سلیمان جاذب
محفلین
،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،
الواداعی بوسہ
تپتے صحرا کے سفر پر گھر سے جب نکلا تھا میں
تو مری ماں نے مرے ماتھے پہ اپنے ہونٹ اس طرح رکھے
جیسے اپنا پیار سار ا اس نے میرے
روح و جاں میں موجزن سا کر دیا
ہونٹ اس کے تپتے صحرا کی سلگتی ریت کی طرح گرم
اور آنکھیں وسعت صحرا کی مانند خشک اور ویراں
اس نے اپنے ضبط کی قوت سے آنسو سب اپنے چھپا رکھے تھے یوں
جیسے میری رخصتی کے بعد
ان سے مل کے گھنٹوں میری باتیں ذکر میرا
لمحہ لمحہ کر کے وہ روتی رہے گی
ایموشنل کر دیا آپ نے تو۔۔۔۔۔۔۔۔اصلاح تو شاعر حضرات کریں گے
بس زینب جییہ ہی سچ ہےماں سے متعلق کوئی بھی بات ہو ہر انسان کو ایموشنل کر دیتی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔
لگتا ہے م م مغل بھائی کچھ ناراض ہیں ہم سے؟
صاحب میرا کیا قصور جو مجھے کانٹوں میں گھسیٹتے ہیں ۔ اور میں آپ سے کیوں ناراض ہونے لگا، میں یہاں محبتیں سمیٹنے اور سیکھنے کے لیے آیا تھا۔ بحیثیت شاعر اور طالب میری کوشش ہوتی ہے کہ شعر پر بات کی جائے ، تجربات کیے جائیں ( کامیابی و ناکامی اور قصہ ہے) میں نے اپنے بزرگوں سے یہی سیکھا ہے اب کسی کے نذدیک میرے بزرگ جاہل ہیں تو میں کیا کرسکتا ہوں سوائے توبہ کرنے کے ۔۔ لیکن یہاں اپنے سینئرز کو دیکھا کہ محض واہ اور لاجواب کہہ کر ہمیں علم سے محروم رکھنا چاہتے ہیں تو ڈرتے ڈرتے کچھ سوال کرتے ہوئے اختلاف بھی کیا ۔ تاکہ بات چل نکلے ایک عرصہ یہ سلسلہ جار ی بھی رہا مگر جب میں نے دیکھا کہ میری دال گلنے نہیں تو میں بھی اپنی ہنڈیا اٹھائے الگ کھڑا ہوگیا۔ کہ کسی کو یہ خیال نہ گزرے کہ میں یہاں دوستوں کے بگاڑ کیلیے کوشاں ہوں یا ان کی اہمیت کم ہونے لگی ہے ۔ سو یہ روش اپنالی ، اس میں گو کہ میرا نقصان ہے مگر کوئی ناراض تو نہ ہوگا نا۔۔ یہی وجہ ہے خاموشی اختیار کرنے کی ۔ آپ یہ بات ذہن سے نکال دیں کہ مغل کسی سے ناراض ہے ۔ میں اگر ناراض بھی ہوتا ہوں تو میری ناراضگی محض 2 چار منٹ کی ہوتی ہے ۔ خیر قصہ کوتاہ ۔ آپ کی نظم نظر نواز ہوئی موضوع خوب ہے ، فنی اسقام کے بارے میں بابا جانی نے نشاندہی کردی ہے ۔ سو اس کے بعد ہی کوئی صورت سامنے آئے گی ۔،۔ میری طرف سے اس خوبصورت کوشش پر مبارکباد او ر دعائیں۔گر قبول افتد زہے عز و شرف
بہت بہت شکریہ سلیمان جاذب صاحب