتیہ دیوان’’روٗدِ بخشش‘‘ ہے۔جو آپ کی سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وسلم سے والہانہ وارفتگی،پُرخلوص عقیدت و محبت اوربا ہوش ادب و احترام کے ساتھ ساتھ آپ کے شاعرانہ اوجِ کمال،فنی باریکیوں سے گہری واقفیت اور زبان و بیان پر عالمانہ و فاضلانہ دست رس پر دلالت کرتا ہے۔آپ کاکلام پڑھتے وقت ایک سچے مومن اور عاشقِ صادق کے دلی جذبات و محسوسات کا پاکیزہ عکسِ جمیل اُبھر کر قارئین کو شگفتگی اور شادابگی سے ہم کِنار کرتا ہے؛چند اشعارخاطر نشیٖن ہوں ؎
ہم تو ہیں گرویدۂ نورِ مجسّم آج بھی
تیرگی سے ہم کو نسبت ہے نہ ظلمت سے غرض
بعد از خدا ہیں لائقِ توصیف آپ ہی
مدحت سرا ہے آپ کا ، قرآں شہِ حجاز
ہم ایسے غلاموں کا ایماں ہے اس پر
کہ جنت سے افضل ہے کوئے محمّد
آپ کو بخشی خدا نے دو جہاں کی رہِ بری
آپ ایسے رہِ نُما ہیں تاج دارِ کائنات
اپنی ضَو سے مہ و خورشید کو شرمائے ہے
تپ کے سوزِ غمِ احمد میں نکھرنے والا
قبر کی تیرگی مٹائے گا
سرورِ دیں کی عاشقی کا چراغ
آپ کے روے حسیٖں کے سامنے
ہیچ ہے حق کی قسم حُسنِ گلاب
الطافؔ انصاری سلطان پوری کے نعتیہ دیوان’’روٗدِ بخشش‘‘ کے نام ہی سے یہ مترشح ہوتا ہے کہ آپ بھی اُسی نورانی وعرفانی اور ملکوتی صفات کے مظہر قافلۂ عشق و محبت کے شرکاے سفر میں شامل ہیں جس کی زمامِ قیادت حسان الہندامام احمد رضا محدثِ بریلوی نور اللہ مرقدہٗ(کہ جن کے مجموعۂ کلام کا نام ’’حدائقِ بخشش‘‘ ہے ،اور اسی مناسبت سے آپ کے متوسلین اپنے دواوین کے نام میں لفظ’بخشش‘کا استعمال کرتے ہیں) کے دستِ مبارک میں ہے۔اس پس منظر میں الطافؔصاحب کی نعتوںمیں جذباتِ عشقِ رسول(ﷺ)کی صداقت و سچائی،خیالات کی پاکیزگی،افکار کی بلندی،جذبے کا التہاب اور شعری و شرعی حُسن کا ایک لہریں لیتا دریا موج زن ہونا فطری امرہے،جس کا نظارا آپ کے کلام میں جابہ جا کیا جاسکتا ہے؛چند مثالیں خاطر نشیٖن ہوں ؎
لاریب! اب بھی آپ ہیں مختارِ کائنات
جنت بھی ملکیت ہے رسالت مآب کی
اے شہنشاہِ مدینہ آپ کی کیا بات ہے
زیٖنتِ محراب و منبر رحمتِ عالم ہیں آپ
مانگنے والو! مدینہ کبھی جاو تو سہی
سارے ارمان نکل جائیں گے ان شآء اللہ
مرے سرکار نے کتنوں کو عطا کی جنت
آپ کے نام سے منسوب ہے جنت دیکھو!
