کاشفی
محفلین
غزل
ڈاکٹر جاوید جمیل
الفت میں بھول جائیں وہ لیل و نہار کاش
طاری اسی طرح رہے ان پر خمار کاش
محبوب کی شرارتیں محبوب ہیں مگر
معصومیت کا جز بھی رہے برقرار کاش
آتا ہے جیسے پیار مجھے ان پہ بار بار
ایسے ہی مجھ پہ آنے لگے انکو پیار کاش
آؤں کبھی میں پہلے، کبھی پہلے آئیں وہ
دونوں پہ گزرے کیفیتِ انتظار کاش
آئے کبھی خزاں تو ذرا دیر کے لئے
اور جھٹ سے لوٹ آئے پلٹ کر بہار کاش
آتی ہیں بدگمانیاں جانے کے ہی لئے
لوٹ آئے آپسی وہی پھر اعتبار کاش
نیت وہی ہو دل کی جو ہونٹوں پہ بات ہے
نکلے نہ انکی بات فقط اشتہار کاش
ہو جائے انکی جان پہ کاش آج دل سوار
جذبات پر رہے نہ انھیں اختیار کاش
مقصد پتہ نہیں جنھیں ملتا انہیں کو ہے
جن کو خبر ہے انکو ملے اقتدار کاش
جاوید رنگ اور ترا، انکا رنگ اور
رنگوں کا امتزاج رہے برقرار کاش
ڈاکٹر جاوید جمیل
الفت میں بھول جائیں وہ لیل و نہار کاش
طاری اسی طرح رہے ان پر خمار کاش
محبوب کی شرارتیں محبوب ہیں مگر
معصومیت کا جز بھی رہے برقرار کاش
آتا ہے جیسے پیار مجھے ان پہ بار بار
ایسے ہی مجھ پہ آنے لگے انکو پیار کاش
آؤں کبھی میں پہلے، کبھی پہلے آئیں وہ
دونوں پہ گزرے کیفیتِ انتظار کاش
آئے کبھی خزاں تو ذرا دیر کے لئے
اور جھٹ سے لوٹ آئے پلٹ کر بہار کاش
آتی ہیں بدگمانیاں جانے کے ہی لئے
لوٹ آئے آپسی وہی پھر اعتبار کاش
نیت وہی ہو دل کی جو ہونٹوں پہ بات ہے
نکلے نہ انکی بات فقط اشتہار کاش
ہو جائے انکی جان پہ کاش آج دل سوار
جذبات پر رہے نہ انھیں اختیار کاش
مقصد پتہ نہیں جنھیں ملتا انہیں کو ہے
جن کو خبر ہے انکو ملے اقتدار کاش
جاوید رنگ اور ترا، انکا رنگ اور
رنگوں کا امتزاج رہے برقرار کاش