واجدحسین
معطل
ساتواں باب
اللہ تعالیٰ کے راستے کے غبار اور اس راستے میں چلنے کی فضیلت
حضر ت ابو عبس جن کا نام عبدالرحمن بن جبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہے فرماتے ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :جس کے دونوں قدم اللہ تعالیٰ کے راستے میں غبار آلود ہوں گے اللہ تعالیٰ اس پر دوزخ کی آگ کو حرام فرمادے گا۔( بخاری)
[یہ حدیث شریف اسی مفہوم کے ساتھ حدیث کی مختلف کتابوں میں کئی صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنھم سے مروی ہے مصنف رحمہ اللہ نے ان میں سے کئی روایات ذکر فرمائی ہیں ہم نے ان میں سے مزکورہ بالا ایک روایت کوذکر کیا ہے]
٭حضرت ابو درداء رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : اللہ تعالیٰ کسی بندے کے پیٹ میں اپنے راستے [جہاد ]کا غبار اوردوزخ کا دھواں جمع نہیں فرمائے گا اورجس شخص کے پاؤں اللہ تعالیٰ کے راستے میں غبار آلود ہوں گے اللہ تعالیٰ قیامت کے دن جہنم کو اس سے تیز رفتار گھڑ سوار کے ایک ہزار سال تک دوڑنے کی مسافت جتنا دور فرمائے گا اور جس شخص کو اللہ تعالیٰ کے راستے میں کوئی زخم لگے گا اللہ تعالیٰ اس پر شہد اء کی مہر لگا دیں گے اوراسکے لئے قیا مت کے دن ایک [خاص ] نور ہو گا اس [کے خون ] کا رنگ زعفران جیسا اور خو شبو مشک جیسی ہوگی اسی کے ذریعے اولین اور آخرین اسے پہنچانیں گے اور کہیں گے کہ فلاں شخص پر تو شہداء کی مہر لگی ہوئی ہے اور جوشخص اللہ تعالیٰ کے راستے میں اتنی دیر لڑا جتنی دیر میں اونٹنی کے تھنوں میں دودھ واپس آجاتا ہے اس کے لئے جنت واجب ہوگئی ۔ (مسند احمد)
٭عمر وبن قیس الکندی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ گرمیوں کے جہاد سے واپسی پر میں حضرت ابو درداء رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ تھا کہ آپ نے ارشاد فرمایا اے لوگو جمع ہوجاؤ [جب لوگ جمع ہوگئے تو آپ نے فرمایا] میں نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے سناہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جس شخص کے دونوں پاؤں اللہ تعالیٰ کے راستے میں غبار آلود ہوں گے اللہ تعالیٰ اس کے پورے جسم کو آگ پر حرام فرمادے گا۔(الطبرانی ۔مجمع الزوائد)
گرمیوں کے جہاد سے مر اد رومیوں کے مقابلے میں مسلمانوں کی لڑائی ہے چونکہ مسلمان سردیوں کی شدت اوربرف باری کی وجہ سے رومیوں کے ساتھ گرمیوں میں جہاد کے لئے نکلتے تھے اس لئے اس لڑائی کانام صائفہ یعنیٰ گرمیوں کی جنگ پڑگیا۔
٭حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:جس کے پاؤں حج میں جہاد میں یا اسلامی سرحدوں یا لشکروں کی پہرے داری میں غبار آلود ہوئی اللہ تعالیٰ اس کے خون اورگوشت کو آگ پرحرام فرمادیتا ہے۔(ابن عساکر ۔کتاب الجہاد فی فضل الجہاد سلطان نور الدین زنگی رحمہ اللہ )
٭حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:[ جنت کی ]خوشخبری ہے اس بندی کے لئے جو پراگندہ بال اورغبارآلود قدموں کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے راستے میں اپنے گھوڑے کی لگام پکڑے ہوئے ہو۔(بخاری)
٭حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ حضور اکرم صلی علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:جو شخص اللہ تعالیٰ کے خوف سے رویا وہ آگ میں داخل نہیں ہوگا یہاں تک کہ دودھ تھنوں میں واپس لوٹ آئے [ یعنی جس طرح دودھ کا تھنوں میں واپس لوٹنا محال ہے اسی طرح اس شخص کا دوزخ میں داخلہ بھی ] اورکسی مسلمان کی ناک میں اللہ تعالیٰ کے راستے کا غبار اورجہنم کا دھواں کبھی بھی جمع نہیں ہوگا۔(ترمذی ۔نسائی ۔المستدرک)