کِیا تھا حق نے جن کو خاص اپنے نور سے پیدا
انھیں کے نور سے معمور ہے ارضِ حرم اب تک
وہ پھیلائے کیوں ہاتھ غیروں کے در پر
ہو جس کا درِ مصطفی سے تعلق
قاسمِ نعمت بنایا ہے جسے اللہ نے
سب کی وابستہ ہے اس آقاے نعمت سے غرض
مجمع گناہ گاروں کا میدانِ حشر میں
ہوگا اکٹھا شافعِ روزِ جزا کے پاس
ہے کرم الطافؔ یہ اللہ کا
یارسول اللہ کی ہے لب پہ رٹ
جب وسیلے سے نبی کے ہاتھ پھیلاتے ہیں لوگ
جو طلب کرتے ہیں وہ اللہ سے پاتے ہیں لوگ
الطافؔ انصاری سلطان پوری فنِ نعت کے جملہ لوازمات اورباریکیوں سے کما حقہٗ واقف ہیں۔آپ نے روح و قلب کی گہرائیوں سے ادب کے گہرے دریا کی شناوری کرتے ہوئے عظمتِ رسول(ﷺ)کا پاس و لحاظ؛اور عبد و معبود کا فرق ملحوظ رکھ کر ہوش و خرد کے ساتھ، اس گہرے دریا سے ایسے ایسے گوہر ہاے آب دار چُنے ہیں جو قرآن و سنت کے متقاضی ہیں۔ آپ کی زبان و قلم شایستہ، ذہن و فکر پاکیزہ ،جذبہ و تخیل اعلا اور افکار و رجحانات میں طہارت ہے؛ یہی وجہ ہے کہ آپ کے کلام کی زیریں رَو میں افراط و تفریط اور کذب آمیز مبالغہ آرائی کو کہیں بھی جگہ نہیں مل سکی ؎
جس سے ٹھہرے ذاتِ احمد ہم سرِ ذاتِ خدا
واعظو! اس قسم کی شعلہ بیانی ہے غلط
ہے تقاضا یہ ادب کا باوضو ہوں پہلے ہم
نامِ اقدس لیں زباں سے تب رسول اللہ کا
آپ سے کی ہے خلّاقِ کونین نے
خلق کی ابتدا صد سلام آپ پر
جب خالقِ کونین ہے خود آپ محافظ
پھر کیوں نہ بھلا شانِ رسالت رہے محفوظ
اسی طرح مرحوم الطافؔ انصاری سلطان پوری صاحب نے اُمتِ مسلمہ کے دردو کرب،مصائب و آلام،دکھ درد،زبوں حالی اور شکست خوردگی کونا صرف محسوس کیا ہے بل کہ ان کے اسباب و علل پر بھی اپنے کلام کے وسیلے سے روشنی ڈالتے ہوئے اس کے مدواکا اظہارو ابلاغ بھی کیا ہے۔آپ کے کلام میںانقلابِ اُمت،اصلاحِ معاشرہ،اخلاقی قدروں کے تحفظ،سنت و شریعت کی پیروی اور سوئی ہوئی قوم کو غفلت کی نیند سے بیدار کرنے جیسے عناصر جابہ جا ملتے ہیں۔ آپ نے سنت کی پابندی،تصلب فی الدین،مسلک پر استقامت اور اخلاقیات کا درس بڑے موثر اور دل کش پیرایۂ اظہار میں آسان اور سہل زبان میں کیا ہے۔اس لحاظ سے الطافؔ انصاری سلطان پوری کی نعت گوئی اصلاحی اسلوب کی حامل پیغاماتی شاعری کے جملہ اوصاف سے متصف ہے ؎
صرف وہ انعامِ باری سے نوازے جائیں گے
جو سدا رکھتے ہیں شاہِ دیں کی سنت سے غرض
راہِ حق سے اے مسلماں تو نہ ہٹ
ہر گھڑی نامِ محمد کی ہو رٹ
دامنِ محبوبِ داور چھوڑ کر
دامنِ دنیا سے ناداں مت لپٹ
چاہتا ہے تو اگر اپنی فلاح
اک ذرا ماضی کی جانب تو پلٹ
