الفاظ کی دنیا

ہمارے رشتے، ہماری چاہتیں، ہماری نفرتیں اس لیے دیرپا ہوتی ہیں کیونکہ ہم انہیں الفاظ میں ریکارڈ کر لیتے ہیں۔ الفاظ ہی کے دم سے انسان کو خدا نے دوسری مخلوق پر ممتاز بنایا ہے. کسی کو دوست کہنے کے بعد ہم اس کی جفائے وفا نما کو برداشت کرتے ہیں۔ الفاظ ہمارے تعلقات کو استقامت بخشتے ہیں، ہمیں ماحول سے جوڑتے ہیں، رشتے سے منسلک کر دیتے ہیں۔ ہم رشتوں کو اس لیے بھی قائم رکھتے ہیں کہ ہم نے ان کو رشتہ کہہ دیا ہوتا ہے۔ یہاں کہہ دینا ہی ضروری ہوتا ہے۔
مزے کی بات تو یہ ہے کے الفاظ سے ہی قرآن پاک ہے، ان الفاظ کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ قرآن میں ردوبدل نہ ہونے کی ذمہ داری خود خدا نے لے رکھی ہے۔ قرآن کے الفاظ قرآن کے علاوہ استعمال ہوں تو قرآن نہیں۔ الفاظ خدا کے ہوں تو قرآن بنتا ہے۔ نبی کے الفاظ حدیث بنتے ہیں، بزرگانِ دین کے الفاظ ملفوظات بنتے ہیں۔ داناؤں کے الفاظ اقوال بنتے ہیں۔ غرض یہ کہ جتنی مقدس زبان سے ادا ہوں گے اتنے ہی الفاظ مقدس ہوں گے، اتنے ہی پُراثر ہوں گے۔ الفاظ دنیا ہیں اور کائنات ہیں۔
ہم الفاظ کی دنیا میں رہتے ہیں، الفاظ کے حصار میں بڑے ہوتے ہیں، الفاظ ہی ہمارا کردار بناتے ہیں۔ یہی الفاظ کانوں کے راستے دل پر اثرانداز ہوتے ہیں، اور خدا کا نظام دیکھیں اچھے الفاظ پر کچھ خرچ نہیں ہوتا لیکن اچھے الفاظ سے بہت کچھ حاصل ہوتا ہے کیونکہ یہی انسان کو پسندیدہ اور ناپسندیدہ بناتے ہیں۔ یہی ایک دوسرے کے انتہائی قریب اور دور کرنے کا بھی سبب ہوتے ہیں۔
ہر سماج اور ہر گروہ کے الفاظ الگ الگ روح رکھتے ہیں۔ آپ کسی کے بھی الفاظ سن کر یہ بتا سکتے ہیں کہ وہ کس پیشے سے تعلق رکھتا ہے۔ بازار میں بیٹھنے والے لوگ بازاری زبان ، دارالعلوم کے لوگ اور ہی زبان استعمال کرتے ہیں۔ علما کی زبان الگ ہے ، حکما کی زبان اور ہے ، استاد کی زبان اور جاہل کی زبان اور ، ڈرامے کی اور نثر کی زبان اور ۔
الفاظ بھی خاندان رکھتے ہیں ، قصیدے کے الفاظ اور ہوتے ہیں ، مرثیے کے الفاظ کچھ الگ ہیں ، تنقید کے ، تعریف کے کچھ اور ہیں۔ کسی بھی آدمی کے ذخیرہ الفاظ سے یہ معلوم کرنا آسان ہے کہ وہ آدمی کون سے علاقے کا رہنے والا ہے اور کون سے پیشے سے تعلق رکھتا ہے۔ الفاظ کی حرمت بولنے والے کے انداز اور لہجے کے دم سے ہے۔ ہم نے قوم ہونے کی حیثیت سے الفاظ کے استعمال پر غور کرنا چھوڑ دیا ہے۔ صرف سیلاب الفاظ کا موجود ہے۔ لاکھوں الفاظ اخبارات میں روز چھپتے ہیں۔
انسان کو انسان کے قریب لانے والے الفاظ گم ہوگئے ہیں، دلوں کو زخمی کرنے والے الفاظ عام ہیں۔ آج نہ جانے کیوں لوگوں کے پاس شکریہ ادا کرنے کے لیے نہ وقت ہے اور نہ ہی الفاظ۔ اپنی کوتاہی پر معذرت کرنے کی نہ جرات ہے اور نہ توفیق۔ اگر آج کسی مذہبی اور سیاسی اجتماع میں بولے جانے والے الفاظ کو غور سے سنا جائے تو معلوم ہوگا کہ ہم لوگ کہاں جا رہے ہیں۔ ہماری منزل کہاں ہے اور ہم اخلاق کے کس درجے ہر موجود ہیں۔
ہمارے تلخ الفاظ معاشرے کو تباہ کر رہے ہیں ، ہمیں میٹھا بول زندہ کرنا چاہیے ، زندہ رہو اور زندہ رہنے دو کے اصول کو اپنانا چاہیے ، الفاظ کا احترام ہی انسان کا احترام ہے ، اہم چیز یہ ہے کے ہم الفاظ کو کس طرح استعمال کر رہے ہیں۔
الفاظ کے صحیح استعمال کی توفیق نعمت ہے ، الفاظ سے ماحول کو خوش گوار بنانے کا کام لیا جائے تو بڑی بات ہے۔ خالی الفاظ نگلنے اور الفاظ اگلنے سے کوئی مسئلہ حل نہیں ہوتا۔ الفاظ سے ماحول کو روشن کیا جائے۔ الفاظ سے دلوں کو خوش کیا جائے۔ الفاظ حقیقت ہیں ، الفاظ امانت ہیں ، الفاظ دولت ہیں ، الفاظ طاقت ہیں ، انہیں ضائع نہ کیا جائے ، انہیں رائیگاں نہ کیا جائے۔
لنک
 

جاسمن

لائبریرین
بہت خوبصورت۔
حقیقت پہ مبنی تحریر۔
عمل پہ متحرک کرتی۔
اللہ ہمیں مثبت، خوشگوار، دلوں کو جوڑنے والے، نرم اور ماحول کو روشن کرنے والے الفاظ بولنے اور بولتے رہنے کی توفیق، شوق اور آسانی عطا فرمائے۔ آمین!
 

جاسمن

لائبریرین
ایک واقعہ پڑھا تھا کہ ایک خاتون قرآن پاک کے علاؤہ بات نہیں کرتی تھیں۔ بات کوئی بھی ہوتی، سوال کچھ بھی ہوتا، ان کا جواب قرآن پاک کی آیت یا آیات پہ مشتمل ہوتا۔
کسی کو وہ واقعہ یاد ہو تو شریک کریں۔
 
آخری تدوین:
بہت خوبصورت۔
حقیقت پہ مبنی تحریر۔
عمل پہ متحرک کرتی۔
اللہ ہمیں مثبت، خوشگوار، دلوں کو جوڑنے والے، نرم اور ماحول کو روشن کرنے والے الفاظ بولنے اور بولتے رہنے کی توفیق، شوق اور آسانی عطا فرمائے۔ آمین!
شکریہ آپ جی ،
آمین ثم آمین ۔
 

محمد وارث

لائبریرین
ایک واقعہ پڑھا تھا کہ ایک خاتون قرآن پاک کے علاؤہ بات نہیں کرتی تھیں۔ بات کوئی بھی ہوتی، سوال کچھ بھی ہوتا، ان کا جواب قرآن پاک کی آیت یا آیات پہ مشتمل ہوتا۔
کسی کو وہ واقعی یاد ہو تو شریک کریں۔
حضرت فاطمہ زھرا کی کنیز فضہ نوبیہ کے بارے میں یہ شیعی روایات ہیں۔

ویکی شیعہ کا جملہ اسے بارے میں یہ ہے:

فضہ نے تقریبا بیس سال تک قرآن کے ذریعہ گفتگو کی اور بات کرنے والوں کو قرآن کی آیات سے جواب دیتی تھیں۔

اور جس واقعے کے بارے میں آپ نے ذکر کیا ہے، وہ نیچے درج کر رہا ہوں، ایک فیس بُک پیج سے کاپی کیا ہے، اس میں چونکہ قرآنی آیات ہیں سو اگر کوئی غلط لکھی ہے یا کچھ کتابت کی غلطی ہے تو اللہ تعالیٰ معاف فرمائیں:

