یوسف-2
محفلین
شاہراہ قائدین کی نشانیاں دو تھیں۔ایک قدیم اور ایک جدید ۔ یہ بات الگ ہے کہ اس کی جدت میں قدامت اور قدامت میں جدت تھی۔قدیم نشانی تو شاہراہ قائدین کو سمجھ لیجئے جو قائد اعظمؒ اور تحریک پاکستان میں ان کے رفقاء کے قدموں سے برآمد ہوتی ہوئی شاہراہ فیصل سے جا ملتی۔ گویا یہ شاہراہ فقط عام سی شاہراہ نہ تھی پاکستان کے نظریاتی راستے بلکہ خارجہ پالیسی کے بارے میں علامتی طور پر رہنمائی بھی فراہم کرتی ہے ۔ اس شاہراہ کی دوسری نشانی آرٹ کا ایک شاہ کار ہے جسے اللہ والی چورنگی کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔آج میں دفتر جانے کے لیے گھر سے نکلا اور مزار قائد کے پہلو کشمیر روڈ سے نکلتا ہوا شاہراہ قائدین پر آیا تو دل دھک سے رہا گیا۔کیا دیکھتا ہوں کہ اللہ والی چورنگی غائب ہے۔دل کو سمجھایا کہ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ چورنگی یعنی زمین کا ایک ٹکڑا ہی غائب ہو جائے لیکن جیسے جیسے میں آگے بڑھتا گیا میرا یقین بڑھتا گیا کہ چورنگی تو غائب ہو گئی۔اس چورنگی کی کہانی بڑی دلچسپ اور ایک اعتبار سے روحانی قسم کی ہے۔یہ ایک آرٹسٹ کے فن کی یوں سمجھئے داستان ہے جس نے ایک ایساخواب دیکھا تھا جس کی تعبیر ممکن نہ تھی ۔بس اسی خواب کی دھن تھی جس نے اس سے ایک ایسا شاہ کار بنوادیا جس کے چرچے صرف پاکستان میں نہیں دنیا بھر میں ہوئے اور اس کے ماڈل فقط کراچی میں نہیں شہر شہر بنے بلکہ گھر گھر پہنچے۔
کراچی ایک جدید اور خوبصورت شہر ہے۔شہر کو مزید خوبصورت بنانے کے لیے گزشتہ پندرہ بیس برسوں کے دوران کافی کام ہوا ہے ۔شہری اداروں نے شہر کی اہم اور بڑی شاہراہوں پر بڑے بڑے خوبصورت مونومنٹ بنوائے۔بعض مونومنٹ تو ایسے تھے جنھیں لوگوں سے دیکھا اور گزر گئے۔دل پر کوئی اثر ہوا اور نہ کوئی درد جاگا لیکن کچھ ایسے بھی تھے جو آنکھوں کے راستے دل میں اتر جاتے تھے۔ان میں اس چورنگی کا مونو منٹ بھی تھاجس نے یوں سمجھئے کہ طارق روڈ چورنگی کو جہاں سے کراچی کی انارکلی کا راستہ پھوٹتا ہے،اللہ والی چورنگی کا نام دے دیا اور کیوں نہ ہوتا ۔ یہ مونومنٹ پاکستان کے ایک مایۂ ناز آرٹسٹ کا بنایا ہوا تھا۔ایک بار ہم لوگ کرنل اشفاق کے ساتھ صحرائے تھر کے دورے پر گئے ۔کراچی سے سیکڑوں میل دورجہاں پکی سڑک ملتی ہے اور نہ پانی ۔فوج نے چھور کے مقام پر ایک گلشن آباد کردیا ہے۔کہنے کو تو یہ ایک حساس سرحدی مقام ہے جہاں ایک فوجی چھاونی ضروری تھی اور وہ چھاونی بن بھی گئی۔ہم لوگ جب وہاں پہنچے تو ایک بریگیڈئر صاحب نے ہمارا خیر مقدم کیا اورہمیں چھاونی کی یوں سیر کرائی جیسے کوئی برسوں سے بچھڑے ہوئے رشتے دار کو گھر کا کونہ کونہ دکھاتا ہے۔چھاونی میں گھومتے گھومتے ہم لوگ ایک چوراہے پر پہنچے تو حیرت سے ٹھٹک گئے ۔بریگیڈئر صاحب مسکرائے اور کہا کہ دیکھئے ہم آپ کی کراچی کی چورنگی اٹھا کر یہاں لے آئے ہیں۔کراچی کی اللہ والی یہ چورنگی ہم نے پہلے چھور میں دیکھی پھر اس کے بعد ملک کا کونسا حصہ تھا جہاں یہ دکھائی نہ دی۔ایک روز تو حیرت ہوگئی۔شاید میری کسی سالگرہ کا موقع تھا یا کوئی اور کہ مجھے تحفے میں ایک بکس ملا۔ کھولا تو کیا دیکھتا ہوں کہ پیتل سے بنا اللہ والی چورنگی کا ریپلیکا جگمگا رہا ہے لیجئے اللہ والی چورنگی میرے گھر میں بھی چلی آئی اور یہ چورنگی فقط میرے گھر میں ہی تو نہ تھی ۔گھر گھر میں اس کا ایک سے ایک خوبصورت ماڈل موجود تھا بلکہ بعض اداروں نے تو اسے تحائف دینے کے لیے تیار کراکے تقسیم کیا تھا۔یوں یہ چورنگی ملک کے ایک شہر کی چورنگی نہ رہی تھی بلکہ آرٹ کے ایک شاہ کار کے طور پر لوگوں کے دلوں میں جگہ بنا چکی تھی۔