بیچ کر ایمان جو حاصل ہو بزمِ دہر میں
اے مسلمانو! وہ عزت اور شہرت ہے عبث
اے خالقِ کونین مسلمانوں کے دل میں
اسلام پہ مرمٹنے کی ہمّت رہے محفوظ
سچا مومن وہی ہے جو تادمِ مرگ دربارِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنا تعلق ورشتہ استوار رکھے،احادیث و سُنن پر سختی سے عمل پیرا رہے؛جب کہ آج ایسے لوگوں کی کمی نہیں ہے جو محبت کا دعوا تو کرتے ہیں مگر سنتِ مصطفوی(ﷺ) سے کوسوں دور رہتے ہیں،اگر ایسا ہے تو ان حضرات کا یہ دعوا سراسر باطل اور غلط ہے ؎
سرکارِ کائنات کا عاشق ہے تُو اگر
سرکارِ کائنات کی کوئی ادا نہ چھوڑ
دعویِٰ عشقِ نبی سچ ہے تو بہتر ہے مگر
ورنہ یارو! دعویِٰ اُلفت زبانی ہے غلط
جو نہ گذرے پیرویِ ہادیِ کونین میں
یہ حقیقت ہے کہ ایسی زندگانی ہے غلط
آج کا مسلمان تارکِ سنتِ مصطفیٰ(ﷺ) ہوکر غیروں کی تقلید میں مصروف و مشغول ہے، اسی سبب سے پریشاں حالی اس کا مقدر بنتے جارہی ہے؛الطافؔ صاحب کا اصلاحی تیور ملاحظہ ہو ؎
غیر کی تقلید کرنے والو! آؤ ہوش میں
تھام لو دامن خدارا اب رسول اللہ کا
اسی طرح سچے مسلمان کی پہچان بتاتے ہوئے الطافؔ صاحب راقم ہیں کہ ؎
وہ مسلماں قابلِ صد رشک ہیں
ہیں جو عشقِ مصطفی سے فیض یاب
مسلمانانِ عالم کی حالیہ پستی و نکبت اور دن بہ دن زوال پذیر قدر و منزلت کے اسباب و علل اور اس عظیم مرض کے علاج کا ذکر الطافؔ صاحب نے بڑے والہانہ کرب و درد سے کیا ہے جس سے آپ کا اہلِ اسلام کے تئیں سوزِ دروں عیاں ہوتا ہے،مثالیں خاطر نشین فرمائیں ؎
فرمانِ مصطفی پہ جو کرنے لگیں عمل
ہوجائیں پھر عزیز جہاں کی نظر میں ہم
اسوۂ شہِ دیں کو آج ہم اپنا لیں جو
چار چاند لگ جائیں پھر ہماری شہرت میں
اے مسلماں اس طرح کر تُو سکونِ دل تلاش
دامنِ احمد میں کر عرفان کی منزل تلاش
ہمارے اس دعوے پر کہ’’ الطافؔ انصاری سلطان پوری کی نعت گوئی اصلاحی اور پیغاماتی ہے‘‘ذیل کی’’ نظم نمانعت شریف‘‘ مہرِ تصدیق ثبت کرتی ہے ؛مکمل نعت پڑھتے جائیے اور الطافؔ صاحب کے اُمتِ مسلمہ کے تئیں گہرے درد و کسک اور اصلاحِ اُمت و انقلابِ ملّت کے جذبات کا عکسِ جمیل ملاحظہ کرتے جائیے ،یہ نظم مشاہدے،فکر اور اسلوب ہر لحاظ سے لائقِ تحسین ہے؛خاطر نشیٖن ہو گراں قدر جوہر پارہ ؎
کیا کھو گیا تجھ سے اے مسلمان ذرا سوچ
کیوں پیچھے پڑا ہے ترے شیطان ذرا سوچ
کر غور ذرا خود پہ تُو کر دھیان ذرا سوچ
کیا تُو ہے حقیقت میں مسلمان ذرا سوچ
دولت کے عوض بیچ دے ایمان بھی اپنا
کیا ہے یہی اللہ کا فرمان ذرا سوچ
تھے صاحبِ کردار وہ ماضی کے مسلماں