جناب فضہ س ، کنیز جناب فاطمه الزھراء س کا قران کریم سے سوالوں ﮐﮯ جواب دینا*

ﺍﺑﻮﺍﻟﻘﺎﺳﻢ ﻗﺸﯿﺮﯼ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﯽ ﮐﺘﺎﺏ ﻣﯿﮟ ﻧﻘﻞ ﮐﯿﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺍﯾﮏ ﻣﺮﺗﺒﮧ ﺣﻀﺮﺕ ﻓﺎﻃﻤﮧ س ﮐﯽ ﮐﻨﯿﺰ ﺣﻀﺮﺕ ﻓﻀّﮧ ﺳﻔﺮ ﺣﺞ ﻣﯿﮟ ﺍﭘﻨﮯ ﮐﺎﺭﻭﺍﻥ ﺳﮯ ﺑﭽﮭﮍ ﮔﺌﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺍﻧﮩﯿﮟ ﺑﯿﺎﺑﺎﻥ ﻣﯿﮟ ﺗﻨﮩﺎ ﺳﻔﺮ ﮐﺮ ﻧﺎ ﭘﮍ ﺍ ،
ﻋﺒﺪﺍﻟﻠﮧ ﺑﻦ ﻣﺒﺎﺭﮎ ﺟﻮ ﮐﮧ ﺍﻥ ﮐﯽ ﻃﺮﺡ ﻗﺎﻓﻠﮯ ﺳﮯ ﺍﻟﮓ ﮨﻮﮔﺌﮯ ﺗﮭﮯ ، ﺍﺗﻔﺎﻕ ﺳﮯ ﺍﻧﮩﯿﮟ ﺣﻀﺮﺕ ﻓﻀّﮧ ﻧﻈﺮ ﺁﺋﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﻭﮦ ﮐﮩﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﮐﮧ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺑﯿﺎﺑﺎﻥ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﮏ ﺧﺎﺗﻮﻥ ﮐﻮ ﺩﯾﮑﮭﺎ ،
ﺗﻮ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺍﻥ ﺳﮯ ﮐﮩﺎ ﮐﮧ ﺗﻢ ﮐﻮﻥ ﮨﻮ ؟
ﺣﻀﺮﺕ ﻓﻀﮧ : ۔ﻭ ﻗﻞ ﺳﻼﻡ ﻓﺴﻮﻑ ﯾﻌﻠﻤﻮﻥ۔ﺯﺧﺮﻑ ۔89
ﺳﻼﻡ ﮐﮩﻮ ﭘﮭﺮ ﻋﻨﻘﺮﯾﺐ ﻭﮦ ﺟﺎﻥ ﻟﯿﮟ ﮔﮯ ” ،

ﺍﺱ ﺁﯾﺖ ﺳﮯ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺳﻤﺠﮫ ﻟﯿﺎ ﮐﮧ ﺳﻼﻡ ﮐﺎ ﻣﻄﺎﻟﺒﮧ ﮐﺮ ﺭﮨﯽ ﮨﯿﮟ ۔

ﻋﺒﺪﺍﻟﻠﮧ ﻧﮯ ﺧﺎﺗﻮ ﻥ ﮐﻮ ﺳﻼﻡ ﮐﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﭘﻮﭼﮭﺎ :

ﺁﭖ ﺑﯿﺎﺑﺎﻥ ﻣﯿﮟ ﮐﯿﺎ ﮐﺮ ﺭﮨﯽ ﮨﯿﮟ ؟
ﺍﻭﺭ ﮐﯿﺎ ﺁﭖ ﮐﻮ ﺑﮭﭩﮑﻨﮯ ﮐﺎ ﺍﻧﺪﯾﺸﮧ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﮯ ؟

ﺣﻀﺮﺕ ﻓﻀﮧ : ﻭ ﻣﻦ ﯾﮭﺪ ﺍﻟﻠﮧ ﻓﻤﺎ ﻟﮧ ﻣﻦ ﻣﻀﻞ، ﺯﻣﺮ۔37

ﺟﺴﮯ ﺧﺪﺍ ﮨﺪﺍﯾﺖ ﺩﮮ ﺍﺳﮯ ﮐﻮﺋﯽ ﮔﻤﺮﺍﮦ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﺮ ﺳﮑﺘﺎ ،

ﺍﺱ ﺁﯾﺖ ﺳﮯ ﻣﺠﮭﮯ ﻣﻌﻠﻮﻡ ﮨﻮﺍ ﮐﮧ ﺧﺎﺗﻮﻥ ﮐﺎ ﺧﺪﺍ ﭘﺮ ﮔﮩﺮﺍ ﯾﻘﯿﻦ ﮨﮯ ۔

ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﭘﻮﭼﮭﺎ ﮐﮧ ﺁ ﭘﮑﺎ ﺗﻌﻠﻖ ﺍﻧﺴﺎﻧﻮﮞ ﺳﮯ ﮨﮯ ﯾﺎ ﺟﻨﺎ ﺕ ﺳﮯ ﮨﮯ ؟

ﺣﻀﺮﺕ ﻓﻀﮧ : ﯾﺎ ﺑﻨﯽ ﺁﺩﻡ ﺧﺬﻭﺍ ﺯﯾﻨﺘﮑﻢ ﻋﻨﺪ ﮐﻞ ﻣﺴﺠﺪ ، ﺍﻋﺮﺍﻑ ۔31

ﺍﮮ ﺑﻨﯽ ﺁﺩﻡ ! ﮨﺮ ﻧﻤﺎﺯ ﮐﮯ ﻭﻗﺖ ﺯﯾﻨﺖ ﮐﺮﻭ،

ﺍﺱ ﺁﯾﺖ ﺳﮯ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺳﻤﺠﮭﺎﮐﮧ ﺧﺎﺗﻮﻥ ﮐﺎ ﺗﻌﻠﻖ ﺑﻨﯽ ﺁﺩﻡ ﺳﮯ ﮨﮯ ،

ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﭘﻮﭼﮭﺎ : ﺁﭖ ﮐﮩﺎﮞ ﺳﮯ ﺁﺭﮨﯽ ﮨﮯ ؟

ﺣﻀﺮﺕ ﻓﻀﮧ : ﯾﻨﺎﺩﻭﻥ ﻣﻦ ﻣﮑﺎﻥ ﺑﻌﯿﺪ : ‏( ﻓﺼﻠﺖ۔44 ‏)

ﺍﻧﮩﯿﮟ ﺩﻭﺭ ﺩﺭﺍﺯ ﻣﻘﺎﻡ ﺳﮯ ﺑﻼﯾﺎ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ ،

ﺍﺱ ﺁﯾﺖ ﺳﮯ ﻣﯿﮟ ﺳﻤﺠﮫ ﮔﯿﺎ ﮐﮧ ﺧﺎﺗﻮﻥ ﮐﺴﯽ ﺩﻭﺭﺩﺭﺍﺯ ﻣﻘﺎﻡ ﺳﮯ ﺁﺭﮨﯽ ﮨﯿﮟ ِ ،

ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﭘﻮﭼﮭﺎ : ﺁﭖ ﮐﺲ ﺷﮩﺮ ﺳﮯ ﺁ ﺭﮨﯽ ﮨﯿﮟ ؟

ﺣﻀﺮﺕ ﻓﻀﮧ ﮐﮩﺘﯽ ﮨﯿﮟ : ﯾﺎ ﺍﮬﻞ ﯾﺜﺮﺏ ﻻ ﻣﻘﺎﻡ ﻟﮑﻢ ‏( ﺍﺣﺰﺍﺏ ۔13

ﺍﮮ ﺍﮨﻞ ﯾﺜﺮﺏ ﺗﻤﮩﺎﺭﺍ ﭨﮭﮑﺎﻧﮧ ﮐﮩﯿﮟ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﮯ ” ۔

ﺍﺱ ﺁﯾﺖ ﺳﮯ ﻣﺠﮭﮯ ﻣﻌﻠﻮﻡ ﮨﻮ ﮔﯿﺎ ﮐﮧ ﯾﮧ ﺧﺎﺗﻮﻥ ﻣﺪﯾﻨﮧ ﺳﮯ ﺁ ﺭﮨﯽ ﮨﮯ ،

ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﭘﻮﭼﮭﺎ ﮐﮧ ﺁﭖ ﮐﮩﺎﮞ ﺟﺎﻧﺎ ﭼﺎﮨﺘﯽ ﮨﯿﮟ ؟

ﺣﻀﺮﺕ ﻓﻀﮧ : ﻭﻟﻠﮧ ﻋﻠﯽٰ ﺍﻟﻨﺎﺱ ﺣﺞ ﺍﻟﺒﯿﺖ ﻣﻦ ﺍﺳﺘﻄﺎﻉ ﺍﻟﯿﮧ ﺳﺒﯿﻼ ‏( ﺁﻝ ﻋﻤﺮﺍﻥ ۔97)

