فرحان محمد خان
محفلین
اللہ کا حق اور ہمارا فرض
صاحبو ایک بات کا ہم سبھی کو علم ہے ایک کا حق کسی دوسرے پہ فرض ہوتا ہےاور جو اپنے فرض ادا نہیں کرتا وہ اپنے حق کا حقدار نہیں ہوتا اگر وہ حق کا دعوی کرے تو یہ دعوی اس کا باطل ہو گا اب آتے ہیں اپنے مضمون کی طرف صاحبو قرآن اٹھا کر دیکھ لیجئے اللہ پاک نے تین مقامات پہ انسان سے یہ شکوہ کیا ہے انسان نے اللہ کا حق ادا نہیں کیا جیسے کے اس کا حق ادا کرنا چاہئے تھا انسان نے اللہ کی قدر نہیں کی جیسے اس کی قدر کرنی چاہئے تھی اب میں وہ آیات شامل کرنا چاہتا ہوں جن میں اللہ نے اپنی ناقدری کا شکوہ کیا ہے تو سب سے پہلے اللہ نے سورہ انعام کی آیت نمبر 91 میں اس شکوہ کا ذکر کیا ہے تو لیجیئے آیت
"وَمَا قَدَرُوا اللّ۔ٰهَ حَقَّ قَدْرِهٖ اِذْ قَالُوْا مَآ اَنْزَلَ اللّ۔ٰهُ عَلٰى بَشَرٍ مِّنْ شَىْءٍ ۗ قُلْ مَنْ اَنْزَلَ الْكِتَابَ الَّ۔ذِىْ جَآءَ بِهٖ مُوْسٰى نُوْرًا وَّهُدًى لِّلنَّاسِ ۖ تَجْعَلُوْنَهٝ قَرَاطِيْسَ تُبْدُوْنَ۔هَا وَتُخْفُوْنَ كَثِيْ۔رًا ۖ وَعُلِّمْتُ۔مْ مَّا لَمْ تَعْلَمُوٓا اَنْتُ۔مْ وَلَآ اٰبَآؤُكُمْ ۖ قُلِ اللّ۔ٰهُ ۖ ثُ۔مَّ ذَرْهُ۔مْ فِىْ خَوْضِهِ۔مْ يَلْعَبُوْنَ (91)
اور انہوں نے اللہ کو صحیح طور پر نہیں پہچانا جب انہوں نے کہا کہ اللہ نے کسی انسان پر کوئی چیز نہیں اتاری، ان سے کہو کہ وہ کتاب کس نے اتاری تھی جو موسیٰ لے کر آئے تھے وہ جو لوگوں کے واسطے روشنی اور ہدایت تھی، جسے تم نے ورق ورق کر کے رکھا جو تم دکھاتے ہو اور (اس کی) بہت سی باتوں کو چھپاتے ہو، اور تمہیں وہ چیزیں سکھائیں جنہیں تم اور تمہارے باپ دادا نہیں جانتے تھے، تو کہہ دو کہ اللہ ہی نے اتاری تھی، پھر انہیں چھوڑ دو کہ اپنی بحث میں کھیلتے رہیں۔"
اس آیات میں اللہ پاک نے اپنی ناقدری کا شکوہ کیا ہے جو بڑے واضح الفاظ میں ہے اس کے ساتھ اللہ پاک نے سورہِ حج میں اللہ پاک نے اپنی ناقدری کا ذکر دوبارہ کیا ہے جو کچھ اس طرح ہے
مَا قَدَرُوا اللّ۔ٰهَ حَقَّ قَدْرِهٖ ۗ اِنَّ اللّ۔ٰهَ لَقَوِىٌّ عَزِيْزٌ (74)
انہوں نے اللہ کی کچھ بھی قدر نہ کی، بے شک اللہ زور والا غالب ہے۔
یہ سورہ انعام کی آیت نمبر 74 ہے اس میں بھی اللہ پاک نے اپنی ناقدری کا واضح الفاظ میں ذکر کیا شکوہ کیا انسان سے تُو نے میرا حق ادا نہیں کیا جیسے میرا حق ادا کرنا چاہئے تھا
صاحبو اس ناقدری کا ذکر اللہ پاک نے سورہ الزمر کی آیت نمبر 67 میں کیا ہے
وَمَا قَدَرُوا اللّ۔ٰهَ حَقَّ قَدْرِهٖۖ وَالْاَرْضُ جَ۔مِيْعًا قَبْضَتُهٝ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَالسَّمَاوَاتُ مَطْوِيَّاتٌ بِيَمِيْنِهٖ ۚ سُبْحَانَهٝ وَتَعَالٰى عَمَّا يُشْرِكُ۔وْنَ (67)
اور انھوں نے اللہ کی قدر نہیں کی جیسا کہ اس کی قدر کرنے کا حق ہے، اور یہ زمین قیامت کے دن سب اسی کی مٹھی میں ہوگی اور آسمان اس کے داہنے ہاتھ میں لپٹے ہوئے ہوں گے، وہ پاک اور برتر ہے اس سے جو وہ شریک ٹھہراتے ہیں۔