٭حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :کسی مرد مسلمان کے دل میں بخل اورایمان جمع نہیں ہوسکتے اور نہ کسی مسلمان کے پیٹ میں اللہ تعالیٰ کے راستے کاغبار اوردوذخ کا دھواں جمع ہوسکتا ہے۔(مصنف ابن ابی شیبہ )
مصنف رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ حضرت عبد اللہ بن مبارک رحمہ اللہ کو کسی نے خواب میں دیکھاتو پوچھا کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کے ساتھ کیا معاملہ فرمایا ہے؟انہوں نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے مجھے بخش دیا ہے ۔خواب دیکھنے والے نے پوچھا کیا آپ کی بخش اس علم کی بدولت ہوئی ہے جو آپ نے لوگو ں میں پھیلا یا ہے ارشاد فرمایا نہیں۔بلکہ اللہ تعالیٰ کے راستے کا جو غبار میرے حلق میں گیا تھا اس کی وجہ سے میری بخشش ہوئی ۔
٭ابو المصبح المقرائی فرماتے ہیں کہ ہمارا لشکر حضرت مالک بن عبد اللہ خثعمی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی قیادت میں رومیوں کی طرف جارہا تھا۔امیر لشکر نے حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ تعالیٰ عنھما کودیکھا آپ نے اپنے خچر سے اتر کر پیدل چلتے ہوئے جا رہے ہیں حضرت مالک نے کہا اللہ تعالٰی نے آپ کو سواری دی ہے اس پر سوار ہوجائیے حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا میں اپنی سواری کو راحت دے رہا ہوں ااوراپنی قوم سے مستغنی ہوں اورمیں نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس شخص کے دونوں قدم اللہ تعالیٰ کے راستے میں غبار آلود ہوں گے اللہ تعالیٰ اس پر دوزخ کی آگ کو حرام فرمادے گا۔حضرت مالک وہاں سے چل کر ایسی جگہ آئے جہاں سے ان کی آواز پوار لشکر سن سکتا تھا انہوں نے وہاں سے بلند آواز میں [لوگوں کو سنانے کے لئے ]حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو پھر فرمایا اے ابوعبد اللہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو سواری دی ہے آپ اس پر سوار ہوجائے حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سمجھ گئے کہ امیر لشکرپورے لشکر کو [غبار کی فضیلت والی ]حدیث سنوانا چاہتے ہیں چنانچہ انہوں نے پہلے جیسا جواب دیا اورحدیث شریف بھی سنائی ۔لوگوں نے جب یہ حدیث سنی تو سواریوں سے کود کر اتر گئے ۔راوی فرماتے ہیں کہ میں نے اس دن سے زیادہ لوگوں کوکبھی اتناپیدل چلتے ہوئی نہیں دیکھا۔(کتاب الجہاد لابن مبارک ۔بخاری)
٭ایک اورروایت میں ہے کہ حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہما بیا ن فرماتے ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جس شخص کے قدم دن کی ایک گھڑی اللہ تعالیٰ کے راستے میں غباآلود ہوئے تو وہ دونوں قدم آگ پر حرام ہیں ۔(کتا ب الجہاد لا بن مبارک)
٭ربیع بن زیاد رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور اکرم صلی علیہ وسلم [ایک لشکر لے کر ] تشریف لے جارہے تھے کہ آپ نے ایک قریشی نوجوان کو راستے سے ہٹ کر چلتے دیکھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کیا یہ فلاں نوجوان نہیں ہے؟صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے عرض کیا جی ہاں یہ وہی ہے ۔آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا اسے بلاؤ ۔جب وہ حا ضر ہوا تو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم راستے سے ہٹ کر کیو ں چل رہے ہو۔ اس نے کہااے اللہ تعالیٰ کے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم ) میں غبا ر کو پسند نہیں کرتا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا [اے نوجوان ] اس غبا ر سے نہ بچو ۔ قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضے میں میری جان ہے یہ تو جنت کا عطر ہے ۔(مصنف ابن ابی شیبہ ۔ مراسیل ابی داؤد )