ﺟﻮ ﺣﺞ ﮐﯽ ﺍﺳﺘﻄﺎﻋﺖ ﺭﮐﮭﺘﺎ ﮨﻮ ﺍﺱ ﭘﺮ ﺣﺞ ﻭﺍﺟﺐ ﮨﮯ ۔

ﺍﺱ ﺁﯾﺖ ﺳﮯ ﻣﺠﮭﮯ ﭘﺘﮧ ﭼﻼ ﮐﮧ ﺣﺞ ﮐﺮﻧﮯ ﺟﺎﺭﮨﯽ ﮨﯿﮟ ،

ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﭘﻮﭼﮭﺎ ﮐﮧ ﺁﭖ ﮐﻮ ﮐﺎﺭﻭﺍﻥ ﺳﮯ ﺑﭽﮭﮍﮮ ﮨﻮﺋﮯ ﮐﺘﻨﮯ ﺩﻥ ﮨﻮﺋﮯ ﮨﯿﮟ ؟

ﺣﻀﺮﺕ ﻓﻀﮧ : ﻭ ﻟﻘﺪ ﺧﻠﻘﻨﺎﺍﻟﺴﻤﻮﺍﺕ ﻭ ﺍﻻﺭﺽ ﻓﯽ ﺳﺘۃ ﺍﯾﺎﻡ ‏( ﻕ۔38 )

ﺑﮯ ﺷﮏ ﮨﻢ ﻧﮯ ﺁﺳﻤﺎﻧﻮﮞ ﺍﻭﺭ ﺯﻣﯿﻦ ﮐﻮ ﭼﮫ ﺩﻧﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﭘﯿﺪﺍ ﮐﯿﺎ ،

ﺍﺱ ﺁﯾﺖ ﺳﮯ ﻣﺠﮭﮯ ﻣﻌﻠﻮﻡ ﮨﻮﺍ ﮐﮧ ﺍﺱ ﺧﺎﺗﻮﻥ ﮐﻮ ﻗﺎﻓﻠﮯ ﺳﮯ ﺟﺪﺍ ﮨﻮﺋﮯ ﭼﮫ ﺩﻥ ﮨﻮﺋﮯ ﮨﯿﮟ ،

ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﭘﻮﭼﮭﺎ ﮐﮧ ﮐﯿﺎ ﺁﭖ ﺍﺱ ﻭﻗﺖ ﮐﭽﮫ ﮐﮭﺎﻧﺎ ﭘﺴﻨﺪ ﮐﺮﯾﮟ ﮔﯽ ؟

ﺣﻀﺮﺕ ﻓﻀﮧ : ﻭﻣﺎﺟﻌﻠﻨﺎﮨﻢ ﺟﺴﺪﺍًﺍﻻ ﯾﺎﮐﻠﻮﻥ ﺍﻟﻄﻌﺎﻡ ‏( ﺍﻧﺒﯿﺎﺉ۔8 ‏)

ﺍﻭﺭ ﮨﻢ ﻧﮯ ﺍﻧﮩﯿﮟ ﺍﯾﺴﮯ ﺟﺴﻢ ﻧﮩﯿﮟ ﺩﯾﺌﮯ ﮐﮧ ﻭﮦ ﻃﻌﺎﻡ ﻧﮧ ﮐﮭﺎﺗﮯ ﮨﻮﮞ ،

ﺍﺱ ﺁﯾﺖ ﺳﮯ ﻣﺠﮭﮯ ﻣﻌﻠﻮﻡ ﮨﻮﺍ ﮐﮧ ﺧﺎﺗﻮﻥ ﮐﮭﺎﻧﺎ ﮐﮭﺎﻧﺎ ﭼﺎﮨﺘﯽ ﮨﯿﮟ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺍﻧﮩﯿﮟ ﮐﮭﺎﻧﺎ ﮐﮭﻼﯾﺎ ﺍﻭﺭ ﭘﮭﺮ ﺍﻥ ﺳﮯ ﮐﮩﺎ ﮐﮧ ﺟﻠﺪﯼ ﮐﺮﯾﮟ ﺍﻭﺭ ﺗﯿﺰ ﺗﯿﺰ ﻗﺪﻡ ﺑﮍﮬﺎﺋﯿﮟ۔

ﺣﻀﺮﺕ ﻓﻀﮧ : ﻻ ﯾﮑﻠﻒ ﺍﻟﻠﮧ ﻧﻔﺴﺎً ﺍﻻ ﻭﺳﻌﮭﺎ ‏( ﺑﻘﺮﮦ۔286)

ﺍﻟﻠﮧ ﮐﺴﯽ ﺑﮭﯽ ﻧﻔﺲ ﮐﻮ ﺍﺱ ﮐﯽ ﻃﺎﻗﺖ ﺳﮯ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﺗﮑﻠﯿﻒ ﻧﮩﯿﮟ ﺩﯾﺘﺎ،

ﺍﺱ ﺁﯾﺖ ﺳﮯ ﻣﺠﮭﮯ ﻣﻌﻠﻮﻡ ﮨﻮﺍ ﮐﮧ ﺧﺎﺗﻮﻥ ﺗﮭﮏ ﭼﮑﯽ ﮨﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺍﻥ ﻣﯿﮟ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﺗﯿﺰﭼﻠﻨﮯ ﮐﯽ ﺳﮑﺖ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﮯ ،

ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺍﺱ ﺳﮯ ﮐﮩﺎ ﮐﮧ ﺁﭖ ﻣﯿﺮﮮ ﺳﺎﺗﮫ ﺍﻭﻧﭧ ﭘﺮ ﺳﻮﺍﺭ ﮨﻮﺟﺎﺋﯿﮟ،

ﺧﺎﺗﻮﻥ : ﻟﻮ ﮐﺎﻥ ﻓﮯﮬﻤﺎﺁﻟﮭۃ ﺍﻻ ﺍﻟﻠﮧ ﻟﻔﺴﺪ ﺗﺎ . ‏( ﺍﻧﺒﯿﺎ 22)

ﺍﮔﺮ ﺯﻣﯿﻦ ﻭﺁﺳﻤﺎﻥ ﻣﯿﮟ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﺧﺪﺍ ﮨﻮﺗﮯ ﺗﻮ ﺯﻣﯿﻦ ﻭﺁﺳﻤﺎﻥ ﺗﺒﺎﮦ ﮨﻮ ﺟﺎﺗﮯ

ﺍﺱ ﺁﯾﺖ ﺳﮯ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺳﻤﺠﮫ ﻟﯿﺎ ﮐﮧ ﺧﺎﺗﻮﮞ ﻣﯿﺮﮮ ﺳﺎﺗﮫ ﺳﻮﺍﺭ ﮨﻮﻧﺎ ﭘﺴﻨﺪ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﺮﺗﯿﮞ

پھر ﻣﯿﮟ ﺍﻭﻧﭧ ﺳﮯ ﺍﺗﺮﺍ ﺍﻭﺭ ﺍﻧﮩﯿﮟ ﺍﮐﯿﻼ ﺳﻮﺍﺭ ﮐﯿﺎ ، ﺟﺐ ﻭﮦ ﺍﻭﻧﭧ ﭘﺮ ﺑﯿﭩﮫ ﮔﺌﯿﮟ ﺗﻮ ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﻗﺮﺁﻥ ﻣﺠﯿﺪ ﮐﯽ ﯾﮧ ﺁﯾﺖ ﺗﻼﻭﺕ ﮐﯽ :

ﺳﺒﺤﺎﻥ ﺍﻟﺬﯼ ﺳﺨﺮ ﻟﻨﺎﮬﺬﺍ ﻭ ﻣﺎ ﮐﻨﺎ ﻟﮧ ﻣﻘﺮﻧﯿﻦ ‏( ﺯﺧﺮﻑ۔13)

ﭘﺎﮎ ﻭﺑﮯ ﻧﯿﺎﺯ ﮨﮯ ﻭﮦ ﺧﺪﺍﺟﺲ ﻧﮯ ﺍﺱ ﺳﻮﺍﺭﯼ ﮐﻮ ﮨﻤﺎﺭﮮ ﻟﺌﮯ ﻣﺴﺨﺮ ﮐﺮ ﺩﯾﺎ ﮨﮯ ﻭﺭﻧﮧ ﮨﻢ ﺍﺱ ﮐﻮ ﻗﺎﺑﻮ ﻣﯿﮟ ﻧﮩﯿﮟ ﻻ ﺳﮑﺘﮯ ﺗﮭﮯ

ﭘﮭﺮ ﮨﻢ ﭼﻠﺘﮯ ﮨﻮ ﺋﮯ ﮐﺎﺭﻭﺍﻥ ﺳﮯ ﺟﺎ ﻣﻠﮯ ﺗﻮ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﭘﻮﭼﮭﺎ ﮐﮧ ﺍﺱ ﻗﺎﻓﻠﮧ ﻣﯿﮟ ﺗﻤﮩﺎﺭﺍ ﮐﻮﺋﯽ ﺭﺷﺘﮧ ﺩﺍﺭ ﺑﮭﯽ ﻣﻮﺟﻮﺩ ﮨﮯ

ﺧﺎﺗﻮﻥ ﻧﮯ ﺟﻮﺍﺏ ﻣﯿﮟ ﯾﮧ ﺁﯾﺎﺕ ﭘﮍﮬﯽ : ﯾﺎ ﺩﺍﺅﺩ ﺍﻧﺎ ﺟﻌﻠﻨﺎﮎ ﺧﻠﯿﻔۃ ﻓﯽ ﺍﻻﺭﺽ ‏( ﺹ۔26)

ﺍﮮ ﺩﺍﺅﺩ ﮨﻢ ﻧﮯ ﺗﻤﮩﯿﮟ ﺯﻣﯿﻦ ﻣﯿﮟ ﺧﻠﯿﻔﮧ ﺑﻨﺎﯾﺎ، ۔ﻭﻣﺎﻣﺤﻤﺪ ﺍﻻ ﺭﺳﻮﻝ ‏( ﺁﻝ ﻋﻤﺮﺍﻥ۔144)

ﺍﻭﺭ ﻣﺤﻤﺪ ﺑﺲ ﺭﺳﻮﻝ ﮨﯿﮟ ۔ ﯾﺎ یحی ﺧﺬﺍﻟﮑﺘﺎﺏ ﺑﻘﻮۃ ‏( ﻣﺮﯾﻢ۔12 ‏) ،
ﺍﮮ یحی ! ﮐﺘﺎﺏ ﮐﻮ ﻣﻀﺒﻮﻃﯽ ﺳﮯ ﺗﮭﺎﻣﻮ،۔ ﯾﺎﻣﻮﺳﯽٰ ﺍﻧّﯽ ﺍﻧﺎ ﺍﻟﻠﮧ

‏( ﺍﮮ ﻣﻮﺳﯽٰ ﺑﮯ ﺷﮏ ﻣﯿﮟ ﺍﻟﻠﮧ ﮨﻮﮞ ‏) ‏( ﻗﺼﺺ۔30 ‏)

ﭼﻨﺎﻧﭽﮧ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺩﺍﺅﺩ، ﻣﺤﻤﺪ ، یحی ٰﺍﻭﺭ ﻣﻮﺳﯽٰ ﮐﻮ ﭘﮑﺎﺭﺍ ﺗﻮ ﭼﺎﺭ ﺟﻮﺍﻥ ﺍﺱ ﻗﺎﻓﻠﮧ ﺳﮯ ﻧﮑﻞ ﮐﺮ ﺧﺎﺗﻮﻥ ﮐﮯ ﭘﺎﺱ ﺁﺋﮯ ،

ﭘﮭﺮ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺍﺱ ﺧﺎﺗﻮﻥ ﺳﮯ ﭘﻮﭼﮭﺎ ﮐﮧ ﯾﮧ ﺟﻮﺍﻥ ﺁﭖ ﮐﮯ ﮐﯿﺎ ﻟﮕﺘﮯ ﮨﯿﮟ ؟ ﺧﺎﺗﻮﻥ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ : ﺍﻟﻤﺎﻝ ﻭﺍﻟﺒﻨﻮﻥ ﺯﯾﻨۃ ﺍﻟﺤﯿﺎۃ ﺍﻟﺪﻧﯿﺎ ‏( ﺍﻟﮑﮩﻒ۔46)

ﻣﺎﻝ ﺍﻭﺭ ﺍﻭﻻﺩ ﺩﻧﯿﻮﯼ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﮐﯽ ﺯﯾﻨﺖ ﮨﮯ ، اﺱ ﺁﯾﺖ ﺳﮯ ﻣﺠﮭﮯ ﻣﻌﻠﻮﻡ ﮨﻮﺍ ﮐﮧ ﯾﮧ ﺧﺎﺗﻮﻥ ﺍﻥ ﺟﻮﺍﻧﻮﮞ ﮐﯽ ﻭﺍﻟﺪﮦ ﮨﯿﮟ ،

ﭘﮭﺮ ﺍﺱ ﺧﺎﺗﻮﻥ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﺑﭽﻮﮞ ﮐﻮ ﺻﺪﺍ ﺩﮮ ﮐﺮ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ :

ﯾﺎ ﺍﺑﺖ ﺍﺳﺘﺄﺟﺮﮦ ﺍﻥ ﺧﯿﺮ ﻣﻦ ﺍﺳﺘﺄﺟﺮﺕ ﺍﻟﻘﻮﯼ ﺍﻻﻣﯿﻦ ‏( ﺍﻟﻘﺼﺺ26)

ﯾﻌﻨﯽ ﺍﺑﺎ ﺟﺎﻥ ﺁﭖ ﺍﺱ ﮐﻮ ﺍﺟﺮﺕ ﺩﯾﮟ ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﺁﭖ ﺟﺴﮯ ﺍﺟﺮﺕ ﺩﯾﻨﮕﮯ ﻭﮦ ﻗﻮﯼ ﺍﻭﺭ ﺍﻣﯿﻦ ﮨﮯ ،

ﺍﺱ ﺁﯾﺖ ﺳﮯ ﻣﺠﮭﮯ ﻣﻌﻠﻮﻡ ﮨﻮﺍ ﮐﮧ ﺧﺎﺗﻮﻥ ﺍﭘﻨﮯ ﺑﯿﭩﻮﮞ ﮐﻮ ﺣﮑﻢ ﺩﮮ ﺭﮨﯽ ﮨﯿﮟ ﮐﮧ ﻣﺠﮭﮯ ﺍﺱ ﺯﺣﻤﺖ ﭘﺮ ﺍﺟﺮﺕ ﺩﯾﮟ ، .

ﭼﻨﺎﻧﭽﮧ ﺍﻥ ﻧﻮﺟﻮﺍﻧﻮﮞ ﻧﮯ ﮐﭽﮫ ﺭﻗﻢ ﻣﯿﺮﮮ ﺣﻮﺍﻟﮯ ﮐﯽ ﺗﻮ ﺍﻥ ﮐﯽ ﻭﺍﻟﺪﮦ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ :

ﻭﺍﻟﻠﮧ ﮮﺿﺎﻋﻒ ﻟﻤﻦ ﯾﺸﺎﺀ ﺍﻟﻠﮧ

ﺟﺲ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﭼﺎﮨﺘﺎ ﮨﮯ ﺑﮍﮬﺎﺗﺎ ﮨﮯ ‏( ﺑﻘﺮﮦ 261 ‏)

ﺍﺱ ﺁﯾﺖ ﺳﮯ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺍﻧﺪﺍﺯﮦ ﻟﮕﺎﯾﺎﮐﮧ ﺧﺎﺗﻮﻥ ﺍﭘﻨﮯ ﺑﭽﻮﮞ ﮐﻮ ﺍﺱ ﺭﻗﻢ ﺳﮯ ﺩﻭﮔﻨﯽ ﺭﻗﻢ ﺩﯾﻨﮯ ﮐﺎ ﮐﮩﮧ ﺭﮨﯽ ﮨﯿﮟ ،

ﭼﻨﺎﻧﭽﮧ ﺍﻥ ﻧﻮﺟﻮﺍﻧﻮﮞ ﻧﮯ ﻣﺠﮭﮯ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﺭﻗﻢ ﺩﯼ ، ﺟﺐ ﻣﯿﮟ ﺍﻥ ﺳﮯ ﺟﺪﺍ ﮨﻮﻧﮯ ﻟﮕﺎ ﺗﻮ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺍﻥ ﺳﮯ ﭘﻮﭼﮭﺎﮐﮧ ﯾﮧ ﺧﺎﺗﻮﻥ ﮐﻮﻥ ﮨﯿﮟ ؟

ﺍﻥ ﻧﻮﺟﻮﺍﻧﻮﮞ ﻧﮯ ﻣﺠﮭﮯ ﺑﺘﺎﯾﺎ ﮐﮧ ﯾﮧ ﮨﻤﺎﺭﯼ ﻭﺍﻟﺪﮦ ﻓﻀّﮧ ﮨﯿﮟ ﺟﻮ ﮐﻨﯿﺰ ﺯﮨﺮﺍ سلام الله علیه ﮨﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺑﯿﺲ ﺳﺎﻝ ﺳﮯ ﻗﺮﺁﻥ ﮐﮯ ﻋﻼﻭﮦ ﮐﻮﺋﯽ ﮐﻼﻡ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﺮﺗﯽ ﮨﯿﮟ

یه واقعہ اھل تشیع کی کتب ﺑﺤﺎﺭﺍﻻﻧﻮﺍﺭ کے ساتھ ساتھ اھل سنت کی کتب ﺍﻟﺪﺭﺍﻟﻤﻨﺜﻮﺭ ‏میں بھی موجود ھے
 

سید عمران

محفلین
ایک خاتون کا قصہ جو ہر بات کا جواب قرآن کی آیت سے دیتی تھیں
حضرت عبداللہ بن مبارک (امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے شاگرد) فرماتے ہیں کہ میں حج بیت اللہ اور نبی کریم ﷺ کی قبر مبارک کی زیارت کی غرض سے نکلا۔ میں راستے پر جارہا تھا کہ میں نے ایک سایہ دیکھا، غور کیا تو وہ ایک بوڑھی عورت تھی جس نے اون کے کپڑے زیب تن کیے ہوئے تھے۔ غالباً وہ راستہ بھٹک کر اپنے قافلہ سے بچھڑ گئی تھی۔
عبداللہ بن مبارک : السلام علیکم و رحمة اللہ و برکاتہ
خاتون : سَلَٰمٌ قَوْلًا مِّن رَّبٍّ رَّحِیمٍ " نہایت رحم والے رب کی طرف سے انہیں سلام فرمایا جائے گا " ﴿یٰس : ٥٨﴾
عبداللہ بن مبارک : آپ یہاں کیا کر رہی ہیں؟
خاتون : مَن یُضْلِلِ ﭐللہُ فَلَا ھَادِىَ لَہُۥ " جسے اللہ بھٹکا دے اسے کوئی راہ پر لانے والا نہیں "
﴿الاعراف : ١٨٦﴾) مراد یہ کہ میں راستہ بھول گئی ہوں
عبداللہ بن مبارک : آپ کہاں سے آرہی ہیں؟
خاتون : سُبْحَٰنَ ﭐلَّذِىٓ أَسْرَىٰ بِعَبْدِہِۦ لَیْلًا مِّنَ ﭐلْمَسْجِدِ ﭐلْحَرَامِ إِلَى ﭐلْمَسْجِدِ ﭐلْأَقْصَا۔ " پاک ہے وہ جس نے راتوں رات اپنے بندے کو مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک سیر کرائی " ﴿الأسرىٰ : ١﴾ مراد یہ تھی کہ میں مسجد اقصی سے آرہی ہوں
عبداللہ بن مبارک : آپ یہاں کب سے ہیں؟
خاتون : ثَلَٰثَ لَیَالٍ سَوِیًّا۔ " تین رات متواتر "﴿مریم : ١٠﴾
عبداللہ بن مبارک : آپ کے کھانے کا کیا انتظام ہے؟
خاتون : وَالَّذی ھُوَ یُطْعِمُنی وَ یَسْقینِ " وہ مجھے کھلاتا پلاتا ہے " ﴿الشعراء : ٧٩﴾
عبداللہ بن مبارک : کیا وضو کا پانی موجود ہے؟
خاتون : فَلَمْ تَجِدُوا مَاءً فَتَیَمَّمُوا صَعِیدًا طَیِّبًا
" اگر تم پانی نہ پاؤ تو پاک مٹی سے تیمم کرو "
﴿النساء : ٤٣﴾؛ ﴿ال۔م۔ائدة : ٦﴾
عبداللہ بن مبارک : یہ کھانا حاضر ہے کھا لیجئے۔
خاتون : أَتِمُّوا الصِّیَامَ إِلَى اللَّیْلِ۔ " روزے رات کے آغاز تک پورے کرو﴿"البقرة : ١٨٧﴾مراد یہ کہ میں روزے سے ہوں
عبداللہ بن مبارک : یہ رمضان کا مہینہ تو نہیں ہے !
خاتون : وَمَن تَطَوَّعَ خَیرًا فَإِنَّ اللَّہَ شاکِرٌ عَلیمٌ۔ " اور جو نیکی کے طور پر خوشی سے روزہ رکھے تو بےشک اللہ شاکر اور علیم ہے " ﴿البقرة : ١٥٨﴾
یعنی میں نے نفلی روزہ رکھا ہے
عبداللہ بن مبارک : لیکن سفر میں تو روزہ افطار کرلینے کی اجازت ہے۔
خاتون : وَاَنْ تَصُوْمُوْا خَیْرٌلَّکُمْ، اِنْ کُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ۔ " اور اگر تم روزہ رکھو تو تمہارے لیے بہتر ہے، اگر تم جان لو " ﴿البقرة : ١٨٤﴾
عبداللہ بن مبارک : آپ میرے جیسے انداز میں بات کریں۔
خاتون : مَا یَلْفِظُ مِنْ قَوْلٍ إِلَّا لَدَیْہِ رَقِیبٌ عَتِیدٌ۔
" وہ کوئی بات نہیں کرتا مگر یہ اس کے پاس ایک مستعد نگہبان ضرور ہوتا ہے " ﴿ق : ١٨﴾
یعنی چونکہ انسان کے کہے ہوئے ہر لفظ کو ایک فرشتہ محفوظ کر لیتا ہے اس لیے احتیاطًا میں قرآن کے الفاظ میں ہی بات کرتی ہوں
عبداللہ بن مبارک : کس قبیلہ سے تعلق رکھتی ہیں؟
خاتون : وَلا تَقْفُ مَا لَیْسَ لَکَ بِہِ عِلْمٌ إِنَّ السَّمْعَ وَالْبَصَرَ وَالْفُؤَادَ کُلُّ أُوْلَئِکَ کَانَ عَنْہُ مَسْئُولًا۔ " جو بات تمہیں معلوم نہ ہو اس کے درپے نہ ہو۔ بےشک کان، آنکھ اور دل اس کی طرف سے جوابدہ ہیں " ﴿الأسرىٰ : ٣٦﴾
یعنی جس معاملے کا تم سے کوئی تعلق نہیں اسے مت پوچھو یا گفتگو برائے گفتگو مت کرو
عبداللہ بن مبارک : مجھے معاف کردیں، میں نے واقعی غلطی کی۔
خاتون : لَا تَثْرِیبَ عَلَیْکُمُ ﭐلْیَوْمَ ۖ یَغْفِرُ ﭐللہُ لَکُمْ۔ " آج تم پر کوئی ملامت نہیں، اللہ تمہیں بخش دے "
﴿یوسف : ٩٢﴾
عبداللہ بن مبارک : کیا آپ میری اونٹنی پر بیٹھ کر قافلہ سے جا ملنا پسند کریں گی؟
خاتون : وَمَا تَفْعَلُوا مِنْ خَیْرٍ یَعْلَمْہُ اللَّہُ۔ " اور تم جو نیکی کرتے ہو، اللہ اسے جان لیتا ہے "﴿البقرة : ١٩٧﴾
یعنی اگر آپ مجھ سے یہ حسن سلوک کرنا چاہیں تو اللہ اس کا اجر دے گا
عبداللہ بن مبارک فرماتے ہیں کہ میں نے اپنی اونٹنی بٹھا دی، تاکہ وہ خاتون اس پر سوار ہوجائے
خاتون : قُل لِّلْمُؤْمِنِینَ یَغُضُّوا مِنْ أَبْصَارِھِمْ۔ " اور اہل ایمان سے کہہ دیجئے کہ وہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں " ﴿النور : ٣٠﴾
عبداللہ بن مبارک فرماتے ہیں کہ میں نے اپنی آنکھیں پھیر لیں اور عورت سے کہا کہ وہ سوار ہو جائے۔ جب وہ عورت سوار ہونے لگی تو اونٹنی بدک اٹھی۔
خاتون : وَمَا أَصَابَکُمْ مِنْ مُصِیبَةٍ فَبِمَا کَسَبَتْ أَیْدِیکُمْ۔ " تمہیں جو مصیبت پہنچتی ہے وہ تمہارے اپنے ہی ہاتھوں کی کمائی ہے " ﴿الشورىٰ : ٣٠﴾
