حسن محمود جماعتی
محفلین
گزشتہ چند ماہ سے کرونا نامی اس وبائی مرض نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے اور اپنے مہلک اثرات اور ناقابل علاج ہونے کے باعث پوری دنیا میں شدید خوف و ہراس پھیلا رکھا ہے۔ اس سے بچاؤ کی ایک ہی صورت ہے اور وہ ہے احتیاط۔ اس قدر احتیاط کہ اس نے ہمیں گھروں تک محدود اور محصور کر رکھا ہے۔ گویا کہ ہم حالت جنگ میں اور دشمن کے محاصرے میں اپنے علاقے میں محصور کر دیے گئے۔ لیکن یہاں معاملہ اس سے ایک قدم بڑھ کر ہے کہ ہم اپنے گھروں تک محدود ہیں اور ایسے محدود ہیں
کہ بات آنکھ آنکھ سے ہو دور دور سے
میل ملاقات ، نہ مصافحہ، نہ ہی باہم بغل گیر ہو سکتے ہیں بلکہ کہا گیا ہے کہ کم از کم چھ سے آٹھ فٹ کا فاصلہ رکھا جائے۔ اس وبا کے اس قدر مہلک اور شدید ہونے پر اسے عذاب الہی کہا جائے یا آزمائش۔ یہ ہر ایک کا اپنا اپنا معاملہ ہے۔ بندگا ن خدا جو ہر حال میں اس کی رضا میں راضی رہتےہیں وہ اسے مالک کی آزمائش کہتے ہیں اور گنہگاران امت اسے مالک کی ناراضی سے تعبیر کرتے ہوئے اپنی نافرمانیوں کی بدولت مالک کا عذاب کہتے ہیں۔
عذاب ہو یا آزمائش رجوع بہر حال اسی کیطرف ہے۔ اسی سے نجات کی سبیل مانگی جائے گی اور وہی ارحم الراحمین رحم کرنے اور کرم کرنے والا ہے۔
اس ساری گھمبیر صورتحال میں جہاں ہر طرف تناؤ، پریشانی اور خوف پھیلا ہوا ہے۔ جس کیوجہ سے کاروبار زندگی معطل ہیں ۔ وہیں اس وبا کی کرم فرمائی سے کچھ بہت اچھی باتیں بھی وقوع پذیر ہوئی ہیں۔ ایک طرف اگر یہ وبا انتہائی مہلک ہے تو کچھ اچھا بھی لیکر آئی ہے۔
اس وبا کیوجہ سے ہم میں جو خدا خوفی پیداہوئی ہے۔ جو رجوع الی اللہ کی فضا پیدا ہوئی ہے۔ ہر ایک اسی کی طرف لوٹ گیا ہے۔ اسی سے استغفار اور پناہ مانگی جارہی ہے۔
اس وبا کیوجہ سے ہم میں خدا ترسی پیدا ہوئی ہے۔ ہمیں دوسروں کادرد اور احساس ستا رہا ہے۔ ہمیں فکر ہے کاروبار معطل ہونے کیوجہ سے ہمارے ارگرد غریب، دیہاڑی دار مزدور طبقہ کمائے گا کیا اور کھائے گا کیا۔ ہمیں ان کے راشن کا بند و بست کرنا ہو گا۔ ہر کوئی بساط بھر کوشش میں لگا ہوا ہے۔
ابتدائی چند دنوں میں خبریں پھیلیں ماسک مہنگے ہو گئے، سینیٹائزر مہنگے ہوگئے۔ لیکن یہی قوم ہے جو آج بیچنے اور ذخیرہ کرنے کی بجائے ماسک اور سینیٹائزر مفت تقسیم کر رہی ہے۔
اس وبا کے پھیلاؤ کو روکنے کی سب سے بڑی احتیاط میں سے ایک صفائی ستھرائی ۔ سب سے بڑھ کر ہمہ وقت خود کو صاف رکھنااور پھر اپنے ارد گرد کو بھی۔ اس وبا کے اثرات میں سے ایک بہت اچھا اثر یہ بھی ہے اس نے ہمیں صفائی، پاکیزگی اور طہارت پر لگا دیا ہے۔
