''الما یوان '' سے ۔۔۔ داستان حلاج و دیوان

نور وجدان

لائبریرین
ایک بیس سالہ نوجوان ، جس کا باپ دریائے فرات کے ساحلی علاقوں میں اون کی بنائی کا کام کرتا تھا اور یوں 'الحلاج ' پیشہ ورانہ نام ہوگیا۔ بصرہ سے ہوتا ہوا بغداد پہنچا۔سہل التستری کی کارگہ تصوف کا یہ مزدور حضرت جنید بغدادی کی خدمت میں حاضر ہوا۔وجود، عدم ، بقا ، فنا ۔ توحید ، عشق ، رسالت و وحی ، حضور و نور ، سرشاری و دیوانگی ، وارفتگی و دیوانگی ، وارفتگی و مستی ، حجاب و انکشاف ،فصل و وصل اور تشبیہ و تنزیہیہ ۔۔۔۔ یہ سارے معاملات یہ سارے سر بستہ راز اس نوجوان کو دلگیر کیے ہوئے تھے ۔ امید تھی حضرت جنید بغدادی جن پر گرہ کشائی فرض ہے کچھ گرہ کشائی کریں گے ۔ چنانچہ چند سوال ان کے آگے رکھ کر جواب طلب کیے ۔

بغداد کے اس دانشمند صوفی نے کوئی جواب نہ دیا صرف ایک مختصر سی بات کہی مگر ایسی کہی کہ حلقے میں بیٹھے ہوئے تمام لوگوں کا رنگ اڑ گیا۔

''وہ دن جلد آنے والا ہے ، جب تم لکڑی کے ایک ٹکرے کو لہو کے سرخ رنگ سے بھر دوگے ۔''

اور جواب میں اس نوجوان نے فرمایا

''جس دن میں لکڑی کے اس ٹکرے کو سرخی سے بھروں گا ، اس دن آپ کے جسم پر اہل صوف کی قبا ہوگی ''

حلاج کی داستان حضرت بابا فرید الدین نے تذکرت الاؤلیاء میں بیان کی ہے۔خدا جانے اس میں تاریخی صداقت کتنی ہے لیکن حلاج کی شخصیت تاریخ کی حدود سے نکل کر ایک ایسی علامت اور تمثیل بن گئی ہے اور اس کا سایہ اسلام کے سارے ادبی و فکری تمدنوں پر اتنا گھٹا اور گہرا ہے کہ اس کو سمجھنے کے لیے امورِ واقعہ اور تاریخی حقائق سے سے قطع نظر کرنا گویا لازم ہوگیا ہے ۔ابن منصور ، جس کو اردو اور فارسی حلقے میں صرف منصور کہتے ہیں ، زمان و مکان سے ماورا ہو چکا تھا۔

لیکن ایسا بھی نہیں ہے کہ اس وارفتہ ، خدا مست عاشق کے بارے میں صوفیاء کے ہاں جو باتیں مذکور ہیں اور مشہور ہیں وہ سب کی سب دیو مالائی ،فرضی اور تخییلاتی ہیں ۔ شاعروں اور صوفیوں کی دنیا میں منصور ایک لہکتا ہوا استعارہ ہے مگر یہ استعارہ تاریخی حقائق کی پائیدار اساس پر تعمیر ہوا ۔ حلاج کا نعرہ '' انا الحق '' ان کا سفر سندھ ، درباری اور فرقہ بند سیاست کی انا کی خلاف تاریک سازشیں ، ان کی مستیِ الست ، 24 ذو العقد 309 ہجری کو نخل دار پر ان کا سفاکانہ قتل۔۔۔۔۔ یہ سارے امور تاریخ سے ثابت ہیں ۔


حلاج کی زیادہ تر شاعری بھی انہی کی وارفتگی اور جذب کی تخلیق ہیں اس نے لوگوں کے دلوں میں گہرا اثر چھوڑا ہے اور ان کا اثر اتنا پھیلا کہ ہنگامہ ''ہائے ہو'' کی شورشوں میں بہت سی مافوق الفطرت باتیں بھی ان سے منسوب ہوگئی ۔ان کا ھیولیٰ ایسا تخم بن گیا جس سے ادب و فکر اور تخیل وتخلیق کاری کے بہت سے بار ۔بہت سے لہلہاتے بیل بوٹے نکلے ہیں ۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔ماورائی حلاج کو تاریخی حلاج سے علیحدہ کرنا عبث بھی نہیں ہے اور نامناسب بھی نہیں ۔لیکن اس کے باوجود تاریخی حقائق ایسے ہیں کہ عام تاریخ سے ہٹ کر ان کی توضیع ضروری ہے ۔یہ اس لیے کہ ان کے نتائج دوربین ہیں ۔

پہلی تاریخی حقیقت ، پہلا امر ِ واقعہ تو یہ ہے کہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عام اور مشہور روایات اور داستانوں کے برخلاف ۔۔۔ حلاج کو محض اس بات پر دار پر نہیں لٹکایا گیا تھا کہ انہوں نے اپنے آپ کو ''انا الحق '' کہا تھا حلاج سے پہلے بایزید کی مثال ہمارے سامنے موجود ہے ۔ بایزید نے '' حالتِ سکر'' میں کیا کہا نہیں کیا ۔ سبحان اللہ کے بجائے ''سبحانی '' اور اس سے بڑھ کر طواف ِ کعبہ کے بجائے اپنے گرد طواف کی ترغیب دی اور یہ نعرہ کہ۔۔

کعبہ را ایک بار ، ''بیتی''گفت باد۔
گفت ''یا عبدی'' مرا ہفتاد باد

سوچتا ہوں کہ بایزید کی گرفت کیوں نہیں ہوئی ؟

دوسری تاریخی حقیقت ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عام روایت اور بعض صوفیاء کے الزامات کے برخلاف ۔۔۔۔۔۔ یہ ہے کہ حلاج نے الوہیت کا دعوی ہر گز نہیں کیا تھا ۔ انہوں نے خالق اور مخلوق کے باہمی ''حلول '' کی بات کبھی نہیں کی تھی نہ اپنی ذات کے خدا میں گم ہوجانے کا اعلان کیا تھا۔ حلاج عبد ہی رہے اور معبود ، معبود۔۔۔ قطرہ اپنی ذات میں قطرہ ہی رہا اور دریا ، دریا۔۔ لاہوت اور ناسوت کی دوئی ختم نہیں ہوئی تھی اور یہ بات علامہ اقبال سمجھ گئے اور حلاج کی زبان سے '' جاوید نامہ '' میں سمجھا بھی گئے۔
جاری۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
آخری تدوین:

الشفاء

لائبریرین
حلاج کو محض اس بات پر دار پر نہیں لٹکایا گیا تھا کہ انہوں نے اپنے آپ کو ''انا الحق '' کہا تھا حلاج سے پہلے بایزید کی مثال ہمارے سامنے موجود ہے ۔ بایزید نے '' حالتِ سکر'' میں کیا کہا نہیں کیا

سوچتا ہوں کہ بایزید کی گرفت کیوں نہیں ہوئی ؟

شائد اس لئے کہ بایزید کو ایسی کوئی "خوشخبری" نہ مل سکی جیسی حلاج کو جنید بغدادی سے ملی تھی۔۔۔:quiet:
 

نور وجدان

لائبریرین
حلاج پر جو مقدمہ دائر کیا گیا اس میں سیاسی سازشیں کارفرما تھیں ۔اپنا آخری حج کرنے کے بعد جب بغداد لوٹے تو ایک طرف عباسی دربار میں خلفشار کی صورت تھی تو دوسری طرف ان کی اپنی حالت عجیب و غریب ہوگئی تھی ۔ بغداد کے بازاروں اور قریوں میں سرشاری اور سرمستی کے عالم میں دوڑتے پھرتے تھے اور انفس و آفاق سے پرے ، ذاتِ باری تعالیٰ سے عشق کا اظہار برملا کیا اور دیوانہ وار کرتے تھے اس دیوانگی ِ عشق میں عجیب سی دعائیں ان کے منہ سے نکلتی تھی ، عجیب تمناؤں کا اظہار ہوتا تھا ۔۔۔۔

''اپنی امت کے لیے خدا را ! میری موت کو معطون کردے !''اے خدا ! میرے خون کو دینِ الہی والوں کے لیے حلال کردے !''

میں تجھے پکارتا ہوں ۔۔۔۔۔۔۔۔ بلکہ تُو مجھے اپنی طرف بلاتا ہے
یہ میں نے پکارا : تو ہی ہے ، یا تو نے کہا : میں ہی ہوں
اس کی محبت میرے قلب کو شوق سے داغتی ہے
اور یہ داغ کیسا ہے !
میری ذات کا شہود مجھ سے اوجھل ہوگیا ہے
اس قرب سے جس نے مجھے اپنا نام بھلا دیا ہے
عشق کی اس حدت میں موت کی تمنا شدید تر ہے
میری موت میری حیات میں ہے
اور میری حیات میری موت میں ہے​

حلاج کی اس تپش کے وفور سے اربابِ حل و عقد گھبرا گئے ۔ کہا گیا کہ وارداتِ قلبی کا عوام الناس کے سامنے کھول کر بیان کرنا ''شطح'' کا ارتقاب ہے ۔ جو اصولی اعتبار سے حرام ہے ، یہ باتیں صرف خلوت میں جائز ہیں ۔ ان کے لیے کھلم کھلا اظہار وجہ ِ فساد ہے ۔اور یہ اسی زمانے کی بات ہے کہ ایک مسجد میں ابوبکر شبلی نے برملا وہ کہ ڈالا کہ جس کی بازگشت آج تک اسلامی فکر میں آج تک سنائی دیتی ہے ۔
انا الحق ! والحق ! للحق حق!
میں حق ہوں اور حق حق کے ساتھ ہے

حلاج کے اثر سے بغداد میں سیاسی اور اخلاقی اصلاح کی تحریک نے سر اٹھایا۔396 ہجری میں حنبلی مکتبہ فکر کے بعض رہنماؤں نے حکومت کا تختہ الٹنے کی کوشش کی ۔ایک دن کے لیے اقتدار ابن المعتز کو ملا پھر یہ کوشش کچل دی گئی اور چودہ سال المقتد ر کو پھر سے خلیفہ بنا دیا گیا ۔ اب جو عتاب نازل ہوا ، اسکی لپیٹ میں حلاج بھی آگئے اس لیے کہ اس کوشش میں ان کے بہت سے مرید شامل ہوگئے تھے اور حنبلی مسلک کے کئی رہنما ان کے پرجوش حامی تھے . اس کے بعد جو کچھ ہوا، وہ درباری سیاست کی رسہ کشی ، جوڑ توڑ اور عباسی وزیروں کے باہمی حسد کی ایک لمبی داستان تھی .درباری گروہ بندی میں کچھ لوگ ان کے حامی ، جبکہ کے کچھ لوگ حلاج کے سخت خلاف تھے .لگتا تھا نشے سے چور درباری امراء کو خدا مست حلاج سے کوئی دلچسپی نہ تھی اور وہ یوں وہ ''رسی '' بنا دیے گئے کہ جس کو ایک گروہ ایک جانب سے اور دوسرا گروہ دوسری جانب سے کھینچتا تھا. سیاست کے اس اندھیر میں حلاج صرف باہمی دشمنیوں کے اظہار کا ایک آلہ بن گئے .ان حالات میں حلاض سوس میں پناہ گزین تھے . 301 ہجری میں ان کو گرفتار کرکے بغداد لایا گیا . اس فاقہ زدہ صوفی کو جس کی پسلیوں پر ایک جھلی سی رہ گئی تھی ، ایک شکنجے سے جکڑ دیا گیا اور یہ شکنجہ بازار کے عین بیچ میں رکھ دیا گیا .. اس شکنجے کو بازار کے عین بیچ میں رکھ دیا گیا۔گلے میں ایک تختی --------------- اور تختی کے اوپر لکھا ہوا تھا---- قرمطی ایجنٹ .

غور کرنے کی بات یہ ہے کہ یہاں نہ تو کوئی تذکرہ انا الحق ہوا اور نہ ہی الوہیت اور حلول کی بات ہوئی اور نہ ہی لاہوت و ناسوت کا نعرہ تھا. الزام کی نوعیت سراسر سیاسی تھی .مقدمے کی کاروائی کے دوران ان کے صوفیانہ رنگ کو سیاسی رنگ دیا گیا . مثلا انہوں نے بایزیدن کی طرح یہ کہ دیا کہ ذات کے نہاں خانوں کا خانہ کعبی ، اینٹ و پتھر --------- خانہ کعبہ کے اینٹ و پتھر سے بہتر ہیں اور اپنی ذات کے گرد طواف ، دیواروں کے گرد طواف کے مقابلے میں محبوب کو مرغوب تر ہے . الزام لگایا گیا کہ منصور نے خانہ کعبہ پر حملہ کی سازش میں شریک ہیں ، ان دنوں قرمطی باغیوں نے پے در پے خانہ کعبہ پر کئی حملے کیے . اُن باغیوں کی گردن پر ہزار حاجیوں کا ضون تھا --------یہاں تک کہ یہ سرکش قرمطی بیت اللہ پر حملہ کرکے خانہ کعبہ کا مبارک پتھر حجر اسود نکال کر ہجرین لے گئے . ْْْْ

جاری ۔۔۔۔۔۔۔۔
 

الشفاء

لائبریرین
بغداد کے اس دانشمند صوفی نے کوئی جواب نہ دیا صرف ایک مختصر سی بات کہی مگر ایسی کہی کہ حلقے میں بیٹھے ہوئے تمام لوگوں کا رنگ اڑ گیا۔

''وہ دن جلد آنے والا ہے ، جب تم لکڑی کے ایک ٹکرے کو لہو کے سرخ رنگ سے بھر دوگے ۔''

وقت کرتا ہے پرورش برسوں
حادثہ ایک دم نہیں ہوتا۔۔۔
 
میرا بھی خیال ہے کہ حلاج کو سزا سیاسی معاملات کی وجہ سے ہوئی تھی۔ جنید بغدادی رحمتہ اللہ علیہ کا اس واقعے سے پہلے انتقال ہو چکا تھا۔
جہاں تک بایزید بسطامی رحمتہ اللہ علیہ کا تعلق ہے تو آپ اکابرِ صوفیا میں سے ہیں حلاج جیسی منازعہ شخصیت سے ملانا درست نہیں ہے۔
جنید بغدادی نے کہا تھا کہ بایزید ہم میں ایسے ہیں جیسے ملائکہ میں جبرائیل۔ اس کے باوجود اصحابِ صحو کو اصحابِ سکر پر فضیلت حاصل ہے۔
شاہِ نقشبند خواجہ بہاؤالدین نقشبند رحمتہ اللہ علیہ نے بھی کہا کہ مجھ پر بھی حلاج والی کیفیات گزریں اور میں بخارا میں ایک دار کے پاس جاتا اور سر کو کہتا کہ تو اسی قابل ہے۔
مگر اللہ کے کرم سے میں اس مقام سے آگے گزر گیا۔ اسی طرح ان کا یہ قول بھی مشہور ہے کہ بایزید کے مقام کو میں نے ایک رات میں پا لیا ۔ اسی طرح مجدد الف ثانی رحمتہ اللہ علیہ نے بھی اپنے مکتوبات میں سبحانی اور انالحق کی وضاحت کی ہے ۔ لیکن مجھے ابھی یاد نہیں آرہا کہ وہ کیا تھی۔
 

نور وجدان

لائبریرین
میرا بھی خیال ہے کہ حلاج کو سزا سیاسی معاملات کی وجہ سے ہوئی تھی۔ جنید بغدادی رحمتہ اللہ علیہ کا اس واقعے سے پہلے انتقال ہو چکا تھا۔
جہاں تک بایزید بسطامی رحمتہ اللہ علیہ کا تعلق ہے تو آپ اکابرِ صوفیا میں سے ہیں حلاج جیسی منازعہ شخصیت سے ملانا درست نہیں ہے۔
جنید بغدادی نے کہا تھا کہ بایزید ہم میں ایسے ہیں جیسے ملائکہ میں جبرائیل۔ اس کے باوجود اصحابِ صحو کو اصحابِ سکر پر فضیلت حاصل ہے۔
شاہِ نقشبند خواجہ بہاؤالدین نقشبند رحمتہ اللہ علیہ نے بھی کہا کہ مجھ پر بھی حلاج والی کیفیات گزریں اور میں بخارا میں ایک دار کے پاس جاتا اور سر کو کہتا کہ تو اسی قابل ہے۔
مگر اللہ کے کرم سے میں اس مقام سے آگے گزر گیا۔ اسی طرح ان کا یہ قول بھی مشہور ہے کہ بایزید کے مقام کو میں نے ایک رات میں پا لیا ۔ اسی طرح مجدد الف ثانی رحمتہ اللہ علیہ نے بھی اپنے مکتوبات میں سبحانی اور انالحق کی وضاحت کی ہے ۔ لیکن مجھے ابھی یاد نہیں آرہا کہ وہ کیا تھی۔
حالت سکر میں بہت سے اولیاء اللہ نے ایسے دعوے کیے ۔ اس حال میں شریعت کی پکڑ نہیں ہوتی ہے ۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ صاحب صحو کے کمالات ، صاحب سکر سے کہیں زیادہ ہوتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔ حلاج نے وہ حقائق پالیے تھے جن کے بارے میں ہر ذی روح کو جاننا حق ہے ۔۔۔۔۔۔۔ حضرت ابولحسن نوری نے بھی اسی طرح کا دعوی کیا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔ یا بہت سوں نے دعوی کیا مگر حلاج کی شخصیت واقعی ایک متنازعہ شخصیت ہے باوجود اس کہ انہوں نے حقیقت کو پایا ۔۔۔۔۔۔۔ ابھی اسی کتاب میں حضرت ابوشبلی اور قاضی اور حلاج کا مکالمہ پڑھ رہی تھی ۔۔۔۔ ''جھوٹے نبوت کے داعی بھی حقیقت کو پاگئے مگر اپنے ہوش و حواس کی وجہ سے ہلاک ہوئے اور نعرہ انالحق یعنی خدائی کا دعوی بوجہ دیوانگی ان کو بچا گیا'' جبکہ انکی موت نماز اور اذکار الہی میں ہوئی ۔۔۔۔ حضرت جنید بغدادی کے بارے سنا ہے کہ ان کے پاس جناب حلاج بحثیت مرید کی خواہش لیے حاضر ہوئے تھے جبکہ اس سے پہلے وہ جناب سہیل تستری کے مرید تھے ۔۔۔۔۔۔۔۔
 

نور وجدان

لائبریرین
یہ متن جو آپ ٹائپ کر رہی ہیں، یہ کس کتاب سے ہے؟
یہ متن اس کتاب سے ہے مگر آن لائن کتاب میں یہ ٹیکسٹ شامل نہیں ۔۔میرے خیال میں منصور حسین حلاج کے دیوان سے براہ راست اسکین ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اس سے پہلے کا حصہ شاید شامل نہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔
 

طالب سحر

محفلین
مظفر اقبال صاحب کے اس ترجمے والی کتاب میں شاید ڈاکٹر نعمان الحق کا تحریر کردہ ایک مضمون شامل تھا۔ کیا یہ وہی مضمون ہے؟
 

سیما علی

لائبریرین
ایک بیس سالہ نوجوان ، جس کا باپ دریائے فرات کے ساحلی علاقوں میں اون کی بنائی کا کام کرتا تھا اور یوں 'الحلاج ' پیشہ ورانہ نام ہوگیا۔ بصرہ سے ہوتا ہوا بغداد پہنچا۔سہل التستری کی کارگہ تصوف کا یہ مزدور حضرت جنید بغدادی کی خدمت میں حاضر ہوا۔وجود، عدم ، بقا ، فنا ۔ توحید ، عشق ، رسالت و وحی ، حضور و نور ، سرشاری و دیوانگی ، وارفتگی و دیوانگی ، وارفتگی و مستی ، حجاب و انکشاف ،فصل و وصل اور تشبیہ و تنزیہیہ ۔۔۔۔ یہ سارے معاملات یہ سارے سر بستہ راز اس نوجوان کو دلگیر کیے ہوئے تھے ۔ امید تھی حضرت جنید بغدادی جن پر گرہ کشائی فرض ہے کچھ گرہ کشائی کریں گے ۔ چنانچہ چند سوال ان کے آگے رکھ کر جواب طلب کیے ۔

بغداد کے اس دانشمند صوفی نے کوئی جواب نہ دیا صرف ایک مختصر سی بات کہی مگر ایسی کہی کہ حلقے میں بیٹھے ہوئے تمام لوگوں کا رنگ اڑ گیا۔

''وہ دن جلد آنے والا ہے ، جب تم لکڑی کے ایک ٹکرے کو لہو کے سرخ رنگ سے بھر دوگے ۔''

اور جواب میں اس نوجوان نے فرمایا

''جس دن میں لکڑی کے اس ٹکرے کو سرخی سے بھروں گا ، اس دن آپ کے جسم پر اہل صوف کی قبا ہوگی ''

حلاج کی داستان حضرت بابا فرید الدین نے تذکرت الاؤلیاء میں بیان کی ہے۔خدا جانے اس میں تاریخی صداقت کتنی ہے لیکن حلاج کی شخصیت تاریخ کی حدود سے نکل کر ایک ایسی علامت اور تمثیل بن گئی ہے اور اس کا سایہ اسلام کے سارے ادبی و فکری تمدنوں پر اتنا گھٹا اور گہرا ہے کہ اس کو سمجھنے کے لیے امورِ واقعہ اور تاریخی حقائق سے سے قطع نظر کرنا گویا لازم ہوگیا ہے ۔ابن منصور ، جس کو اردو اور فارسی حلقے میں صرف منصور کہتے ہیں ، زمان و مکان سے ماورا ہو چکا تھا۔

لیکن ایسا بھی نہیں ہے کہ اس وارفتہ ، خدا مست عاشق کے بارے میں صوفیاء کے ہاں جو باتیں مذکور ہیں اور مشہور ہیں وہ سب کی سب دیو مالائی ،فرضی اور تخییلاتی ہیں ۔ شاعروں اور صوفیوں کی دنیا میں منصور ایک لہکتا ہوا استعارہ ہے مگر یہ استعارہ تاریخی حقائق کی پائیدار اساس پر تعمیر ہوا ۔ حلاج کا نعرہ '' انا الحق '' ان کا سفر سندھ ، درباری اور فرقہ بند سیاست کی انا کی خلاف تاریک سازشیں ، ان کی مستیِ الست ، 24 ذو العقد 309 ہجری کو نخل دار پر ان کا سفاکانہ قتل۔۔۔۔۔ یہ سارے امور تاریخ سے ثابت ہیں ۔


حلاج کی زیادہ تر شاعری بھی انہی کی وارفتگی اور جذب کی تخلیق ہیں اس نے لوگوں کے دلوں میں گہرا اثر چھوڑا ہے اور ان کا اثر اتنا پھیلا کہ ہنگامہ ''ہائے ہو'' کی شورشوں میں بہت سی مافوق الفطرت باتیں بھی ان سے منسوب ہوگئی ۔ان کا ھیولیٰ ایسا تخم بن گیا جس سے ادب و فکر اور تخیل وتخلیق کاری کے بہت سے بار ۔بہت سے لہلہاتے بیل بوٹے نکلے ہیں ۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔ماورائی حلاج کو تاریخی حلاج سے علیحدہ کرنا عبث بھی نہیں ہے اور نامناسب بھی نہیں ۔لیکن اس کے باوجود تاریخی حقائق ایسے ہیں کہ عام تاریخ سے ہٹ کر ان کی توضیع ضروری ہے ۔یہ اس لیے کہ ان کے نتائج دوربین ہیں ۔

پہلی تاریخی حقیقت ، پہلا امر ِ واقعہ تو یہ ہے کہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عام اور مشہور روایات اور داستانوں کے برخلاف ۔۔۔ حلاج کو محض اس بات پر دار پر نہیں لٹکایا گیا تھا کہ انہوں نے اپنے آپ کو ''انا الحق '' کہا تھا حلاج سے پہلے بایزید کی مثال ہمارے سامنے موجود ہے ۔ بایزید نے '' حالتِ سکر'' میں کیا کہا نہیں کیا ۔ سبحان اللہ کے بجائے ''سبحانی '' اور اس سے بڑھ کر طواف ِ کعبہ کے بجائے اپنے گرد طواف کی ترغیب دی اور یہ نعرہ کہ۔۔

کعبہ را ایک بار ، ''بیتی''گفت باد۔
گفت ''یا عبدی'' مرا ہفتاد باد

سوچتا ہوں کہ بایزید کی گرفت کیوں نہیں ہوئی ؟

دوسری تاریخی حقیقت ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عام روایت اور بعض صوفیاء کے الزامات کے برخلاف ۔۔۔۔۔۔ یہ ہے کہ حلاج نے الوہیت کا دعوی ہر گز نہیں کیا تھا ۔ انہوں نے خالق اور مخلوق کے باہمی ''حلول '' کی بات کبھی نہیں کی تھی نہ اپنی ذات کے خدا میں گم ہوجانے کا اعلان کیا تھا۔ حلاج عبد ہی رہے اور معبود ، معبود۔۔۔ قطرہ اپنی ذات میں قطرہ ہی رہا اور دریا ، دریا۔۔ لاہوت اور ناسوت کی دوئی ختم نہیں ہوئی تھی اور یہ بات علامہ اقبال سمجھ گئے اور حلاج کی زبان سے '' جاوید نامہ '' میں سمجھا بھی گئے۔
جاری۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بہت عمدہ۔۔۔

فردوس ميں رومي سے يہ کہتا تھا سنائي
مشرق ميں ابھي تک ہے وہي کاسہ، وہي آش
حلاج کي ليکن يہ روايت ہے کہ آخر
اک مرد قلندر نے کيا راز خودي فاش!
علامہ اقبال رح
 
Top