جاسم محمد
محفلین
’’آر ٹی ایس‘‘سے ارشاد بھٹی کے کالم تک
رج کے ڈھیٹ ہیں جو بات کرنے سے پہلے سوچتے بھی نہیں کہ کیسی بے تکی چھوڑ رہے ہیں۔ ایک ن لیگی سیاسی جوڑے نے دو شوشے چھوڑے ہیں۔ پہلا یہ کہ..... ’’پرامن ترقی یافتہ پاکستان قائم کرکے دیا‘‘ دوسرا یہ کہ ’’نوازشریف کومودی کا یار کہنے والا اسے حلف برداری میں بلارہا ہے۔‘‘جہاں تک تعلق ہے ’’پرامن پاکستان‘‘ کا تو یہ اس فوج کی لازوال لگاتار قربانیوں کا نتیجہ ہے جس پر زبانیں دراز کرنے اور انگلیاںاٹھانے والوں کو کریڈٹ لیتے ہوئے شرم آنی چاہئے۔ رہ گیا’’ترقی یافتہ‘‘ پاکستان تواقتصادی تا سماجی اعداد و شمار اس کھوکھلے دعوے پر مسلسل پھٹکار بھیج رہے ہیںکہ پاکستان اپنی پوری اقتصادی تاریخ میں اتنا لاغر کبھی نہ تھا جتنا آج ہے۔ اتنا مقروض بھی کبھی نہ تھا جتنا آج ہے۔ باقی بچا مودی کا یار توکیا انہیں ’’یاری‘‘ اور ’’سفارتکاری‘‘ کے درمیان فرق کی تمیز نہیں؟ اور ابھی تو بلایا بھی نہیں۔اوراب ذرا اس ای میل پرغور فرمائیں جس کا عنوان ہے ’’الیکشن کمیشن آف پاکستان کا آر ٹی ایس (رزلٹس ٹرانسمیشن سسٹم) الیکشن کی رات 11بجے فیل کیوں ہوا؟‘‘’’اس آر ٹی ایس کو اوپریٹ کرنا اور پوری طرح فنکشنل رکھنا پنجاب انفارمیشن ٹیکنالوجی کی ذمہ داری تھی۔ ڈاکٹر عمر سیف، جو اس بورڈکےچیئرمین ہیں، کومبینہ طور پر لگاتار دس سال صوبہ کا چیف منسٹر رہنے والے شہباز شریف نے حکم دیاکہ چونکہ پی ٹی آئی ابتدائی نتائج کے مطابق برتری حاصل کرتی دکھائی دے رہی ہے، اس لئے نتائج کی فراہمی کو روکنے کے لئے ڈیٹا لوپ کے بہت سارے آئی پی ایڈریسز کو ڈس فنکشنل کردیاجائے۔ حکم کی تعمیل کے نتیجے میں رات ایک بجے تک سارا نظام فیل ہو گیا بلکہ فیل کردیا گیا جس کا منطقی نتیجہ..... انتخابی نتائج کا رکنا/ معطل ہونا تھا۔اس سسٹم فیلیئر نے نہ صرف الیکشن کمیشن کو دفاعی یامعذرت خواہانہ پوزیشن لینے پر مجبور کردیابلکہ آر اوز کو بھی یہ سنہری موقع فراہم کردیا کہ وہ نتائج کو اپنی مرضی کے مطابق تبدیل کرسکیں کیونکہ پریذائڈنگ افسران اس صورتحال میں الیکشن کمیشن کو پولنگ سٹیشنز سے براہ راست نتائج بھیجنے سے قاصر تھے۔سوچی سمجھی سازش کے تحت پیدا کی گئی سسٹم کی اس خرابی نے مخصوص جماعت کے لوگوں کو یہ موقع فراہم کردیا کہ وہ مختلف نشستوں پر نتائج میں حسب ِ منشا ردوبدل کرسکیں۔معاملہ کیونکہ بہت حساس، نازک اورسنگین ہے اس لئے متعلقہ ایجنسیاں اس پر تحقیقات کر رہی ہیں۔ شنید ہے کہ آئی ٹی بورڈ کے کچھ ممبران سے تفتیش جاری ہے اور کچھ گرفتاریاں بھی متوقع ہیں۔‘‘دروغ برگردن راوی یا ’’افواہ‘‘ لیکن یہ بات طے ہے کہ یہ لوگ اپنے سروائیول کے لئے کسی بھی حد تک جاسکتے ہیں۔ جو 63سالہ بابوں کو پٹواری بھرتی کرسکتے ہیں، جو سابق آئی جی پنجاب عباس خان کی بطور حاضر سروس آئی جی رپورٹ مطابق جرائم پیشہ لوگوں کوپولیس میں بھرتی کرسکتے ہیں، جو ٹیکس پیئرکے پیسے پرپالتو شکرے پال سکتے ہیں، ایس آر اوز تبدیل کرسکتے ہیں، ایک سینئر بیوروکریٹ کوباقاعدہ سرکاری خط میں یہ دھمکی دے سکتے ہیںکہ..... ’’یاد رہےہمیں قانونی غیرقانونی جیسے الفاظ سننے کی عادت نہیں‘‘ وہ کچھ بھی کرسکتے ہیں۔ سسٹم فیلیئر کو خود دھاندلی کےلئے استعمال کرکے دوسروں کوموردِ الزام ٹھہراتے ہوئے دھول بھی اُڑا سکتے ہیں کیونکہ ان کے لئے زندگی موت کا مسئلہ ہے۔ کل کلاں جب پنجاب میں PTI کا وزیراعلیٰ ہوگا اور گزشتہ دس سال پر محیط گڈگورننس کی سرجری کرے گا تو ایسی ایسی ’’رسولیاں‘‘ منظرعام پر آئیں گی کہ عوام اش اش کراٹھیں گے (شکیل عادل زادہ صاحب نے عرصہ پہلے سرزنش فرمائی تھی کہ عش عش نہیں ، اش اش لکھتے ہیں)آخر پر جان برادر ارشاد بھٹی کے گزشتہ کالم سے سو فیصد اتفاق کااعتراف، بھی اعلان بھی جس کا عنوان تھا..... ’’کپتان کا امتحان شروع ہوچکا!‘‘ ارشاد بھٹی گزشتہ بارہ پندرہ سال میں پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کے آسمان پر طلوع ہونے والا وہ روشن ستارہ ہے جس کے بارے فیصلہ کرنا مشکل کہ اس کا قلم زیادہ کاٹ دارہے یازبان۔ واقعی کپتان کی زندگی کا سب سے کٹھن امتحان شروع ہوچکا جس کا آغاز اسی دن ہو گیا تھا جب وہ کرکٹ کے میدان میں اترا، ورلڈکپ قوم کو دےکرہسپتال بنانے نکلا جس کے بعد نمل یونیورسٹی پر عمل کرتے ہوئے پاکستان کی سب سے مقبول سیاسی جماعت کھڑی کر دکھائی اور اب؟اک اور دریا کا سامنا تھا منیر مجھ کومیں ایک دریا کے پار اترا تو میں نے دیکھاشعیب بن عزیز کامصرع ہے؎’’مجھے اس نے توقع سے زیادہ مار ڈالا ہے‘‘واقعی جتنی زیادہ توقعات اتنی زیادہ مایوسی، اتنا ہی خوفناک ردعمل لیکن مجھے توقع ہے، دعا بھی، امید بھی کہ عمران توقعات پر پورا اترے گا اور یہ یقین کہ کم از کم توقع سے زیادہ نہیں مارے گا۔ارشاد بھٹی کےلئے اپنے محبوب شاعر مرحوم دوست عدیم ہاشمی کا ایک شعر؎یہ عرض و گزارش ہے غلامانہ روایت میں ہونٹ ہلائوں گا تو ’’ارشاد‘‘ کروں گاارشاد بھٹی..... چشم بددور
