وجود و موجود کی لفظی ساخت دیکھی جائے تو یہ لفظی اور صرفی محال ہے کہ کوئی چیز موجود ہے لیکن اسکا کوئی وجود نہیں۔ ورنہ یہ ممکن ہے۔ عام طور پر فلاسفہ نے موجود اور وجود کو ایک دوسرے کے لیے لازم قرار دیا ہے لیکن اس کے باوجود یہ ممکن ہے کہ کوئی چیز موجود ہو لیکن اس کا وجود نہ ہو۔
کیونکہ وجود مادی ہے۔ اور لفظ "موجود" کے وہاں معنی وہ صرفی موجود نہیں جو وجود سے مشتق ہو۔
مثلاً میں کہتا ہوں کہ مجھے تم پر بہت غصہ "ہے"۔ تو اس کا مطلب یہ ہے کہ غصہ میرے اندر موجود ہے۔ یا اسی طرح خوشی یا غم، یا رنج یا عقل۔
کیونکہ یہ ساری چیزیں موجود ہیں لیکن ان کا کوئی وجود نہیں۔ عقل موجود ہے، لیکن وجود اسکا کوئی نہیں۔ لیکن چونکہ ہم جانتے ہیں کہ یہ ساری چیزیں (غم، رنج، غصہ وغیرہ) "متاثر" ہیں تو یہ بھی "حقیقت" نہیں ہیں اس لیے یہ سب متاثر صورت میں ہمیں "معلوم" ہیں۔
وجود سے مراد عام طور پر جسم یا زیادہ وسیع انداز میں کہا جائے تو "مکان" ہوتاہے۔ لیکن موجود سے ہماری مراد مکان رکھنے والا نہیں۔
یہ لفظی یا لسانی تضاد ہے، کیونکہ زبان اور تعبیرات میں ہمارے پاس "موجود" کا ایسا کوئی قائم مقام ہے ہی نہیں جس سے اس کے "ہونے" کو درست طور پرتعبیر کیا جائے۔ اس لیے اگر میں خدا کو "موجود" کی جگہ اگر صرف اتنا کہوں کہ "خدا ہے" تو یہاں معنی مقصود پورا ہو جاتا ہے، لیکن معنیِ بامعنی پورا نہیں ہوتا۔ اسی لیے ہم انگریزی فلسفیانہ مباحث میں اس عبارت کو "God IS" کہہ کر مکمل سمجھتے ہیں۔ لیکن عام انگریزی میں اسے "God exists" کہنا پڑتا ہے۔ لیکن حقیقت میں "exist" وجود کے لیے ہے جو کہ فلسفیانہ گفتگو میں تعبیراتی طور پر درست نہیں سمجھا جاتا۔

اب اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ موجود بغیر وجود کا وہ خیالی مطلب نہیں جو آپ نے نکالا ہے۔ بلکہ اس موجود کا مطلب صرف "ہونا" ہے۔ لفظی ساخت کے اعتبار سے "وجود رکھنا" اس کا مطلب ہے ہی نہیں۔ ہم اپنی عبارت سے جانتے ہیں کہ وجود متاثر ہے۔ ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ "الف" نامعلوم ہے۔ الف چونکہ حقیقت ہےتو یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ "حقیقت" نا معلوم ہے۔ اب یہ اعتراض کرنا بے کار ہے کہ جو چیز "نامعلوم" ہے اس پر ہم بات کیونکر کر سکتے ہیں؟کیونکہ نا معلوم کو ڈھونڈنا ہی اصل مقصد ہے، اور "الف" نا معلوم سے میری مراد یہ ہے کہ ہم اس بات کو نہیں جانتے کہ الف کیا ہے؟ لیکن ہم اس بات کو اچھی طرح جانتے ہیں کہ الف "ہے"، کیونکہ ہم اس کے اثرات کو جانتے ہیں۔ تو اس کے اثرات کے ذریعے ہی بات کو آگے بڑھاتے ہیں۔

جب یہ طے ہوگیا کہ:

وجود "متاثر" ہے۔
الف "حقیقت" ہے۔
الف "نامعلوم" ہے۔

تو میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ "الف" کا "وجود" رکھنا محال ہے۔ کیونکہ اگر "الف"وجود رکھتا ہے تو اسے متاثر ہونا ضروری ہے، اور ہر وہ چیز جو متاثر ہے وہ حقیقت نہیں ہے کیونکہ حقیقت ہونے کے لیے غیر متاثر ہونا واجب ہے۔ اگر الف متاثر ہے تو وہ حقیقت نہیں ہوسکتا۔ اور اگر حقیقت نہیں ہے تو وہ نامعلوم نہیں بلکہ معلوم ہوگا۔لیکن چونکہ یہ پہلے ہی طے ہوچکا کہ الف کو نامعلوم ہونا بھی ضروری ہے اور اس کوحقیقت ہونا بھی ضروری ہے تو یہ واضح ہے کہ الف "ہے" لیکن اس کا وجودکوئی نہیں۔

"الف" خدا کا نام ہے۔
 
جب یہ طے ہوگیا کہ:

وجود "متاثر" ہے۔
الف "حقیقت" ہے۔
الف "نامعلوم" ہے۔

تو میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ "الف" کا "وجود" رکھنا محال ہے۔ کیونکہ اگر "الف"وجود رکھتا ہے تو اسے متاثر ہونا ضروری ہے، اور ہر وہ چیز جو متاثر ہے وہ حقیقت نہیں ہے کیونکہ حقیقت ہونے کے لیے غیر متاثر ہونا واجب ہے۔ اگر الف متاثر ہے تو وہ حقیقت نہیں ہوسکتا۔ اور اگر حقیقت نہیں ہے تو وہ نامعلوم نہیں بلکہ معلوم ہوگا۔لیکن چونکہ یہ پہلے ہی طے ہوچکا کہ الف کو نامعلوم ہونا بھی ضروری ہے اور اس کوحقیقت ہونا بھی ضروری ہے تو یہ واضح ہے کہ الف "ہے" لیکن اس کا وجودکوئی نہیں۔