٭ حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:جو شخص ایک شام اللہ تعالیٰ کے راستے میں چلا تو اسے قیامت کے دن اتنامشک ملے گا ۔جتنا اسے [اس راستے کا ] غبار پہنچے گا۔(الطبرانی )
٭حضرت ابوداردء رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اللہ تعالیٰ کے راستے کے غباسے بچنے کے لئے ڈھانا(یعنی منہ پر کپڑا) نہ باندھو کیونکہ اللہ تعالیٰ کے راستے کا غبا ر تو جنت کے مشک کی خوشبو ہے( ابن عساکر)
٭حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : اللہ تعالیٰ کے راستے کا غبا ر قیا مت کے دن چہروں کو منور [ سفید اورچمکدار ] بنانے کا ذریعہ ہوگا۔(ابن عساکر)
مصنف رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ قیا مت کے دن کچھ چہرے چمکدار ہنستے خوشیا ں منانے والے ہوں گے اور کچھ چہرے اس دن غبا ر آلود ہوں گے جن پر ذلت اورسیاہی چھائی ہوئی ہوگی تو جو شخص دنیا میں اللہ تعالیٰ کے راستے کا غبار اپنے چہرے پر لے گا وہ قیا مت کے دن کے غبا ر سے محفوظ کردیا جا ئے گا اور اللہ تعالیٰ اس کے چہرے پر سفیدی چمک اور خوشی کے آثار بھی عطاء فرمادے گا ۔بے شک اللہ تعالیٰ بڑے فضل والا ہے۔
٭حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا جو شخص سفر میں اپنی سواری سے اتر کر [ اپنی باری میں ] پیدل چلے گا اسے ایک غلام آزاد کرنے کا اجر ملے گا۔ (شفاء الصدور)
[سفر جہاد میں بعض اوقات سواریا ں کم ہوتی ہیں اور مجاہدین زیادہ ۔ تب مجاہد ین باری باری سوار ہوتے ہیں اور باری باری پیدل چلتے ہیں مذکور ہ بالا حدیث میں اسی کی فضیلت کا بیان ہے ]۔
٭قاسم بن محمد رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ایک دن حضرت سالم بن عبد اللہ نے اپنے گھر والوں سے کہا کہ میرا سامان جہاد دتیار کرو میں اب گھر میں ایک رات بھی نہیں رکوں گا کیونکہ میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ میں آسمان کے دروازے پر پہنچا تو میں نے اسے کھٹکھٹایا ۔ وہاں سے پوچھا گیا کون ؟میں نے کہاسالم بن عبد اللہ ۔وہاں سے جواب ملایہ دروازہ ایسے شخص کے لئے کس طرح سے کھولا جائے جس کے پاؤں جہاد میں کسی دن یا رات میں غبار آلود نہیں ہوئے ۔ راوی کہتے ہیں حضرت سالم فرمایا کرتے تھے کہ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے بھی ایسا ہی خواب دیکھا تھا۔( شفاء الصدور)
٭ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ غزوہ بدر کے دن تین آدمیوں کے حصے میں ایک اونٹ آیا تھا۔ حضرت ابولبابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اورحضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضوراکر م صلی اللہ علیہ وسلم کے اونٹ میں [سواری کے ] حصہ دار تھے جب حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پیدل چلنے کی باری آتی تو وہ دونوں حضرات عرض کرتے ۔اے اللہ تعالیٰ کے رسول !( صلی اللہ علیہ وسلم )ہم آپ کے حصے کا پیدل چل لیں گے ۔ [ آ پ سواری پر تشریف رکھیں ]
