الفوز الکبیر فی اصول التفسیر

الف نظامی

لائبریرین
الفوز الکبیر فی اصول التفسیر​
از شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ
باب سوم ، فصل دوم
جیسا کہ قصائد اشعار پر منقسم ہوتے ہیں ایسے ہی اکثر سورتوں میں سنت اللہ یوں جاری ہے کہ وہ آیات پر منقسم ہوتی ہیں مگر آیات اور اشعار میں فرق ہے۔ آیات اور ابیات دونوں جو از قسم نشید ہیں ، متکلم اور سامع کے التذاذ نفس اور حظ طبعی کے لئے انشاء کی جاتی ہیں۔لیکن ابیات عروض و قافیہ کی پابند ہوتی ہیں جن کو خلیل نحوی نے مدون کیا ہے اور عام شعراء نےانہیں اسی سے حاصل کیا ہے اور آیات کی بنیاد ایک ایسے اجمالی وزن و قافیہ پر ہوتی ہے جو امر طبعی سے زیادہ تر مشابہ ہے اور عروضیوں کے افاعیل تفاعیل اور ان کے معین کردہ قوافی پر نہیں ہوتے جو محض مصنوعی اور اصطلاحی امور ہیں۔ اور اس امر عام کی تنقیح جو آیات اور ابیات میں مشترک ہے اور جس کو ہم نے نشید سے تعبیر کیا ہے اور پھر ان تمام امور کو ضبط کرنا جن کا آیات میں التزام کیا گیا ہے اور جو بمنزلہ فصل کے ہے زیادہ تفصیل چاہتا ہے۔ واللہ ولی التوفیق
تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ فطرت سلیم موزوں اور مقفی قصائد اور نفیس رجزوں وغیرہ سے ایک خاص لطف اور خاص ذوق و حلاوت کا احساس کرتی ہے اگر اس احساس کے سبب کی جستجو کی جائے تو معلوم ہوگا کہ ایسا کلام جس کے اجزا باہم موافقت رکھتے ہوں ، مخاطب کے نفس میں ایک قسم کی لذت دیتا اور اس کے مثل دوسرے کلام کا انتظار اس کے دل میں پیدا کردیتا ہے اور جب اس کے بعد دوسرا شعر اسی موافقت اجزا کے ساتھ مخاطب کے نفس پر واقع ہوتا ہے اور جس چیز کا انتظار تھا وہ موجود ہوجاتی ہے تو وہ لذت سابق دوبالا ہوجاتی ہے اور اگر وہ دونوں بیت قافیہ میں بھی شریک ہوں تو وہ لذت سہ چند ہوجاتی ہے۔ پس انسان کی قدیم فطرت کا یہی راز ہے جس کی بنا پر اس کو اشعار سے لذت حاصل ہوتی ہے اور معتدل اقالیم کے تمام سلیم المزاج اشخاص اس اصول میں باہم متفق ہیں لیکن ہر بیت کے اجزا کے موافق اور قافیہ کے شرائط کی نسبت جو اشعار میں مشترک ہوتا ہے ، ان کے مسلک باہم مختلف اور ان کی عادات متبائن ہوگئے ہیں۔ اہل عرب ایک خاص قانون رکھتے ہیں جس کی تشریخ خلیل نے کی ہے اور ہندوں کے ہاں دوسرا طریقہ ہے جو ان کے سلیقے اور مزاج کے تابع ہے۔ علی ہذا القیاس ہر زمانے کے لوگوں نے ایک خاص وضع اختیار کی اور ایک خاص شاہراہ قائم کرکے اس پر چلے ہیں۔ اگر ہم ان متبائن عادات اور مختلف رسوم میں امر جامع اور سر مشترک کی دریافت کرنا چاہیں تو معلوم ہوگا کہ وہ اجزائے کلام میں تخمینی موافقت و مناسبت کے سوا کوئی دوسری شے نہیں ہے۔ مثلا عرب مستفعلن کی جگہ مفاعلن اور مفتعلن لے آتے ہیں اور فاعلاتن کے بجائے فعلاتن اور فاعلتن کو لانا باقاعدہ خیال کرتے ہیں اور وہ ایک بیت کی ضرب کی موافقت دوسری بیت کی ضرب کے ساتھ اور ایک کے عروض کی دوسری بیت کے عروض کے ساتھ ضروری خیال کرتے ہیں اور حشو میں بکثرت زحافات تجویز کرتے ہیں۔ مگر شعرا فارس کے نزدیک زحافات مکروہ اور قبیح سمجھے جاتے ہیں۔ علی ہذا شعراء عرب حاصل و داخل و نازل کو ایک ہی قسم شمار کرتے ہیں بخلاف شعراء عجم کے وہ ان الفاظ کو ایک قسم شمار نہیں کرتے۔ ایک کلمہ کادونوں مصرعوں کے درمیان اس طرح واقع ہونا کہ وہ آدھا اول مصرع میں اور آدھا دوسرے میں شامل ہو عربوں کے نزدیک صحیح ہے مگر شعراء عجم اس کو جائز نہیں رکھتے۔ غرضیکہ ان تمام مذاہب میں امر مشترک جس سے نفس کو التذاذ ہوتا ہے وہ تخمینی موافقت الفاظ ہے نہ کہ حقیقی۔ دیکھو باوجود یہ کہ ہنود نے اپنے اشعار کے اوزان کی بنیاد حرفوں کی تعداد پر رکھی ہے اور ان کے یہاں حرکات و سکنات کا لحاظ اوزان میں نہیں کیا جاتا۔ مگر تاہم اس سے لذت حاصل ہوتی ہے۔ ہم نے بعد دیہاتیوں کے راگ سنے ہیں جن کو وہ حصول لذت کے لئے گاتے ہیں وہ ایک ایسا کلام ہے جس کے اجزا میں تخمینی موافقت ہوتی ہے یا ردیف ہوتی ہے جو کبھی ایک کلمہ اور کبھی زیادہ کلمات سے مرکب ہوتی ہے وہ اس کلام کو مثل قصائد کے گاتے اور اس سے لطف حاصل کرتے ہیں۔ غرض کہ ہر ایک قوم کا اپنی نظم کے متعلق ایک خاص قانون ہے۔ علی ہذا القیاس تمام اقوام دلکش آوازوں اور دلفریب نغمات سے لذت پانے میں متفق ہیں مگر گانے کے طریقہ اور اس کے قواعد میں وہ باہم اختلاف رکھتی ہیں۔ یونانیوں نے کچھ اوزان مقرر کئے ہیں جن کو وہ مقامات کے نام سے موسوم کرتے ہیں اور ان مقامات سے آوازیں اور شعبے نکال کر انہوں نے ایک نہایت ہی مبسوط اور مفصل فن اپنے لئے منضبط کیا ہے۔ اہل ہند نے چھ راگ بنائے اور ان سے راگنیاں نکالی ہیں۔ ہم نے اہل دیہات کو دیکھا ہے جو ان دونوں اصطلاحوں سے بیگانہ ہیں، انہوں نے اپنے سلیقہ اور ذوق کے موافق ایک خاص ترکیب اور خاص تال ایجاد کرکے چند اوزان کلیات کے انضباط اور جزئیات کے انحصار کئے بغیر مرتب کرلئے ہیں جن سے وہ اپنی محفلوں کو گرماتے اور لذت پاتے ہیں۔
پس جب ہم ان اختلافات کو دیکھتے ہیں اور غور و فکر سے کام لیتے ہیں تو امر مشترک بجز موافقت تخمینی کے اور کوئی شے نہیں نکل سکتی۔ عقل کی نظر صرف اس اجمالی امر پر ہے اور تفصیل سے اس کو کوئی بحث نہیں۔ اور ذوق سلیم کی محبت فقط اس خالص حلاوت کے ساتھ ہے اور بحر طویل اور مدید سے اس کو غرض نہیں۔
خداوند جل و علی شانہ نے جب اس مشت خاک انسان سے ہمکلام ہونا چاہا تو اس نے اسی اجمالی حسن کی رعایت فرمائی ، نہ ان مصطلحہ قواعد کی جن کو ہر ایک قوم پسند کرتی اور دوسری ناپسند کرتی ہے اور خداوند مالک الملک نے جب چاہا کہ آدمیوں کی روش پر کلام فرمائے تو اس نے صرف اسی اصل بسیط کو اپنے کلام میں منضبط فرمایا ، نہ ان قوانین کو جو کہ زمانہ اور مذاق کے بدل جانے پر ہمیشہ بدلتے رہتے ہیں۔ فی الحقیقت اصطلاحی قوانین کی پابندی عجز اور جہل کی دلیل ہے اور حسن احمالی کی ایسی پابندی کہ وہ کلام کی ہر حالت اور بیان کے ہر ایک نشیب و فراز میں جلوہ گر رہے بغیر استعمال قواعد مصطلحہ کے بے شک اعجاز اور بشری حد اختیار سے خارج ہے۔ خداوند تعالی نے اسی طریقہ کا استعمال فرمایا ہے اس سے ہم ایک قاعدہ کا استنباط کرتے ہیں اور وہ قاعدہ یہ ہے کہ خدا تعالی نے اکثر سورتوں میں آواز کی کشش کا اعتبار کیا ہے نہ کہ بحر طویل و مدید وغیرہ کا۔ اور فاصلوں میں سانس کا ٹھہرنا حرف مدہ پر یا جس پر مدہ ٹھہرے اس کا اعتبار کیا ہے نہ کہ فن قوافی کے قواعد کا۔ یہ کلیہ نہایت بسط چاہتا ہے تم کو اس میں سے تھوڑا بہت سن لینا چاہیے۔
نرخرے میں سانس کی آمد و رفت انسان کے لئے ایک جبلی بات ہے۔ گو سانس کی درازی اور کوتاہی ایک حد تک آدمی کے اختیار میں ہے لیکن اگر اس کو اپنی طبیعت پر چھوڑ دیا جائے تو اس وقت اس کا ایک خاص طول ہوگا۔ سانس کے اول بار لینے میں ایک نشاط و فرحت حاصل ہوتی ہے اور وہ آہستہ آہستہ زائل ہونی شروع ہوتی ہے حتی کہ بالکل زائل ہوجاتی ہے اور دوسرے تازہ سانس لینے کی ضرورت پڑتی ہے۔ سانس کی یہ درازی مبہم حدود سے محدود اور ایک ایسی منتشر مقدار کے ساتھ معین ہے کہ اگر دو تین کلموں یا اس کی امتداد خاص کی تہائی یا چوتھائی مقدار کی کمی بیشی اس مقدار سے باہر نہیں کر دیتی اور اس میں اوتاد اور اسباب کی تعداد میں بھی فرق کی اجازت ہے اور نیز بعض ارکان کے تقدیم کی بھی گنجائش ہے۔ پس سانس کے اسی امتداد کو خدا تعالی نے وزن قرار دیا اور اس کی تین قسمیں کیں۔ طویل اور متوسط اور قصیر۔
طویل کی مثال سورہ نسا
اور متوسط کی مثال سورہ اعراف و انعام
اور قصیر کی مثال سورہ شعراء اور دخان ہیں
اور سانس کا اختتام ایسے حروف مدہ پر رکھا گیا ہے جس کا اعتماد کسی حرف پر ہو۔ یہ ایک وسیع قافیہ ہے جس کا طبیعت ادراک کرتی اور اس کی تکرار سے متلذذ ہوتی ہے اگرچہ وہ حرف مدہ کہیں الف اور کہیں واو اور کہیں ی ہوتا ہے اور گو وہ حروف اخیر کسی جگہ ی ہوتا ہے اور کہیں ج یا ق۔اس قاعدہ کی رو سے یعلمون اور مومنین اور مستقیم باہم موافق ہیں اور خروج اور مریج اور تحید اور تبار و فواق و عجائب سب باقاعدہ۔ علی ہذا حرف الف کا آخر کلام میں آنا بھی ایک وسیع قافیہ ہے جس کا احاطہ پوری حلاوت بخشتا ہے اگرچہ حرف روی مختلف ہو۔ دیکھو حضرت حق تعالی ایک جگہ کریما اور دوسری جگہ حدیثا اور تیسرے مقام پر بصیرا فرماتے ہیں ، اگر حرف روی کی موافقت کا الزام اس موقع پر کیا جائے تو گویا خود کو ایک غیر لازمی شے کا پابند بنانا ہے جیسا کہ سورہ مریم اور سورہ فرقان کے ابتدا میں واقع ہوا ہے۔ علی ہذا آیات کا اتحاد ایک حرف پر مثلا میم سورہ قتال میں اور نون سورہ رحمن میں حلاوت بخشتا ہے۔ علی ہذا ایک مخصوص جملہ کو کلام کے درمیان بار بار لانا ہی لذت پیدا کرتا ہے جیسا کہ سورہ شعراء ، سورہ قمر اور سورہ رحمن و مرسلات میں واقع ہے۔ اور کبھی ذہن سامع کی نشاط اور اس کلام کی لطافت کی جانب اشارہ کرنے کے لئے سورتوں کے آخری فواصل اول سے مختلف کئے جاتے ہیں مثلا ادا و ھدا سورہ مریم کے آخر میں اور سلاما و کراما سورہ فرقان کے آخر میں اور وطین اور ساجدین اور ینظرون آخر سورہ صاد میں واقع ہے ، حالانکہ ان تمام سورتوں کے شروع میں دوسری طرح کے فاصلے ہیں۔ اکثر سورتوں کے اندر اس وزن و قافیہ کی رعایت جسے ہم بیان کرچکے ہیں مہتم بالشان سمجھے گئے ہیں۔ اور آیت کے آخر میں اگر کوئی لفظ قافیہ بننے کی صلاحیت رکھتا ہے تو اس کو قافیہ بنا دیا جاتا ہے ورنہ کسی ایسے جملہ سے اس کا اتصال کردیا جاتا ہے جس میں آلاء اللہ کا ذکر مخاطب کے لئے تنبیہ ہو۔ مثلا فرماتے ہیں
وہو الحکیم الخبیر۔
وکان اللہ علیما حکیما۔
وکان اللہ بما تعملون خبیرا۔
لعلکم تعقلون۔
ان فی ذلک لآیت لاولی الالباب۔
ان فی ذلک لآیت لقوم یتفکرون۔
اور ایسے ہی مقامات پر کہیں کہیں کسی قدر اطناب سے کام لیا گیا ہے۔ مثلا واسئل بہ خبیرا اور کسی جگہ تقدیم و تاخیر بھی مستعمل ہوتی ہے اور کبھی قلب اور زیادتی مثلا الیاسین و طور سینین بجائے الیاس و طور سینا کے۔
یہاں پر یہ جاننا ضروری ہے کہ کلام کی روانی اور سہولت جو بوجہ ضرب المثل ہونے یا آیات مکرر مذکور ہونے سے حاصل ہوئی ہے کلام طویل کو مختصر کلام کے ہموزن بنا دیتی ہے اور بعض اوقات پہلے فقروں کو بعد کے فقروں سے کم لاتے ہیں تاکہ کلام اس کے سبب سے شیریں ہوجائے مثلا خذوہ فغلوہ ثم الجحیم صلوہ ثم فی سلسلۃ زرعہا سبعون ذراعا فاسلکوہ۔ ایسے کلام میں گویا متکلم کا دلی مدعا یہ ہوتا ہے کہ پہلے اور دوسرے فقرے کا مجموعہ تنہا تیسرے فقرے کے برابر اور ہم پلہ ہے۔ ایسے ہی کبھی آیت کے تین رکن ہوتے ہیں مثلا یوم تبیض وجوہ و تسود وجوہ ، فاما الذین اسودت وجوہہم الآیہ واماالذین ابیضت وجوہہم الآیہ۔ اسی صورت میں رکن اول دوسرے رکن کیساتھ جمع کرکے ایک طویل آیت شمار کرتے ہیں۔ اور کبھی ایک آیت میں دو فاصلہ لاتے ہیں۔ چناچہ اشعار میں بھی کبھی ایسا ہوتا ہے
بیت
کالزہر فی ترف و البدر فی شرف
والبحر فی کرم و الدہر فی ہمم
اور کبھی ایک آیت کو دوسری آیتوں سے زیادہ لمبی لاتے ہیں اور اس میں نکتہ یہ ہے کہ جس وقت اس حسن کلام کا جو کہ وزن اور قافیہ سے پیدا ہوا ہے اس حسن کلام سے موازنہ نہ کریں جو اداء کی بے ساختگی اور سادگی اور اس کی طبعی ترکیب اور عدم تغیر سے حاصل ہوا ہے تو فطرت سلیمہ حسن معنوی کو ترجیح دے گی تو ایسے مقامات میں یہ سمجھ لینا چاہیے کہ ایک قسم کے حسن کے انتظار کو ترک کرکے دوسری قسم کے انتظار کا حق پورا ادا کیا گیا ہے۔
--جاری ہے--
 

الف عین

لائبریرین
لیکن یہ پوسٹ بزمِ سخن میں؟؟؟؟
یہ تو دینی کتاب ہے، لائبریری کی زینت ہونا چاہئے۔ الف نظامی کیا مکمل کتاب ڈیجیٹائز کر رہے ہیںِ
 

الف عین

لائبریرین
منتظمین اسی کو وہاں منتقل کر سکتے ہیں۔۔۔ بشرطیئکہ آپ پوری کتاب ٹائپ کر رہے ہوں یا ان پیج سے کنورٹ ر رہے ہوں تو۔
 

محمد وارث

لائبریرین
اعجاز صاحب، میں نے اس مضمون کو حسبِ حکم، 'بزمِ سخن' سے 'اسلامی تعلیمات' کے زمرے میں منتقل کر دیا ہے۔
 
Top