اللہ کی قدرت سے بشر چاند پہ پہنچا غزل نمبر 76 شاعر امین شارؔق

امین شارق

محفلین
قرآں میں کر کے غور و فکر چاند پہ پہنچا
اللہ کی قدرت سے بشر چاند پہ پہنچا


روشن تو بہت ہیں مگر رنجیدہ ہیں کرنیں
شاید میرے اشکوں کا اثر چاند پہ پہنچا


انسان نے طے کرلیں ترقی کی منازل
نکلا اِدھر زمیں سے اُدھر چاند پہ پہنچا


پاکر انہیں خوش اتنے کہ آپے میں نہیں ہیں
دل آسماں پر اور جگر چاند پہ پہنچا


کوشش کریں تو کام پھر مشکل نہیں رہتا
انسان نے جب باندھی کمر چاند پہ پہنچا


اچھے نہیں لگتے مجھے یہ بد نما دھبے
سب داغ مٹادوں گا اگر چاند پہ پہنچا


اہلِ زمیں کو انس کے جس ظلم سے ڈر تھا
دنیا سے نکل کر وہی ڈر چاند پہ پہنچا


غربت کا مقدر ہے فقظ دید قمر کی
دولت کا جو تھا نورِ نظر چاند پہ پہنچا


کیوں رُک گئے کیا چاند والے کی ہے تمنا؟
تم کیوں نہ گئے؟ سارا شہر چاند پہ پہنچا

پہنچا نہیں پہنچا رہے گی بحث یہ شارؔق
شاعر کا تخیل تو مگر چاند پہ پہنچا
 

الف عین

لائبریرین
اس غزل کا ہر دوسرا مصرع تو بحر میں ہے، مفعول مفاعیل مفاعیل فعولن افاعیل کے ساتھ، صرف تلفظ کا مسئلہ ہے، لیکن پہلے مصرعے سب چوں چوں کا مربہ ہو گئے ہیں، کہیں درست افاعیل، کہیں مفعول فاعلات مفاعیل فاعلن، اور کہیں ان دونوں کا مخلوط۔
فکر اور شہر غلط قوافی ہیں کہ ان کے درست تلفظ میں ر سے پہلے حرف ساکن ہے جب کہ قافیہ متحرک مانگتا ہے
اور مزید تکنیکی بات یہ بھی کہ 'پ پہنچا' ردیف میں ہی تنافر ہے
 
Top