یہاں تک تو میں نے ان مقامات کا ذکر کیا ہے جہاں اللہ پاک نے انسان سے یہ شکوہ کیا ہے انسان نے اللہ کی قدر نہ کی اب صاحبو آپ کے ذہن میں یہ سوال تو پیدا ہو گا کے اللہ کا انسان پہ حق کیا ہے تو صاحبو جب میں نے یہ تحریر لکھنا شروع کی تو میں نے سوچا میں اللہ کے اس حق کا ذکر کیسے کروں گا جو اس کا اپنے بندوں پہ حق ہے میں نے سوچا کے میں کلمہ کے پہلے حصہ کو تفصیل بیان کرتا ہوں جس سے اللہ کے حق کا پتا چلتا ہے ابھی اس سوچ میں تھا کے میرا سامنے سے ایک حدیث گزری جس کی صحت احسن ہے تو میں نے سوچا کے آقا مدنیﷺ کے سوا اللہ کے حق کو کون بہتر بیان کر سکتا ہے اسی لیے صرف و صرف اس حدیث سے اس کریم حق واضح ہو جاتا ہے اب میں یہاں اس حدیث کا ترجمہ پیش کرنا چاہتا ہوں
ترجمہ ’’معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سواری پر آپ کے پیچھے بیٹھا ہوا تھا اور میرے اور آپ کے مابین صرف کجاوے کی لکڑی حائل تھی، اسی حالت میں آپ نے مجھے آواز دی، اے معاذ! میں نے کہا: میں حاضر ہوں ، آپ کی اطاعت اور فرمانبرداری کے لیے تیار ہوں، پھر آپ تھوڑی دیر تک چلتے رہے، پھر فرمایا: اے معاذ! میں نے کہا: میں حاضر ہوں ، آپ کی اطاعت اور فرمانبرداری کے لیے تیار ہوں، پھر آپ تھوڑی دیر تک چلتے رہے، پھر فرمایا: اے معاذ! میں نے کہا: میں حاضر ہوں ، آپ کی اطاعت اور فرمانبرداری کے لیے تیار ہوں۔ آپ نے فرمایا: کیا تم جانتے ہو کہ اللہ کا حق اپنے بندوں پر کیا ہے؟ میں نے کہا کہ اللہ اور اس کا رسول بہتر جانتے ہیں۔ آپ نے فرمایا: اللہ کا حق اپنے بندوں پر یہ ہے کہ وہ خاص اُسی کی عبادت کریں اور اُس کے ساتھ کسی کو بھی شریک نہ ٹھہرائیں۔پھر آپ تھوڑی دیر تک چلتے رہے، پھر فرمایا: اے معاذ بن جبل! میں نے کہا: میں حاضر ہوں ، آپ کی اطاعت اور فرمانبرداری کے لیے تیار ہوں، تو آپ نے فرمایا: کیا تم جانتے ہو کہ بندے جب یہ کام کریں تو اللہ پر اُن کا حق کیا ہے؟ میں نے کہا اللہ اور اُس کا رسول ہی جانتے ہیں، آپ نے فرمایا: اللہ پر اِن بندوں کا حق یہ ہے کہ وہ انھیں عذاب نہ دے۔‘‘
تو صاحبو کسی صاحبِ عقل کے لیے اب یہ بات مشکل ہرگز نہ ہو گی کے اللہ کا انسان پہ کیا حق ہے آپ یہ حق پورا کیجئے باقی اپنے حق کے آپ خود ہی حقدار ہو جاؤ گے اور خالق اپنے حق ادا کرنا خوب جانتا ہے
صاحبو ایک بات یاد رکھنا کے ایک کا حق دوسرا پہ فرض ہوتا ہے یعنی اللہ کا حق اس کے بندہ پہ فرض ہے بس آپ اپنا فرض پورا کیجئے حق آپ کو مل جائے کا اور یہ میرا دعوی ہے آپ فرض پہ غور کرو حق غیب سے ملے گا میں اپنی بات کو جنابِ غالب کے ایک شعر سے ختم کرنا چاہتا ہوں
جان دی، دی ہوئی اسی کی تھی
حق تو یوں ہے کہ حق ادا نہ ہوا
حق تو یوں ہے کہ حق ادا نہ ہوا
آخری تدوین: