مزمل شیخ بسمل
محفلین
وجود و موجود کی لفظی ساخت دیکھی جائے تو یہ لفظی اور صرفی محال ہے کہ کوئی چیز موجود ہے لیکن اسکا کوئی وجود نہیں۔ ورنہ یہ ممکن ہے۔ عام طور پر فلاسفہ نے موجود اور وجود کو ایک دوسرے کے لیے لازم قرار دیا ہے لیکن اس کے باوجود یہ ممکن ہے کہ کوئی چیز موجود ہو لیکن اس کا وجود نہ ہو۔
کیونکہ وجود مادی ہے۔ اور لفظ "موجود" کے وہاں معنی وہ صرفی موجود نہیں جو وجود سے مشتق ہو۔
مثلاً میں کہتا ہوں کہ مجھے تم پر بہت غصہ "ہے"۔ تو اس کا مطلب یہ ہے کہ غصہ میرے اندر موجود ہے۔ یا اسی طرح خوشی یا غم، یا رنج یا عقل۔
کیونکہ یہ ساری چیزیں موجود ہیں لیکن ان کا کوئی وجود نہیں۔ عقل موجود ہے، لیکن وجود اسکا کوئی نہیں۔ لیکن چونکہ ہم جانتے ہیں کہ یہ ساری چیزیں (غم، رنج، غصہ وغیرہ) "متاثر" ہیں تو یہ بھی "حقیقت" نہیں ہیں اس لیے یہ سب متاثر صورت میں ہمیں "معلوم" ہیں۔
وجود سے مراد عام طور پر جسم یا زیادہ وسیع انداز میں کہا جائے تو "مکان" ہوتاہے۔ لیکن موجود سے ہماری مراد مکان رکھنے والا نہیں۔
یہ لفظی یا لسانی تضاد ہے، کیونکہ زبان اور تعبیرات میں ہمارے پاس "موجود" کا ایسا کوئی قائم مقام ہے ہی نہیں جس سے اس کے "ہونے" کو درست طور پرتعبیر کیا جائے۔ اس لیے اگر میں خدا کو "موجود" کی جگہ اگر صرف اتنا کہوں کہ "خدا ہے" تو یہاں معنی مقصود پورا ہو جاتا ہے، لیکن معنیِ بامعنی پورا نہیں ہوتا۔ اسی لیے ہم انگریزی فلسفیانہ مباحث میں اس عبارت کو "God IS" کہہ کر مکمل سمجھتے ہیں۔ لیکن عام انگریزی میں اسے "God exists" کہنا پڑتا ہے۔ لیکن حقیقت میں "exist" وجود کے لیے ہے جو کہ فلسفیانہ گفتگو میں تعبیراتی طور پر درست نہیں سمجھا جاتا۔
اب اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ موجود بغیر وجود کا وہ خیالی مطلب نہیں جو آپ نے نکالا ہے۔ بلکہ اس موجود کا مطلب صرف "ہونا" ہے۔ لفظی ساخت کے اعتبار سے "وجود رکھنا" اس کا مطلب ہے ہی نہیں۔ ہم اپنی عبارت سے جانتے ہیں کہ وجود متاثر ہے۔ ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ "الف" نامعلوم ہے۔ الف چونکہ حقیقت ہےتو یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ "حقیقت" نا معلوم ہے۔ اب یہ اعتراض کرنا بے کار ہے کہ جو چیز "نامعلوم" ہے اس پر ہم بات کیونکر کر سکتے ہیں؟کیونکہ نا معلوم کو ڈھونڈنا ہی اصل مقصد ہے، اور "الف" نا معلوم سے میری مراد یہ ہے کہ ہم اس بات کو نہیں جانتے کہ الف کیا ہے؟ لیکن ہم اس بات کو اچھی طرح جانتے ہیں کہ الف "ہے"، کیونکہ ہم اس کے اثرات کو جانتے ہیں۔ تو اس کے اثرات کے ذریعے ہی بات کو آگے بڑھاتے ہیں۔
جب یہ طے ہوگیا کہ:
وجود "متاثر" ہے۔
الف "حقیقت" ہے۔
الف "نامعلوم" ہے۔
تو میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ "الف" کا "وجود" رکھنا محال ہے۔ کیونکہ اگر "الف"وجود رکھتا ہے تو اسے متاثر ہونا ضروری ہے، اور ہر وہ چیز جو متاثر ہے وہ حقیقت نہیں ہے کیونکہ حقیقت ہونے کے لیے غیر متاثر ہونا واجب ہے۔ اگر الف متاثر ہے تو وہ حقیقت نہیں ہوسکتا۔ اور اگر حقیقت نہیں ہے تو وہ نامعلوم نہیں بلکہ معلوم ہوگا۔لیکن چونکہ یہ پہلے ہی طے ہوچکا کہ الف کو نامعلوم ہونا بھی ضروری ہے اور اس کوحقیقت ہونا بھی ضروری ہے تو یہ واضح ہے کہ الف "ہے" لیکن اس کا وجودکوئی نہیں۔