رج کے ڈھیٹ ہیں جو بات کرنے سے پہلے سوچتے بھی نہیں کہ کیسی بے تکی چھوڑ رہے ہیں۔ ایک ن لیگی سیاسی جوڑے نے دو شوشے چھوڑے ہیں۔ پہلا یہ کہ..... ’’پرامن ترقی یافتہ پاکستان قائم کرکے دیا‘‘ دوسرا یہ کہ ’’نوازشریف کومودی کا یار کہنے والا اسے حلف برداری میں بلارہا ہے۔‘‘جہاں تک تعلق ہے ’’پرامن پاکستان‘‘ کا تو یہ اس فوج کی لازوال لگاتار قربانیوں کا نتیجہ ہے جس پر زبانیں دراز کرنے اور انگلیاںاٹھانے والوں کو کریڈٹ لیتے ہوئے شرم آنی چاہئے۔ رہ گیا’’ترقی یافتہ‘‘ پاکستان تواقتصادی تا سماجی اعداد و شمار اس کھوکھلے دعوے پر مسلسل پھٹکار بھیج رہے ہیںکہ پاکستان اپنی پوری اقتصادی تاریخ میں اتنا لاغر کبھی نہ تھا جتنا آج ہے۔ اتنا مقروض بھی کبھی نہ تھا جتنا آج ہے۔ باقی بچا مودی کا یار توکیا انہیں ’’یاری‘‘ اور ’’سفارتکاری‘‘ کے درمیان فرق کی تمیز نہیں؟ اور ابھی تو بلایا بھی نہیں۔اوراب ذرا اس ای میل پرغور فرمائیں جس کا عنوان ہے ’’الیکشن کمیشن آف پاکستان کا آر ٹی ایس (رزلٹس ٹرانسمیشن سسٹم) الیکشن کی رات 11بجے فیل کیوں ہوا؟‘‘’’اس آر ٹی ایس کو اوپریٹ کرنا اور پوری طرح فنکشنل رکھنا پنجاب انفارمیشن ٹیکنالوجی کی ذمہ داری تھی۔ ڈاکٹر عمر سیف، جو اس بورڈکےچیئرمین ہیں، کومبینہ طور پر لگاتار دس سال صوبہ کا چیف منسٹر رہنے والے شہباز شریف نے حکم دیاکہ چونکہ پی ٹی آئی ابتدائی نتائج کے مطابق برتری حاصل کرتی دکھائی دے رہی ہے، اس لئے نتائج کی فراہمی کو روکنے کے لئے ڈیٹا لوپ کے بہت سارے آئی پی ایڈریسز کو ڈس فنکشنل کردیاجائے۔ حکم کی تعمیل کے نتیجے میں رات ایک بجے تک سارا نظام فیل ہو گیا بلکہ فیل کردیا گیا جس کا منطقی نتیجہ..... انتخابی نتائج کا رکنا/ معطل ہونا تھا۔اس سسٹم فیلیئر نے نہ صرف الیکشن کمیشن کو دفاعی یامعذرت خواہانہ پوزیشن لینے پر مجبور کردیابلکہ آر اوز کو بھی یہ سنہری موقع فراہم کردیا کہ وہ نتائج کو اپنی مرضی کے مطابق تبدیل کرسکیں کیونکہ پریذائڈنگ افسران اس صورتحال میں الیکشن کمیشن کو پولنگ سٹیشنز سے براہ راست نتائج بھیجنے سے قاصر تھے۔سوچی سمجھی سازش کے تحت پیدا کی گئی سسٹم کی اس خرابی نے مخصوص جماعت کے لوگوں کو یہ موقع فراہم کردیا کہ وہ مختلف نشستوں پر نتائج میں حسب ِ منشا ردوبدل کرسکیں۔معاملہ کیونکہ بہت حساس، نازک اورسنگین ہے اس لئے متعلقہ ایجنسیاں اس پر تحقیقات کر رہی ہیں۔ شنید ہے کہ آئی ٹی بورڈ کے کچھ ممبران سے تفتیش جاری ہے اور کچھ گرفتاریاں بھی متوقع ہیں۔‘‘دروغ برگردن راوی یا ’’افواہ‘‘ لیکن یہ بات طے ہے کہ یہ لوگ اپنے سروائیول کے لئے کسی بھی حد تک جاسکتے ہیں۔ جو 63سالہ بابوں کو پٹواری بھرتی کرسکتے ہیں، جو سابق آئی جی پنجاب عباس خان کی بطور حاضر سروس آئی جی رپورٹ مطابق جرائم پیشہ لوگوں کوپولیس میں بھرتی کرسکتے ہیں، جو ٹیکس پیئرکے پیسے پرپالتو شکرے پال سکتے ہیں، ایس آر اوز تبدیل کرسکتے ہیں، ایک سینئر بیوروکریٹ کوباقاعدہ سرکاری خط میں یہ دھمکی دے سکتے ہیںکہ..... ’’یاد رہےہمیں قانونی غیرقانونی جیسے الفاظ سننے کی عادت نہیں‘‘ وہ کچھ بھی کرسکتے ہیں۔ سسٹم فیلیئر کو خود دھاندلی کےلئے استعمال کرکے دوسروں کوموردِ الزام ٹھہراتے ہوئے دھول بھی اُڑا سکتے ہیں کیونکہ ان کے لئے زندگی موت کا مسئلہ ہے۔ کل کلاں جب پنجاب میں PTI کا وزیراعلیٰ ہوگا اور گزشتہ دس سال پر محیط گڈگورننس کی سرجری کرے گا تو ایسی ایسی ’’رسولیاں‘‘ منظرعام پر آئیں گی کہ عوام اش اش کراٹھیں گے (شکیل عادل زادہ صاحب نے عرصہ پہلے سرزنش فرمائی تھی کہ عش عش نہیں ، اش اش لکھتے ہیں)آخر پر جان برادر ارشاد بھٹی کے گزشتہ کالم سے سو فیصد اتفاق کااعتراف، بھی اعلان بھی جس کا عنوان تھا..... ’’کپتان کا امتحان شروع ہوچکا!‘‘ ارشاد بھٹی گزشتہ بارہ پندرہ سال میں پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کے آسمان پر طلوع ہونے والا وہ روشن ستارہ ہے جس کے بارے فیصلہ کرنا مشکل کہ اس کا قلم زیادہ کاٹ دارہے یازبان۔ واقعی کپتان کی زندگی کا سب سے کٹھن امتحان شروع ہوچکا جس کا آغاز اسی دن ہو گیا تھا جب وہ کرکٹ کے میدان میں اترا، ورلڈکپ قوم کو دےکرہسپتال بنانے نکلا جس کے بعد نمل یونیورسٹی پر عمل کرتے ہوئے پاکستان کی سب سے مقبول سیاسی جماعت کھڑی کر دکھائی اور اب؟اک اور دریا کا سامنا تھا منیر مجھ کومیں ایک دریا کے پار اترا تو میں نے دیکھاشعیب بن عزیز کامصرع ہے؎’’مجھے اس نے توقع سے زیادہ مار ڈالا ہے‘‘واقعی جتنی زیادہ توقعات اتنی زیادہ مایوسی، اتنا ہی خوفناک ردعمل لیکن مجھے توقع ہے، دعا بھی، امید بھی کہ عمران توقعات پر پورا اترے گا اور یہ یقین کہ کم از کم توقع سے زیادہ نہیں مارے گا۔ارشاد بھٹی کےلئے اپنے محبوب شاعر مرحوم دوست عدیم ہاشمی کا ایک شعر؎یہ عرض و گزارش ہے غلامانہ روایت میں ہونٹ ہلائوں گا تو ’’ارشاد‘‘ کروں گاارشاد بھٹی..... چشم بددور
آخری تدوین: