محسن وقار علی
محفلین
عام آدمی کا ایک ہی سوال ہے، الیکشن 11مئی کو ہوجائیں گے یا نہیں؟ نگران حکمرانوں کی طرف سے جواب مگر دو ٹوک، واضح اور عزم و یقین سے سرشار نہیں، انہیں دہشتگردوں نے خوفزدہ کررکھا ہے اور ان کی طرف سے دہشتگردی کے بڑے واقعات کا خدشہ قوم کا خون خشک کردیتا ہے، بے یقینی میں مزید ا ضافہ۔
وفاقی وزیراطلاعات و نشریات جناب عارف نظامی نے درجن بھر سینئر کالم نگاروں اور دوستوں کی محفل جمائی تو موضوع بحث انتخابات کا بروقت انعقاد اور دہشتگردی کا خدشہ رہا۔ گپ شپ کی اس محفل میں یہ بات سامنے آئی کہ صرف چند اہم قومی شخصیات ہی دہشتگردوں کا ہدف نہیں ان کے مدمقابل امیدوار بھی مکمل سیکورٹی کے حقدار ہیں کیونکہ اگر خدانخواستہ تیس چالیس حلقوں میں اہم شخصیات کے مدمقابل غیر اہم ،غیر معروف امیدوار نشانہ بن گئے تو قوانین کے تحت وہاں 11مئی کو الیکشن نہیں ہوسکتے۔ عارف نظامی نے اس ضمن میں وفاقی حکومت کی پوزیشن بتائی اور کچھ واقعات سنائے۔
اسی شام وزیر اعلیٰ پنجاب نجم سیٹھی کے عشائیے میں بھی یہی موضوع زیادہ دیر تک زیر بحث رہا اور شریف برادران کو ملنے والی غیر معمولی سیکورٹی کے بارے میں الیکشن کمیشن کے احکامات کا تذکرہ ہوا۔ نجم سیٹھی نے یہ درست موقف اختیار کیا کہ اہم شخصیات کو سیکورٹی بلیو بک کے بجائے خطرے کی نوعیت اور سنگینی کے مطابق فراہم کرنا میری ذمہ داری ہے اور میں اس حوالے سے الیکشن کمیشن کو مطمئن کروں گا۔
نجم سیٹھی نے لوڈ شیڈنگ میں کمی بعض ٹیکسوں کی شرح میں اضافہ، تعلیم اور صحت کے شعبے میں کچھ کردکھانے کی خواہش اور سماجی ترقی کے لئے بعض انقلابی اقدامات کی راہ میں حائل رکاوٹوں کا ذکرتے ہوئے جب یہ کہا کہ کہیں آئین آڑے آتا ہے ،کہیں وفاقی حکومت اور کہیں صوبائی اسمبلی کی عدم موجودگی تو مجھے ڈاکٹر یاسمین راشد یاد آگئیں۔ جنہیں ایک بااختیار وزیر اعلیٰ سے ملاقات کاموقع ملا اور وہ ہنستی ہوئی واپس آئیں۔
چند برس قبل وہ ڈاکٹروں کے مطالبات منوانے کے لئے سڑکوں پر نکلیں تو وزیر اعلیٰ نے یاد کرلیا ملاقات میں ڈاکٹروں کے مطالبات سے مکمل اتفاق کرنے کے بعد وزیر اعلیٰ نے بتایا کہ ہمدردی کے باوجود میں آپ کے لئے کچھ کر نہیں سکتا۔ وفاقی حکومت میری مانتی نہیں، روزمرہ امور میں کور کمانڈر کی چلتی ہے اور فلاں دفتر میں صوبائی مطالبات کو ردی کی ٹوکری میں پھینک دیا جاتا ہے۔ بذلہ سنج یاسمین راشد کرسی سے اٹھیں اور وزیر اعلیٰ سے کہا”پھر آپ یہاں بیٹھے کیا کررہے ہیں ہمارے ساتھ باہر نکل کر احتجاج کریں، آپ تو ہم سے زیادہ مظلوم ہیں“