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں فرمایا :تم دونوں مجھ سے زیادہ طاقت ور نہیں ہو اورنہ میں تم دونوں کی نسبت اجر وثواب کمانے سے زیادہ مستغنی ہوں ۔(المستدرک)
مصنف رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اس حدیث میں چند باتیں نہایت وضاحت کے ساتھ سمجھائی گئی ہیں۔
( 1 ) اللہ تعالیٰ کے راستے میں پیدل چلنا اجر وثوا ب کا باعث ہے۔
( 2 ) امیر کے لئے مستحب ہے کہ وہ اپنی راحت کے لئے خصوصی مراعات حاصل نہ کرے بلکہ اپنے مامورین کے ساتھ ہر طرح کی تکلیف ومشقت میں برابر کا شریک رہے ۔
( 3 ) مروت کا تقاضا یہ ہے کہ کوئی شخص اپنے شریک سفر رفقاء کے درمیان اپنے لئے کوئی خصوصی فائدہ حاصل نہ کرے ۔
( 4 ) رفقاء کو چاہیے کہ اپنے سے افضل افراد کے لئے ایثار و قربانی کامعاملہ کریں [جیسا کہ حضرت ابولبابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اورحضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی پیش کش سے معلوم ہوتاہے۔]
( 5 ) حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تمام مخلوق سے افضل ترین ہونے کے باوجود تواضع کو پسند فرماتے تھے۔
[ ایک مسلمان کو اس سے بڑھ کر اورکیا چاہیے کہ اسے قیامت کے دن دوزخ کی آگ اوراس کے خوفناک دھویں سے نجات مل جائے ہم نے اس باب میں جتنی بھی احادیث اور روایا ت پڑھی ہیں یہ سب ہمارے ہی لئے ہیں۔ آج اگر مسلمان ان احادیث پر یقین نہیں کریں گے اورنجات کے ان راستوں کو اختیار نہیں کریں گے توکل کوئی پوچھ سکتا ہے کہ آخر یہ فضائل کس کے لئے بیان کئے گئے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ کے راستے کا غبار ہر اس آدمی کو آسانی سے نصیب ہوسکتا ہے جو جہاد کے راستے ہر چل پڑتا ہے ۔ بظاہر آسان اورسستی نظر آنے والی یہ نعمت کتنی بڑی ہے کہ اس کی بدولت قیامت کے دن کے غبار اور گرمی سے نجات ملے گی اور دوزخ کی آگ حرام ہوجائے گی۔اگر مسلمان تھوڑا ساغور کریں تو انہیں معلوم ہوجائے گا کہ اللہ تعالیٰ کے راستے کے اسی غبار میں ان کی عظمت رفتہ کے قابل رشک مینارچھپے ہوئے ہیں اور اسی مٹی میں ان کی عزت اورنجات کے راز پوشیدہ ہیں ہمارے اسلاف اسی مٹی کو پھانکتے رہے۔ اسی میں جیتے رہے اور اسی میں مرتے رہے اور دنیاان کے قدموں پر گرتی رہی اور بادشاہتیں ان کی چوکھٹوں پر جزیے دیکر زندگی کے سانس لتی رہیں اسلاف میں سے ایسے حضرات بھی گزرے ہیں جو اللہ تعالیٰ کے راستے کی مٹی اپنے کپڑوں پر سے جمع کرتے رہے اور بالآ خر وہی مٹی ان کی قبر بنی ۔ یقینا انہیں اسی مٹی میں بہت کچھ نظر آرہا تھا اورانہوں نے اس مٹی کی قدروقیمت اوراس کی عظمت ومنزلت کو پہچان لیا تھا چنانچہ انہوں نے اس مٹی کو بھی پا لیا اور اس مٹی کے اندر چھپے ہوئے دینوی اوراخروی خزانے بھی لوٹ لئے مگر آج ہم اس مبارک غبار سے محروم ہو کر ذلت کی مٹی چاٹ رہے ہیں اوراپنے دشمنوں کے قدموں میں گر کر روزی کی بھیک مانگ رہے ہیں۔
اے مسلمانو! اللہ تعالیٰ کے راستے کے غبار کی عظمت کو سمجھنے کی کوشش کرو اور پھر اسے پانے کے لئے خوب محنت کرو ۔ تمہیں انشاء اللہ تعالیٰ وہ سب کچھ مل جائے گا جس کی تمہیں اس دنیا میں اور پھر مرنے کے بعد ضرورت ہے ۔یاد رکھو اگر تمہارے قدم اس غبار کو پانے میں کامیاب ہوگئے تو یقین کرو دنیا کا کفر تمہارے انہیں قدموں کے نیچے دم توڑے گا ۔
یا اللہ ہم سب کو اپنے راستے کے غبار کی حقیقت سمجھادے اور اس غبار کا کچھ حصہ عطاء فرماکر اس کے اندر چھپے ہوئے خزانے امت مسلمہ کامقدر بنادے اوردوزخ کی آگ کو ہم سب پر حرام فرمادے ۔ آمین]