ہماری قوم کی بہت سی "خوبیوں" میں سے ایک قانون شکنی ہے۔ قانون پر عمل کرنااور قانون کا احترام کرنا ہم حرام سمجھتے ہیں۔ لیکن اس وبا نے ہم سے قانون پر عمل کروایا بلکہ قانون کا احترام اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کا احترام بھی سکھادیا ہے۔
اور دوسری جانب یہی قانون نافذ کرنے والے اہلکار، الا ماشاء اللہ جو انسان کو انسان سمجھ کر پیش آتے ہوں۔ آج اس اخلاق کے ساتھ پیش آتے ہیں۔ انہیں اپنی عوام کی جان کی فکر لاحق ان کا یہ خوبصورت طرز عمل سبحان اللہ۔
اسی طرح حکمران طبقے کا طرز عمل۔ جیسے تیسے سہی انہیں یہ عوام یہ کیڑے مکوڑے کی مخلوق یاد تو آئی۔ ان میں کچھ احساس تو جاگا۔ کم زیادہ جیسے بھی کیے جو بھی کیے کچھ نہ کچھ اقدامات کیے تو۔
اور آخر میں ہم سب ایک دوسرے کو بلا تفریق رنگ و نسل ومذہب و مسلک و فرقہ انسان سمجھ رہے ہیں یہ احترام انسانیت۔ یہ انسانی جان کی قدر وقیمت پیدا ہونا۔
کرونا کے یہ خوبصورت اثرات جس نے پورے معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ اللہ کرے کرونا ختم ہو جائے لیکن اس کے اثرات کبھی ختم نہ ہوں۔
کرونا ختم ہو جائے لیکن کرونا کے یہ اثرات باقی رہیں تو یہ ملک بہت ہی خوبصورت ہے۔ یہ قوم بہت ہی خوبصورت ہے۔
اے مالک الملک ذوالجلال والاکرام ہم بہت کمزور ہیں۔ سب بڑائیاں تجھی کو زیبا ہیں۔ مالک و مختار تو ہی ہے۔ ہم بے بس ہیں ۔ اس وبا کو پوری انسانیت سے ٹال دے۔ مگر اس کے ان اثرات کو ایسے ہی باقی رکھ۔۔۔۔
حسن محمودجماعتی
28-3-20
کہ بات آنکھ آنکھ سے ہو دور دور سے
میل ملاقات ، نہ مصافحہ، نہ ہی باہم بغل گیر ہو سکتے ہیں بلکہ کہا گیا ہے کہ کم از کم چھ سے آٹھ فٹ کا فاصلہ رکھا جائے۔ اس وبا کے اس قدر مہلک اور شدید ہونے پر اسے عذاب الہی کہا جائے یا آزمائش۔ یہ ہر ایک کا اپنا اپنا معاملہ ہے۔ بندگا ن خدا جو ہر حال میں اس کی رضا میں راضی رہتےہیں وہ اسے مالک کی آزمائش کہتے ہیں اور گنہگاران امت اسے مالک کی ناراضی سے تعبیر کرتے ہوئے اپنی نافرمانیوں کی بدولت مالک کا عذاب کہتے ہیں۔
عذاب ہو یا آزمائش رجوع بہر حال اسی کیطرف ہے۔ اسی سے نجات کی سبیل مانگی جائے گی اور وہی ارحم الراحمین رحم کرنے اور کرم کرنے والا ہے۔
اس ساری گھمبیر صورتحال میں جہاں ہر طرف تناؤ، پریشانی اور خوف پھیلا ہوا ہے۔ جس کیوجہ سے کاروبار زندگی معطل ہیں ۔ وہیں اس وبا کی کرم فرمائی سے کچھ بہت اچھی باتیں بھی وقوع پذیر ہوئی ہیں۔ ایک طرف اگر یہ وبا انتہائی مہلک ہے تو کچھ اچھا بھی لیکر آئی ہے۔