کیا تُو بھی ہے ویسا ہی مسلمان ذرا سوچ
کیا تیرا بھی سرکار کی سُنّت پہ عمل ہے؟
کیا راہ نُما ہے ترا قرآن ذرا سوچ
اسلاف کی مانند ہے کیا دل میں ترے بھی
اسلام پہ مر مٹنے کا ارمان ذرا سوچ
احکامِ شریعت کا بھُلا بیٹھا ہے دل سے
یہ کیسی حماقت ہے اے نادان ذرا سوچ
واللہ! یہ تنبیہہ ہے تنقید نہیں ہے
کیا جھوٹ ہے کیا سچ ہے تُو کردھیان ذرا سوچ
اسی قبیل کے اور بھی بہت سارے اشعار ’’روٗدِ بخشش‘‘کے صفحات میں بکھرے ہوئے ہیں۔علاوہ ازیں الطافؔ صاحب کے نعتیہ دیوان’’روٗدِ بخشش‘‘سے مزید چند شہ پارے ملاحظہ فرمائیں جو اہلِ ذوق و شوق کے قلوب و اذہان کو ضرور متاثر کریں گے ؎
طالب ہوں میں تو نکہتِ زلفِ رسول کا
بے کار ہے مرے لیے خوش بُو گلاب کی
جب شہِ کونین کے دامن میں آجاتے ہیں لوگ
بھول کر ہر غم ، سکونِ دائمی پاتے ہیں لوگ
کاش لب پر مرے ہو نامِ نبی
جب بجھے میری زندگی کا چراغ
رہِ روِ راہِ وفا ہیں ہم فدایانِ نبی
ہے یقیں کر لے گی اک دن خود ہمیں منزل تلاش
خیالِ رسالت مآب آرہا ہے
یہ کیسا حسیٖں انقلاب آرہا ہے
تصور میں ہے روے فخرِ دوعالم
نظر ہیچ حُسنِ گلاب آرہا ہے
مدینہ کے دلکش نظاروں میں گم ہیں
مجھے سبز گنبد کا خواب آرہا ہے
ادب سے جھکالو! سر اے حاجیو! تم
دیارِ رسالت مآب آرہا ہے
غر ض یہ کہ الطافؔ انصاری سلطان پوری کے اس مختصر سے نعتیہ دیوان میں عقیدے و عقیدت کے ساتھ ساتھ فکر و فن،جذبہ و تخیل،خیال آفرینی،نُدرتِ اظہار،طرزِ ادا کا بانکپن،ترکیب سازی،پیکر تراشی،صنائع وبدائع جیسے قیمتی فنی موتی بکھرے ہوئے ہیں،جو آپ کے ماہرِ فن اور قادرالکلام شاعر ہونے پر دال ہیں۔یہ جواہر پارے اہلِ نقد و نظر کو دعوتِ مطالعہ دیتے ہیں۔الطافؔ صاحب کی فکری پختگی اور شعری و فنی مہارت کو اہلِ نظر یقینا بہ نظرِ استحسان دیکھیں گے۔
بہ ہر کیف! شہرِ عزیز مالیگاوں کی دھرتی پر آرام فرما اس عظیم شاعرِ اسلام اورمدّاحِ رسول کو خراجِ عقیدت پیش کرنے کی غرض سے راقم نے یہ مختصر سا مضمون قلم بند کرنے کی طالبِ علمانہ کوشش کی ہے،ویسے آپ کی شعری کائنات کا کما حقہٗ تعارف کرانا تو اہلِ علم و دانش کا کام ہے۔دُعا ہے کہ اللہ عزو جل ،رسولِ کونین صلی اللہ علیہ وسلم کے صدقہ و طفیل الطافؔ انصاری سلطان پوری کے مراتب کو مزید بلند تر فرمائے اور ان کے شاعرانہ فیوض سے خوش عقیدہ مسلمانانِ عالم کو مالا مال فرمائے (آمین)؛الطافؔ صاحب ہی کے اک شعر پر قلم روکتا ہوں ؎
نعتیہ دیوان ہے الطافؔ کا باغ و بہار
حمدِ رب کے ساتھ شاہِ دیں کی عظمت مجتمع
(اردوٹائمز،۳؍ اکتوبر ۲۰۱۰ء ،بروز اتوار)
 
Top