عثمان غازی
محفلین
الفاظ امر ہیں، یہ حساس ہوتے ہیں، ان کونازک آبگینے کی طرح نہ برتا جائے تو یہ روٹھ جاتے ہیں اور جس سے الفاظ روٹھ جائیں اس کی ناکامی باعث عبرت ہوتی ہے، جس شخص میں لفظوں کو برتنے جیسی خوبی نہ ہو اسے اپنی دیگر خوبیاں دکھانے کا موقع بھی نہیں ملتا
اظہار کا ہر عمل لفظ سے وابستہ ہے، الفاظ ساتھ دیں گے تو انسان بولے گا، الفاظ ساتھ دیں گے تو تحریروجود میں آئے گی، آواز ہو یا عبارت ۔ ۔ سب الفاظ ہیں، الفاظ اگر صحیح طور برتے جائیں تو یہ مخاطب کو اپنے سحر میں جکڑ لیتے ہیں
یہ دنیا الفاظ کی دنیا ہے، حسن بھی لفظوں کا محتاج ہے، بڑے بڑے حسین خاک میں مل گئے اور کالے رنگ اور موٹی ناک والی لیلٰی کو مجنوں کے عشق میں لکھے گئے لفظوں نے امرکردیا
الیکٹرانک میڈیا کے آنے کے بعد اکثر احباب کا دعوٰی تھاکہ اب لفظوں کی اجارہ داری ختم ہوگئی، یہ تصویر کی دنیا ہے مگر تصویر بھی لفظوں کی تشریح کی محتاج ہوتی ہے، الفاظ نہ ہوں تو یہ دنیا بے رنگ ہے، الفاظ نہ ہوں تو کائنات گونگی ہو جائے، یہ الفاظ ہی ہیں جنہوں نے ماضی کو حال سے جوڑ رکھا ہے، جو مستقبل کی تعمیر کرتے ہیں، ارادہ بن کر دلوں میں پلنے والے عزائم کا پہلا قدم اظہار ہوتا ہے اور اظہار لفظوں کی زنبیل میں سے ہی نکلا ہوا ایک سپاہی ہے جو فتح کرنے کا ہنردیتا ہے
جس طرح دنیامیں اچھے اور برے انسان بستے ہیں، اسی طرح لفظوں میں بھی خیر اور شر کا پہلو ہے، بنیادی طور پر لفظ خود منفی صفت نہیں رکھتے تاہم ان کا غلط استعمال مہلک ثابت ہوسکتا ہے چناچہ یہ مشاہدے میں آیا ہے کہ منفی الفاظ کا کثرت سے استعمال کرنے والے اکثر مسائل سے ہی دوچار رہتے ہیں، یہاں تک کے بیماریاں ان کو گھیر لیتی ہیں، مصیبتیں ان کے درکو اپنا ٹھکانا بنا لیتی ہیں
قرآن میں ہے کہ پس تم جیسا گمان کرو گے، ویسا تمھے اس کا صلہ ملے گا، یہ گمان، ارادے، عزم اور ان جیسے دیگر رویے ہمارے اندر کے الفاظ ہوتے ہیں، ان لفظوں کے ادا کرنے والے بھی ہم ہوتے ہیں اور ان کے مخاطب بھی ہم خود ہوتےہیں، ہم جیسے الفاظ خود سے بولیں گے، ہماری دنیا بھی ویسے ہی ہوگی
اکثرایسا ہوتا ہے کہ کسی کی زبان سے نازیبا کلمات سن کرہمارے تن بدن میں آگ لگ جاتی ہے یا کسی کی تعریف سن کر کان کی لوئیں تک سرخ جاتی ہیں، دراصل الفاظ نہ صرف ہمارے ذہنوں پر اثرانداز ہوتےہیں بلکہ ہماری جسمانی کیفیات پر بھی ان کا گہرا اثرہوتا ہے
الفاظ انسان کے گرد ہالا بنالیتے ہیں، کسی انسان کی سچائی اور اس کا فریب اکثرہمیں محسوس ہوجاتا ہے، دراصل یہ وہی ہالہ ہے جو ہمیں کسی کی خصلت یا صفت کے بارے میں اشارہ دے رہا ہوتا ہے
