محمد عدنان اکبری نقیبی
لائبریرین
ہمارے رشتے، ہماری چاہتیں، ہماری نفرتیں اس لیے دیرپا ہوتی ہیں کیونکہ ہم انہیں الفاظ میں ریکارڈ کر لیتے ہیں۔ الفاظ ہی کے دم سے انسان کو خدا نے دوسری مخلوق پر ممتاز بنایا ہے. کسی کو دوست کہنے کے بعد ہم اس کی جفائے وفا نما کو برداشت کرتے ہیں۔ الفاظ ہمارے تعلقات کو استقامت بخشتے ہیں، ہمیں ماحول سے جوڑتے ہیں، رشتے سے منسلک کر دیتے ہیں۔ ہم رشتوں کو اس لیے بھی قائم رکھتے ہیں کہ ہم نے ان کو رشتہ کہہ دیا ہوتا ہے۔ یہاں کہہ دینا ہی ضروری ہوتا ہے۔
مزے کی بات تو یہ ہے کے الفاظ سے ہی قرآن پاک ہے، ان الفاظ کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ قرآن میں ردوبدل نہ ہونے کی ذمہ داری خود خدا نے لے رکھی ہے۔ قرآن کے الفاظ قرآن کے علاوہ استعمال ہوں تو قرآن نہیں۔ الفاظ خدا کے ہوں تو قرآن بنتا ہے۔ نبی کے الفاظ حدیث بنتے ہیں، بزرگانِ دین کے الفاظ ملفوظات بنتے ہیں۔ داناؤں کے الفاظ اقوال بنتے ہیں۔ غرض یہ کہ جتنی مقدس زبان سے ادا ہوں گے اتنے ہی الفاظ مقدس ہوں گے، اتنے ہی پُراثر ہوں گے۔ الفاظ دنیا ہیں اور کائنات ہیں۔
ہم الفاظ کی دنیا میں رہتے ہیں، الفاظ کے حصار میں بڑے ہوتے ہیں، الفاظ ہی ہمارا کردار بناتے ہیں۔ یہی الفاظ کانوں کے راستے دل پر اثرانداز ہوتے ہیں، اور خدا کا نظام دیکھیں اچھے الفاظ پر کچھ خرچ نہیں ہوتا لیکن اچھے الفاظ سے بہت کچھ حاصل ہوتا ہے کیونکہ یہی انسان کو پسندیدہ اور ناپسندیدہ بناتے ہیں۔ یہی ایک دوسرے کے انتہائی قریب اور دور کرنے کا بھی سبب ہوتے ہیں۔
ہر سماج اور ہر گروہ کے الفاظ الگ الگ روح رکھتے ہیں۔ آپ کسی کے بھی الفاظ سن کر یہ بتا سکتے ہیں کہ وہ کس پیشے سے تعلق رکھتا ہے۔ بازار میں بیٹھنے والے لوگ بازاری زبان ، دارالعلوم کے لوگ اور ہی زبان استعمال کرتے ہیں۔ علما کی زبان الگ ہے ، حکما کی زبان اور ہے ، استاد کی زبان اور جاہل کی زبان اور ، ڈرامے کی اور نثر کی زبان اور ۔
الفاظ بھی خاندان رکھتے ہیں ، قصیدے کے الفاظ اور ہوتے ہیں ، مرثیے کے الفاظ کچھ الگ ہیں ، تنقید کے ، تعریف کے کچھ اور ہیں۔ کسی بھی آدمی کے ذخیرہ الفاظ سے یہ معلوم کرنا آسان ہے کہ وہ آدمی کون سے علاقے کا رہنے والا ہے اور کون سے پیشے سے تعلق رکھتا ہے۔ الفاظ کی حرمت بولنے والے کے انداز اور لہجے کے دم سے ہے۔ ہم نے قوم ہونے کی حیثیت سے الفاظ کے استعمال پر غور کرنا چھوڑ دیا ہے۔ صرف سیلاب الفاظ کا موجود ہے۔ لاکھوں الفاظ اخبارات میں روز چھپتے ہیں۔
انسان کو انسان کے قریب لانے والے الفاظ گم ہوگئے ہیں، دلوں کو زخمی کرنے والے الفاظ عام ہیں۔ آج نہ جانے کیوں لوگوں کے پاس شکریہ ادا کرنے کے لیے نہ وقت ہے اور نہ ہی الفاظ۔ اپنی کوتاہی پر معذرت کرنے کی نہ جرات ہے اور نہ توفیق۔ اگر آج کسی مذہبی اور سیاسی اجتماع میں بولے جانے والے الفاظ کو غور سے سنا جائے تو معلوم ہوگا کہ ہم لوگ کہاں جا رہے ہیں۔ ہماری منزل کہاں ہے اور ہم اخلاق کے کس درجے ہر موجود ہیں۔
ہمارے تلخ الفاظ معاشرے کو تباہ کر رہے ہیں ، ہمیں میٹھا بول زندہ کرنا چاہیے ، زندہ رہو اور زندہ رہنے دو کے اصول کو اپنانا چاہیے ، الفاظ کا احترام ہی انسان کا احترام ہے ، اہم چیز یہ ہے کے ہم الفاظ کو کس طرح استعمال کر رہے ہیں۔
