صفی حیدر
محفلین
کس دل سے میں کہوں تجھے رمضان الوداع
برپا ہے میری روح میں طوفان الوداع
افسردہ دل ہے اور مری چشم اشکبار
میرے عزیز اے مرے مہمان الوداع
اے کاش تجھ کو روک سکوں میں نہ جانے دوں
جاں وار دوں میں دل کروں قربان الوداع
پر نور وقت تیرے ہی دم سے تھا صبح شام
تسکینِ قلب و روح کے سامان الوداع
رخصت تُو ہو رہا ہے سبق دے کے صبر کا
ہرگز صفی نہ بھولے گا احسان الوداع
برپا ہے میری روح میں طوفان الوداع
افسردہ دل ہے اور مری چشم اشکبار
میرے عزیز اے مرے مہمان الوداع
اے کاش تجھ کو روک سکوں میں نہ جانے دوں
جاں وار دوں میں دل کروں قربان الوداع
پر نور وقت تیرے ہی دم سے تھا صبح شام
تسکینِ قلب و روح کے سامان الوداع
رخصت تُو ہو رہا ہے سبق دے کے صبر کا
ہرگز صفی نہ بھولے گا احسان الوداع