ایم اسلم اوڈ
محفلین
محترم انصار عباسی روزنامہ جنگ کے وہ سینئر کالم نویس ہیں جن کا دل اسلام اور پاکستان کے لئے ہر لمحے دھڑکتا ہے ’’فلاح انسانیت فائونڈیشن‘‘ کے چیئرمین حافظ عبدالرئوف نے پچھلے دنوں محترم انصار عباسی سے ملاقات کی اور بلوچستان کے حقائق سے آگاہ کیا تو عباسی صاحب نے زبردست کالم لکھا۔ روزنامہ جنگ کے شکریہ کے ساتھ جرار کے صفحہ پر اس کالم کو شائع کیا جا رہا ہے۔
(چیف ایڈیٹر)
سپریم کورٹ نے اپنے ایک حالیہ مختصر فیصلے میں یہ تسلیم کیا کہ بلوچستان میں آئینی بریک ڈائون ہو چکا۔ صوبے میں آئین کا نفاذ ہے اور نہ عدالتی حکم پر عمل ہوتا ہے۔ بلاشبہ حکومت، فوج، ایف سی، ایجنسیاں اور بیوروکریسی سب ناکام ہو چکے، صوبائی اسمبلی کے تقریباً تمام ارکان کابینہ میں شامل ہیں مگر عوامی مسائل کی طرف کسی کو توجہ دینے کی فرصت نہیں۔ عوام کے نام پر جاری کیا جانے والا اربوں روپے کا بجٹ کرپشن کی نظر ہو جاتا ہے۔ غریب کو کچھ نہیں ملتا مگر بلوچستان کے حکمرانوں، وڈیروں، نوابوں، سیاستدانوں اور بیورو کریسی کی پانچوں انگلیاں گھی میں ہیں۔ وفاقی حکومت دوسرے قومی مسائل کی طرح بلوچستان کے مسئلہ پر بھی مکمل بے فکر اور لاتعلق ہے جبکہ پارلیمنٹ بھی اس سلسلے میں اپنی ذمہ داری ادا کرنے سے قاصر ہے۔ ہر طرف مایوسی کے بادل چھائے ہوئے ہیں اور کسی طرف سے کوئی امید نظر نہیں آتی۔ ان انتہائی دگرگوں حالات میں دو دن قبل نماز تراویح کے دوران میری ایک ایسے شخص سے ملاقات ہوئی جس کی آنکھوں کی چمک، اس کے عزم اور ارادوں نے مجھے احساس دلایا کہ ابھی سب کچھ ختم نہیں ہوا۔ تمام کے تمام ذمہ دار چاہے سو جائیں مگر ان شاء اللہ اسلام کے نام پر بننے والے اس ملک کو قائم و دائم رہنا ہے۔ سادہ کپڑوں میں ملبوس، سر پر ٹوپی پہنے، ماتھے پر گہرا محراب اور چہرے پر سنت رسولﷺ سجائے حافظ عبدالرئوف کا تعلق جناب حافظ محمد سعید صاحب کی فلاح انسانیت فائونڈیشن (جماعۃ الدعوۃ) سے ہے اور وہ بلوچستان میں رفاہی کاموں کا ذمہ دار ہے۔ بلوچستان کے حالات پر ماضی میں میری کئی لوگوں سے بات ہوئی مگر حافظ عبدالرئوف وہ شخص ہے جس نے بلوچستان کے چپے چپے کا دورہ کیا اور لوگوں کے مسائل سے آگاہی حاصل کی۔ اس تحقیق کی روشنی میں فلاح انسانیت فائونڈیشن نے ایک ایسا منصوبہ تیار کیا ہے جس کا مقصد بلوچستان سے تعلق رکھنے والے غربت میں اٹے محروم طبقہ کو بنیادی سہولتیں فراہم کرنا ہے۔ فلاح انسانیت فائونڈیشن نے اس سلسلے میں کیا کیا اور وہ کیا کرنا چاہتے ہیں، اس کا ذکر میں آگے چل کر کروں گا مگر حافظ عبدالرئوف کی زبانی ذرا بلوچستان کے عوام کے حالات کو سن لیجئے۔ محرومی اور غربت کی انتہا اگر دیکھنی ہے تو بلوچستان جائیے۔ پینے کا صاف پانی، بنیادی صحت اور تعلیم کی سہولت سے صوبے کے ایک بڑے علاقے میں رہنے والوں کا کوئی تعلق نہیں۔ جن کو یہ بنیادی سہولتیں میسر ہیں تو سمجھیں وہ بلوچستان کے وی آئی پی ہیں۔ پوری پوری تحصیل، ضلعوں اور سینکڑوں میل کے فاصلہ تک ایک ڈاکٹر بھی موجود نہیں۔ میڈیکل سپیشلسٹ نام کی چیز سے ایسے علاقوں کے لوگ واقف ہی نہیں۔ الٹراسائونڈ کیا ہوتا ہے۔ سرجری کسے کہتے ہیں، یہ بلوچستان کے ان لوگوں کو نہیں معلوم۔ دنیا کی واحد ایٹمی طاقت اسلامی جمہوریہ پاکستان کے علاقہ تربت میں آج بھی نسل در نسل غلام چل رہے ہیں جو خاندانی طور پر غلام پیدا ہوتے ہیں اور غلام ہی مرتے ہیں۔ ہمارے آئین میں خواہ کچھ بھی لکھا ہو مگر کئی علاقوں میں بغیر اجرت کے دن میں ایک وقت کے کھانے کے بدلے بیگار لی جاتی ہے اور کوئی انصاف کرنے والا نہیں۔ پشین کے علاقہ سراناں میں رہنے والوں کو پینے کا پانی لانے کے لئے 25 کلو میٹر دور جانا پڑتا ہے۔ 700 فٹ گہرائی میں میٹھا پانی دستیاب ہے مگر پورا گائوں یہ سکت نہیں رکھتا کہ پندرہ لاکھ خرچ کر سکے۔ وہ بے چارے تو 15 ہزار روپے جمع نہیں کر سکتے۔ ایک بڑی تعداد نے زندگی بھر 500 اور 1000 روپے کا نوٹ تک نہیں دیکھا۔ 4 سے 5 ہزار میں ایک انسان کو قتل کر دیا جاتا ہے کیونکہ قاتل کہتا ہے کہ اگر ایسا نہیں کرے گا تو اس کے اپنے بچے بھوکے مر جائیں گے۔ سردار اور نواب لوگوں کی قسمتوں کے مالک ہیں، جس کو چاہیں کسی سے بیاہ دیں، جس کو چاہیں قید میں ڈال دیں۔ قلات کے علاقہ میں نسبتاً ایک باشعور شخص کو کہا گیا کہ اپنے جوان بیٹے کو کسی کام پر لگا دو تو جو اب ملا کر اگر جوان بیٹا نہ ہو گا تو پانی کہاں سے آئے گا۔ جوان بیٹا اور گدھا خاندان کو پانی فراہم کرنے کے لئے صبح جاتے ہیں اور شام کو واپس لوٹتے ہیں۔ باپ کہتا ہے کہ اگر بیٹا بیمار پڑ جائے تو حالات خراب ہو جاتے ہیں۔ اس کو کسی اور کام پر لگانا یا کہیں اور بھیجنے کا مطلب پانی جیسی بنیادی ضرورت سے محرومی ہے۔ حافظ عبدالرئوف کا کہنا ہے حال ہی میں ان کو زیارت جانا پڑا تو دیکھا لوڈشیڈنگ ہے۔ پوچھا کتنے گھنٹے سے بجلی گئی ہوئی ہے۔ جواب ملا گزشتہ آٹھ دن سے۔ حافظ صاحب کا کہنا ہے کہ بلوچستان میں بڑی تعداد میں لوگوں کو واقعتاً جانوروں سے بھی بدتر زندگی کا سامنا ہے۔ بلوچستان کا اصل مسئلہ غربت اور محرومی ہے۔ حافظ صاحب کہتے ہیں کہ وہاں کے لوگ ہم سے ناراض ضرور ہیں، وہ ہم سے نفرت نہیں کرتے اور یہ کہ ناراض تو اپنوں سے ہی ہوا جاتا ہے۔
مگر میں سوچتا رہا کہ ہم کیسے اپنے ہیں کہ ان کا درد محسوس کرنا تو درکنار ان کے حالات سے ہی واقف نہیں۔
اگر حکومت، حکمران، وڈیرے، نواب اور دوسرے ذمہ دار کچھ نہیں کر رہے تو ہم بھی تو ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے ہیں۔ صرف پریشانی اور مایوسی سے تو کچھ حاصل نہ ہو گا۔ حافظ عبدالرئوف صاحب سے بات کر کے مجھے اس لئے خوشی ہوئی کہ کوئی تو ہے جو بلوچستان کے لوگوں کے لئے عملی طور پر کچھ کر رہا ہے۔ حافظ صاحب کے مطابق فلاح انسانیت فائونڈیشن نے بلوچستان کے عوام کے بنیادی مسائل کے حل کے لئے ایک جامع پروگرام مرتب کیا ہے جس پر کام بھی شروع ہو چکا ہے۔ اس پروگرام کے مطابق اگلے تین سالوں میں حافظ سعید صاحب کی تنظیم بلوچستان بھر میں 50 کروڑ کی لاگت سے 100 سکول 16 کروڑ کی لاگت سے 1000 کنویں، 7.5 کروڑ کی لاگت سے 50 میڈیکل سنٹرز، 6.3 کروڑ روپے کی لاگت سے 90 ایمبولینس سروس شروع کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ اس کے علاوہ 10 ہزار خاندانوں کو ماہانہ 2 ہزار روپے فی کس اور 10 ہزار خاندان کو بکری برائے خودکفالت (فی بکری 10,000 روپے) بھی فراہم کی جائیں گی۔ اس تمام کام کی منصوبہ بندی ہو چکی ہے اور عملدرآمد بھی جاری ہے۔ 180 کنویں اور ہینڈ پمپ پہلے ہی جماعۃ الدعوۃ بلوچستان میں لگوا چکی۔ کوئٹہ اور جعفر آباد میں ایمبولینس سروس کا آغاز ہو چکا ہے۔ کچھ علاقوں میں سکولوں اور ہسپتالوں کا کام شروع ہو چکا ہے۔ 7 جولائی تا 12 جولائی بلوچستان بھر میں 46 فری میڈیکل کیمپس لگائے گئے جن میں 40,882 مریضوں کا علاج کیا گیا۔ 12 میڈیکل ٹیموں میں شامل 74 ڈاکٹر و پیرا میڈیکل سٹاف نے خدمات انجام دیں۔
حضرت اور صاحب استطاعت لوگوں اور بلوچستان کے لئے درد دل رکھنے والوں کے لئے یہ بہترین موقع ہے کہ وہ ایک لاکھ 65 ہزار روپے دے کر بلوچستان کے کسی گائوں میں ایک کنواں کھدوا دیں۔ 50 لاکھ روپے کا ایک سکول تعمیر کروا دیں۔ 15 لاکھ روپے کا ایک میڈیکل سنٹر بنوا دیں۔ 2 ہزار روپے ایک خاندان کے ماہانہ خرچہ کی ذمہ داری اٹھا لیں۔ 10 ہزار روپے کی بکری ایک خاندان کو دلوا دیں۔ اللہ تعالیٰ جس کو جو توفیق دے، اسے اس کارخیر میں حصہ ڈالنا چاہئے۔ کوئی اگر خود بلوچستان جانا چاہے، حافظ عبدالرئوف صاحب ایسے لوگوں کو بلوچستان لے جانے کے لئے بھی تیار ہیں۔ پاکستان میں پیسے والوں کی کمی نہیں۔ ہمارے پاس میاں منشائ، ملک ریاض حسین، صدر الدین ہاشوانی، عقیل ڈیڈی اور دوسرے ارب پتیوں بشمول اخباری مالکان اور دوسرے بڑے بڑے سرمایہ داروں کی ایک لمبی فہرست ہے جن سے میری درخواست ہے کہ انسانیت کی خاطر، اپنے مسلمان بھائیوں کی خاطر اور پاکستان کی بقاء کے لئے بلوچستان میں اپنے بھائیوں کی مدد کریں۔ ہم عوام امریکہ، بھارت اور دوسرے دشمن ممالک کی بلوچستان کے حالات خراب کرنے کی سازش کا بہترین مقابلہ اپنے بھائیوں کی مدد کر کے ہی کر سکتے ہیں۔ اگر آپ کسی فلاحی تنظیم پر اعتماد نہیں کرتے تو خود یا اپنے کسی بااعتماد فرد یا ادارے کے ذریعے بلوچستان میں غریب عوام کی مدد کریں مگر یہ کام کرنا ہمارا فرض ہے۔ ایسے نیک کاموں کے لئے تو ویسے بھی اللہ تعالیٰ خود فرماتے ہیں ’’کون ہے جو اللہ کو قرض حسنہ دے پھر اللہ تعالیٰ اسے کئی گنا بڑھا چڑھا کر عطا فرمائے، اللہ ہی (رزق میں) تنگی اور کشادگی کرتا ہے اور اسی کی طرف تم لوٹائے جائو گے‘‘ (سورۃ بقرہ آیت 245) اور پھر اس سورۃ میں آیت نمبر 261 میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ’’ان لوگوں کی مثال جو اپنے مال اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں اس دانے کی سی ہے جو سات بالیاں اگاتا ہے، ہر بالی میں سو دانے ہوتے ہیں اور اللہ جس کے لئے چاہتا ہے، کئی گنا کر دیتا ہے…‘‘
یقینا بلوچستان کے لوگ ایک بہت بڑی آزمائش سے گزر رہے ہیں لیکن کیا اس سے زیادہ بڑا امتحان ہمارا نہیں جب ہمیں اللہ دے کر ہماری آزمائش کر رہا ہے۔ اللہ کو ہمارے پیسے کی ضرورت نہیں وہ تو یہ دیکھنا چاہتا ہے کہ ہم میں سے کون اس کی راہ میں مال خرچ کر کے ایسی تجارت کرتا ہے جس میں کوئی گھاٹا نہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ ہم سے کون کون اللہ کو قرض حسنہ دے کر اپنی دنیا و آخرت کو سنوارتا ہے۔