اس ملک کے ہر حکمران، سیاستدان ،بیوروکریٹ اور فوجی جرنیل کو سیکورٹی کا مسئلہ ہے، ہر سابق وزیر اعظم، وزیر اعلیٰ اور وزیر دہشتگردوں کے نشانے پر ہے مگر اموات تو سب سے زیادہ عام شہریوں کی ہوئی ہیں اور انہیں گھر، دفتر، مارکیٹ اور سڑک پر کہیں تحفظ حاصل نہیں وہی بے چارے دہشتگردی ،ٹارگٹ کلنگ اور تخریب کاری کا نشانہ بنتے ہیں۔ ان کی سیکورٹی کا ذمہ دار کون ہے؟ ریاست یا کوئی اور؟ اس بارے میں نہ سابقہ منتخب عوامی حکومت متفکر تھی نہ موجودہ نگرانوں کو پریشانی ہے۔ سابقہ اور موجودہ حکمران کم و بیش100خاندان البتہ ریاست کے داماد ہیں جن کی صرف سیکورٹی ہی نہیں ریاستی وسائل سے آؤ بھگت بھی ریاست کا فرض ہے تبھی اخباری رپورٹ کے مطابق ایک خاندان کی سیکورٹی کے سالانہ اخراجات چالیس کروڑ روپے ہیں اور ایک خاتون پر ریاست پانچ کروڑ روپے خرچ کرتی ہے کیونکہ محترمہ اعلیٰ ریاستی عہدیدار کی بہن اور پارٹی چیئرمین کی پھوپھی ہیں۔ باقی98خاندانوں کا حال بھی یہی ہے۔
سپریم کورٹ نے سابقہ وزراء اعظم ،وزراء اعلیٰ اور وزیروں کے پروٹوکول ،مراعات اور سہولتوں کا از خود نوٹس لیا ہے مگر ان سے پوچھنا یہ چاہئے کہ قومی خزانے سے انہیں یہ سب کچھ کس قومی خدمت کے عوض فراہم کیا جائے؟ دہشتگردی کو روکنے میں ناکامی ،لوٹ مار کے کلچر کو فروغ دینے اور ملک میں غربت، جہالت، بے روزگاری اور بدامنی میں اضافے کے سوا انہوں نے کیا کیا ؟انہیں بدترین حکمران اور جمہوریت کو بدنام کرنے کا انعام دے کر یہ ریاست نوجوان نسل کو کیا پیغام دینا چاہتی ہے کیا یہ ا رب پتی ندیدے اپنے وسائل سے اپنی سیکورٹی کا بندوبست نہیں کرسکتے ،ملازم نہیں رکھ سکتے اور لوگوں کو شان و شوکت نہیں دکھا سکتے ،مگر ریاست کے کسی داماد سے یہ سوال کون کرے؟ نگران تو آئے ہی ان کی دیکھ بھال کرنے، انہیں ایک بار پھر اقتدار کے ایوانوں میں واپس لانے کے لئے ہیں سووہ ہر جتن کررہے ہیں۔
الیکشن کے بروقت انعقاد میں رکاوٹ صرف دہشتگرد نہیں ڈال سکتے، اگرچہ انہوں نے خیبر پختونخوا اور کراچی و حیدر آباد میں اپنی کار روائیوں کا آغاز کردیا ہے بلکہ بعض ایسے عناصر بھی التواء باعث سکتے ہیں جو ماضی میں اسٹیبلشمنٹ کے لاڈلے رہے اور جنہیں اس بار اپنے بل بوتے پر انتخاب لڑنے اور عوامی ردعمل کا سامنا کرنے کیمجبوری لاحق ہے۔ گزشتہ روز مہاجر قومی موومنٹ کے سربراہ آفاق احمد بتارہے تھے کہ کراچی میں اگر فوج، رینجرز اور پولیس نے غیر جانبداری برتی، ووٹروں کو تحفظ فراہم کیا اور کسی جرائم پیشہ سے رو رعایت نہ کی تو انتخابی نتائج خاصے مختلف ہوسکتے ہیں لیکن انہیں خدشہ یہ ہے کہ خفیہ ایجنسیاں اس بار بھی ایک مخصوص گرو پ کی سرپرستی کریں گی تاکہ اگر نواز شریف اقتدار میں آتے ہیں تو وہ سندھ کی حد تک دباؤ میں رہیں۔
آفاق احمد کے تجزئیے سے قطع نظر کراچی میں ٹارگٹڈ آپریشن پر ایم کیو ایم تحفظات کا شکار ہے جبکہ بلوچستان میں اختر مینگل تاحال مطمئن نہیں اگر خدانخواستہ ان جماعتوں نے 11مئی کے انتخابات کو اپنے لئے ساز گار نہ پایا اور دہشتگردوں کی موثر روک تھام نہ ہوئی تو عام آدمی کے اس سوال کا دو ٹوک واضح اور عزم و یقین سے سرشار جواب دینا مشکل ہوگا کہ الیکشن واقعی 11مئی کو ہورہے ہیں؟ نگران بے چارے مگر کیا کریں ان کا بس دہشتگردوں پر چلتا ہے نہ مقتدر قوتوں پر روز مرہ اور نہ سندھ وبلوچستان کو ئی جماعت ان کو حقیقی حکمران مانتی ہے وہ تو خود مظلوم ہے،بے بس اور مجبور۔
