''اللہ کے نام پر دے دے بابا ، اللہ تیرا بھلا کرے گا ''

نور وجدان

لائبریرین
''اللہ کے نام پر دے دے بابا ، اللہ تیرا بھلا کرے گا ''


ایک فقیر گلی سے گزرتے ہوئے مسلسل یہ صدا لگا رہا تھا ۔جمیلہ مستقل یہ آواز سن رہی تھی ۔ جھنجھلا رہی تھی روز یہ بھیک منگتے آجاتے ہیں ۔اللہ نے ان کو ہاتھ پاؤں کیا نہیں دیے ؟وہ بڑ بڑا رہی تھی اس کا بیٹا احمد سن رہا تھا ۔ احمد نے کہا،

''اماں مجھے پیسے دو مجھے آئسکریم کھانی ہے اور چاکلیٹ لینی ہے ''

ہائے میں صدقے جاؤں احمد پر ، میری آنکھوں کا تارا ''

اس کو سو کا نوٹ پکرایا ۔کہا

' ان فقیروں سے بچ کر چلنا ، بھیس بدل کر آجاتے ہیں بعض اوقات تو اغوا کر جاتے ہیں پیسے مانگنا تو صرف ایک بہانہ ہے''

احمد نے سر ہلایا اور گھر سے باہر نکل گیا ۔ اس نے اس بوڑھے فقیر کا تعاقب کیا اس کو پاس جا کر پیسے اس کے اگے کردیے ۔فقیر نے اسے دعا دی اور چل دیا۔ احمد گھر آیا ، اسکی ماں نے پوچھا آئس کریم کھا لی ؟ چاکلیٹ کدھر ہے؟

احمد نے دھیمی آواز میں جواب دیا ،

''اماں وہ تو مجھ سے گرگئے ہیں راستے میں گٹر کا پانی پھیلا ہوا تھا میں ادھر سے گزرنے کی کوششکر رہا تھا ۔اینٹیں پڑھی تھیں پانی والی جگہ پر ، میں اینٹ پر سے گزرا تو پیسے گر گئے'

احمد بات بتاتا گیا جمیلہ نے اس کو ساتھ لگا لیا احمد کا چہرا سپاٹ تھا ۔وہ ماں کے گلے سے لگ کر رو دیا۔اس بات پر اس نے ماں سے جھوٹ بولا ہے


جمیلہ ابھی دوپہر کا کھانہ پکا کر فارغ ہوئی تھی اس کے پاس محلہ کی عورتوں کا جمگھٹا لگ گیا ۔ان میں سے اکثر اپنے شوہر وں سے خفا، ساس حضرات کے شکوہ اور بد گوئی میں مصروف تھیں ۔احمد اس وقت اپنی پانی والی پستول سے کھیل رہا تھا ۔ گیارہ سال کا احمد اپنی اماں کے پاس آیا کہا

''اماں ! غیبت جو کرتا ہے وہ اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھاتا ہے آپ ابا کی برائی کیوں کر رہی ہو''

وہاں بیٹھی عورتوں میں ہلچل سی مچ گئی انہوں نے جمیلہ کی طرف اس طرح سے دیکھا جیسے خلاف شرع بات کی ہو ۔ کچھ تو بول پڑیں جمیلہ ترا بیٹا بڑا منہ پھٹ ہے اس کی تربیت ٹھیک سے کر ورنہ مستقبل میں پچھتائے گی ۔ دوسری بولی تو نے کون سی غیبت کی وہی کہا ہے جو برائی تیرے شوہر میں موجود ہے ہے ، یہ کل کا بچہ اب اکر بتائے گا !!!

جمیلہ کو احمد کی وجہ سے بڑی کوفت ہوئی اس کے بھرے مجمعے میں بے عزتی کروادی ۔ اسکو ڈانٹ نہیں سکی وہ اس کا اکلوتا بیٹا تھا ۔ بلا کر کہا

''رے احمد تو نے ایسا کیوں کہا ، بزرگوں کے سامنے ایسا بولتے ، تجھے پتا غیبت کیا ہوتی ہے ؟ یہ تو شکوہ کر رہی تھیں '

احمد بولا:

اماں وہ سکول ماسٹر نے بتایا تھا کسی پر جھوٹا الزام لگاؤ تو وہ بہتان ہوتا ہے اور کسی کی برائی کرو جو اس شخص میں ہو وہ غیبت ہوتی ہے ، اماں کیا سکول ماسٹر نے غلط کہا ہے ؟

جمیلہ جواب نہیں دے پائی،تلملا کر کہا

'' احمد کو کہا کتنی دفعہ کہا ہے جب بڑے بات کررہے ہوں تو بات کو نہیں ٹوکتے ،ماسٹر نے تجھے اخلاقیات نہیں سکھائی کیا؟ چل جا اب یہاں سے''


وہ چلا گیا تو پھر سے وہی ٹاپک چھڑ گیا ، جمیلہ بولی

'' میرا شوہر کسی اور لڑکی کے چکر میں لگتا، رات کو گھر دیر سے آتا پوچھو تو کہتا ہے کام ہے احمد بڑا ہورہا اسکے پڑھائی کے خرچے اٹھانے ہیں ، مجھے یقین نہیں آتا میں آج کل بہت پریشان ہوں''

جمیلہ نے ابھی یہ کہا ہی تھا سب عورتیں اپنی بساط میں مشورے دینے لگیں کسی نے کہا شوہر کا پیچھا کیا کرو ، کسی نے کہا اس پر فلاں فلاں آیت پھونک کرو اور تو اور ایک بڑی بول پڑی

'' یہ پڑوس میں ہی تو ایک عامل پیر رہتے ہیں ان کے پاس جاؤ قران مجید سے فال نکالتے ہیں بڑے نیک ہیں ، اور تو اور پیسے تک نہیں لیتے کہتےہیں اللہ کے لیے کر رہا ہوں ، ہاں اس کو سلام ادب سے کرنا ان کے ہاتھ پر بوسہ دینا ، ورنہ ناراض ہوجاتے ہیں ''

جمیلہ بڑی خوش ہوئی سوچ رہی تھی کب یہ عورتیں جائیں اور کب میں ادھر جاؤں اس کی عدم توجہی کو سب نے محسوس کر لیا آہستہ اہستہ سب نے اٹھنے کی ٹھانی ۔بڑ بڑاتی رہیں آج جمیلہ کے تیور ہی نہیں مل رہے ۔ان سب کے جانے کے بعد وہ احمد کے ساتھ اس پیر صاحب کے پاس گئی ۔اس کو ادب سے جھک کر سلام کیا ، ہاتھ پر بوسہ دیا اور پانچ ہزار کا نوٹ پکڑا دیا ، پیر نے واپس کر دیا یہ کہ کر:

''نذرانہ میں نہیں لیتا ایک مسجد تعمیر کروا رہا ہوں اپنی استطاعت کے مطابق وہاں ڈال دے ۔'' جمیلہ نے پیسے مٹھی میں بھینچے اور پیر سے کہا فال نکال دیں میرا شوہر کہاں ہے مجھے شک ہے وہ کسی اور کے چکر میں ہے ۔ انہوں نے قران ِ پاک کھولا ، فال نکل کر کہا

''تو سچ کہتی ہے تیرا شوہر اب بھی کسی عورت کے پاس ہے اس نے تیرے شوہر پر سفلی علم کیا ہوا ہے ، تو اس جادو کی کاٹ چاہتی ہے تو اپنے گھر کا پتا بتادے ، میں خود تیرے گھر آؤں گا اور اسعمل کی کاٹ کروں گا ''

جمیلہ نے روتے ہوئے سارا گھر کا پتا بتایا اور التجائیں کرنے لگی پیر صاحب کچھ کریں ''

''تو بے فکر ہو جا ' گھر جا اور چندا ڈال دے ہم کل تیرے گھر آئیں گے ''اور پھر پیر نے جمیلہ کے ہاتھ کو پکڑا ، اس کو دباتے ہوئے کہا

''بے فکر ہو کر گھر جا ، جب ہم تیرے ساتھ ہیں فکر کرنے کی ضرورت ؟ یہ کچھ تعویز لے جا ، پانی میں گھول کر پلا دے شوہر کو، یہ تعویز خالص کستوری سے لکھے ہوئے ہیں ، دیکھ کیسا سیدھا ہوتا ہے تیرا شوہر''


رات کو احسن گھر جلدی آگیا جمیلہ سوچنے لگی یہ پیر صاحب کی کوئی کرامت ہے ، اسکو کھانہ دیا اور پھر سب ٹی وی دیکھنے بیٹھ گئے ۔ احمد خاموش بیٹھا تھا وہ سمجھ نہیں پارہا تھا اسکی ماں وہاں کیوں گئی ہے ۔مگر چپ رہا اور بابا کو نہیں بتایا ۔

احسن نے احمد کو پاس بلایا اس سے پوچھا آج کے دن میرے بیٹے نے کیا کام کیے ہیں ؟ احمد نے جواب نہیں دیا ایک اور سوال کر دیا

''بابا آپ جلد آجایا کرو گھر مجھے آپ کے ساتھ کھیلنا ہوتا ہے ''

احسن نے بیٹے کو محبت سے دیکھا اوراس کے ساتھ کرکٹ کھیلنے لگ گیا ۔ کھیلتے کھیلتے احمد تھک گیا اور احسن احمد کے ساتھ سوگیا ۔جب وہ احمد کے پاس سے اٹھا اور اپنے کمرے میں جاکر لیٹا تو جمیلہ کو سوتا پایا وہ سوچ رہا تھا جمیلہ اس کا انتظار کر ہی ہوگی ۔ بالآخر وہ بھی سوگیا۔