کچھ عرصہ قبل ایک تحقیق نظر سے گزری کہ آوازکبھی نہیں مرتی، یہ ہمیشہ زندہ رہتی ہے، دنیا میں اب تک کے آنے والے انسانوں کی آواز یہیں اسی کائنات میں ہے، اس تحقیق میں بتایا گیا تھا کہ سائنس دان اس بات کی کوشش کررہے ہیں کہ اربوں سال قبل کی کسی آواز کو ریکارڈ کرلیں اور آواز لفظوں کی ادائیگی کا ہی تو ایک ذریعہ ہے اور یہ تحقیق اس بات کا ثبوت ہے کہ الفاظ امر ہوتے ہیں
ایک عمومی تاثریہ ہے کہ لفظوں کو برتنا شاید شاعروں اور ادیبوں کا ہی کام ہے، ایسا نہیں ہے، ہماراسب سے زیادہ واسطہ ہی لفظوں سے پڑتا ہے، اگر ہم لفظوں کا درست استعمال نہ کریں تو لفظ تازیانے بن کرہمارے اوپر ہی برستے ہیں، یہ ہمارا گھیراؤکرلیتے ہیں، ان سے دشمنی بدترین غلطی ہے
خدا اور انسان کے درمیان الفاظ ایک پل کا کردار ادا کرتے ہیں، یہ دنیا کی سب سے مقدس ترین شے ہیں، لفظ سچ بن کر بھی اداہوتے ہیں اور جھوٹ بن کربھی ۔ ۔ ۔ ۔ یہ محبت کا اظہار بھی بنتے ہیں اور نفرت کا بھی ۔ ۔ ۔ لفظ میٹھے بھی ہوتے ہیں، کڑوے بھی، یہ زہریلے بھی ہوتے ہیں اور تلخ بھی ۔ ۔ ۔ ان کے اندر ہر ذائقہ ہے، یہ ہر رنگ میں دستیاب ہیں، کس وقت کس نوع کا انتخاب کیا جارہا ہے، یہ بہت اہم ہے، سامنے دشمن ہو تو تلخ لفظ کارگرہوتے ہیں، دوست ہو تو میٹھے خوان کا انتخاب کیا جاتا ہے، اگراس کے برعکس کرلیا جائے تو معاملہ بگڑ جاتا ہے
لفظوں کی ایک سلطنت ہے، اس راجدھانی کا بادشاہ انسان خود ہے، اگربادشاہ شاہ گری کے ہنر سے صحیح واقف ہو تو وہ راج کرتا ہے ورنہ یہ رعایا اپنے بادشاہ کو زیرکرلیتی ہے، پھربس افراتفری ہوتی ہے
ازقلم: عثمان غازی
اظہار کا ہر عمل لفظ سے وابستہ ہے، الفاظ ساتھ دیں گے تو انسان بولے گا، الفاظ ساتھ دیں گے تو تحریروجود میں آئے گی، آواز ہو یا عبارت ۔ ۔ سب الفاظ ہیں، الفاظ اگر صحیح طور برتے جائیں تو یہ مخاطب کو اپنے سحر میں جکڑ لیتے ہیں
یہ دنیا الفاظ کی دنیا ہے، حسن بھی لفظوں کا محتاج ہے، بڑے بڑے حسین خاک میں مل گئے اور کالے رنگ اور موٹی ناک والی لیلٰی کو مجنوں کے عشق میں لکھے گئے لفظوں نے امرکردیا
الیکٹرانک میڈیا کے آنے کے بعد اکثر احباب کا دعوٰی تھاکہ اب لفظوں کی اجارہ داری ختم ہوگئی، یہ تصویر کی دنیا ہے مگر تصویر بھی لفظوں کی تشریح کی محتاج ہوتی ہے، الفاظ نہ ہوں تو یہ دنیا بے رنگ ہے، الفاظ نہ ہوں تو کائنات گونگی ہو جائے، یہ الفاظ ہی ہیں جنہوں نے ماضی کو حال سے جوڑ رکھا ہے، جو مستقبل کی تعمیر کرتے ہیں، ارادہ بن کر دلوں میں پلنے والے عزائم کا پہلا قدم اظہار ہوتا ہے اور اظہار لفظوں کی زنبیل میں سے ہی نکلا ہوا ایک سپاہی ہے جو فتح کرنے کا ہنردیتا ہے