اس وبا کیوجہ سے ہم میں جو خدا خوفی پیداہوئی ہے۔ جو رجوع الی اللہ کی فضا پیدا ہوئی ہے۔ ہر ایک اسی کی طرف لوٹ گیا ہے۔ اسی سے استغفار اور پناہ مانگی جارہی ہے۔
اس وبا کیوجہ سے ہم میں خدا ترسی پیدا ہوئی ہے۔ ہمیں دوسروں کادرد اور احساس ستا رہا ہے۔ ہمیں فکر ہے کاروبار معطل ہونے کیوجہ سے ہمارے ارگرد غریب، دیہاڑی دار مزدور طبقہ کمائے گا کیا اور کھائے گا کیا۔ ہمیں ان کے راشن کا بند و بست کرنا ہو گا۔ ہر کوئی بساط بھر کوشش میں لگا ہوا ہے۔
ابتدائی چند دنوں میں خبریں پھیلیں ماسک مہنگے ہو گئے، سینیٹائزر مہنگے ہوگئے۔ لیکن یہی قوم ہے جو آج بیچنے اور ذخیرہ کرنے کی بجائے ماسک اور سینیٹائزر مفت تقسیم کر رہی ہے۔
اس وبا کے پھیلاؤ کو روکنے کی سب سے بڑی احتیاط میں سے ایک صفائی ستھرائی ۔ سب سے بڑھ کر ہمہ وقت خود کو صاف رکھنااور پھر اپنے ارد گرد کو بھی۔ اس وبا کے اثرات میں سے ایک بہت اچھا اثر یہ بھی ہے اس نے ہمیں صفائی، پاکیزگی اور طہارت پر لگا دیا ہے۔
ہماری قوم کی بہت سی "خوبیوں" میں سے ایک قانون شکنی ہے۔ قانون پر عمل کرنااور قانون کا احترام کرنا ہم حرام سمجھتے ہیں۔ لیکن اس وبا نے ہم سے قانون پر عمل کروایا بلکہ قانون کا احترام اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کا احترام بھی سکھادیا ہے۔
اور دوسری جانب یہی قانون نافذ کرنے والے اہلکار، الا ماشاء اللہ جو انسان کو انسان سمجھ کر پیش آتے ہوں۔ آج اس اخلاق کے ساتھ پیش آتے ہیں۔ انہیں اپنی عوام کی جان کی فکر لاحق ان کا یہ خوبصورت طرز عمل سبحان اللہ۔
اسی طرح حکمران طبقے کا طرز عمل۔ جیسے تیسے سہی انہیں یہ عوام یہ کیڑے مکوڑے کی مخلوق یاد تو آئی۔ ان میں کچھ احساس تو جاگا۔ کم زیادہ جیسے بھی کیے جو بھی کیے کچھ نہ کچھ اقدامات کیے تو۔
اور آخر میں ہم سب ایک دوسرے کو بلا تفریق رنگ و نسل ومذہب و مسلک و فرقہ انسان سمجھ رہے ہیں یہ احترام انسانیت۔ یہ انسانی جان کی قدر وقیمت پیدا ہونا۔
کرونا کے یہ خوبصورت اثرات جس نے پورے معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ اللہ کرے کرونا ختم ہو جائے لیکن اس کے اثرات کبھی ختم نہ ہوں۔
کرونا ختم ہو جائے لیکن کرونا کے یہ اثرات باقی رہیں تو یہ ملک بہت ہی خوبصورت ہے۔ یہ قوم بہت ہی خوبصورت ہے۔
اے مالک الملک ذوالجلال والاکرام ہم بہت کمزور ہیں۔ سب بڑائیاں تجھی کو زیبا ہیں۔ مالک و مختار تو ہی ہے۔ ہم بے بس ہیں ۔ اس وبا کو پوری انسانیت سے ٹال دے۔ مگر اس کے ان اثرات کو ایسے ہی باقی رکھ۔۔۔۔
حسن محمودجماعتی
28-3-20