یہ رات کا تین بجا تھا جب احمد کے گھر کھٹ پھٹ سی ہوئی ایسا لگا کوئی کچھ ڈھونڈ رہا ہے ، شایدکچھ چورگھس آئے تھے وہ جمیلہ اور احمد کے کمرے میں آئے ان کے پاس احمد تھا جس پر پستول کا نشانہ تھا چور آئے انہوں نے احمد اور جمیلہ سے پوچھا نقدی اور زیورات کدھر ہیں ۔خوفزدہ سی جمیلہ سے جھٹ سے سب کچھ ان کے حوالے کر دیا وہ احمد سے بے حد پیار کرتی تھی ۔انہوں نے نقدی اور زیور لیا اور گھر سے چلے گئے۔ جمیلہ روتی جارہی تھی احمد کو ساتھ لگا تی اسکے آنسو پونجتی اور پھر اپنے زیور کے جانے پر روتی ۔ احمد الگ پریشان تھا اس نے وہ پیسے سنبھال کر رکھے تھے وہ ان سے کاروبار شروع کرے گا ۔ اسے سمجھ نہیں آرہی تھی وہ کیا کرے

صبح سب محلہ کی عورتیں اس کے پاس آرہی تھیں وہ بوڑھی عورت غائب تھی ، سب افسوس کر رہے تھے ۔ جمیلہ سوچ رہی تھی آج تو پیر صاحب نے آنا تھا وہ ان کو کیا دے سکے گی اسکا اتنا بڑا نقصان ہوگیا ہے ۔ کچھ عورتوں کی آواز نے جمیلہ کے دل میں سنسنی پیدا کر دی جب سنا وہ کہ رہی تھیں اسی بوڑھی بی بی نے شمائلہ کو بھی اس پیر صاحب کو پتا دیا اگلے دن اس کی چوری ہوگئ تھی اس کے اوسان خطا ہوگئے اب جمیلہ نے احمد کو سارا ماجرا بتایا وہ پیر صاحب کا انتظار کرتے رہے بالآخر ان کے آستانے گئے تو ان کے خلیفہ نے بتایا وہ کچھ دنوں کے لیے دوسرے شہر گئے ہیں ان کے تو ہر ماہ پانچ آستانوں پر جانا ہوتا دور دراز سے لوگ ان کے پاس آتے ہیں ۔اسے یاد آیا صبح اس نے فقیر کو برا بھلا کہا اس کو دس کا نوٹ دینا گوارا نہیں کیا آج اس کی لاکھوں کا نقصان ہوگیا ۔وہ اس رنج میں تھی گری رہی احمد گھر آیا اور بہت یاسیت سے بتایا۔ وہ پولیس سٹیشن گیا تھا ۔ پولیس نے رپورٹ درج کرنے سے انکار کردیا کہتے ہیں وہ بلا ثبوت پیر صاحب پر کوئی کاروائی نہیں کرسکتے



کچھ دنوں سے احمد کا رویہ عجیب ہوگیا اس نے جمیلہ سے بات چیت ختم کر دی ۔گھر میں کھانہ پینا چھوڑ دیا ۔ ایک دن جمیلہ نے ہمت کرکے پوچھ لیا مجھ سے بات کیوں نہیں کرتے ایسا لگتا تھا احمد کو اسی لمحے کا انتظار تھا ۔ وہ برس پڑا

'تمہاری وجہ سے میری زندگی کی جمع پونجی چلی گئی۔میں نے کاروبار کرنا تھا اس کے لیے دو لاکھ جمع کیا تھا سوچا تھا کچھ اور پیسے جمع کرکے پارٹنر شپ پر کام کروں گا ، مجھے احمد نے بتایا تم محلے کی عورتوں سے میری برائی کرتی ہو ۔ مجھ سے توقع رکھنا بے کار ہے اب، میں تمہارے ساتھ نہیں رہ سکتا ۔ میں نے دوسری شادی کر لی ہے احمد کی وجہ سے تمہیں طلاق نہیں دی ۔ جب تم میری عزت نہیں کرو گی مجھ سے کیسے امید رکھو گی کہ میں تمہیں مان اور پیار دوں گا ۔۔''

جمیلہ تاسف بھری نظرووں سے کبھی احمد کو اور کبھی احسن کو دیکھ رہی تھی ۔سوچ رہی تھی اتنی چھوٹی غلطی کی اتنی بڑی سزا ۔ جمیلہ سمجھ نہیں پائی بعض اوقات چھوٹی غلطیاں بڑی غلطیاں بن جاتی ہے اور دعا آنے والی قسمت کو ٹال دیتی ہے وہ اس فقیر کو کچھ دے دیتی اس کو دعا لگ جاتی ۔ اگر وہ شک نہ کرتی اتنا بڑا مالی نقصان نہیں ہوتا اسے احسن کے سامنے شرمندہ نہیں ہونا پڑتا ۔۔اور نہ ہی احسن دوسری شادی کرتا۔
 
آخری تدوین:
Top