مجھے سمجھ نہیں آ رہی کہ میں اس موضوع کو کہاں سے شروع کروں۔ کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ
پتا پتا ہے معرفتِ کردگار کا دفتر
"اللہ ہے یا نہیں۔" کہنے کو یہ چھوٹا سا سوال ہے لیکن یہ وہ بنیاد ہے جس پر دین کی ساری عمارت کھڑی ہوتی ہے۔ یہ بنیاد ٹیڑھی ہو یا کمزور ہو تو بننے والی دیوار تا ثریا ٹیڑھی ہی رہے گی۔ میں اس بارے میں وقتًا فوقتًا پوسٹ کرتا رہوں گا ان شاء اللہ۔
آپ یہ پوسٹ پڑھتے ہوئے یقینًا کمپیوٹر پر بیٹھے ہوں گے۔ ایک لمحے کے لیے آنکھیں بند کر لیجیے اور فرض کیجیے کہ آپ ایک ہزار سال پہلے کے انسان ہیں جس کے زمانے میں بجلی تھی نہ الیکٹرانکس کی دوسری ایجادات موجود تھیں۔ پھرکسی محیر القول واقعے کے نتیجے میں آپ کئی صدیاں طے کر کے اس کمرے میں پہنچ گئے جہاں آپ کا کمپیوٹر موجود ہے۔ اس کمرے میں آپ اکیلے ہیں۔ باہر کی دنیا سے آپ کا کوئی رابطہ نہیں۔ آپ دیکھتے ہیں کہ کمپیوٹر ایک حیرت انگیز چیز ہے جس پر دنیا کے کسی بھی حصے سے رابطہ قائم کیا جا سکتا ہے، فلم دیکھی جا سکتی ہے، میوزک سنا جا سکتا ہے۔ آپ کے دل میں تجسس پیدا ہوتا ہے کہ ذرا میں کھول کر تو دیکھوں اس کے اندر ہے کیا؟ کھولنے پر معلوم پڑتا ہے کہ اس میں چند دھاتی تاریں ہیں، کچھ پلاسٹک ہے، سیاہ رنگ کے چھوٹے چھوٹے پرزے ہیں اور ایک طرف سے بجلی کی تار اس میں لگی ہوئی ہے۔ آپ بہت غوروخوض کرتے ہیں لیکن کچھ سمجھ نہیں آتی کہ یہ عجیب و غریب شئے کیسے بن گئی۔ کچھ عرصہ گزرنے کے بعد آپ ایک نظریہ قائم کرتے ہیں:
"آج سے لاکھوں اربوں سال پہلے کی بات ہے۔ زمین پر درجہ حرارت بہت زیادہ ہوتا تھا۔ ٹمپریچر کی شدت اس قدر تھی کہ کوئی چیز ٹھوس حالت میں نہ ملتی تھی۔ زمین پر جو کچھ تھا مائع یا گیس کی صورت میں تھا۔ آکسیجن کا وجود نہ تھا اور نائٹروجن اور ہائیڈروجن کثرت سے پائی جاتی تھیں۔ پھر آہستہ آہستہ زمین ٹھنڈی ہونا شروع ہوئی۔ اس میں ٹھوس زمین ابھرنی شروع ہوئی۔ ہزاروں برس اسی حال میں گزرے۔ پھر ایسا ہوا کہ کسی طرف سے کچھ دھاتیں بہتی ہوئی آئیں اور مٹی کے درمیان پھنس گئیں۔لاکھوں برس گزرنےکے بعد پیچیدہ کیمیائی عوامل ہوئے جن کے نتیجے میں پلاسٹک نے وجود پایا۔ پھر عرصہ گزرنے کے بعد پلاسٹک اور دھاتیں ملنا شروع ہو گئیں۔ ابتداء میں ان کی شکل نہایت سادہ تھی۔ لیکن وقت گزرنے کے ساتھ اس میں ترقی ہوتی گئی اور صدیوں کے ارتقاء کے بعد اس نے مائیکروپروسیسر کی شکل اختیار کر لی۔ اس آئی سی چِپ کو معلوم تھا کہ یہاں بقائے اصلح (Survival of the Fittest) کا قانون چلتا ہے۔ اس لیے اس نے ترقی جاری رکھی اور بتدریج اپنے نقائص پر قابو پاتی رہی۔ آسمانی گرج چمک ارتقائی عمل کے دوران پاور پلانٹ میں بدل گئی۔ لہروں کے اتار چڑھاؤ سے پلاسٹک اور تانبا ایک بار پھر جمع ہوئے لیکن اس بار انہوں نے تاروں کی صورت اختیار کی۔ یہ تاریں پاور پلانٹ سے جڑ گئیں اور کسی وقت آندھی اور طوفان کے نتیجے میں ان کا دوسرا سرا کمپیوٹر سے آ لگا۔ آج ہمارے سامنے جو کمپیوٹر موجود ہے وہ اسی ارتقائی عمل کا نتیجہ ہے۔"
یقین کریں جتنی لغو یہ تھیوری ہے اس سے کہیں زیادہ لغو اور بودی تھیوری وہ ہے جسے تحقیق کے نام پر ڈارون کی روحانی اولاد پیش کرتی ہے۔ جب ایک سادہ کمپیوٹر ارتقائی عمل کے نتیجے میں نہیں بن سکتا تو یہ کیسے ممکن ہے کہ انسان جو کمپیوٹر کا موجد ہے وہ خودبخود بن گیا ہو؟ اس میں سوچنے سمجھنے، بات کرنے، محبت و نفرت کے جذبات، پیچیدہ نفسیاتی کیفیات، نظام انہضام، تنفس، استخوان، دماغ، پمپ کی طرح کام کرتا ہوا دل، دنیا کے کسی بھی کیمرے سے زیادہ واضح عکس بناتی ہوئی آنکھیں، اس کا نظامِ تولید کیا آپ سے آپ بن گئے؟ کوئی صاحبِ عقل یہ فیصلہ نہیں کر سکتا کہ یہ سب آپ سے آپ ہو گیا۔ میں جب ان چیزوں پر غور کرتا ہوں تو مجھے ایک معروف عالم کا جملہ یاد آتا ہے کہ جو شخص اللہ تعالیٰ کے وجود میں شک کرتا ہے میں اسے اس قابل نہیں سمجھتا کہ کسی معقول مسئلے پر اس سے گفتگو کروں۔
اب آئیے انسانی وجود کے ایک نہایت چھوٹے حصے خلیے یا cell کو دیکھتے ہیں۔ ایک خلیے کو بنانے کے لیے جو شرائط درکار ہیں وہ اتنی زیادہ ہیں کہ اتفاقًا ان کا وقوع پذیر ہونا ممکن نہیں۔ کسی بھی جاندار کا خلیہ لے لیں وہ تمام انسانی ایجادات سے زیادہ پیچیدہ ہو گا۔ جدید ترین لیبارٹریز میں مصنوعی ماحول پیدا کر کے چند مرکبات تو بنائے جا سکے ہیں لیکن کوئی زندہ خلیہ نہیں بنایا جا سکا۔ خلیے کا بنیادی حصہ پروٹین ہوتی ہے جسےبنانے کے لیے 500 قسم کے امائینو ایسڈز چاہیئیں۔ جس کا امکان 10 Raise power 950 یا (دس کی طاقت نو سو پچاس) میں سے صرف ایک ہے جو عملًا ناممکن ہے۔ ڈی این اے مالیکیول خلیے کے مرکزے میں پایا جاتا ہے۔ اس میں جینیٹک انفارمیشن محفوظ ہوتی ہے جو معلومات کا ایک ناقابل یقین خزانہ ہے۔ ڈی این اے میں محفوظ معلومات کو لکھا جائے تو یہ پانچ سو صفحات پر مبنی انسائیکلو پیڈیا کی نو سو جلدوں والی کتاب بن جائے۔