اللہ تعالیٰ کے راستے کے غبار اور اس راستے میں چلنے کی فضیلت
حضر ت ابو عبس جن کا نام عبدالرحمن بن جبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہے فرماتے ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :جس کے دونوں قدم اللہ تعالیٰ کے راستے میں غبار آلود ہوں گے اللہ تعالیٰ اس پر دوزخ کی آگ کو حرام فرمادے گا۔( بخاری)
[یہ حدیث شریف اسی مفہوم کے ساتھ حدیث کی مختلف کتابوں میں کئی صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنھم سے مروی ہے مصنف رحمہ اللہ نے ان میں سے کئی روایات ذکر فرمائی ہیں ہم نے ان میں سے مزکورہ بالا ایک روایت کوذکر کیا ہے]
٭حضرت ابو درداء رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : اللہ تعالیٰ کسی بندے کے پیٹ میں اپنے راستے [جہاد ]کا غبار اوردوزخ کا دھواں جمع نہیں فرمائے گا اورجس شخص کے پاؤں اللہ تعالیٰ کے راستے میں غبار آلود ہوں گے اللہ تعالیٰ قیامت کے دن جہنم کو اس سے تیز رفتار گھڑ سوار کے ایک ہزار سال تک دوڑنے کی مسافت جتنا دور فرمائے گا اور جس شخص کو اللہ تعالیٰ کے راستے میں کوئی زخم لگے گا اللہ تعالیٰ اس پر شہد اء کی مہر لگا دیں گے اوراسکے لئے قیا مت کے دن ایک [خاص ] نور ہو گا اس [کے خون ] کا رنگ زعفران جیسا اور خو شبو مشک جیسی ہوگی اسی کے ذریعے اولین اور آخرین اسے پہنچانیں گے اور کہیں گے کہ فلاں شخص پر تو شہداء کی مہر لگی ہوئی ہے اور جوشخص اللہ تعالیٰ کے راستے میں اتنی دیر لڑا جتنی دیر میں اونٹنی کے تھنوں میں دودھ واپس آجاتا ہے اس کے لئے جنت واجب ہوگئی ۔ (مسند احمد)
٭عمر وبن قیس الکندی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ گرمیوں کے جہاد سے واپسی پر میں حضرت ابو درداء رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ تھا کہ آپ نے ارشاد فرمایا اے لوگو جمع ہوجاؤ [جب لوگ جمع ہوگئے تو آپ نے فرمایا] میں نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے سناہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جس شخص کے دونوں پاؤں اللہ تعالیٰ کے راستے میں غبار آلود ہوں گے اللہ تعالیٰ اس کے پورے جسم کو آگ پر حرام فرمادے گا۔(الطبرانی ۔مجمع الزوائد)
گرمیوں کے جہاد سے مر اد رومیوں کے مقابلے میں مسلمانوں کی لڑائی ہے چونکہ مسلمان سردیوں کی شدت اوربرف باری کی وجہ سے رومیوں کے ساتھ گرمیوں میں جہاد کے لئے نکلتے تھے اس لئے اس لڑائی کانام صائفہ یعنیٰ گرمیوں کی جنگ پڑگیا۔
٭حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:جس کے پاؤں حج میں جہاد میں یا اسلامی سرحدوں یا لشکروں کی پہرے داری میں غبار آلود ہوئی اللہ تعالیٰ اس کے خون اورگوشت کو آگ پرحرام فرمادیتا ہے۔(ابن عساکر ۔کتاب الجہاد فی فضل الجہاد سلطان نور الدین زنگی رحمہ اللہ )
٭حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:[ جنت کی ]خوشخبری ہے اس بندی کے لئے جو پراگندہ بال اورغبارآلود قدموں کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے راستے میں اپنے گھوڑے کی لگام پکڑے ہوئے ہو۔(بخاری)
٭حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ حضور اکرم صلی علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:جو شخص اللہ تعالیٰ کے خوف سے رویا وہ آگ میں داخل نہیں ہوگا یہاں تک کہ دودھ تھنوں میں واپس لوٹ آئے [ یعنی جس طرح دودھ کا تھنوں میں واپس لوٹنا محال ہے اسی طرح اس شخص کا دوزخ میں داخلہ بھی ] اورکسی مسلمان کی ناک میں اللہ تعالیٰ کے راستے کا غبار اورجہنم کا دھواں کبھی بھی جمع نہیں ہوگا۔(ترمذی ۔نسائی ۔المستدرک)