جس طرح دنیامیں اچھے اور برے انسان بستے ہیں، اسی طرح لفظوں میں بھی خیر اور شر کا پہلو ہے، بنیادی طور پر لفظ خود منفی صفت نہیں رکھتے تاہم ان کا غلط استعمال مہلک ثابت ہوسکتا ہے چناچہ یہ مشاہدے میں آیا ہے کہ منفی الفاظ کا کثرت سے استعمال کرنے والے اکثر مسائل سے ہی دوچار رہتے ہیں، یہاں تک کے بیماریاں ان کو گھیر لیتی ہیں، مصیبتیں ان کے درکو اپنا ٹھکانا بنا لیتی ہیں
قرآن میں ہے کہ پس تم جیسا گمان کرو گے، ویسا تمھے اس کا صلہ ملے گا، یہ گمان، ارادے، عزم اور ان جیسے دیگر رویے ہمارے اندر کے الفاظ ہوتے ہیں، ان لفظوں کے ادا کرنے والے بھی ہم ہوتے ہیں اور ان کے مخاطب بھی ہم خود ہوتےہیں، ہم جیسے الفاظ خود سے بولیں گے، ہماری دنیا بھی ویسے ہی ہوگی
اکثرایسا ہوتا ہے کہ کسی کی زبان سے نازیبا کلمات سن کرہمارے تن بدن میں آگ لگ جاتی ہے یا کسی کی تعریف سن کر کان کی لوئیں تک سرخ جاتی ہیں، دراصل الفاظ نہ صرف ہمارے ذہنوں پر اثرانداز ہوتےہیں بلکہ ہماری جسمانی کیفیات پر بھی ان کا گہرا اثرہوتا ہے
الفاظ انسان کے گرد ہالا بنالیتے ہیں، کسی انسان کی سچائی اور اس کا فریب اکثرہمیں محسوس ہوجاتا ہے، دراصل یہ وہی ہالہ ہے جو ہمیں کسی کی خصلت یا صفت کے بارے میں اشارہ دے رہا ہوتا ہے
کچھ عرصہ قبل ایک تحقیق نظر سے گزری کہ آوازکبھی نہیں مرتی، یہ ہمیشہ زندہ رہتی ہے، دنیا میں اب تک کے آنے والے انسانوں کی آواز یہیں اسی کائنات میں ہے، اس تحقیق میں بتایا گیا تھا کہ سائنس دان اس بات کی کوشش کررہے ہیں کہ اربوں سال قبل کی کسی آواز کو ریکارڈ کرلیں اور آواز لفظوں کی ادائیگی کا ہی تو ایک ذریعہ ہے اور یہ تحقیق اس بات کا ثبوت ہے کہ الفاظ امر ہوتے ہیں
ایک عمومی تاثریہ ہے کہ لفظوں کو برتنا شاید شاعروں اور ادیبوں کا ہی کام ہے، ایسا نہیں ہے، ہماراسب سے زیادہ واسطہ ہی لفظوں سے پڑتا ہے، اگر ہم لفظوں کا درست استعمال نہ کریں تو لفظ تازیانے بن کرہمارے اوپر ہی برستے ہیں، یہ ہمارا گھیراؤکرلیتے ہیں، ان سے دشمنی بدترین غلطی ہے
خدا اور انسان کے درمیان الفاظ ایک پل کا کردار ادا کرتے ہیں، یہ دنیا کی سب سے مقدس ترین شے ہیں، لفظ سچ بن کر بھی اداہوتے ہیں اور جھوٹ بن کربھی ۔ ۔ ۔ ۔ یہ محبت کا اظہار بھی بنتے ہیں اور نفرت کا بھی ۔ ۔ ۔ لفظ میٹھے بھی ہوتے ہیں، کڑوے بھی، یہ زہریلے بھی ہوتے ہیں اور تلخ بھی ۔ ۔ ۔ ان کے اندر ہر ذائقہ ہے، یہ ہر رنگ میں دستیاب ہیں، کس وقت کس نوع کا انتخاب کیا جارہا ہے، یہ بہت اہم ہے، سامنے دشمن ہو تو تلخ لفظ کارگرہوتے ہیں، دوست ہو تو میٹھے خوان کا انتخاب کیا جاتا ہے، اگراس کے برعکس کرلیا جائے تو معاملہ بگڑ جاتا ہے
لفظوں کی ایک سلطنت ہے، اس راجدھانی کا بادشاہ انسان خود ہے، اگربادشاہ شاہ گری کے ہنر سے صحیح واقف ہو تو وہ راج کرتا ہے ورنہ یہ رعایا اپنے بادشاہ کو زیرکرلیتی ہے، پھربس افراتفری ہوتی ہے
ازقلم: عثمان غازی