المیہ شاعری

پتہ نہیں کہ یہ فورم اس لڑی کے لیے مناسب ہے یا نہیں۔

سخن فہموں سے پوچھنا چاہتا ہوں کہ اردو میں المیہ شاعری کی بہتات کیوں ہے۔ پسندیدہ کلام میں شاید ہی کوئی طربیہ نظم یا غزل ملے۔ زمانہ یا محبوب کی بے اعتنائی کے علاوہ موضوعات بھی کم ہی ہیں۔ غالب کو بہرحال یہ داد دینی پڑی گی کہ المیہ میں بھی شوخی کا عنصر موجود ہے۔
 
حیدر علی آتش کے ہاں رجائیت موجود ہے لیکن نقادوں نے قنوطیت کو رجائیت پر ہمیشہ ترجیح دی ہے. اس کے باوجود غالب اور میر کے بعد آتش ہی سب سے بڑے غزل گو شاعر ہیں.
 

عباد اللہ

محفلین
حیدر علی آتش کے ہاں رجائیت موجود ہے لیکن نقادوں نے قنوطیت کو رجائیت پر ہمیشہ ترجیح دی ہے. اس کے باوجود غالب اور میر کے بعد آتش ہی سب سے بڑے غزل گو شاعر ہیں.
غالب کا دیوان ایک ہی نشست میں پڑھا تھا
میر ، آتش اور ذوق تو پڑھے ہی نہیں جاتے
ان کے مقابلے میں مجھے مومن پسند ہے
 

فرقان احمد

محفلین
شاعر معاشرے کا حصہ ہوتا ہے، ذرا غور فرمائیے، برصغیر کے حالات کب بہت اچھے رہے؟ المیہ شاعری کی بہتات کی بڑی وجہ تو یہی رہی ہے۔ اس کے علاوہ بھی بہت سی وجوہات ہیں جن پر سیر حاصل بحث ہونی چاہیے۔
 

عباد اللہ

محفلین
شاعر معاشرے کا حصہ ہوتا ہے، ذرا غور فرمائیے، برصغیر کے حالات کب بہت اچھے رہے؟ المیہ شاعری کی بہتات کی بڑی وجہ تو یہی رہی ہے۔ اس کے علاوہ بھی بہت سی وجوہات ہیں جن پر سیر حاصل بحث ہونی چاہیے۔
ہم رہنے والے ہیں اسی اجڑے دیار کے ۔۔۔
لیکن اسی اجرے دیار میں ایک شاعر اختر شیرانی بھی گزرا ہے ۔۔۔
 

فرقان احمد

محفلین
صاحب! مستثنیات کا معاملہ الگ ہے۔شیرانی کے ہاں بھی ناسٹیلجیائی رنگ بڑا گہرا ہے۔ 'او دیس سے آنے والا بتا' نظم تو ابھی ابھی یاد آ گئی۔ ہاں، مجموعی طور پر اختر شیرانی بانکے سجیلے تھے۔ معاملہ یہ ہے کہ مجموعی طور پر اردو شاعری پر المیہ رنگ ہی چھایا ہوا ہے۔
 

فرقان احمد

محفلین
برسبیل تذکرہ یاد آ گیا، المیہ رنگ کا ہونا تو ایک بات ہے، تاہم قنوطیت کا غلبہ الگ قصہ ہے۔ کسی نے ناصر کاظمی سے پوچھا، میر اور فانی میں کیا بڑا فرق ہے؟ فرمایا، مثال سے سمجھ لو۔ دو عورتیں بین کر رہی ہیں، یہ تو ہوئی میر کی شاعری۔ اور اب سنو، دو عورتیں بین کر رہی ہیں، اور ان کو کوئی چھڑوانے والا بھی نہیں، یہ فانی کی شاعری ہے۔ اسی لیے انہوں نے فانی کی شاعری کو مرگھٹ کی شاعری قرار دیا۔ دیکھا جائے تو حقیقی زندگی میں بھی المیہ رنگ ہی غالب نظر آتا ہے اور پھر یہاں شہر کے شہر اجڑے، ان کی جھلک شاعری میں بھی آ گئی شاید۔ المیہ رنگ کا ہونا کوئی بری بات نہیں، تاہم قنوطیت کا غلبہ شاعری کو بے روح بنا دیتا ہے۔
 

فرقان احمد

محفلین
ایک بات اور
یہ جنون اور چاک گریبانی کیا بلا ہے
اکثریت شعرا کی اس ھذیان کو نظم کرتی ہیں
محترم! آپ تو باقاعدہ ایک شاعر ہیں اور اس فقیر سے بہتر سمجھتے ہیں کہ جنون اور چاک گریبانی کا شاعر سے کیا تعلق رہا ہے؟ یہ بھی دیکھیے گا کہ ہماری شاعری میں زیادہ تر مضامین فارسی شاعری سے ہی آئے ہیں، اس لیے مجبوراََ ادھر کو ہی دیکھنا پڑ جائے گا۔ یوں بھی یہاں کا شاعر بے چارہ اور کیا کرتا؟ یہ بھی دیکھیے گا کہ جنون اور چاک گریبانی کی کیفیت کب رونما ہوا کرتی ہے؟ ظاہری بات ہے، شاعر بے چارے کو اور کوئی کام کاج تو تھا نہیں، بس اسی شغل میں دن رات بسر ہوتے تھے تو پھر؟ نتیجہ یہی نکلنا تھا۔ ہاں، آج کل مضامین کی کثرت ہے تو شعرائے کرام میں مجنوں اور چاک گریباں کم کم دکھائی دیتے ہیں۔ خیر یہ تو مذاق تھا، بات یہ ہے کہ ہر خطے کی شاعری اپنا علیحدہ مزاج رکھتی ہے۔
 