٭حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :کسی مرد مسلمان کے دل میں بخل اورایمان جمع نہیں ہوسکتے اور نہ کسی مسلمان کے پیٹ میں اللہ تعالیٰ کے راستے کاغبار اوردوذخ کا دھواں جمع ہوسکتا ہے۔(مصنف ابن ابی شیبہ )
مصنف رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ حضرت عبد اللہ بن مبارک رحمہ اللہ کو کسی نے خواب میں دیکھاتو پوچھا کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کے ساتھ کیا معاملہ فرمایا ہے؟انہوں نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے مجھے بخش دیا ہے ۔خواب دیکھنے والے نے پوچھا کیا آپ کی بخش اس علم کی بدولت ہوئی ہے جو آپ نے لوگو ں میں پھیلا یا ہے ارشاد فرمایا نہیں۔بلکہ اللہ تعالیٰ کے راستے کا جو غبار میرے حلق میں گیا تھا اس کی وجہ سے میری بخشش ہوئی ۔
٭ابو المصبح المقرائی فرماتے ہیں کہ ہمارا لشکر حضرت مالک بن عبد اللہ خثعمی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی قیادت میں رومیوں کی طرف جارہا تھا۔امیر لشکر نے حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ تعالیٰ عنھما کودیکھا آپ نے اپنے خچر سے اتر کر پیدل چلتے ہوئے جا رہے ہیں حضرت مالک نے کہا اللہ تعالٰی نے آپ کو سواری دی ہے اس پر سوار ہوجائیے حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا میں اپنی سواری کو راحت دے رہا ہوں ااوراپنی قوم سے مستغنی ہوں اورمیں نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس شخص کے دونوں قدم اللہ تعالیٰ کے راستے میں غبار آلود ہوں گے اللہ تعالیٰ اس پر دوزخ کی آگ کو حرام فرمادے گا۔حضرت مالک وہاں سے چل کر ایسی جگہ آئے جہاں سے ان کی آواز پوار لشکر سن سکتا تھا انہوں نے وہاں سے بلند آواز میں [لوگوں کو سنانے کے لئے ]حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو پھر فرمایا اے ابوعبد اللہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو سواری دی ہے آپ اس پر سوار ہوجائے حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سمجھ گئے کہ امیر لشکرپورے لشکر کو [غبار کی فضیلت والی ]حدیث سنوانا چاہتے ہیں چنانچہ انہوں نے پہلے جیسا جواب دیا اورحدیث شریف بھی سنائی ۔لوگوں نے جب یہ حدیث سنی تو سواریوں سے کود کر اتر گئے ۔راوی فرماتے ہیں کہ میں نے اس دن سے زیادہ لوگوں کوکبھی اتناپیدل چلتے ہوئی نہیں دیکھا۔(کتاب الجہاد لابن مبارک ۔بخاری)
٭ایک اورروایت میں ہے کہ حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہما بیا ن فرماتے ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جس شخص کے قدم دن کی ایک گھڑی اللہ تعالیٰ کے راستے میں غباآلود ہوئے تو وہ دونوں قدم آگ پر حرام ہیں ۔(کتا ب الجہاد لا بن مبارک)
٭ربیع بن زیاد رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور اکرم صلی علیہ وسلم [ایک لشکر لے کر ] تشریف لے جارہے تھے کہ آپ نے ایک قریشی نوجوان کو راستے سے ہٹ کر چلتے دیکھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کیا یہ فلاں نوجوان نہیں ہے؟صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے عرض کیا جی ہاں یہ وہی ہے ۔آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا اسے بلاؤ ۔جب وہ حا ضر ہوا تو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم راستے سے ہٹ کر کیو ں چل رہے ہو۔ اس نے کہااے اللہ تعالیٰ کے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم ) میں غبا ر کو پسند نہیں کرتا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا [اے نوجوان ] اس غبا ر سے نہ بچو ۔ قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضے میں میری جان ہے یہ تو جنت کا عطر ہے ۔(مصنف ابن ابی شیبہ ۔ مراسیل ابی داؤد )