یعنی بڑھیا نے حضرت عبداللہ بن مبارک کو امداد کے لئے کہا جسے وہ بخوبی سمجھ گئے کہ وہ اونٹنی کو کنٹرول کریں تاکہ وہ خاتون آسانی سے اس پر سوار ہوجائے
عبداللہ بن مبارک : تو آپ صبر کریں تاکہ میں اونٹنی کا گھٹنا باندھوں۔
وہ خاتون حضرت عبداللہ بن مبارکؒ کی ذہانت اور سمجھداری کی داد دیتے ہوئے کہنے لگی : فَفَھَّمْنَاھَا سُلَیْمَانَ۔ " ہم نے سلیمان کو وہ فیصلہ سمجھادیا "
﴿الانبیاء : ٧٩﴾
یعنی آپ بہت سمجھدار ہیں کہ بات سمجھ گئے ہیں
عبداللہ بن مبارک کہتے ہیں کہ پھر میں نے اونٹنی کا پاؤں باندھا اور اس خاتون سے سوار ہونے کو کہا۔ تو بوڑھی عورت نے سوار ہوتے ہوئے قرآن کی یہ دعاء پڑھی :سُبْحَٰنَ ﭐلَّذِى سَخَّرَ لَنَا ھَٰذَا وَمَا کُنَّا لَہُۥ مُقْرِنِینَ وَإِنَّآ إِلَىٰ رَبِّنَا لَمُنقَلِبُونَ۔ ﴿الزخرف : ١٣ ... ١٤﴾
عبداللہ بن مبارک نے کہا کہ میں نے اونٹنی کی مہار پکڑی اور تیزی سے چلنے لگا اور سیٹی جو اونٹ کو چلانے کے لئے بجائی جاتی ہے، بجانے لگا۔
خاتون : وَاقْصِدْ فِی مَشْیِکَ وَاغْضُضْ مِنْ صَوْتِکَ۔ " اپنی چال میں میانہ روی اختیار کرو اور اپنی آواز دھیمی رکھو " ﴿لقمان : ١٩﴾
عبداللہ بن مبارک آہست آہستہ چلنے لگے اور شعر پڑھنے شروع کئے۔
خاتون : فَاقْرَءُوا مَا تَیَسَّرَ مِنَ الْقُرْآنِ ۔ " پس قرآن پڑھو قرآن میں سےجتنا آسان ہو " ﴿ال۔مزمل : ٢٠﴾
یعنی شعر وغیرہ کی بجائے قرآن پڑھو
عبداللہ بن مبارک : میں نے کہا تجھے بہت زیادہ بھلائی عطا کی گئی ہے۔
خاتون : وَمَا یَذَّکَّرُ إِلَّا أُولُو الْأَلْبَابِ۔ " اور نہیں نصیحت پکڑتے مگر عقل والے "﴿البقرة : ٢٦٩﴾ ؛ ﴿ال عمران : ٧﴾
یعنی آپ بھی بہت ذہین اور سمجھدار ہیں
عبداللہ بن مبارک فرماتے ہیں کہ میں تھوڑا سا آگے چلا تو میں نے اس سے پوچھا کیا تیرا خاوند ہے؟
خاتون : یَا أَیُّھَا الَّذِینَ آمَنُواْ لاَ تَسْأَلُواْ عَنْ أَشْیَاء إِن تُبْدَ لَکُمْ تَسُؤْکُمْ۔
" اے ایمان والو ! ان اشیاء کے بارے میں سوال نہ کرو کہ اگر تم پر ظاہر کردی جائیں تو تمہیں تکلیف ہو "
﴿ال۔م۔ائدة : ١٠١﴾
یعنی اس کا خاوند زندہ نہیں تھا
عبداللہ بن مبارک فرماتے ہیں کہ پھر میں خاموش ہو گیا یہاں تک کہ میں قافلہ کو پا لیا تو میں نے اس عورت سے کہا کہ یہ قافلہ ہے۔ تیرا قافلے میں کوئی ہے؟
خاتون : الْمَالُ وَالْبَنُونَ زِینَةُ الْحَیَاةِ الدُّنْیَا۔ " مال اور اولاد دنیاوی زندگی کی زینت ہیں "﴿ال۔ک۔ھ۔ف : ٤٦﴾
یعنی قافلے میں میرے بیٹے اور مال ہے
عبداللہ بن مبارک فرماتے ہیں کہ مجھے معلوم ہوگیا کہ اس کے بیٹے ہیں تو میں نے پوچھا کہ ان کی پہچان کیا ہے؟
خاتون : وَعلاماتٍ وَ بالنَّجمِ ھم یَھتدونَ۔ " اور کچھ اور نشانیاں اور ستاروں سے بھی راستہ معلوم کرے ہیں " ﴿ال۔نح۔ل : ١٦﴾ یعنی وہ قافلہ کے رہبر یا گائیڈ ہیں
عبداللہ بن مبارک فرماتے ہیںکہ میں نے عمارات اور خیموں کا ارادہ کیا اور میں نے کہا یہ خیمے ہیں ان میں کون ہیں۔
یعنی تیرے بیٹوں کے نام کیا ہیں؟
تاکہ میں ان کو بلاؤں
خاتون : وَاتّخذ اللہُ اِبراھیمَ خلیلاً۔ وکلَّم اللہُ موسٰی تکلیماً۔ یا یحیٰ خذِالکتاب بقوۃٍ۔
" اللہ نے ابراہیم کو دوست بنایا؛ اور اللہ نے موسٰیؑ سےکلام کیا؛ اے یحیٰ ! کتاب کو قوت سے پکڑو "
یعنی اس کے بیٹوں کے نام ابراہیم، موسیٰ، یحیٰ ہیں
عبداللہ بن مبارک فرماتے ہیں کہ میں نے آواز دی : اے ابراہیم ! اے موسیٰ ! اے یحیٰ !
پھر چاند کی طرح کے نوجوان برآمد ہوئے۔
پھر جب ہم بیٹھ گئے تو بوڑھی عورت نے کہا : فَابعثُو اَحَدَکُم بِوَرِقکم ھٰذہٖ اِلی المدِینَۃِ فَلینظر اَیہا اِزکٰی طعاماً فلیأتکم برزقٍ مِنْہُ۔
" اپنے میں ایک کو اپنا سکہ دے کر اس شہر بھیجو اور اسے چاہیے کہ وہ دیکھے کہ کونسا کھانا زیادہ پاکیزہ ہے " ﴿ال۔ک۔ھ۔ف : ١٩﴾
یعنی بوڑھی عورت نے اپنے بیٹوں میں سے ایک کو بہترین کھانا لانے کا حکم دیا تو ان میں سے ایک لڑکا گیا اس نے کھانا خریدا اور وہ انہوں نے میرے سامنے پیش کیا۔
خاتون : کُلُوا وَاشْرَبُوا ھَنِیئًا بِمَا أَسْلَفْتُمْ فِی الأیَّامِ الْخَالِیَةِ۔
" ہنسی خوشی کھاؤ اس کے کام بدلے میں جو تم نے گزشتہ ایام میں کیا " ﴿ال۔حاق۔ة : ٢٤﴾
یعنی اس نے کا شکریہ ادا کرتے ہوئے ان کی مہمان نوازی کی
عبداللہ بن مبارک نے اس بوڑھی عورت کے لڑکوں سے کہا کہ مجھ پر تمہارا کھانا اس وقت تک حرام ہے جب تک تم مجھے اپنے معاملے کی خبر نہ بتاؤ۔ تو اس بڑھیا کے لڑکوں نے بتلایا کہ ہماری والدہ چالیس سال قرآن کی زبان میں ہی گفتگو کرتی ہیں؛ اس خوف کی وجہ سے کہ کہیں ان کے منہ سے کوئی غلط بات نہ نکل جائے جس سے اللہ ناراض ہو جائے۔ پس پاک وہ ذات جو قادر ہے ہر چیز پر۔
عبداللہ بن مبارک : ذَلِکَ فَضْلُ اللَّہِ یُؤْتِیہِ مَن یَشَاء وَاللَّہُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِیمِ۔
" اور یہ اللہ کا فضل ہے وہ جس کو چاہے عطا کرتا ہے اور اللہ بہت فضل والا ہےایک خاتون کا قصہ جو ہر بات کا جواب قرآن کی آیت سے دیتی تھیں۔
 