عباد اللہ

محفلین
محترم! آپ تو باقاعدہ ایک شاعر ہیں
فرقان بھیا میرے مبتدیانہ سوالات پر آپ برا مان گئے؟ :D
یہ بات آپ کو واپس لینی چاہئے
اگر یہ خلعت ہمیں عطا ہونے لگے تو پھر محفل کے باقاعدہ شعرا کہاں جائیں گے؟:mrgreen:

خیر یہ تو مذاق تھا،
اچھا ہوا آپ نے وضاحت فرما دی
ظاہری بات ہے، شاعر بے چارے کو اور کوئی کام کاج تو تھا نہیں، بس اسی شغل میں دن رات بسر ہوتے تھے۔
کچھ نہیں بدلا بھیا صیغۂ حال کا محل ہے!!:p


ا
 

فرقان احمد

محفلین
فرقان بھیا میرے مبتدیانہ سوالات پر آپ برا مان گئے؟ :D
یہ بات آپ کو واپس لینی چاہئے
اگر یہ خلعت ہمیں عطا ہونے لگے تو پھر محفل کے باقاعدہ شعرا کہاں جائیں گے؟:mrgreen:


اچھا ہوا آپ نے وضاحت فرما دی

کچھ نہیں بدلا بھیا صیغۂ حال کا محل ہے!!:p


ا

محترم، میں تو آپ کو باقاعدہ شاعر مانتا ہوں۔ مزید یہ کہ، شاعری میں نئے مضامین در آئے ہیں جو کہ بجائے خود ایک خوشگوار تبدیلی ہے۔ ہمارے خطے کا مزاج ایسا ہے کہ تبدیلی کو اک ذرا دیر سے قبول کیا جاتا ہے۔ چونکہ شاعر معاشرے کا حصہ ہوتا ہے، اس لیے یہ ناممکن ہے کہ اس کی شاعری پر بدلتے وقت کے اثرات نظر نہ آئیں۔
 

عباد اللہ

محفلین
شاعری میں نئے مضامین در آئے ہیں جو کہ بجائے خود ایک خوشگوار تبدیلی ہے۔ ہمارے خطے کا مزاج ایسا ہے کہ تبدیلی کو اک ذرا دیر سے قبول کیا جاتا ہے۔ چونکہ شاعر معاشرے کا حصہ ہوتا ہے، اس لیے یہ ناممکن ہے کہ اس کی شاعری پر بدلتے وقت کے اثرات نظر نہ آئیں۔
اس کے لئے زبردست کی ریٹنگ!
 

فرقان احمد

محفلین
اس کو ذرا ہلکے پھلکے انداز میں دیکھیں تو شاید مزید تفہیم ہو جائے گی۔ یہاں رہنے بسنے والوں کو موسیقی اور ترنم سے ازحد لگاؤ ہے۔ مغرب میں اب یہ معاملہ نہیں رہا۔ ان کی زندگی فراٹے بھرتی ہے۔ وہاں پاپ کلچر بھی اسی وجہ سے در آیا تھا۔ مشینوں نے جب دستک دی تو ہر شے جیسے بے قرار ہو گئی۔ ان کو سکون نہیں ملتا کہیں۔ اس لیے ردھم سے بھی انہیں کوئی خاص سروکار نہیں رہا، ایسا نہیں ہے کہ بالکل ہی نہیں رہا ہے۔ بے سروپا موسیقی بھی عام سنی جاتی ہے اور اسے سراہا جاتا ہے۔ فاسٹ میوزک عام ہے اور اس میں ترنم کم ہے، شور شرابا زیادہ ہے، کم از کم ہمیں تو یہ پسند نہ آیا، تاہم نئی نسل اس کی رسیا معلوم ہوتی ہے۔ شاید یہاں بھی کسی حد تک اچھی بری تبدیلی واقع ہو رہی ہے۔ دیکھا جائے تو ہمارے ہاں زندگی سست رو رہی ہے اور اب تک ہے، تاہم کچھ تبدیلیاں واقع ہوتی نظر آتی ہیں۔ آنے والی نسل کا رجحان کچھ اور معلوم ہوتا ہے اور ایک امتزاج کی سی کیفیت ہے جو اپنی جگہ دلکشی رکھتی ہے۔ یہ جو نئے نئے مضامین آ رہے ہیں اور مثبت تبدیلیاں نظر آتی ہیں، ان کو بھی سراہا جانا چاہیے تاہم اس پر پھر کبھی بات ہو گی، ابھی کے لیے اجازت، سلامت رہیں محترم!
 
Top