"الف" خدا کا نام ہے۔
جب الف "نامعلوم" ہے تو پھر اسکے بعد اسکے بارے میں کچھ کہنا فضول ہے کیونکہ جو کچھ بھی کہیں گے، وہ یا تو معلوم ہوگا یا نامعلوم۔۔۔اگر معلوم ہوا تو آپ کی الف کی definition غلط ہوگئی۔۔۔اور اگر نامعلوم ہے تو پھر بات کا کوئی فائدہ نہیں کیونکہ وہ بات کہہ کر بھی وہ نامعلوم کا نامعلوم ہی رہا ۔۔۔تو پھر اس بات کا کہنا نہ کہنا فضول ہی ہوا۔۔۔۔
 
جب الف "نامعلوم" ہے تو پھر اسکے بعد اسکے بارے میں کچھ کہنا فضول ہے کیونکہ جو کچھ بھی کہیں گے، وہ یا تو معلوم ہوگا یا نامعلوم۔۔۔ اگر معلوم ہوا تو آپ کی الف کی definition غلط ہوگئی۔۔۔ اور اگر نامعلوم ہے تو پھر بات کا کوئی فائدہ نہیں کیونکہ وہ بات کہہ کر بھی وہ نامعلوم کا نامعلوم ہی رہا ۔۔۔ تو پھر اس بات کا کہنا نہ کہنا فضول ہی ہوا۔۔۔ ۔

اس بات کا جواب تحریر کے اندر ہی موجود ہے:
"الف" نا معلوم سے میری مراد یہ ہے کہ ہم اس بات کو نہیں جانتے کہ الف کیا ہے۔ لیکن ہم اس بات کو اچھی طرح جانتے ہیں کہ الف "ہے"، کیونکہ ہم اس کے اثرات کو جانتے ہیں۔

یعنی ہمیں یہ نہیں معلوم کہ الف کیا ہے۔
لیکن یہ معلوم ہے کہ الف ہے۔
اب معلوم سے ہمیں محض یہ معلوم ہوتا ہے کہ الف کیا "نہیں" ہے۔
لیکن یہ نامعلوم ہی ہے کہ الف کیا "ہے"۔
 
اس بات کا جواب تحریر کے اندر ہی موجود ہے:


یعنی ہمیں یہ نہیں معلوم کہ الف کیا ہے۔
لیکن یہ معلوم ہے کہ الف ہے۔
اب معلوم سے ہمیں محض یہ معلوم ہوتا ہے کہ الف کیا "نہیں" ہے۔
لیکن یہ نامعلوم ہی ہے کہ الف کیا "ہے"۔
کہتے ہیں کہ کسی بھی چیز کا علم ہمیں اس وقت ہوتا ہے جب وہ چیز ہماری ذات میں بھی پائی جاتی ہو۔۔۔الف کیا ہے ، اور کیا نہیں ہے، یہ دونوں علم ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں۔۔۔۔دونوں کسی نہ کسی درجے میں الف (جو نامعلوم ہے) کو معلوم کے دائرے میں لا رہے ہیں۔
 
آخری تدوین:
کہتے ہیں کہ کسی بھی چیز کا علم ہمیں اس وقت ہوتا ہے جب وہ چیز ہماری ذات میں بھی پائی جاتی ہو۔۔۔ الف کیا ہے ، اور کیا نہیں ہے، یہ دونوں علم ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں۔۔۔ ۔دونوں کسی نہ کسی درجے میں الف (جو نامعلوم ہے) اسکو معلوم کے دائرے میں لا رہے ہیں۔

جی در اصل الف کو ڈھونڈنے کا مقصد صرف اس نامعلوم کو معلوم طریقوں سے انجان اطوار پر پہچاننا ہے۔ کیونکہ کائنات میں رہتے ہوئے نہ تو ہم یہ جانتے ہیں کہ حقیقت کیا ہے، اور نہ یہی جان سکتے ہیں کہ حقیقت کیا ہوسکتا ہے۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ حقیقت موجود نہیں۔ اس لیے ہم یہ ثابت نہیں کرتے کہ "حقیقت یہ ہے"۔ بلکہ ہم یہ کہتے ہیں کہ "یہ حقیقت کا اثر ہے"۔ یا پھر یہ کہ " یہ حقیقت نہیں ہوسکتا"۔ لیکن اس میں بھی ہمارے پاس اس بات کا ثبوت ہونا ضروری ہے کہ جو وہ نہیں ہے وہ کیوں؟ تو اس کا ثبوت میں نے اوپر پیش کیا ہے کہ وہ وجود اس لیے نہیں کہ "وجود" متاثر ہے۔ وجود ہونے کے لیے کسی کا اثر ہونا ضروری ہے۔ ورنہ ایسا ممکن ہی نہیں کہ کوئی اپنا خالق خود بن جائے یا خود اپنے آپ کو تخلیق کرے۔ اس لیے وجود پر اثرات ہونا لازم آتا ہے۔ لیکن الف کے لیے شرط ہے کہ وہ متاثر نہیں۔ وہ صرف "اثر" کرتا ہے۔ اسی لیے وہ الف ہے۔ اور یہی سب سے بڑا ثبوت ہے کہ وہ جو بھی ہے، وجود کے بغیر ہے۔

الف بمعنی نا معلوم
الف بمعنی حقیقت
الف بمعنی خدا
 
Top