اس بارے میں مزید تفصیلات عنقریب پیش کروں گا ان شاء اللہ۔
پتا پتا ہے معرفتِ کردگار کا دفتر
"اللہ ہے یا نہیں۔" کہنے کو یہ چھوٹا سا سوال ہے لیکن یہ وہ بنیاد ہے جس پر دین کی ساری عمارت کھڑی ہوتی ہے۔ یہ بنیاد ٹیڑھی ہو یا کمزور ہو تو بننے والی دیوار تا ثریا ٹیڑھی ہی رہے گی۔ میں اس بارے میں وقتًا فوقتًا پوسٹ کرتا رہوں گا ان شاء اللہ۔
آپ یہ پوسٹ پڑھتے ہوئے یقینًا کمپیوٹر پر بیٹھے ہوں گے۔ ایک لمحے کے لیے آنکھیں بند کر لیجیے اور فرض کیجیے کہ آپ ایک ہزار سال پہلے کے انسان ہیں جس کے زمانے میں بجلی تھی نہ الیکٹرانکس کی دوسری ایجادات موجود تھیں۔ پھرکسی محیر القول واقعے کے نتیجے میں آپ کئی صدیاں طے کر کے اس کمرے میں پہنچ گئے جہاں آپ کا کمپیوٹر موجود ہے۔ اس کمرے میں آپ اکیلے ہیں۔ باہر کی دنیا سے آپ کا کوئی رابطہ نہیں۔ آپ دیکھتے ہیں کہ کمپیوٹر ایک حیرت انگیز چیز ہے جس پر دنیا کے کسی بھی حصے سے رابطہ قائم کیا جا سکتا ہے، فلم دیکھی جا سکتی ہے، میوزک سنا جا سکتا ہے۔ آپ کے دل میں تجسس پیدا ہوتا ہے کہ ذرا میں کھول کر تو دیکھوں اس کے اندر ہے کیا؟ کھولنے پر معلوم پڑتا ہے کہ اس میں چند دھاتی تاریں ہیں، کچھ پلاسٹک ہے، سیاہ رنگ کے چھوٹے چھوٹے پرزے ہیں اور ایک طرف سے بجلی کی تار اس میں لگی ہوئی ہے۔ آپ بہت غوروخوض کرتے ہیں لیکن کچھ سمجھ نہیں آتی کہ یہ عجیب و غریب شئے کیسے بن گئی۔ کچھ عرصہ گزرنے کے بعد آپ ایک نظریہ قائم کرتے ہیں:
"آج سے لاکھوں اربوں سال پہلے کی بات ہے۔ زمین پر درجہ حرارت بہت زیادہ ہوتا تھا۔ ٹمپریچر کی شدت اس قدر تھی کہ کوئی چیز ٹھوس حالت میں نہ ملتی تھی۔ زمین پر جو کچھ تھا مائع یا گیس کی صورت میں تھا۔ آکسیجن کا وجود نہ تھا اور نائٹروجن اور ہائیڈروجن کثرت سے پائی جاتی تھیں۔ پھر آہستہ آہستہ زمین ٹھنڈی ہونا شروع ہوئی۔ اس میں ٹھوس زمین ابھرنی شروع ہوئی۔ ہزاروں برس اسی حال میں گزرے۔ پھر ایسا ہوا کہ کسی طرف سے کچھ دھاتیں بہتی ہوئی آئیں اور مٹی کے درمیان پھنس گئیں۔لاکھوں برس گزرنےکے بعد پیچیدہ کیمیائی عوامل ہوئے جن کے نتیجے میں پلاسٹک نے وجود پایا۔ پھر عرصہ گزرنے کے بعد پلاسٹک اور دھاتیں ملنا شروع ہو گئیں۔ ابتداء میں ان کی شکل نہایت سادہ تھی۔ لیکن وقت گزرنے کے ساتھ اس میں ترقی ہوتی گئی اور صدیوں کے ارتقاء کے بعد اس نے مائیکروپروسیسر کی شکل اختیار کر لی۔ اس آئی سی چِپ کو معلوم تھا کہ یہاں بقائے اصلح (Survival of the Fittest) کا قانون چلتا ہے۔ اس لیے اس نے ترقی جاری رکھی اور بتدریج اپنے نقائص پر قابو پاتی رہی۔ آسمانی گرج چمک ارتقائی عمل کے دوران پاور پلانٹ میں بدل گئی۔ لہروں کے اتار چڑھاؤ سے پلاسٹک اور تانبا ایک بار پھر جمع ہوئے لیکن اس بار انہوں نے تاروں کی صورت اختیار کی۔ یہ تاریں پاور پلانٹ سے جڑ گئیں اور کسی وقت آندھی اور طوفان کے نتیجے میں ان کا دوسرا سرا کمپیوٹر سے آ لگا۔ آج ہمارے سامنے جو کمپیوٹر موجود ہے وہ اسی ارتقائی عمل کا نتیجہ ہے۔"
یقین کریں جتنی لغو یہ تھیوری ہے اس سے کہیں زیادہ لغو اور بودی تھیوری وہ ہے جسے تحقیق کے نام پر ڈارون کی روحانی اولاد پیش کرتی ہے۔ جب ایک سادہ کمپیوٹر ارتقائی عمل کے نتیجے میں نہیں بن سکتا تو یہ کیسے ممکن ہے کہ انسان جو کمپیوٹر کا موجد ہے وہ خودبخود بن گیا ہو؟ اس میں سوچنے سمجھنے، بات کرنے، محبت و نفرت کے جذبات، پیچیدہ نفسیاتی کیفیات، نظام انہضام، تنفس، استخوان، دماغ، پمپ کی طرح کام کرتا ہوا دل، دنیا کے کسی بھی کیمرے سے زیادہ واضح عکس بناتی ہوئی آنکھیں، اس کا نظامِ تولید کیا آپ سے آپ بن گئے؟ کوئی صاحبِ عقل یہ فیصلہ نہیں کر سکتا کہ یہ سب آپ سے آپ ہو گیا۔ میں جب ان چیزوں پر غور کرتا ہوں تو مجھے ایک معروف عالم کا جملہ یاد آتا ہے کہ جو شخص اللہ تعالیٰ کے وجود میں شک کرتا ہے میں اسے اس قابل نہیں سمجھتا کہ کسی معقول مسئلے پر اس سے گفتگو کروں۔
اب آئیے انسانی وجود کے ایک نہایت چھوٹے حصے خلیے یا cell کو دیکھتے ہیں۔ ایک خلیے کو بنانے کے لیے جو شرائط درکار ہیں وہ اتنی زیادہ ہیں کہ اتفاقًا ان کا وقوع پذیر ہونا ممکن نہیں۔ کسی بھی جاندار کا خلیہ لے لیں وہ تمام انسانی ایجادات سے زیادہ پیچیدہ ہو گا۔ جدید ترین لیبارٹریز میں مصنوعی ماحول پیدا کر کے چند مرکبات تو بنائے جا سکے ہیں لیکن کوئی زندہ خلیہ نہیں بنایا جا سکا۔ خلیے کا بنیادی حصہ پروٹین ہوتی ہے جسےبنانے کے لیے 500 قسم کے امائینو ایسڈز چاہیئیں۔ جس کا امکان 10 Raise power 950 یا (دس کی طاقت نو سو پچاس) میں سے صرف ایک ہے جو عملًا ناممکن ہے۔ ڈی این اے مالیکیول خلیے کے مرکزے میں پایا جاتا ہے۔ اس میں جینیٹک انفارمیشن محفوظ ہوتی ہے جو معلومات کا ایک ناقابل یقین خزانہ ہے۔ ڈی این اے میں محفوظ معلومات کو لکھا جائے تو یہ پانچ سو صفحات پر مبنی انسائیکلو پیڈیا کی نو سو جلدوں والی کتاب بن جائے۔
اس بارے میں مزید تفصیلات عنقریب پیش کروں گا ان شاء اللہ۔