الفاظ کے صحیح استعمال کی توفیق نعمت ہے ، الفاظ سے ماحول کو خوش گوار بنانے کا کام لیا جائے تو بڑی بات ہے۔ خالی الفاظ نگلنے اور الفاظ اگلنے سے کوئی مسئلہ حل نہیں ہوتا۔ الفاظ سے ماحول کو روشن کیا جائے۔ الفاظ سے دلوں کو خوش کیا جائے۔ الفاظ حقیقت ہیں ، الفاظ امانت ہیں ، الفاظ دولت ہیں ، الفاظ طاقت ہیں ، انہیں ضائع نہ کیا جائے ، انہیں رائیگاں نہ کیا جائے۔
لنک
مزے کی بات تو یہ ہے کے الفاظ سے ہی قرآن پاک ہے، ان الفاظ کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ قرآن میں ردوبدل نہ ہونے کی ذمہ داری خود خدا نے لے رکھی ہے۔ قرآن کے الفاظ قرآن کے علاوہ استعمال ہوں تو قرآن نہیں۔ الفاظ خدا کے ہوں تو قرآن بنتا ہے۔ نبی کے الفاظ حدیث بنتے ہیں، بزرگانِ دین کے الفاظ ملفوظات بنتے ہیں۔ داناؤں کے الفاظ اقوال بنتے ہیں۔ غرض یہ کہ جتنی مقدس زبان سے ادا ہوں گے اتنے ہی الفاظ مقدس ہوں گے، اتنے ہی پُراثر ہوں گے۔ الفاظ دنیا ہیں اور کائنات ہیں۔
ہم الفاظ کی دنیا میں رہتے ہیں، الفاظ کے حصار میں بڑے ہوتے ہیں، الفاظ ہی ہمارا کردار بناتے ہیں۔ یہی الفاظ کانوں کے راستے دل پر اثرانداز ہوتے ہیں، اور خدا کا نظام دیکھیں اچھے الفاظ پر کچھ خرچ نہیں ہوتا لیکن اچھے الفاظ سے بہت کچھ حاصل ہوتا ہے کیونکہ یہی انسان کو پسندیدہ اور ناپسندیدہ بناتے ہیں۔ یہی ایک دوسرے کے انتہائی قریب اور دور کرنے کا بھی سبب ہوتے ہیں۔
ہر سماج اور ہر گروہ کے الفاظ الگ الگ روح رکھتے ہیں۔ آپ کسی کے بھی الفاظ سن کر یہ بتا سکتے ہیں کہ وہ کس پیشے سے تعلق رکھتا ہے۔ بازار میں بیٹھنے والے لوگ بازاری زبان ، دارالعلوم کے لوگ اور ہی زبان استعمال کرتے ہیں۔ علما کی زبان الگ ہے ، حکما کی زبان اور ہے ، استاد کی زبان اور جاہل کی زبان اور ، ڈرامے کی اور نثر کی زبان اور ۔
الفاظ بھی خاندان رکھتے ہیں ، قصیدے کے الفاظ اور ہوتے ہیں ، مرثیے کے الفاظ کچھ الگ ہیں ، تنقید کے ، تعریف کے کچھ اور ہیں۔ کسی بھی آدمی کے ذخیرہ الفاظ سے یہ معلوم کرنا آسان ہے کہ وہ آدمی کون سے علاقے کا رہنے والا ہے اور کون سے پیشے سے تعلق رکھتا ہے۔ الفاظ کی حرمت بولنے والے کے انداز اور لہجے کے دم سے ہے۔ ہم نے قوم ہونے کی حیثیت سے الفاظ کے استعمال پر غور کرنا چھوڑ دیا ہے۔ صرف سیلاب الفاظ کا موجود ہے۔ لاکھوں الفاظ اخبارات میں روز چھپتے ہیں۔
انسان کو انسان کے قریب لانے والے الفاظ گم ہوگئے ہیں، دلوں کو زخمی کرنے والے الفاظ عام ہیں۔ آج نہ جانے کیوں لوگوں کے پاس شکریہ ادا کرنے کے لیے نہ وقت ہے اور نہ ہی الفاظ۔ اپنی کوتاہی پر معذرت کرنے کی نہ جرات ہے اور نہ توفیق۔ اگر آج کسی مذہبی اور سیاسی اجتماع میں بولے جانے والے الفاظ کو غور سے سنا جائے تو معلوم ہوگا کہ ہم لوگ کہاں جا رہے ہیں۔ ہماری منزل کہاں ہے اور ہم اخلاق کے کس درجے ہر موجود ہیں۔
ہمارے تلخ الفاظ معاشرے کو تباہ کر رہے ہیں ، ہمیں میٹھا بول زندہ کرنا چاہیے ، زندہ رہو اور زندہ رہنے دو کے اصول کو اپنانا چاہیے ، الفاظ کا احترام ہی انسان کا احترام ہے ، اہم چیز یہ ہے کے ہم الفاظ کو کس طرح استعمال کر رہے ہیں۔
الفاظ کے صحیح استعمال کی توفیق نعمت ہے ، الفاظ سے ماحول کو خوش گوار بنانے کا کام لیا جائے تو بڑی بات ہے۔ خالی الفاظ نگلنے اور الفاظ اگلنے سے کوئی مسئلہ حل نہیں ہوتا۔ الفاظ سے ماحول کو روشن کیا جائے۔ الفاظ سے دلوں کو خوش کیا جائے۔ الفاظ حقیقت ہیں ، الفاظ امانت ہیں ، الفاظ دولت ہیں ، الفاظ طاقت ہیں ، انہیں ضائع نہ کیا جائے ، انہیں رائیگاں نہ کیا جائے۔
لنک