عرصہ پہلے نسبت روڈ لاہور کی ایک کشادہ گلی کے ایک قدیم گھر کا منظر ہے۔ گرمیوں کے رمضان کی سحری کا وقت ہے ۔ باورچی خانے کے ساتھ ہی گلی لگتی ہے اور برآمدے کا دروازہ گلی میں کھُلتا ہے۔ میں سحری کی تیاری میں مگن ہوں ۔ ابھی کچھ دیر پہلے بچوں اور نوجوانوں کے دو گروہ اپنے ٹین وغیرہ بجاتے ہوئے گئے ہیں،"روزہ رکھنے والو! اٹھو سحری کا وقت ہو گیا ہے۔" ساتھ کی مسجد کا مؤذن ابھی خاموش ہے۔
گلی میں دو اشخاص کی آمد کا احساس ہوتا ہے۔ ایک اپنے ڈھول اور دوسرا اپنے ہار مونیم کو درست کر رہا ہے۔ میں کچھ متجسس ہوں اور ساتھ ہی اپنے کاموں میں مصروف ہوں۔ اچانک بہت ہی سریلی آواز سماعتوں تک پہنچتی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"جا صبا! مدینے کو جانا،جا کے نبی(ﷺ) سے کہنا بگیا مورے من کی"
یہ بول سُنتے ہی میرے اندر کچھ پگھلنے لگتا ہے اور آنسو ہیں کہ رُکتے ہی نہیں۔ پیارےنبیﷺ کی یاد ایسے دل میں آتی ہے کہ جی مچلنے لگتا ہے ۔ "بس ابھی جانا ہے،بس ابھی جانا ہے۔" اپنے من کی بگیا اُنہیں سنانے اور اُن کا ہاتھ تھام کے رونے اور روتے رہنے کو دل مچلنے لگتا ہے۔ یوں لگتا ہے کہ میں پوری کی پوری آنسوؤں میں تحلیل ہو گئی ہوں۔
"پیارے نبیﷺ! میں نے آپ سے ملنا ہے۔ میں نے آپ کے روضے پہ آنا ہے۔ پیارے نبیﷺ ! میرے سر پہ ہاتھ رکھیں۔ پیارے نبیﷺ! پیارے نبیﷺ۔۔۔۔۔۔" میں روتی جاتی ہوں اور سنتی جاتی ہوں اور ساتھ ساتھ اپنے دل کی بگیا پیارے نبی(ﷺ) سے کہتی جاتی ہوں۔
نعت مکمل ہوئی تو میں نے اُنہیں کچھ دیا۔ وہ روز آتے اور میں اُن کی آمد کی منتظر رہتی۔ اور اپنی اس کیفیت میں سارا وقت مبتلا رہتی۔ آگے کے بول مجھے یاد نہیں۔ رمضان ختم ہؤا اور اُس نعت کے بولوں سے میں محروم رہ گئی۔ اُس وقت یہ خیال ہی نہیں رہا کہ اسے ریکارڈ کر لیتی۔ اُس کے بعد نعتیں تو ایک سے ایک سنیں۔۔۔۔اور سب جانتے ہیں کہ جس نعت کو پڑھیں یا سنیں تو ایک سے بڑھ کے ایک ہوتی ہے۔ لیکن وہ نعت۔۔۔۔۔۔وہ پہلا مصرع تو ایسا دل میں اترا ہے۔۔۔وہ میٹھی آواز۔۔۔۔۔۔
اب بھی کبھی دل اداس ہو تو پیارے نبیﷺ کو یاد کرتے ہوئے وہ نعت پڑھتی ہوں۔" جا صبا! جا کے نبی(ﷺ) سے کہنا بگیا مورے من کی"