بہ شکریہ روزنامہ جنگ
وفاقی وزیراطلاعات و نشریات جناب عارف نظامی نے درجن بھر سینئر کالم نگاروں اور دوستوں کی محفل جمائی تو موضوع بحث انتخابات کا بروقت انعقاد اور دہشتگردی کا خدشہ رہا۔ گپ شپ کی اس محفل میں یہ بات سامنے آئی کہ صرف چند اہم قومی شخصیات ہی دہشتگردوں کا ہدف نہیں ان کے مدمقابل امیدوار بھی مکمل سیکورٹی کے حقدار ہیں کیونکہ اگر خدانخواستہ تیس چالیس حلقوں میں اہم شخصیات کے مدمقابل غیر اہم ،غیر معروف امیدوار نشانہ بن گئے تو قوانین کے تحت وہاں 11مئی کو الیکشن نہیں ہوسکتے۔ عارف نظامی نے اس ضمن میں وفاقی حکومت کی پوزیشن بتائی اور کچھ واقعات سنائے۔
اسی شام وزیر اعلیٰ پنجاب نجم سیٹھی کے عشائیے میں بھی یہی موضوع زیادہ دیر تک زیر بحث رہا اور شریف برادران کو ملنے والی غیر معمولی سیکورٹی کے بارے میں الیکشن کمیشن کے احکامات کا تذکرہ ہوا۔ نجم سیٹھی نے یہ درست موقف اختیار کیا کہ اہم شخصیات کو سیکورٹی بلیو بک کے بجائے خطرے کی نوعیت اور سنگینی کے مطابق فراہم کرنا میری ذمہ داری ہے اور میں اس حوالے سے الیکشن کمیشن کو مطمئن کروں گا۔
نجم سیٹھی نے لوڈ شیڈنگ میں کمی بعض ٹیکسوں کی شرح میں اضافہ، تعلیم اور صحت کے شعبے میں کچھ کردکھانے کی خواہش اور سماجی ترقی کے لئے بعض انقلابی اقدامات کی راہ میں حائل رکاوٹوں کا ذکرتے ہوئے جب یہ کہا کہ کہیں آئین آڑے آتا ہے ،کہیں وفاقی حکومت اور کہیں صوبائی اسمبلی کی عدم موجودگی تو مجھے ڈاکٹر یاسمین راشد یاد آگئیں۔ جنہیں ایک بااختیار وزیر اعلیٰ سے ملاقات کاموقع ملا اور وہ ہنستی ہوئی واپس آئیں۔
چند برس قبل وہ ڈاکٹروں کے مطالبات منوانے کے لئے سڑکوں پر نکلیں تو وزیر اعلیٰ نے یاد کرلیا ملاقات میں ڈاکٹروں کے مطالبات سے مکمل اتفاق کرنے کے بعد وزیر اعلیٰ نے بتایا کہ ہمدردی کے باوجود میں آپ کے لئے کچھ کر نہیں سکتا۔ وفاقی حکومت میری مانتی نہیں، روزمرہ امور میں کور کمانڈر کی چلتی ہے اور فلاں دفتر میں صوبائی مطالبات کو ردی کی ٹوکری میں پھینک دیا جاتا ہے۔ بذلہ سنج یاسمین راشد کرسی سے اٹھیں اور وزیر اعلیٰ سے کہا”پھر آپ یہاں بیٹھے کیا کررہے ہیں ہمارے ساتھ باہر نکل کر احتجاج کریں، آپ تو ہم سے زیادہ مظلوم ہیں“
اس ملک کے ہر حکمران، سیاستدان ،بیوروکریٹ اور فوجی جرنیل کو سیکورٹی کا مسئلہ ہے، ہر سابق وزیر اعظم، وزیر اعلیٰ اور وزیر دہشتگردوں کے نشانے پر ہے مگر اموات تو سب سے زیادہ عام شہریوں کی ہوئی ہیں اور انہیں گھر، دفتر، مارکیٹ اور سڑک پر کہیں تحفظ حاصل نہیں وہی بے چارے دہشتگردی ،ٹارگٹ کلنگ اور تخریب کاری کا نشانہ بنتے ہیں۔ ان کی سیکورٹی کا ذمہ دار کون ہے؟ ریاست یا کوئی اور؟ اس بارے میں نہ سابقہ منتخب عوامی حکومت متفکر تھی نہ موجودہ نگرانوں کو پریشانی ہے۔ سابقہ اور موجودہ حکمران کم و بیش100خاندان البتہ ریاست کے داماد ہیں جن کی صرف سیکورٹی ہی نہیں ریاستی وسائل سے آؤ بھگت بھی ریاست کا فرض ہے تبھی اخباری رپورٹ کے مطابق ایک خاندان کی سیکورٹی کے سالانہ اخراجات چالیس کروڑ روپے ہیں اور ایک خاتون پر ریاست پانچ کروڑ روپے خرچ کرتی ہے کیونکہ محترمہ اعلیٰ ریاستی عہدیدار کی بہن اور پارٹی چیئرمین کی پھوپھی ہیں۔ باقی98خاندانوں کا حال بھی یہی ہے۔
سپریم کورٹ نے سابقہ وزراء اعظم ،وزراء اعلیٰ اور وزیروں کے پروٹوکول ،مراعات اور سہولتوں کا از خود نوٹس لیا ہے مگر ان سے پوچھنا یہ چاہئے کہ قومی خزانے سے انہیں یہ سب کچھ کس قومی خدمت کے عوض فراہم کیا جائے؟ دہشتگردی کو روکنے میں ناکامی ،لوٹ مار کے کلچر کو فروغ دینے اور ملک میں غربت، جہالت، بے روزگاری اور بدامنی میں اضافے کے سوا انہوں نے کیا کیا ؟انہیں بدترین حکمران اور جمہوریت کو بدنام کرنے کا انعام دے کر یہ ریاست نوجوان نسل کو کیا پیغام دینا چاہتی ہے کیا یہ ا رب پتی ندیدے اپنے وسائل سے اپنی سیکورٹی کا بندوبست نہیں کرسکتے ،ملازم نہیں رکھ سکتے اور لوگوں کو شان و شوکت نہیں دکھا سکتے ،مگر ریاست کے کسی داماد سے یہ سوال کون کرے؟ نگران تو آئے ہی ان کی دیکھ بھال کرنے، انہیں ایک بار پھر اقتدار کے ایوانوں میں واپس لانے کے لئے ہیں سووہ ہر جتن کررہے ہیں۔
الیکشن کے بروقت انعقاد میں رکاوٹ صرف دہشتگرد نہیں ڈال سکتے، اگرچہ انہوں نے خیبر پختونخوا اور کراچی و حیدر آباد میں اپنی کار روائیوں کا آغاز کردیا ہے بلکہ بعض ایسے عناصر بھی التواء باعث سکتے ہیں جو ماضی میں اسٹیبلشمنٹ کے لاڈلے رہے اور جنہیں اس بار اپنے بل بوتے پر انتخاب لڑنے اور عوامی ردعمل کا سامنا کرنے کیمجبوری لاحق ہے۔ گزشتہ روز مہاجر قومی موومنٹ کے سربراہ آفاق احمد بتارہے تھے کہ کراچی میں اگر فوج، رینجرز اور پولیس نے غیر جانبداری برتی، ووٹروں کو تحفظ فراہم کیا اور کسی جرائم پیشہ سے رو رعایت نہ کی تو انتخابی نتائج خاصے مختلف ہوسکتے ہیں لیکن انہیں خدشہ یہ ہے کہ خفیہ ایجنسیاں اس بار بھی ایک مخصوص گرو پ کی سرپرستی کریں گی تاکہ اگر نواز شریف اقتدار میں آتے ہیں تو وہ سندھ کی حد تک دباؤ میں رہیں۔
آفاق احمد کے تجزئیے سے قطع نظر کراچی میں ٹارگٹڈ آپریشن پر ایم کیو ایم تحفظات کا شکار ہے جبکہ بلوچستان میں اختر مینگل تاحال مطمئن نہیں اگر خدانخواستہ ان جماعتوں نے 11مئی کے انتخابات کو اپنے لئے ساز گار نہ پایا اور دہشتگردوں کی موثر روک تھام نہ ہوئی تو عام آدمی کے اس سوال کا دو ٹوک واضح اور عزم و یقین سے سرشار جواب دینا مشکل ہوگا کہ الیکشن واقعی 11مئی کو ہورہے ہیں؟ نگران بے چارے مگر کیا کریں ان کا بس دہشتگردوں پر چلتا ہے نہ مقتدر قوتوں پر روز مرہ اور نہ سندھ وبلوچستان کو ئی جماعت ان کو حقیقی حکمران مانتی ہے وہ تو خود مظلوم ہے،بے بس اور مجبور۔
بہ شکریہ روزنامہ جنگ