٭ حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:جو شخص ایک شام اللہ تعالیٰ کے راستے میں چلا تو اسے قیامت کے دن اتنامشک ملے گا ۔جتنا اسے [اس راستے کا ] غبار پہنچے گا۔(الطبرانی )
٭حضرت ابوداردء رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اللہ تعالیٰ کے راستے کے غباسے بچنے کے لئے ڈھانا(یعنی منہ پر کپڑا) نہ باندھو کیونکہ اللہ تعالیٰ کے راستے کا غبا ر تو جنت کے مشک کی خوشبو ہے( ابن عساکر)
٭حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : اللہ تعالیٰ کے راستے کا غبا ر قیا مت کے دن چہروں کو منور [ سفید اورچمکدار ] بنانے کا ذریعہ ہوگا۔(ابن عساکر)
مصنف رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ قیا مت کے دن کچھ چہرے چمکدار ہنستے خوشیا ں منانے والے ہوں گے اور کچھ چہرے اس دن غبا ر آلود ہوں گے جن پر ذلت اورسیاہی چھائی ہوئی ہوگی تو جو شخص دنیا میں اللہ تعالیٰ کے راستے کا غبار اپنے چہرے پر لے گا وہ قیا مت کے دن کے غبا ر سے محفوظ کردیا جا ئے گا اور اللہ تعالیٰ اس کے چہرے پر سفیدی چمک اور خوشی کے آثار بھی عطاء فرمادے گا ۔بے شک اللہ تعالیٰ بڑے فضل والا ہے۔
٭حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا جو شخص سفر میں اپنی سواری سے اتر کر [ اپنی باری میں ] پیدل چلے گا اسے ایک غلام آزاد کرنے کا اجر ملے گا۔ (شفاء الصدور)
[سفر جہاد میں بعض اوقات سواریا ں کم ہوتی ہیں اور مجاہدین زیادہ ۔ تب مجاہد ین باری باری سوار ہوتے ہیں اور باری باری پیدل چلتے ہیں مذکور ہ بالا حدیث میں اسی کی فضیلت کا بیان ہے ]۔
٭قاسم بن محمد رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ایک دن حضرت سالم بن عبد اللہ نے اپنے گھر والوں سے کہا کہ میرا سامان جہاد دتیار کرو میں اب گھر میں ایک رات بھی نہیں رکوں گا کیونکہ میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ میں آسمان کے دروازے پر پہنچا تو میں نے اسے کھٹکھٹایا ۔ وہاں سے پوچھا گیا کون ؟میں نے کہاسالم بن عبد اللہ ۔وہاں سے جواب ملایہ دروازہ ایسے شخص کے لئے کس طرح سے کھولا جائے جس کے پاؤں جہاد میں کسی دن یا رات میں غبار آلود نہیں ہوئے ۔ راوی کہتے ہیں حضرت سالم فرمایا کرتے تھے کہ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے بھی ایسا ہی خواب دیکھا تھا۔( شفاء الصدور)
٭ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ غزوہ بدر کے دن تین آدمیوں کے حصے میں ایک اونٹ آیا تھا۔ حضرت ابولبابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اورحضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضوراکر م صلی اللہ علیہ وسلم کے اونٹ میں [سواری کے ] حصہ دار تھے جب حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پیدل چلنے کی باری آتی تو وہ دونوں حضرات عرض کرتے ۔اے اللہ تعالیٰ کے رسول !( صلی اللہ علیہ وسلم )ہم آپ کے حصے کا پیدل چل لیں گے ۔ [ آ پ سواری پر تشریف رکھیں ]
