میاں شاہد
محفلین
حضرت صہیب ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ؐ نے فر ما یا: تم سے پہلے لوگوں میں ایک با د شاہ تھا اور اس کا ( مشیر ' وزیر ) ایک جا دوگر تھا ' جب وہ بو ڑھا ہو گیا تو اس نے با دشاہ سے کہا 'میں تو اب بوڑھا ہو گیا ہوں لہٰذا تم ایک لڑکا میرے سپر د کر دو تا کہ میں اسے جا دو سکھا دوں ۔ پس اس نے ایک لڑکا اس کے سپرد کر دیا وہ اسے جا دوسکھا تا اس لڑکے کے راستے میں ایک راہب ( پا دری) بھی تھا ' وہ اس کے پا س بیٹھتا ' اسکی باتیں سنتا تو وہ اسے اچھی لگتیں 'اب وہ جب بھی جا دوگر کے پا س جا تاتو پا دری سے ہو کر گزرتا اور کچھ دیر اس کے پا س بیٹھتا ' پس جب وہ جا دوگر کے پا س جا تا ' تو وہ اسے (تاخیر پر ) ما رتا ' اس لڑکے نے پادری سے ا س جادوگر کی شکایت کی تو اس نے کہا : جب تمہیں جا دوگر کا ڈر ہو تو کہہ دیا کروکہ میرے گھر والوں نے مجھے روک لیا تھا اور جب تجھے اپنے گھر والوں کا ڈ ر ہو تو کہہ دیا کروں کہ مجھے جا دوگر نے روک لیا تھا ۔ پس اسی طرح یہ سلسلہ چلتا رہا کہ ایک روز اس نے راستے میں ایک بہت بڑاجا نور دیکھا ' جس نے لوگوں کو روک رکھا تھا ' اس ( لڑکے) نے کہا : آج پتا چل جا ئے گا کہ آیا جا دوگر افضل ہے یا پادری افضل ہے ؟ اس نے ایک پتھر پکڑا اور کہا : اے اللہ ! اگر ر اہب کا معاملہ تیرے نزدیک جا دوگر کے معا ملے سے زیاہ محبو ب ہے تو پھر اس جا نور کو مار دے تا کہ لوگ گز ر جائیں ۔ پس اس نے وہ پتھر اس جا نور کو ما ر اجس سے وہ ہلا ک ہو گیا اور لوگ گزر گئے۔ پس وہ را ہب کے پا س آیاسے یہ واقعہ بتا یا تو راہب نے اسے کہا : اے بیٹے ! آج سے تم مجھ سے افضل ہو ' تمہارا معاملہ وہاں تک پہنچ گیا ہے ۔ میں اسے دیکھ رہا ہو ں ۔ اور تم عنقریب آزمائے جا ؤ گے ۔ اور جب تمہاری آزمائش ہو تو میرے متعلق نہ بتا نا ۔ اب وہ لڑکا مادر زاد اندھے اور کو ڑھی کو ٹھیک کر دیتا تھا ۔ اور باقی تما م بیما ریوں کا بھی علا ج کر تا تھا 'با دشاہ کے ایک ہم نشین نے جب سنا جو اندھا ہو چکا تھا ۔ ' تو وہ بہت سے تحا ئف لے کر اسکے پا س آیا اور کہا : اگر تم مجھے شفا دے دو تو میں یہ جتنے تحایف یہا ں لےکر آیا ہو ں وہ سب تمہارے ہوں گے ۔ اس لڑکے نے کہا :میں تو کسی کو بھی شفا نہیں دیتا ' شفا تو اللہ تعالیٰ عطا کر تا ہے ۔ ' اگر تم اللہ تعالیٰ پر ایما ن لے آؤ تو میں اللہ تعا لیٰ سے دُعا کرونگا َ۔ تو تجھے شفا عطا فر ما دے گا ۔ پس وہ اللہ پر ایما ن لے آیا تو اللہ نے اسے شفا عطا فر ما دی ۔ پس وہ با دشاہ کے پاس آیا اور اس کے پا س بیٹھ گیا ۔ جیسے وہ پہلے بیٹھا کر تا تھا۔ با دشاہ نے اس سے پو چھا تیری بینا ئی کس نے لو ٹادی ؟ اس نے کہا : میرے رب نے ۔ اس نے کہا : کہا میرے علا وہ بھی تمہارا کوئی رب ہے ؟ اس نے کہا : میرا اور تمہا را رب اللہ ہے ۔ با دشا ہ نے اسے گر فتا ر کر لیا اور اسے مسلسل سزا دیتا رہا حتیٰ کہ اس نے لڑکے کے بارے میںبتا دیا ۔ پس لڑکے کو لایاگیا تو با دشاہ نے اس سے کہا : بیٹے ! تیرا جا دو اس حد تک پہنچ گیا ہے کہ توما در زاداندھے اورکوٹھی کو ٹھیک کر دیتا ہے ۔ اور تو فلاں فلاںکام بھی کر تا ہے ۔ لڑکے نے کہا:میں تو کسی کوبھی شفا ء نہیں دیتا شفاء تو اللہ تعالیٰ عطاکرتا ہے ۔ پس اس نے اسے بھی گر فتا رکر لیا اور اسے مسلسل سزادیتا رہا حتیٰ کہ اس نے را ہب کے با رے میں بتا دیا ' را ہب کو بھی پیش کیا گیا تو اسے کہا گیا کہ تم اپنے دین سے پھر جا ؤ ۔ اس نے انکار کر دیا ' بادشاہ نے آرامنگوایا اور آرے کو اسکے سر کے در میا ن یعنی ما نگ والے مقام پر رکھ دیا اور اس کے سر کو دو حصوںمیں چیر دیا ' پھر با دشاہ کے ہم نشین کو بلا یا گیا ۔اور اسے بھی کہا گیا کہ اپنے دین سے پھر جاؤ اس نے بھی انکا رکر دیا' اس کے سر کے وسط میں بھی آرا رکھا گیا اور اسے دوحصوں میں چیر دیا گیا ۔ پھر لڑکے کو لایا گیا اسے بھی کہا گیا ۔ کہ اپنے دین سے پھر جا ؤ ۔ اس نے بھی انکار کر دیا اس نے اسے اپنے ( فو جی )سا تھےوں میں سے چند افر اد کے سپر د کر دیا ۔ اور کہا اسے فلا ں فلا ں پہا ڑپر لے جاؤ او ر اسے پہا ڑ پر چڑھا ؤ ' جب تم اس کی چوٹی پر پہنچ جاؤ تو وہا ں اگر یہ اپنے دین سے پھر جا ئے تو ٹھیک ورنہ اسے وہاں سے نیچے پھینک دو۔ پس وہ اسے لے گئے ۔ اسے لے کر پہا ڑپر چڑھ گئے ۔ اس لڑکے نے کہا : اے اللہ ! تو انکے مقابلے میں جیسے تو چاہے مجھے کا فی ہو جا ۔ چنانچہ پہا ڑنے جنبش کی ' جس سے وہ سب نیچے گر گئے او وہ لڑکا با دشاہ کے پاس پہنچ گیا ۔ تو با دشاہ نے اس سے پو چھا : تیرے سا تھیوں کو کیا ہوا؟ تو اس نے کہا :اللہ تعالیٰ ان کے مقابلے میںمجھے کا فی ہو گیا ۔ پھر با دشاہ نے اسے اپنے ( فوجی ) ساتھیوں میں سے چند افر اد کے حوالے کیا اور کہا : اسے لے جا ؤاور اسے کشتی میں سوار کر لو'جب سمندر کے درمیان میں پہنچ جاؤ تو ا س سے پو چھو ' اگر یہ اپنے دین سے پھر جا ئیں تو ٹھیک 'ور نہ اسے سمندر میں پھینک دو ' پس وہ اسے لے گئے ' تو اس نے کہا : اے اللہ ! انکے مقابلے میں جیسے تو چاہے مجھے کا فی ہوجا ' پس کشتی الٹ گئی ' وہ سب غرق ہو گئے اور وہ لڑکا با دشاہ کے پا س آگیا ۔
با دشاہ نے اسے کہا : تیرے سا تھیوں کا کیا بنا َ؟تو اس نے کہا : اللہ تعالیٰ ان کے مقابلے میں مجھے کا فی ہوگیا ' پھر لڑکے نے با دشاہ سے کہا :تم مجھے قتل نہیں کر سکتے حتیٰ کہ میرے بتا ئے ہو ئے طریقے کے مطا بق عمل کرو۔ َ با د شاہ نے کہا : وہ طر یقہ کیاہے؟ اس نے کہا : تم کسی کھلے میدا ن میں لوگوں کو جمع کرو اور مجھے کسی تنے پر سولی دینے کےلئے چڑھا دو ' پھر میرے ترکش سے تیر لے کر اسے کما نکے در میا ن رکھ ' پھر یوں کہہ کر اللہ کے نام سے جو اس لڑکے کا رب ہے ۔ پھر وہ تیر مجھ پر چلا پس جب تم یوں کروں گے تو مجھے قتل کرنے میں کا میاب ہوجا ؤ گے ۔ پس اس نے ایک کھلے میدا ن میں لوگو ں کو جمع کیا ' اسے ایک تنے پر سولی چڑھا یا ' پھر اس کے ترکش سے ایک تیر نکا لا ' پھر اسے کما ن کے چلے تا نت پررکھا اور کہا : اللہ کے نام سے جو اس لڑکے کا رب ہے ' پھر ا س نے تیر پھینکا اور تیر اسکی کنپٹی پر لگا ' اس نے اپنا ہا تھ کنپٹی پر رکھا اور فو ت ہو گیا ۔ لوگوں نے کہا : ہم ا س لڑکے کے رب پر ایما ن لے آئے ۔ ( حکومت کے ) لوگ با دشاہ کے پا س آئے اور اسے کہا : دیکھا تم جس چیز سے ڈرتے تھے ' اللہ کی قسم ! وہی ہو ا او رتمہارا ڈر تمہا رے سا منے آگیا ' ( عوام ) لوگ تو سارے ایما ن لے آ ئے ۔ با دشاہ نے حکم دیا کہ سڑکوں کے کنا رے خند قیں کھودی جا ئیں ' پس وہ کھو دی گئیں ۔ اور ان میں آگ جلا دی گئی ' تو با دشاہ نے کہا : جو شخص اپنے دین سے نہ پھر ے اسے اس میں جھو نک دو یا اسے کہا جا ئے کہ آگ میں داخل ہو جا ۔ انھوںنے ایسے ہی کیا ' حتیٰ کہ ایک عورت آئی جس کے سا تھ اس کا ایک بچہ بھی تھا 'اس عورت نے آگ میں دا خل ہو نے سے جھجک محسوس کی تو بچے نے اسے کہا !اما ں ! صبر کرو! یقینا تم حق پر ہو۔'' (مسلم )
توثیق الحدیث :أخرجہ مسلم (٣٠٠٥)ََ۔
با دشاہ نے اسے کہا : تیرے سا تھیوں کا کیا بنا َ؟تو اس نے کہا : اللہ تعالیٰ ان کے مقابلے میں مجھے کا فی ہوگیا ' پھر لڑکے نے با دشاہ سے کہا :تم مجھے قتل نہیں کر سکتے حتیٰ کہ میرے بتا ئے ہو ئے طریقے کے مطا بق عمل کرو۔ َ با د شاہ نے کہا : وہ طر یقہ کیاہے؟ اس نے کہا : تم کسی کھلے میدا ن میں لوگوں کو جمع کرو اور مجھے کسی تنے پر سولی دینے کےلئے چڑھا دو ' پھر میرے ترکش سے تیر لے کر اسے کما نکے در میا ن رکھ ' پھر یوں کہہ کر اللہ کے نام سے جو اس لڑکے کا رب ہے ۔ پھر وہ تیر مجھ پر چلا پس جب تم یوں کروں گے تو مجھے قتل کرنے میں کا میاب ہوجا ؤ گے ۔ پس اس نے ایک کھلے میدا ن میں لوگو ں کو جمع کیا ' اسے ایک تنے پر سولی چڑھا یا ' پھر اس کے ترکش سے ایک تیر نکا لا ' پھر اسے کما ن کے چلے تا نت پررکھا اور کہا : اللہ کے نام سے جو اس لڑکے کا رب ہے ' پھر ا س نے تیر پھینکا اور تیر اسکی کنپٹی پر لگا ' اس نے اپنا ہا تھ کنپٹی پر رکھا اور فو ت ہو گیا ۔ لوگوں نے کہا : ہم ا س لڑکے کے رب پر ایما ن لے آئے ۔ ( حکومت کے ) لوگ با دشاہ کے پا س آئے اور اسے کہا : دیکھا تم جس چیز سے ڈرتے تھے ' اللہ کی قسم ! وہی ہو ا او رتمہارا ڈر تمہا رے سا منے آگیا ' ( عوام ) لوگ تو سارے ایما ن لے آ ئے ۔ با دشاہ نے حکم دیا کہ سڑکوں کے کنا رے خند قیں کھودی جا ئیں ' پس وہ کھو دی گئیں ۔ اور ان میں آگ جلا دی گئی ' تو با دشاہ نے کہا : جو شخص اپنے دین سے نہ پھر ے اسے اس میں جھو نک دو یا اسے کہا جا ئے کہ آگ میں داخل ہو جا ۔ انھوںنے ایسے ہی کیا ' حتیٰ کہ ایک عورت آئی جس کے سا تھ اس کا ایک بچہ بھی تھا 'اس عورت نے آگ میں دا خل ہو نے سے جھجک محسوس کی تو بچے نے اسے کہا !اما ں ! صبر کرو! یقینا تم حق پر ہو۔'' (مسلم )
توثیق الحدیث :أخرجہ مسلم (٣٠٠٥)ََ۔