آئیے! اب میں آپ کو اس کے آرٹسٹ بلکہ اس شاہ کار کی کچھ کہانی بھی بتادوں۔ممتاز مفتی لکھتے ہیں ایک روز جب وہ کراچی میں رہتے تھے، گھر سے نکلے تو کیا دیکھتے ہیں کہ آزر زوبی سیڑھیوں میں بے کل سا بیٹھا ہے۔ مفتی صاحب کو دیکھا تو کہا کہ چلو میں تمھیں لینے اور کچھ دکھانے آیا ہوں۔اچھا چلو، مفتی صاحب نے کہا اور پوچھا کہ تم مجھے کہا ں لے جانا چاہتے ہو؟آزر زوبی نے کہا کہ بات بتانے کی نہیں دکھانے کی ہے۔دونوں دوست چلتے چلتے منوڑے کے قریب جا پہنچے ۔ آزر زوبی نے ایک جانب اشارہ کرتے ہوئے کہ وہ سامنے کی پہاڑیاں دیکھتے ہو؟ ایک سمندر کے دائیں جانب اور ایک سمندر کے بائیں جانب؟ مفتی صاحب نے اثبات میں جواب دیا کہ ان دنوں پہاڑیوں کے اوپر تمھیں قائد اعظمؒ بھی نظرآتے ہیں؟ مفتی صاحب نے کہا کہ نہیں۔ وہاں قائد اعظمؒ تھے بھی نہیں۔زوبی کہنے لگے کہ دیکھو،ایک پہاڑی کی چوٹی پر قائد کا ایک قدم ہے اور دوسری پر دوسرا پھر وہ بلند ہوتے جاتے ہیں اور یوں ان کا سر آسمانوں تک بلند نظر آتا ہے۔مفتی صاحب حیرت سے زوبی کو تکنے لگے تو زوبی نے کہا قائد کا مجسمہ تو یہاں موجود ہے ۔بس، تراش کراسے دنیا کے سامنے لانا ہے اور وہ کام میں کروں گا۔مفتی صاحب نے کہا کہ زوبی پاگل ہوئے ہو، بھلا کوئی اتنا بڑا مجسمہ بھی کوئی بنا سکتا ہے؟ آذر زوبی نے مفتی صاحب کی بات سنی اور کہا، ’’میں بناؤں گا مفتی میں بناؤں گا‘‘بات آئی گئی ہو گئی لیکن آزر زوبی کی بے کلی اور فنی سفر جاری رہا۔ قائد اعظم ؒ کا مجسمہ بننا تو ایک خواب یا یوں سمجھ لیجئے کہ ایک فن کار کے دل میں پیدا ہونے والے کسک اور نامعلوم کو پالینے کی خواہش تھی جوایک روز لفظ اللہ کی شکل میں ظہور میں آئی اورآنکھوں کے راستے دل میں اترتی چلی گئی۔کوئی اگر برا نہ مانے تو میں یہ کہ دوں کہ یہ فن کا ایک ایسا شاہ کار ہے جو صدیوں میں ظہور میں آتا ہے ۔آذر ذوبی نے اس چورنگی پر فقط اللہ ہی نہیں لکھا تھا بلکہ اس ایک لفظ میں اسلام کا پورا عقیدہ ، اس کی تمام تر تعلیمات کو مجسم کردیا تھا۔اس فن پارے کو آرٹ کی دنیا کااس اعتبار سے بھی شاہ کار قرار دیا جاسکتا ہے کہ یہ مجسمہ سازی کے فن میں ایک ایسا انحراف تھا جو مجسمہ ہوتے ہوئے بھی مجسمہ نہیں تھایا مجسمہ نہ ہوتے ہوئے بھی مجسمہ تھا۔افسوس کہ آرٹ کا یہ شاہ کار اب نہیں رہا۔ یہاں کی مقامی حکومت نے سڑک کی توسیع کا منصوبہ بنایا اور اسے ملیا میٹ کردیا۔حالا نکہ جب اس طرح کے منصوبے بنائے جاتے ہیں اور ان کی زد میں ایسے شاہ کار آتے ہیں توسیعی منصوبے برقرار رکھنے کے باوجود ایسے فن پاروں کو محفوظ رکھنے کا اہتمام کیا جاتا ہے مگر یہ سبق کراچی کی مقامی حکومت کو کون سمجھائے؟مجھے دکھ ہے کہ اس شہر کے کسی والی وارث نے بھی تو اس کھٹور پن بلکہ بھیانک جرم کے خلاف آواز نہیں اٹھائی۔ (فاروق عادل کا کالم، روزنامہ نئی دنیا 23 دسمبر 2012 )