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں فرمایا :تم دونوں مجھ سے زیادہ طاقت ور نہیں ہو اورنہ میں تم دونوں کی نسبت اجر وثواب کمانے سے زیادہ مستغنی ہوں ۔(المستدرک)
مصنف رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اس حدیث میں چند باتیں نہایت وضاحت کے ساتھ سمجھائی گئی ہیں۔
( 1 ) اللہ تعالیٰ کے راستے میں پیدل چلنا اجر وثوا ب کا باعث ہے۔
( 2 ) امیر کے لئے مستحب ہے کہ وہ اپنی راحت کے لئے خصوصی مراعات حاصل نہ کرے بلکہ اپنے مامورین کے ساتھ ہر طرح کی تکلیف ومشقت میں برابر کا شریک رہے ۔
( 3 ) مروت کا تقاضا یہ ہے کہ کوئی شخص اپنے شریک سفر رفقاء کے درمیان اپنے لئے کوئی خصوصی فائدہ حاصل نہ کرے ۔
( 4 ) رفقاء کو چاہیے کہ اپنے سے افضل افراد کے لئے ایثار و قربانی کامعاملہ کریں [جیسا کہ حضرت ابولبابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اورحضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی پیش کش سے معلوم ہوتاہے۔]
( 5 ) حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تمام مخلوق سے افضل ترین ہونے کے باوجود تواضع کو پسند فرماتے تھے۔
[ ایک مسلمان کو اس سے بڑھ کر اورکیا چاہیے کہ اسے قیامت کے دن دوزخ کی آگ اوراس کے خوفناک دھویں سے نجات مل جائے ہم نے اس باب میں جتنی بھی احادیث اور روایا ت پڑھی ہیں یہ سب ہمارے ہی لئے ہیں۔ آج اگر مسلمان ان احادیث پر یقین نہیں کریں گے اورنجات کے ان راستوں کو اختیار نہیں کریں گے توکل کوئی پوچھ سکتا ہے کہ آخر یہ فضائل کس کے لئے بیان کئے گئے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ کے راستے کا غبار ہر اس آدمی کو آسانی سے نصیب ہوسکتا ہے جو جہاد کے راستے ہر چل پڑتا ہے ۔ بظاہر آسان اورسستی نظر آنے والی یہ نعمت کتنی بڑی ہے کہ اس کی بدولت قیامت کے دن کے غبار اور گرمی سے نجات ملے گی اور دوزخ کی آگ حرام ہوجائے گی۔اگر مسلمان تھوڑا ساغور کریں تو انہیں معلوم ہوجائے گا کہ اللہ تعالیٰ کے راستے کے اسی غبار میں ان کی عظمت رفتہ کے قابل رشک مینارچھپے ہوئے ہیں اور اسی مٹی میں ان کی عزت اورنجات کے راز پوشیدہ ہیں ہمارے اسلاف اسی مٹی کو پھانکتے رہے۔ اسی میں جیتے رہے اور اسی میں مرتے رہے اور دنیاان کے قدموں پر گرتی رہی اور بادشاہتیں ان کی چوکھٹوں پر جزیے دیکر زندگی کے سانس لتی رہیں اسلاف میں سے ایسے حضرات بھی گزرے ہیں جو اللہ تعالیٰ کے راستے کی مٹی اپنے کپڑوں پر سے جمع کرتے رہے اور بالآ خر وہی مٹی ان کی قبر بنی ۔ یقینا انہیں اسی مٹی میں بہت کچھ نظر آرہا تھا اورانہوں نے اس مٹی کی قدروقیمت اوراس کی عظمت ومنزلت کو پہچان لیا تھا چنانچہ انہوں نے اس مٹی کو بھی پا لیا اور اس مٹی کے اندر چھپے ہوئے دینوی اوراخروی خزانے بھی لوٹ لئے مگر آج ہم اس مبارک غبار سے محروم ہو کر ذلت کی مٹی چاٹ رہے ہیں اوراپنے دشمنوں کے قدموں میں گر کر روزی کی بھیک مانگ رہے ہیں۔
اے مسلمانو! اللہ تعالیٰ کے راستے کے غبار کی عظمت کو سمجھنے کی کوشش کرو اور پھر اسے پانے کے لئے خوب محنت کرو ۔ تمہیں انشاء اللہ تعالیٰ وہ سب کچھ مل جائے گا جس کی تمہیں اس دنیا میں اور پھر مرنے کے بعد ضرورت ہے ۔یاد رکھو اگر تمہارے قدم اس غبار کو پانے میں کامیاب ہوگئے تو یقین کرو دنیا کا کفر تمہارے انہیں قدموں کے نیچے دم توڑے گا ۔
یا اللہ ہم سب کو اپنے راستے کے غبار کی حقیقت سمجھادے اور اس غبار کا کچھ حصہ عطاء فرماکر اس کے اندر چھپے ہوئے خزانے امت مسلمہ کامقدر بنادے اوردوزخ کی آگ کو ہم سب پر حرام فرمادے ۔ آمین]