یاقوت

محفلین
ایک واقعہ پڑھا تھا کہ ایک خاتون قرآن پاک کے علاؤہ بات نہیں کرتی تھیں۔ بات کوئی بھی ہوتی، سوال کچھ بھی ہوتا، ان کا جواب قرآن پاک کی آیت یا آیات پہ مشتمل ہوتا۔
کسی کو وہ واقعی یاد ہو تو شریک کریں۔
جی یہ واقعہ ""بکھرے موتی"" میں ہے۔ڈھونڈنے کی کوشش کرتاہوں ملا تو ضرور پیش خدمت کروں گا۔
 

جاسمن

لائبریرین
موت بھی برداشت کر سکتا ہوں۔
جاوید چوہدری
7جولائی 2019 اتوار

حاجی حبیب 80 سال کے متحرک بزرگ ہیں‘ یہ حبیب رفیق گروپ کے سربراہ بھی ہیں اور پاکستان میں روس کے اعزازی قونصلر بھی‘ حاجی صاحب نے پوری زندگی حیات کے مختلف شیڈز بھی دیکھے اور بااثر اور عالم لوگوں کی صحبت میں بھی رہے لہٰذا یہ معلومات اور تجربات کا بہت بڑا خزانہ ہیں‘ یہ چند روز قبل اسلام آباد تشریف لائے اور مجھے ان کے ساتھ چند گھڑیاں گزارنے کا موقع ملا‘ یہ بار بار عبدالحمید عدم کے شعر بھی سناتے رہے اور اپنی زندگی کے تجربات بھی شیئر کرتے رہے۔

حاجی صاحب نے گفتگو کے دوران امریکا کے سابق صدر باراک حسین اوباما کے بارے میں ایک دل چسپ واقعہ سنایا‘ واقعہ کچھ یوں تھا‘ اوباما جوانی میں گھر سے سوٹ کیس لے کر اپنے ایک پاکستانی دوست صادق سے ملنے کے لیے نیویارک آئے‘ اوباما نے فون کیا‘ صادق نے بتایا میں جاب پر ہوں‘ آپ گھر کے سامنے بیٹھ جائیں‘ میںتھوڑی دیر میں آتا ہوں ‘ اوباما ساری رات سوٹ کیس فٹ پاتھ پر رکھ کر اس کے اوپر بیٹھے رہے‘ صادق صبح کے وقت آیا اور انھیں ناشتے کے لیے ریستوران لے گیا‘ یہ صدارتی الیکشن کا زمانہ تھا‘ اخبارات الیکشن کی خبروں سے بھرے ہوتے تھے۔

ریستوران کی میز پر اخبار پڑا تھا اور اخبار میں صدارتی امیدواروں کی تصویریں چھپی تھیں‘ اوباما نے اخبار اٹھا کر صادق سے کہا ’’میں سوچ رہا ہوں میں صدارتی الیکشن لڑوں اور امریکا کا پہلا سیاہ فام صدر بنوں‘‘ صادق نے قہقہہ لگایا اور جواب دیا ’’تم پہلے ناشتہ کر لو‘ صدارتی الیکشن کا فیصلہ ہم بعد میں کریں گے‘‘حاجی حبیب صاحب رکے اور پھر فرمایا ’’یہ خواہش 90ء کی دہائی میں دیوانے کا خواب تھی‘ کیوں؟
کیوں کہ باراک حسین اوباما غریب اور بے آسرا بھی تھے‘ سیاہ فام بھی اور ان کی رگوں میں مسلمان پروفیسر کا خون بھی تھاچناں چہ کہا جاتا تھا امریکی مر جائیں گے لیکن یہ کسی سیاہ فام کو صدر نہیں بنائیں گے لیکن آپ اللہ کی کرنی دیکھیے‘ اس واقعے کے15برس بعد باراک حسین اوباما امریکا کے صدر بن چکے تھے‘ ‘ حاجی صاحب رکے اور فرمایا ’’ہمیں ہر وقت اپنے بارے میں نیک اور اچھا سوچنا چاہیے‘ ہمیں کیا پتا اللہ تعالیٰ کس وقت ہماری کون سی خواہش سن لے اور ہماری کون سی مراد پوری ہو جائے‘‘۔

میں نے حاجی صاحب کی بات سے اتفاق کیا‘ ہماری زندگی میں روزانہ دو فیصلہ کن گھڑیاں آتی ہیں‘ پہلی نیک خواہشات کی قبولیت کی گھڑی ہوتی ہے اور دوسری بری خواہشات کی منظوری کا وقت‘ ہندوجوتشی پہلی گھڑی کو شبھ گھڑی اور دوسری کو منحوس گھڑی کہتے ہیں‘ ہندوجوتشی صدیوں سے لوگوں کی کنڈلیاں جوڑ کر شبھ اور منحوس گھڑیاں نکالتے آ رہے ہیں‘یہ لوگوں کو شبھ گھڑی میں اچھے اور نیک کاموں کا مشورہ دیتے ہیں اور منحوس گھڑی میں برے‘ ہندو آسٹرولوجسٹ صدیوں کی پریکٹس سے اس نتیجے پر بھی پہنچ گئے ہیں انسان کا سایہ جب سات فٹ لمبا ہو جاتا ہے تو وہ گھڑی اس کے لیے منحوس ہوتی ہے۔

یہ چند سیکنڈکا دور ہوتا ہے لیکن اس کے اثرات صدیوں تک چلتے ہیں‘ انسان قبولیت کی گھڑیوں میں منہ سے جو بھی لفظ نکالتا ہے وہ پورا ہو جاتا ہے‘ ہندوستان کے پرانے بادشاہوں نے اپنے دربار میں جوتشیوں کا پورا سکواڈ رکھا ہوتا تھا‘ یہ اسکواڈ روز ان کی شبھ اور منحوس گھڑیوں کا تعین کرتا تھا اور بادشاہ ان گھڑیوں میں بڑے فیصلے کرتے تھے‘ آسمانی مذاہب بھی اس فلاسفی کو مانتے ہیں‘ آپ بنی اسرائیل کی قدیم کتابیں پڑھ لیں‘ بائبل کا مطالعہ کر لیں یا پھر احادیث دیکھ لیں‘ آپ کو جگہ جگہ اچھے گمان کی تلقین ملے گی ’’ اچھا سوچو اور اچھا کہو‘ تم کسی کے بارے میں برا نہ چاہو اور تم اگر کسی کے بارے میں برا کہو گے تو وہ پلٹ کر تمہاری طرف آئے گا‘‘ وغیرہ وغیرہ‘ یہ کیا ہے؟

یہ منحوس اور شبھ گھڑیوں کی آسمانی تاویلیں ہیں‘ میرے استاد کہا کرتے تھے ‘ اللہ تعالیٰ نے کائنات میں سورج اور چاند کے اوقات کی طرح دعائوں اوربددعائوں کی ریکارڈنگ کا سسٹم بھی بنا رکھا ہے‘ یہ سسٹم وقت مقررہ پر چلتا ہے اور وقت مقررہ پر بند ہو جاتا ہے‘ ہم اس ریکارڈنگ سسٹم میں جو ریکارڈ کر دیتے ہیں وہ ریکارڈ ہو کر اللہ کی بارگاہ میں پہنچ جاتا ہے اور قدرت کے کارندے اس پر کام شروع کر دیتے ہیں‘ نماز اور نماز کے دوران دعا‘ مسلسل تسبیحات اور ان تسبیحات کے درمیان مسلسل دعائیں‘ ہر اچھی یا بری خبر پر کلمہ خیر اور لوگوں کو دیکھ اور سن کر اور ان کے ذکر پر اچھے الفاظ کی ادائیگی یہ سب قدرت کے اس نظام کی موجودگی کا ثبوت ہیں۔

ہمارے بزرگوں نے تجربات سے سیکھا انسان کو قدرت کے ریکارڈنگ سسٹم میں اچھی باتیں ریکارڈ کرانی چاہئیں‘انسان کو اچھے پھل ملیں گے اور ہم اگر برا سوچیں گے یا برا چاہیں گے تو ہمارے ساتھ برا ہو گا‘آپ کو اگر یقین نہ آئے تو آپ کسی بھی کامیاب شخص سے مل لیں‘ وہ آپ کو بتائے گا میں نے فلاں دن آسمان کی طرف دیکھ کراللہ سے یہ کامیابی مانگی تھی اور پھر اللہ تعالیٰ نے میرے لیے کامیابی کے راستے کھول دیے۔

آپ تازہ ترین مثال ملاحظہ کیجیے‘ 29 جون کوپاکستان افغانستان کے خلاف میچ ہار رہا تھا‘ گیندیں کم تھیں اور رنز زیادہ‘ افغانستان کے اسپنرز میچ پر حاوی تھے‘ پاکستان کے جس بیٹس مین نے بھی چھکا لگانے کی کوشش کی وہ اپنی وکٹ گنوا بیٹھا‘ وہاب ریاض نویں نمبرپر بیٹنگ کے لیے آئے‘ افغانستان کے بیسٹ بولر راشد خان بائولنگ کر رہے تھے‘ وہاب ریاض نے راشد خان کو پہلے چوکا لگایا اور پھر اس کے اگلے اوور میں اسے چھکا جڑ دیا ‘میچ پاکستان کے ہاتھ میں آگیا‘میچ کے بعد وقار یونس نے وہاب ریاض سے پوچھا‘ آپ بیٹنگ کے لیے جا رہے تھے تو بڑی نازک صورت حال تھی‘آپ کی انگلی بھی ٹوٹی ہوئی تھی‘ اس وقت آپ کے دماغ میں کیا چل رہا تھا۔

