محمد بلال اعظم
لائبریرین
محسن نقوی کی ایک غزل کل پڑھی تھی، اُس کی ردیف بدل کے کہی ہے۔ اصلاح کی منتظر ہے۔
اک چیز جو میں سب سے جدا مانگ رہا ہوں
سوتے ہوئے لوگوں سے وفا مانگ رہا ہوں
اُس شخص سے چاہت کا صلا مانگ رہا ہوں
حیرت ہے کہ کیں آج کیا کیا مانگ رہا ہوں
الفاظ بھی سادہ ہیں مری بات بھی سادہ
ٹوٹے ہوئے تاروں سے ضیا مانگ رہا ہوں
بکھرے ہوئے پتوں کو جو پہنے ہوئے نکلا
ہر شخص سے میں سنگِ صبا مانگ رہا ہوں
گر مانگا نہیں میں نے تو کچھ بھی نہیں مانگا
گر مانگ رہا ہوں، بے بہا مانگ رہا ہوں
بے نام اندھیروں کی سیاہی مرے دامن میں
پھر بھی شبِ ظلمت کا پتا مانگ رہا ہوں
میں اپنے نصیبوں کا گِلہ کس سے کروں جاناں
بے نام ریاضت کی جزا مانگ رہا ہوں