"الف" خدا کا نام ہے۔
کیونکہ وجود مادی ہے۔ اور لفظ "موجود" کے وہاں معنی وہ صرفی موجود نہیں جو وجود سے مشتق ہو۔
مثلاً میں کہتا ہوں کہ مجھے تم پر بہت غصہ "ہے"۔ تو اس کا مطلب یہ ہے کہ غصہ میرے اندر موجود ہے۔ یا اسی طرح خوشی یا غم، یا رنج یا عقل۔
کیونکہ یہ ساری چیزیں موجود ہیں لیکن ان کا کوئی وجود نہیں۔ عقل موجود ہے، لیکن وجود اسکا کوئی نہیں۔ لیکن چونکہ ہم جانتے ہیں کہ یہ ساری چیزیں (غم، رنج، غصہ وغیرہ) "متاثر" ہیں تو یہ بھی "حقیقت" نہیں ہیں اس لیے یہ سب متاثر صورت میں ہمیں "معلوم" ہیں۔
وجود سے مراد عام طور پر جسم یا زیادہ وسیع انداز میں کہا جائے تو "مکان" ہوتاہے۔ لیکن موجود سے ہماری مراد مکان رکھنے والا نہیں۔
یہ لفظی یا لسانی تضاد ہے، کیونکہ زبان اور تعبیرات میں ہمارے پاس "موجود" کا ایسا کوئی قائم مقام ہے ہی نہیں جس سے اس کے "ہونے" کو درست طور پرتعبیر کیا جائے۔ اس لیے اگر میں خدا کو "موجود" کی جگہ اگر صرف اتنا کہوں کہ "خدا ہے" تو یہاں معنی مقصود پورا ہو جاتا ہے، لیکن معنیِ بامعنی پورا نہیں ہوتا۔ اسی لیے ہم انگریزی فلسفیانہ مباحث میں اس عبارت کو "God IS" کہہ کر مکمل سمجھتے ہیں۔ لیکن عام انگریزی میں اسے "God exists" کہنا پڑتا ہے۔ لیکن حقیقت میں "exist" وجود کے لیے ہے جو کہ فلسفیانہ گفتگو میں تعبیراتی طور پر درست نہیں سمجھا جاتا۔
اب اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ موجود بغیر وجود کا وہ خیالی مطلب نہیں جو آپ نے نکالا ہے۔ بلکہ اس موجود کا مطلب صرف "ہونا" ہے۔ لفظی ساخت کے اعتبار سے "وجود رکھنا" اس کا مطلب ہے ہی نہیں۔ ہم اپنی عبارت سے جانتے ہیں کہ وجود متاثر ہے۔ ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ "الف" نامعلوم ہے۔ الف چونکہ حقیقت ہےتو یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ "حقیقت" نا معلوم ہے۔ اب یہ اعتراض کرنا بے کار ہے کہ جو چیز "نامعلوم" ہے اس پر ہم بات کیونکر کر سکتے ہیں؟کیونکہ نا معلوم کو ڈھونڈنا ہی اصل مقصد ہے، اور "الف" نا معلوم سے میری مراد یہ ہے کہ ہم اس بات کو نہیں جانتے کہ الف کیا ہے؟ لیکن ہم اس بات کو اچھی طرح جانتے ہیں کہ الف "ہے"، کیونکہ ہم اس کے اثرات کو جانتے ہیں۔ تو اس کے اثرات کے ذریعے ہی بات کو آگے بڑھاتے ہیں۔
جب یہ طے ہوگیا کہ:
وجود "متاثر" ہے۔
الف "حقیقت" ہے۔
الف "نامعلوم" ہے۔
تو میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ "الف" کا "وجود" رکھنا محال ہے۔ کیونکہ اگر "الف"وجود رکھتا ہے تو اسے متاثر ہونا ضروری ہے، اور ہر وہ چیز جو متاثر ہے وہ حقیقت نہیں ہے کیونکہ حقیقت ہونے کے لیے غیر متاثر ہونا واجب ہے۔ اگر الف متاثر ہے تو وہ حقیقت نہیں ہوسکتا۔ اور اگر حقیقت نہیں ہے تو وہ نامعلوم نہیں بلکہ معلوم ہوگا۔لیکن چونکہ یہ پہلے ہی طے ہوچکا کہ الف کو نامعلوم ہونا بھی ضروری ہے اور اس کوحقیقت ہونا بھی ضروری ہے تو یہ واضح ہے کہ الف "ہے" لیکن اس کا وجودکوئی نہیں۔
"الف" خدا کا نام ہے۔