وہاب ریاض نے جواب دیا‘ جب میں بیٹنگ کے لیے میدان میں جا رہا تو میں نے آسمان کی طرف دیکھا اور کہا ‘یا اللہ میری عزت رکھنا اور اس نے میری عزت رکھ لی‘ سوال یہ ہے پاکستانی وہاب ریاض اور افغانی راشد خان دونوں مسلمان تھے‘ اللہ نے صرف وہاب ریاض کی عزت کیوں رکھی؟ کیوں کہ وہ قبولیت کی گھڑی تھی اور وہاب ریاض نے قبولیت کی اس گھڑی میں اللہ سے عزت مانگ لی تھی اور اللہ نے اسے عزت دے دی جب کہ راشد خان اس وقت گیند رگڑتا رہ گیا‘ آپ اسی طرح کسی دن ناکام‘ برباد اور ہزیمت کے شکار لوگوں کے بارے میں بھی ریسرچ کر لیں۔

آپ یہ دیکھ کر حیران رہ جائیں گے یہ لوگ آج جس صورت حال کا شکار ہیں یہ صورت حال کسی دن ان کے منہ سے نکلی تھی‘ یہ کسی دن اپنے منہ سے بولے تھے ’’جائو مجھے پکڑ لو‘ جائو مجھے پھانسی لگا دو‘ جائو مجھے جیل میں پھینک دو‘ جائو مجھے نکال دو یا پھر میں زمین پر بھی لیٹ لوں گا‘ میں فٹ پاتھ پر بھی بیٹھ جائوں گا اور میں پھانسی بھی چڑھ جائوں گا‘‘وغیرہ وغیرہ‘ یہ لوگ جس وقت یہ کہہ رہے تھے وہ منحوس گھڑی تھی‘ ان کی خواہش قدرت کے ریکارڈنگ سسٹم میں ریکارڈ ہوئی اور قدرت نے انھیں وہ دے دیا جس کی انھوں نے خواہش کی ‘ آپ کسی دن شریف فیملی کا مطالعہ بھی کر لیں‘ آپ ان کے پانچ برس کے پرانے بیانات نکال کر دیکھ لیں‘ آپ کو یہ لوگ اور ان کے ساتھی بار بار یہ کہتے ملیں گے ’’یہ ہمیں پکڑ لیں‘ یہ ہمیں جیلوں میں ڈال دیں‘ یہ ہمارا حساب لے لیں۔

یہ ہمیں پھانسی چڑھا دیں اور یہ ہماری تلاشی لے لیں‘‘وغیرہ وغیرہ اور آج کیا ہو رہا ہے‘ آج ان کی تلاشی بھی ہو رہی ہے‘ حساب بھی اور یہ جیلوں میں بھی ہیں‘ یہ کیا ہے؟ یہ منحوس گھڑیوں میں منحوس باتوں کا نتیجہ ہے‘ یہ قدرت کی پکڑ ہے‘ آپ کو آصف علی زرداری کے یہ الفاظ بھی یاد ہونگے ’’چیئرمین نیب کی کیا مجال ہے‘‘ اور یہ آج اس مجال کا شکار بن چکے ہیں‘ آپ کو خواجہ سعد رفیق کے لوہے کے چنے بھی یاد ہوں گے‘ یہ چنے بھی اس وقت قدرت کے دانتوں میںہیں اورمیں نے کل ٹیلی ویژن پر وزیراعظم عمران خان کو بھی یہ کہتے سنا ’’میں تو موت بھی برداشت کر سکتا ہوں‘‘ آپ یقین کیجیے میرے منہ سے توبہ توبہ نکل گئی اور میں نے ہاتھ اٹھا کر اللہ تعالیٰ سے ان کی زندگی کی دعا کی‘ مجھے محسوس ہوا یہ لفظ ہمارے وزیراعظم کی جان لے لیں گے ۔

کاش ہم جان سکیں ہمارے لفظ گولی ہوتے ہیں‘ یہ بم ہوتے ہیں‘ دنیا میں جس طرح گولیاں اور بم چلنے کے بعدواپس نہیں آتے لفظ بھی واپس نہیں آتے چنانچہ ہمیں بولتے ہوئے‘ منہ سے برے الفاظ نکالتے ہوئے دس مرتبہ سوچنا چاہیے‘ ہم کس وقت اپنے کس لفظ کا نشانہ بن جائیں‘ ہم نہیں جانتے‘ آپ کو یقین نہ آئے تو آپ تاریخ دیکھ لیں‘ جان ایف کینیڈی کھلی گاڑی میں بیٹھ جاتا تھااورکہتا تھا ’’کیا کوئی شخص دنیا کی سپر پاور کے صدر کو گولی مارے گا‘ یہ ہمت کون کریگا؟‘‘ اور پھر کیا ہوا‘ وہ کھلی گاڑی میں گولی کا نشانہ بن گیا‘ بھٹو صاحب اکثر اپنی تقریروں میں کہتے تھے’’مجھے چوک میں لٹکا دینا‘‘ اور پھر وہ پھانسی بھی لگے اور ان کا پھانسی گھاٹ چوک بھی بنا۔

حسنی مبارک کہتا تھا’’ پکڑ لو مجھے‘ ڈال دو مجھے جیل میں‘‘ اور پھر وہ پکڑے بھی گئے اور جیل میں بھی ڈالے گئے‘ صدام حسین کہتا تھا’’ مجھے لٹکا دینا‘‘ اور پھر وہ لٹکے اور کرنل قذافی کہتا تھا ’’میں اگر اپنی قوم کو سپر نیشن نہ بنا سکا تو میری لاش پر پیشاب کر دینا‘‘ اور پھر دنیا نے اس کی لاش بھی دیکھی اور لوگوں کو اس پر پیشاب کرتے بھی دیکھا اور آخری مثال‘ یہ واقعہ بینظیر بھٹو کی دیرینہ ساتھی ناہید خان نے کسی محفل میں سنایا تھا‘ ان کا کہنا تھا آصف علی زرداری کے دوست انھیں اہم پوزیشن پر دیکھنا چاہتے تھے‘ یہ لوگ میرے پاس آئے‘ میں نے ان کا پیغام بے نظیر بھٹو کو دیدیا‘ وہ اس وقت کسی ذہنی خلجان کا شکار تھیں‘ وہ چونک کر بولیں ’’اوور مائی ڈیڈ باڈی‘‘ میں خاموش ہو گئی لیکن اللہ کی کرنی دیکھئے۔

بینظیر بھٹو شہید ہو ئیں اور ان کی ڈیڈ باڈی پر زرداری صاحب پارٹی کے چیئرمین بھی بنے اور صدر بھی چنانچہ میری وزیراعظم اور ان کے ساتھیوں سے درخواست ہے‘ آپ منہ سے بات نکالنے سے پہلے دس مرتبہ سوچ لیا کریں‘ ہم کس وقت قبولیت کی گھڑی میں بیٹھے ہیں ہم نہیں جانتے‘اللہ ہمیں کب پکڑ لے !ہم یہ بھی نہیں جانتے‘ دنیا میں اگر فرعون اپنے لفظوں کے ہاتھوں سے ذلیل ہو سکتا ہے تو پھر ہم اور ہماری سلطنتیں کیا حیثیت رکھتی ہیں۔

صرف اللہ ہے اور اللہ کے سوا کچھ نہیں‘ اللہ کی زمین پر اگر سکھ سے رہنا چاہتے ہیں تو پھر اللہ سے ڈر کر رہیں‘ اللہ سے توبہ کرتے رہیں‘ دنیا اور آخرت دونوں میں بچ جائیں گے ورنہ تاریخ عبرت اور عبرت ناک کہانیوں کا خوف ناک قبرستان بھی ہے اور انسان خواہ سپرمین بھی ہو وہ موت کو برداشت نہیں کر سکتا‘ غرور صرف خدا کو سوٹ کرتا ہے‘ غرور نہ کریں‘ مارے جائیں گے۔
’’موت بھی برداشت کر سکتا ہوں‘‘ - ایکسپریس اردو
 

جاسمن

لائبریرین
مندرجہ بالا کالم کے بارے میں اوپر عرض کی تھی کہ جاوید چوہدری کا بھی ایک کالم ہے کچھ ملتے جلتے موضوع پہ ۔
 
Top